پیارے اسلامی بھائیو! گناہوں کی کثرت کی وجہ سے انسان کا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے جسے پاک و صاف رکھنے کے لئے اللہ پاک سے اپنے گناہوں کی معافی اور مغفرت طلب کرتے رہنا چاہیے استغفار کرنے سے انسانی زندگی میں بدلاؤ پیدا ہوتا ہے، اس سے روح کو پاکیزگی اور طہارت حاصل ہوتی ہے اور رزق میں برکت حاصل ہوتی ہے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ گناہوں سے بچنے اور نیک کام کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور جو گناہ اس سے سرزَد ہو چکے ہیں ان سے سچی توبہ کرے کیونکہ سچی توبہ ایسی چیز ہے جو انسان کے نامہِ اعمال سے اس کے گناہ مٹادیتی ہے اسی مناسبت سے استغفار کے کچھ فضائل بیان کیے جائیں گے۔

(1) پریشانیوں اور تنگیوں سے نجات:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کرلیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی کو دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔(ابن ماجہ 4/257، حدیث: 3819)

(2) خوش کرنے والا اعمال نامہ:حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔(مجمع الزوائد، 10/347، حدیث: 17579)

(3) دلوں کی زنگ کی صفائی:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور انورعَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے ارشاد فرمایا:بیشک لوہے کی طرح دل کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی صفائی استغفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

( 4) جنت کی بشارت:حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:یہ سید الاستغفار ہے: اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّي لَا اِلَهَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِي وَاَنَا عَبْدُك وَاَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِ مَا صَنَعْتُ اَبُوْ ءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَىَّ وَاَبُوْ ءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَاِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ اِلَّا اَنْتَ جس نے اسے دن کے وقت ایمان ویقین کے ساتھ پڑھا پھر اُسی دن شام ہونے سے پہلے اُس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے اور جس نے رات کے وقت اسے ایمان ویقین کے ساتھ پڑھا پھر صبح ہونے سے پہلے اُس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔(بخاری،190/4، حدیث: 6306)

(5) خوشخبری:حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضور عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔(ابن ماجہ 4/257، حدیث: 3818)

( 6) گناہ کیا ہی نہیں:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے وہ شخص جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔(ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ،4/491، حدیث: 4250)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور کثرت سے استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


پیارے اسلامی بھائیو! ہم صبح و شام گناہوں میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اللہ پاک کی رحمت پر قربان جائیے کہ اس نے ہمارے لیے استغفار جیسی عظیم نعمت رکھی استغفار انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے استغفار کے فضائل و فوائد خود تمام انبیاء کے سردار ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمائے۔

(1) فرمان مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جس نے اپنے اوپر استغفار (توبہ کو) لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی کو دور فرمائے گا۔اور ہر تنگی سے اُسے راحت عنایت فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کریں گا کہ جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، 4/257، حدیث:3819)

(2) فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلا (صفائی) استغفار کرنا ہے۔(نوادر الأصول، الاصل السابع والثلاثون والمائة، الجزء: 1، ص 541، حدیث: 775)

)3) ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔

)4)فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: وَاللهِ اِنِّي لَاسْتَغْفِرُاللہ وَآتُوبُ اِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ اكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً ترجمہ: خدا کی قسم!میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں تو بہ کرتا ہوں۔

اللہ پاک ہمیں استغفار جیسی عظیم نعمت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ تبارک وتعالیٰ کی پاک بارگاہ میں اپنے گناہوں کی بخشش و مغفرت چاہتے رہنا اور استغفار کو اپنی زبان پر جاری رکھنا ایک بہترین اور بہت زیادہ فضیلت والا عمل ہے۔

قرآن و حدیث میں کئی جگہوں پر استغفار کی ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا برتنا(فائدہ) دے گا ایک ٹھہرائے وعدہ تک اور ہر فضیلت والے کواس کا فضل پہنچائے گا۔(پ11، ھود:3)

مفتی اہل سنت مفتی محمد قاسم عطاری دام ظلہ اس آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں:اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں کو یہ حکم دیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگو اور آئندہ گناہ کرنے سے توبہ کرو تو جس نے اپنے گناہوں سے پکی توبہ کی اور اخلاص کے ساتھ رب تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بن گیا تو اللہ تعالیٰ اسے کثیررزق اور وسعت عیش عطا فرمائے گا جس کی وجہ سے وہ امن وراحت کی حالت میں زندگی گزارے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گا، اگر دنیا میں اسے کسی مشقت کا سامنا بھی ہوا تو اللہ پاک کی رضا حاصل ہونے کی وجہ سے یہ اس کے درجات کی بلندی کا سبب ہو گی۔

توبہ اور استغفار میں فرق:توبہ اور استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر نا توبہ ہے۔

قرآن پاک کی طرح احادیث مبارکہ میں بھی استغفار کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں،ان میں سے 5احادیث درج ذیل ہیں:

(1) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری اُمّت کے لئے مجھ پر دو امن(والی آیات) اتاری ہیں، ایک: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو۔اور دوسری: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33)جب میں اس دنیا سے پردہ کر لوں گا تو قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑ دوں گا۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانفال، 5/56، الحدیث: 3093)

(2) حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شیطان نے کہا: اے میرے رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں، میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، 4/59، الحدیث: 11244)

(3) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تواللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، 4/257، الحدیث: 3819)

(4) حضرت عبدالله بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اس شخص کو مبارک ہو جس کے نامہ اعمال میں بکثرت استغفار ہے۔(سنن ابن ماجہ رقم الحديث: 3818، الجامع الصغير رقم الحديث: 3930)

ہمیں بھی اللہ پاک کے حضور اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے اور اخلاص کے ساتھ استغفار کرتے رہنا چاہیے

اللہ کریم ہمارے گناہوں کو معاف کرے، آئندہ گناہوں سے بچنے اور پابندی کے ساتھ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، امین۔


قرآن مجید میں استغفار کے فضائل کو بیان کیا گیا ہے، جیسے کہ قرآن میں ہے: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ(۱۱) وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔تم پر شرّاٹے کا مینہ(موسلا دھار بارش) بھیجے گا۔اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔(پ29، نوح10تا12)

استغفار کرنے سے الله تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرماتا اور ہمیں اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔

استغفار سے ہم اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں اور الله کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں جو ایک نیکی اور توبہ کا ابتدائی قدم ہوتا ہے۔

استغفار سے ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابی ملتی ہے، جیسے کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے: فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوٰىكُمْ۠(۱۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو جان لو کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں اور اے محبوب اپنے خاصوں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو اور اللہ جانتا ہے دن کو تمہارا پھرنا اور رات کو تمہارا آرام لینا۔(پ26، محمد:19)

استغفار کرنے سے الله ہمارے رزق میں برکت دیتا ہے اور ہماری مشکلات کو دور کرتا ہے۔استغفار کرنے سے ہمارے دل کوسکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے اور ہمیں دنیا اور آخرت کی خوشیاں دیتا ہے۔

حدیث میں استغفار کی اہمیت: رسول الله (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے بھی استغفار کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ان کی ایک حدیث میں آیا ہے: يَا اَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا اِلَى اللہ وَاسْتَغْفِرُوهُ فَاِنِّي اَتُوبُ اِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ (صحیح البخاری)

استغفار کے ایسے کئی فضائل اور فوائد ہیں جو ہماری روحانیت کو بڑھاتے ہیں اور ہمیں الله کی رضا حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔یہ ہماری زندگی کی بہتری اور اخلاقی تربیت کا اہم حصہ ہوتا ہے اور ہمیں الله کے قریب تر کرتا ہے۔

اللہ پاک توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


پیارے اسلامی بھائیو!اس پرفتن دور میں ارتکاب گناہ بے حد آسان اور نیکی کرنا بے حد مشکل ہو چکا ہے نفس و شیطان اس طرح ہاتھ دھو کر انسان کے پیچھے پڑے ہیں کہ اس کا گناہوں سے بچنا بے حد دشوار ہے لیکن یاد رکھیے! گناہوں کا انجام ہلاکت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ان گناہوں سے چھٹکارے اور نجات کا صرف ایک علاج ہے کہ بندہ کثرت سے توبہ و استغفار کرے جیسا کہ سیدنا اسماعیل حقی علیہ الرحمہ نے فرمایا: اللہ پاک نے تمام مسلمانوں کو توبہ واستغفار کا حکم فرمایا اس لئے کہ انسان فطرتا کمزور ہے باوجود کوشش کے وہ کسی نہ کسی غلطی میں پڑ ہی جاتا ہے۔(روح البیان)

اسی وجہ سے قرآن وحدیث میں استغفار کے کثیر فضائل و فوائد بیان کیے گئے ہیں کیونکہ طبیعت انسانی میں شامل ہے کہ وہ اس چیز کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے جس میں اسے دینی یا دنیاوی فوائد نظر آرہےہوں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کامل و پرہیزگار مومنوں کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتا ہے: كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ(۱۷) وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ رات میں کم سویا کرتے۔اور پچھلی رات اِستغفار کرتے۔ (پ26، الذٰریٰت:17، 18)

اسی طرح بہت سی احادیث میں استغفار کے فضائل و فوائد بیان کیے گئےہیں جن میں سے 5 ملاحظہ کیجئے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے۔

(1)دلوں کی صفائی کا سبب : حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک تانبے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء (صفائی) استغفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، کتاب التوبۃ، باب ما جاء فى الاستغفار، ج 10 ص220 رقم 17575)

(2)ہر تنگی سے راحت: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالی شان ہے، جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشان دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں اسے گمان بھی نہ ہوگا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فى الاستغفار ، ج4 ص257 رقم 3819)

(3)نامہ اعمال خوش کرے:نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہئے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔(مجمع الزوائد، کتاب التوبہ، باب الاكثار من الاستغفار ج10 میں 347 رقم 17579)

(4)استغفار کرنے والے کے لئے خوشخبری:نبی مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: خو شخبری ہےاس کے لئے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفارکو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب باب الاستغفار رقم 3818 ج 4 ص2575)

(5) مغفرت کا سبب:نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب ابلیس نے کہا کہ اے اللہ پاک! مجھے تیری عزت کی قسم میں تیرے بندوں کو اس وقت تک بہکاتا رہوں گا جب تک ان کی روحیں ان کے جسم میں ر ہیں گی تو اللہ پاک نے فرمایا، مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں ان کی مغفرت کرتار ہوں گا۔ (مسند امام احمد، مسند ابی سعید خدری،ج4 ص58 رقم 11237)

استغفار کا حکم:جوں ہی گناه صادر ہو فوراً توبہ و استغفار کر لینا واجب ہے خواہ صغیرہ گناہ ہی کیوں نہ ہو۔(شرح نوری جزء:17، 9/59)

معزز قارئین کرام! استغفار کرنا ایک محمود صفت ہے ہمیں چاہیے کہ کثرت سے استغفار کرتے رہیں ضروری نہیں کہ ہم صرف اسی قت توبہ و استغفار کریں جب ہمیں اپنے کسی گناہ کا پتا چل جائے بلکہ ہمیں چاہیے کہ وقتاً فوقتاً تو بہ واستغفار کرتے رہیں روزانہ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اپنے رب سے بخشش طلب کریں ان شآء الله ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائیاں نصیب ہو ں گیں۔ اللہ پاک ہمیں کثرت سے توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


انسان سے جب گناہ ہوجائیں،مشکلات پیش آئیں،بیماریاں ہوں بے اولادی ہو الغرض جو بھی مسائل ہوں ان سب کا ایک بہترین حل استغفار کرنا ہے اور استغفار بڑا ہی مجرب عمل ہے استغفار کے بڑے فضائل و فوائد ہیں جی ہاں استغفار نیک اعمال میں اضافہ کا بھی سبب ہے اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بھی ہے اللہ پاک کی رحمت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے کہ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: لَوْ لَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۴۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے شاید تم پر رحم ہو۔(پ19، النمل:46)

ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کثرت سے استغفار کرنے کی ترغیب بھی دلائی ہےاور اس شخص کی آپ نے تعریف فرمائی ہے جس کے نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت ہو، جیسا کہ ایک حدیث شریف میں ہے: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًایعنی خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیادہ استغفار پائے ۔(ابن ماجہ، کتاب الآداب،باب الاستغفار، حدیث نمبر 3818)

آئیے! احادیث کی روشنی میں چند اور فضائل پڑھتے ہیں تاکہ ہم بھی اس پر عمل کرکے استغفار کی برکات حاصل کرسکیں۔

(1) قال رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم منْ لَزِم الاسْتِغْفَار جَعَلَ اللہ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مخْرجًا ومنْ كُلِّ هَمٍّ فَرجًا وَرَزَقَهُ مِنْ حيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ یعنی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، حدیث نمبر3819)

(2)وَعَنْ اَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ حِينَ يَاْوِي إِلٰى فِرَاشِهٖ اَسْتَغْفِرُ اللہ الَّذِي لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَاَتُوبُ اِلَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ غَفَرَ اللہ لَهٗ ذُنُوبَهٗ وَاِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ اَوْ عَدَدَ رَمْلِ عَالَجٍ اَوْ عَدَدَ وَرَقِ الشَّجَرِ اَوْ عَدَدَ اَيَّامِ الدُّنْيَا یعنی ہمارے پیارے اور آخری نبی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو اپنے بستر پر جاتے وقت یہ کہہ لے میں اس اللہ سے معافی مانگتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ اور قائم رکھنے والا ہے اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں (تین بار کہے)تو اللہ اس کے گناہ بخش دے گا اگرچہ سمندر کے جھاگ یا ریگ رواں(اڑنے والی ریت) یا درختوں کے پتوں یا دنیا کے دنوں کے برابر ہوں۔(مرآۃ المناجیح، جلد 4 حدیث نمبر 2404)

(3) وعنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم منْ قَالَ اَسْتَغْفِرُ اللہ الَّذِي لاَاِلَهَ اِلاَّ هُو الحيَّ الْقَيُّومَ واَتُوبُ اِلَيهِ غُفِرَتْ ذُنُوبُهُ واِنْ كَانَ قَدْ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ یعنی رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کہا میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ زندہ ہے، قائم رکھنے والا ہے اور میں اسی سے توبہ کرتا ہوں اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے، اگرچہ وہ میدان جہاد سے ہی فرار کیوں نہ ہوا ہو۔(سنن ابو داؤد، باب فی الاستغفار، حدیث نمبر 1517)

(4)حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اے انسان! جب تک تومجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے انسان! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں،پھر تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تجھے ا س کے برابر بخش دوں گا۔(ترمذی، ابواب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ، والاستغفار۔۔۔حدیث نمبر 3556)

(5)ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت کے بدلے میں نیکی:مَنِ استغفَر للمؤمنين والمؤمناتِ كتَب اللهُ له بكلِّ مؤمنٍ ومؤمنةٍ حسنةً یعنی حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے استغفار کرے گا اللہ پاک اس کے لیے ہر مومن مرد اور ہر عورت کے بدلے میں ایک نیکی لکھے گا۔(مجمع الزوائد، جلد 21 صفحہ نمبر 103)

اللہ پاک ہمیں خوب استغفار کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت سیدنا علقمہ اور حضرت سیدنا اسود رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ حضرت سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قرآن پاک میں یہ آیتیں ایسی ہیں کہ اگر گنہگار ان کی تلاوت کرکے رب العالمین سے معافی طلب کرے تو اس کی مغفرت کردی جائے۔ان میں سے دو درج ذیل ہیں:

(1)وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اَڑ نہ جائیں۔(پ4، الِ عمرٰن:135)

(2)وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی بُرائی یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش چاہے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔(پ5، النسآء:110)

استغفار کی کثرت: جو استغفار کی کثرت کرے گاالله عز وجل اُس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا ، ہر تنگی سے اس کے لئے نجات کی راہ نکالے گا اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گمان بھی نہ ہوگا۔(سنن ابی داؤد ،حدیث 1518)

جنت میں درجہ:الله عز و جل جنت میں بندے کو ایک درجہ عطا فرمائے گا،بندہ عرض کرے گا: اے مولیٰ پاک! یہ درجہ مجھے کیسے ملا؟ الله پاک ارشاد فرمائے گا:اس استغفار کے بدلے جو تیرے بیٹے نے تیرے لئے کیا۔ (مسند امام احمد،حدیث:10615)

دل میں چمک اور جلا کا پیدا ہونا:رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جب مومن گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے اگر وہ توبہ کرلے اور بخشش طلب کرے تو دل میں چمک اور جلا پیدا ہو جاتی ہے۔(مسند امام احمد، 3/ 154، حدیث 7957)

نامہ اعمال خوش کرے: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال خوش کرے تو اسے چاہئے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے ۔(مجمع الزوائد،10/347 حدیث 17579)

مغفرت طلب کرنا: ایک شخص جس نے کبھی نیکی نہ کی تھی ایک روز آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر کہے گا۔بے شک میرا ایک پروردگار ہے، اے میرےالله عز وجل!میری مغفرت فرما ، الله عز و جل نے ارشاد فرمایا: میں نے تجھے بخش دیا۔(موسوعہ الامام ابن ابی الدنیا حدیث106)


انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا،اس کے تحت وہ دانستہ یا نادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے،بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے۔اگر اس نے استغفار نہ کیا تویہ غلطی اس کے خالق و مالک کو اس سے ناراض کردے گی۔اس سےاپنے معبود ومالک کی ناراضگی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔اسی لیے وہ فوری طور پر اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہوکر گڑگڑاتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتے ہوئے توبہ کرتا ہے کہ اے مالک الملک اس مرتبہ معاف کردے آئندہ میں ایسا کبھی نہ کروں گا۔گناہ کے بعد ایسے احساسات اور پھر استغفار کے لیے پشیمانی وندامت پر مبنی یہ عمل ایک خوش نصیب انسان کےحصہ میں آتا ہے۔

مغفرت کے پانچ حروف کی نسبت سے استغفار کرنے کے 5 فضائل):

(1) دلوں کے زنگ کی صفائی: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین، محبوب ربّ العالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان دلنشین ہے: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء(یعنی صفائی)استغفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

(2) پریشانیوں اور تنگیوں سے نجات:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محبوب ربّ ذوالجلال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔(ابن ماجہ،4/257،حدیث: 3819)

(3) خوش کرنے والا اعمال نامہ: حضرت زبیر بن عوّام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان مسرت نشان ہے: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔(مجمع الزوائد، 10/347،حدیث: 17579)

(4)خوشخبری:حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ خوشخبری ہے اس کے لئے جو اپنے نامہ اعمال استغفار کو کثرت سے پائے۔(ابن ماجہ،4/257،حدیث: 3818)

(5)ایمان پر خاتمے کی دعا: ترجمہ: اے اللہ پاک! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں اس سے کہ جان کر ہم تیرے ساتھ کسی چیز کو شریک کریں اور ہم اس سے استغفار کرتے ہیں جس کو نہیں جانتے۔(مسند امام احمد، 7/146،حدیث: 19625-ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 311) اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں گناہوں سے بچنے اور استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


استغفار کا مطلب ہے کسی سے معافی مانگنا یا گناہوں کی مغفرت طلب کرنا استغفار ایک اہم عبادت ہے جو قرآن و حدیث میں بڑی فضیلتوں کے ساتھ ذکر ہوئی ہے یہاں چند قرآنی آیات اور حدیثوں کی روشنی میں استغفار کے فضائل کو پیش کیا جا رہا ہے۔

احادیث رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بھی استغفار کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔حضرت اِبن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو شخص ہمہ وقت استغفارکرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ ہر تنگی کے وقت اس کے نکلنے کے لئے راہ پیدا کردیتا ہے اور ہر غم سے نجات دیتا ہے اور اسے اس راہ سے رزق عطا فرماتا ہے جس کا وہ گمان بھی نہ کرسکے۔(ابو داؤد)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ فرماتے تھے کہ بخدا میں اللہ تعالیٰ سے دن میں 70 مرتبہ سے بھی زیادہ توبہ و استغفار کرتا ہوں۔(صحیح بخاری)

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری امت کو دو امانتیں دینے کے بارہ میں وحی نازل کی جو یہ ہیں: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳)ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33) پس جب میں ان سے الگ ہوا تو میں نے ان میں قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑا۔(جامع ترمذی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اے ابن آدم! جب تک تو مجھ سے گناہوں کی بخشش مانگے اور بخشش کی امید رکھے گا میں تجھے بخش دوں گا۔تجھ میں جو بھی گناہ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں لَوْبَلَغَتْ ذُنُوبُکَ عَنَانَ السَّمَاءِ اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے بخشش مانگے میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اگر تو اس حال میں مجھے ملے کہ ساری زمین تیرے گناہوں سے بھری ہو تو میں بھی اُتنی ہی بڑی مغفرت کے ساتھ تیرے پاس آؤں گا۔(سنن ترمذی)


دین ہمیں گناہوں سے بچنے کا درس دیتا ہے۔لہٰذا اگر خلوصِ نیت کے ساتھ استغفار کی جائے تو بارگاہِ الٰہی میں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں اور گناہوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔اب ہم استغفار کے متعلق چند احادیث مبارکہ پیش کریں گے۔

(1)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اس کے لئے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد3 ، حدیث نمبر:2356)

(2)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: استغفار کا سردار یہ ہے کہ تم کہو الٰہی تو میرا رب ہے،تیرے سوا کوئی معبود نہیں،تو نے مجھے پیدا کیا،میں تیرا بندہ ہوں اور بقد ر طاقت تیرے عہدوپیمان پر قائم ہوں میں اپنے کئے کی شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اقراری ہوں مجھے بخش دے،تیرے سوا گناہ کوئی نہیں بخش سکتا، حضور نے فرمایا کہ جو یقین قلبی کے ساتھ دن میں یہ کہہ لے پھر اسی دن شام سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا اور جو یقین دل کے ساتھ رات میں یہ کہہ لے پھر صبح سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد3 ، حدیث نمبر:2335)

(3)رسول اﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو استغفار کو اپنے پر لازم کرلے تواﷲاس کے لیے ہرتنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات دے گا اور وہاں سے اسے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد3 ، حدیث نمبر:2339)

(4)امام محمدغزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیشہ بلند درجات کی طرف ترقی فرماتے ہیں اور جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرتے تو اپنے پہلے حال پر اِستِغفَار کرتے ہیں۔(فتح الباری،ج 12،ص85،تحت الحدیث:6307)

(5)علّامہ ابنِ بطّال مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: انبیائے کرام علیہمُ السَّلام (کسی گناہ پر نہیں بلکہ)لوگوں میں سب سے زیادہ شکر گزاری و عبادت گزاری کے باوجود اللہ پاک کا کما حقّہ حق ادا نہ ہوسکنے پر اِستِغفَار کرتے ہیں۔ (شرح بخاری لابن بطال،ج10،ص77)

اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں دنیا وآخرت کی بھلائیاں عطا فرمائے اور ہمیں کثرت سے استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمین۔


شریعت مطہرہ ہماری ہر جگہ ہر وقت اصلاح کرتی اور ہماری غلطیوں کوصحیح کرتی رہتی ہے اور ہم پر ہمارے رب کاکتنا بڑا احسان ہے کے ہم بار بار گناہ کریں اور پھر سچے دل سے اپنے رب سے توبہ استغفار کریں تو وہ ہماری توبہ و استغفار قبول فرماتا ہےبیشک ہمارا رب رؤف و رحیم ہے اپنے بندوں سے زیادہ پیار کرنے والاہے آپ ایک بار سچے دل سے توبہ و استغفار کر کے تو دیکھیں میرےرب نے چاہا تو ضرور آپ کی توبہ و استغفار قبول ہوگیں۔ استغفار کے بے شمار فضائل و فوئد ہیں، خود نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وَاللہِ اِنِّی لَاَسْتَغْفِرُ اللہَ وَاَتُوبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّۃً ترجمہ:خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔(مشکاۃ المصابیح، ج1، ص434، حدیث:2323)

اگر چہ تمام انبیاءکرام معصوم ہیں، گناہوں سے پاک ہیں اور اگر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بات کریں تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رحمۃ للعٰلمین ہیں گناہ تو ان کے پاس ہی نہیں آسکتاپھر بھی استغفار کرتے تھے، خدارا استغفار کی کثرت کریں تو کیوں نا سب استغفار کی کثرت کریں سب اپنا اپنا معمول بنالیں روزانہ کی بنیاد پر جتنا زیادہ پڑھ سکتے ہیں پڑھیں آئیں اب میں جنت کے چار حروف کی نسبت سے استغفار کے 4فضائل بیان کرتا ہوں:

(1)دِلوں کے زَنگ کی صفائی: حضرت اَنَس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ النَّبِیِّین، محبوبِ ربُّ العالَمِین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ دِلنشین ہے: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زَنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جِلاء (یعنی صفائی)اِستِغْفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

(2) پریشانیوں اور تنگیوں سے نَجات:حضرت عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ محبوبِ ربِّ ذُوالجلال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جس نے اِستِغفارکو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اُس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گُمان بھی نہ ہو گا۔(ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

(3)سیِّدُ الْاِسْتِغفار پڑھنے والے کے لئے جنّت کی بشارت:حضرت شَدّادبن اَوس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ المُرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ یہ سیِّدُ الْاِسْتِغفار ہے: اَللّٰہمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَ اَنَا عَبْدُكَ وَ اَنَا عَلٰی عَهْدِكَ وَ وَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعْتُ اَبُوْءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَیَّ اَبُوْءُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّه لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ جس نے اِسے دن کے وَقت ایما ن و یقین کے ساتھ پڑھا پھر اُسی دن شام ہونے سے پہلے اُس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنّتی ہے اور جس نے رات کے وقت اِسے ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر صبح ہونے سے پہلے اُس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنّتی ہے۔(بخاری، 4/190، حدیث: 6306)

(4)نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت: حضرت عبدُ اللہ بن بُسْر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سناکہ خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنے نامۂ اعمال میں اِستِغفار کو کثرت سے پائے۔(ابنِ ماجہ، 4/257)

توبہ و اِستغفار کے 4فوائد:

(1)اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔(پ2، البقرۃ: 222)

(2)جو اِستغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(ابوداؤد،ج2،ص122، حدیث1518)

(3)اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔(مجمع البحرین،ج 4،ص272،حدیث: 4739)

(4)جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلادیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں)کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔(الترغیب والترھیب، ج4، ص48، رقم:17)

رزق میں برکت:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، 4/257، حدیث:3819)


استغفار ایک عبادتی عمل ہے جو اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ ہے۔یہ عمل اللہ تعالیٰ کی مغفرت حاصل کرنے اور برکتوں کو بلند کرنے کا ذریعہ ہے۔اسلامی تعلیمات میں احادیث کی روشنی میں استغفار کے کئی اہم فضائل اور فوائد بیان کئے گئے ہیں جو ہماری روحانیت کو بڑھاتے ہیں اور ہمیں دنیا اور آخرت میں فائدہ پہنچاتے ہیں۔

(1)حضرتِ سَیِّدُنا شَدَّاد بِنْ اَوْس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خاتَمُ الْمُرْسَلِیْن رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہ سَیِّدُ الْاِسْتِغْفَار ہے: اَللّٰہم اَنْتَ رَبِّی لَا اِلَہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلَی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْ ءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ واَبُوْئُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَاِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ اِلَّا اَنْتَ ترجمہ: اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو نے مجھے پیدا کیا میں تیرا بندہ ہوں اور بقدرِ طاقت تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں میں اپنے کئے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں مجھے بخش دے کہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب افضل الاستغفار، 4/189، 190، حدیث:6306)

(2)حضرتِ سَیِّدُناابو موسی اَشعَرِی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ پاک نے میری امت کے لئے مجھ پر دو اَمن (والی آیتیں) اتاریں ہیں، ایک: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو۔اور دوسری: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33) جب میں دنیا سے پردہ کر لوں گاتو ان میں قِیامت تک کے لئے اِستِغفار چھوڑ دوں گا۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانفال، 5/56، حدیث:3093)

(3)حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ پاک کی قَسَم!میں ایک دن میں 70مرتبہ سے بھی زیادہ اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ وا ِستِغفَار کرتا ہوں۔(بخاری،کتاب الدعوات، باب استغفار النبی فی الیوم واللیلۃ، 4/190، حدیث:6307)

(4)عَلَّامَہ اِبن بَطَّال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ انبیائے کرام علیہم السّلام عبادَت کرتے ہیں، وہ ہمیشہ اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہیں، اس کے باوجود وہ تَقْصِیر(کمی) کا اِعتراف کرتے رہتے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پاک کا حق ادا نہ ہوسکنے پر وہ اللہ پاک سے اِستِغفَار کرتے ہیں۔(شرح بخاری لابن بَطّال، کتاب الدعائ، باب استغفار النبی فی الیوم واللیلۃ، 10/77)

(5)حضرتِ سَیِّدُنا اَبو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تاجدارِ رسالت،محسنِ انسانیت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر تم گناہ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تم توبہ کروتو اللہ پاک تمہاری توبہ قُبول فرمالے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ، 4/490، حدیث:4248)

استغفار ایک عظیم عبادت ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت، رحمت، مشکلات کا حل اور برکتیں فراہم کرتی ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم روزانہ اس عمل کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں فائدہ حاصل کرسکیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سمجھنے کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، تمام عالم اسلام کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور کل مسلمین مسلمات مؤمنین مؤمنات کی مغفرت فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔