انسان میں شر کی دوطاقتیں ہوتی ہیں، ایک انسانی نفس جو
اندرونی طاقت ہے اور دوسرا شیطان جو کہ بیرونی طاقت ہے، یہ دونوں طاقتیں انسان کو
گناہوں کی طرف راغب کرتی ہیں، اس لیے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان سے کچھ نہ
کچھ غلطیاں اور گناہ صادر ہوجاتے ہیں،کیوں کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔سوائے انبیائے
کرام علیہم السلام کے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں، ان سے کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا، وہ
ان دونوں شر کی طاقتوں سے محفوظ ہوتے ہیں، انہیں جو نفس عطا کیاجاتا ہے، وہ نفس
مطمئنہ ہوتا ہے، حالت نوم میں بھی ان کا دل بیدار رہتا ہے، اور ان کا مزاح بھی
اتنا پاکیزہ ہوتا ہے کہ حق کے دائرے سے باہر نہیں ہوسکتا۔
توبہ و استغفار کی فضیلت:انسان چونکہ خطا کا پتلا ہے تو ان خطاؤں کےازالے کے لیے
قرآن کریم میں راہنمائی کی گئی ہے، چنانچہ اللہ پاک سورۂ آل عمران میں ارشاد
فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً
اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا
لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ
یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی
جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے
سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اَڑ نہ جائیں۔(پ4،آلِ عمرٰن:135)
اس آیت میں اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ کسی سے گناہ سرزد
ہوجائے تو اسے چاہیے فوراً اللہ کو یاد کرے،ایسے لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں،یہ لوگ
گناہ کے بعد فوراً توبہ اور استغفار کرنے لگتے ہیں، اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں،
گناہوں پر جمتے نہیں ہیں، ایسے لوگوں کو اللہ مغفرت اور دخول جنت سے نوازے گا۔
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت انس رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو شیطان رونے لگا اور شیطان نے کہا: اے
میرے رب، تیری عزت وجلال کی قسم! جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں
گی اور وہ زندہ رہیں گے، میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا، تو اللہ نے فرمایا: میری
عزت وجلال کی قسم! جب تک میرے بندے مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے،میں مسلسل ان کو
بخشتا رہوں گا۔
اس حدیث سے حاصل ہونے والے فوائد:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم شمار کیا
کرتے تھے کہ حضورنبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک مجلس کے اندرسو سو
مرتبہ یہ کلمہ دہراتے تھے۔اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما بے شک
تو توبہ قبول کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔(سنن ابو داؤد، رقم: 1516)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب نماز سے فارغ ہوتے تو (پہلے) تین مرتبہ استغفار کرتے
اور (پھر) یہ دعا پڑھتے: اللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ
تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ۔(صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ کی قسم! میں دن میں ستر بار سے
زیادہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا اور توبہ کرتا ہوں۔(صحیح بخاری)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ رب
العزت اپنے نیک بندوں کا جنت میں مرتبہ بڑھائے گا۔ انسان کہے گا کہ اے میرے
پروردگار! یہ درجہ مجھے کیسے نصیب ہوا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تیرا لڑکا تیرے
لئے استغفار کرتا رہا ہے۔اس لئے تجھے یہ بلند درجہ نصیب ہوا۔(مسند امام احمد)
آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ ابلیس
نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قسم کھا کر کہا کہ میں تیرے بندوں کو اس وقت تک
گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا جب تک ان کے جسم میں روح ہو گی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے
جلال اور عزت کی قسم کھا کر فرمایا۔جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں
بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد)
ان احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم المعصومین ہونے کے باوجود امت کو ترغیب دلانے
کے لیے دن میں کئی مرتبہ استغفار کا اہتمام فرمایا کرتے،اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ
ہم بھی زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کریں اور اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی
طلب کریں۔اللہ پاک ہمیں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین