محمدارحم
رضا عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
اللہ پاک نے ثواب اور نیکیوں والے کام کو معین فرمادیا ہے
اسی طرح گناہوں والے کام کو بھی معین فرمادیا ہےلیکن جب انسان کوئی کام کرتا ہے تو
وہ اس میں اپنے لئے فائدے اور نقصانات کو دیکھتا ہے اسی وجہ سے قرآن پاک اور
احادیث مبارکہ میں کسی کام کو کرنے کے فضائل بیان کئے گئے اسی حوالے سےیہاں ایک
خاص کام توبہ اور استغفار کرنے کے فضائل اور فوائد بیان کئے جارہے ہیں۔
استغفار کے حوالے فرامین مصطفی ٰ:
اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
بیشک میں بھی دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم،کتاب الذکر
والدعاءوالتوبہ والاستغفار،باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ، ص1449،
حدیث:2702)
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: جس نے استغفار کو لازم پکڑلیا تو
اللہ اس کی تمام مشکلوں میں آسانی ہر غم میں آزادی اور بے حساب رزق عطا فرماتا
ہے۔(سنن ابی داؤد،کتاب الوتر،باب فی الاستغفار، 2/122، حدیث:1518)
(1)جس نے اپنے
اوپر استغفار کو لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی کو دور فرمائے گا اور ہر
تنگی سے اسے راحت عنایت فرمائے گااور ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا کہ جہاں سے اُسے
گمان بھی نہ ہوگا۔
(2)بےشک لوہے کی طرح دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور اُس کی
صفائی اِستغفار کرنا ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار،حدیث 3819)
(3)جو اِس بات کو پسند کرتا ہے کہ اُس کا نامہ اعمال اُسے
خوش کرے تو چاہئے کہ وہ اِستغفار میں اضافہ کرے۔ (نوادرالاصول،ص 541، حدیث775)
مغفرت سے استغفار مراد ہے کسی کا عیب چھپالینا مغفرت ہے
اور سزانہ دینا معافی ہے۔(معجم اوسط، باب الالف، 1/245، حدیث:839)
ایک بزرگ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:ایک بار نصف رات گزر جانے
کے بعد میں جنگل کی طرف نکل کھڑا ہوا۔راستے میں میں نے دیکھا کے چار آدمی ایک
جنازہ اٹھائے جارہے ہیں میں سمجھ کے شاید انہوں نے اس کو قتل کیا ہے اور اس کی لاش
کو ٹھکانے لگانے جارہے ہیں جب وہ میرے نزدیک آئے تو میں نے ہمت کر کے پوچھا کیا تم
نے اس کو خود قتل کیا ہے یا کسی اور نے اب تم اس کو ٹھکانے لگانے جارہے ہوانہوں نے
کہا نہ ہم نے اس کو قتل کیا ہے نہ ہی یہ مقتول ہے بلکہ ہم مزدور ہے اور اس کی ماں
نے ہمیں مزدوری دینی ہے وہ اس کی قبر کے پاس ہمارا انتظار کر رہی ہے میں تجسس میں
آگیا اور ان کے ساتھ قبرستان گیا اور دیکھا کہ ایک قبر کے پاس ایک بوڑھی عورت کھڑی
تھی۔ میں اس عورت کے قریب گیا اور پوچھا کے آپ اپنے بیٹے کو دن کے وقت میں یہاں کیوں
نہیں لائیں تو اس عورت نے کہا کے یہ جنازہ میرے بیٹے کا ہے اور یہ شرابی اور گناہ
گار تھا ہر وقت شراب کے نشے اور گناہ کے دلدل میں غرق رہتا تھا جب اس کی موت کا
وقت قریب آیا تو اس نے مجھے تین نصیحتیں کیں( ۱) جب میں مرجاؤں تو میری گردن میں
رسی ڈال کر گھر کے اردگرد گھسیٹنا اور لوگوں سے کہنا کے گنہگاروں اور نافرمانوں کی
یہی سزا ہوتی ہے(۲)مجھے رات کے وقت میں دفن کرنا کیونکہ جو بھی میرے جنازے کو
دیکھے گا لعن طعن کرے گا (۳)جب مجھے قبر میں رکھنے لگو تو میرے ساتھ اپنا ایک سفید
بال بھی رکھ دینا کیونکہ اللہ سفید بالوں سے حیا فرماتا ہے ہوسکتا ہے کے وہ مجھے
اس کی وجہ سے عذاب سے بچالے۔جب یہ مر گیا تو پہلی وصیت کے مطابق گردن میں رسی ڈالی
تو غیب سے آواز آئی!اے بوڑھیا اسے یوں مت گھسیٹو اللہ نے اسے اپنے گناہ پر شرمندگی
کی وجہ سے معاف فرمادیا ہے۔ میں نے نمازے جنازہ پڑھی اور اس بوڑھی عور ت کا بال اس
کے ساتھ رکھ کر قبر میں رکھا۔ تو اس کا جسم حرکت میں آیا اور کفن سے ہاتھ اٹھایا
اور آنکھے کھولی ہمیں مخاطب کر کے مسکراتے ہوئے کہا: اے شیخ! ہمارا رب بڑا غفور
الرحیم ہے وہ احسان کرنے والوں کو بھی بخش دیتا ہے اور گناہ گاروں کو بھی معاف کردیتا
ہے یہ کہہ کر اس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں اور ہم اس کی قبر پر مٹی ڈال
کر واپس آگئے۔(حکایات الصالحین، ص78)
ہمیں بھی چاہیے کہ
ہر وقت اللہ پاک سے توبہ کرتے رہیں اور اس کی نعمت پر شکر اداکرتے رہیں۔