استغفار کا مطلب ہے کسی سے معافی مانگنا یا گناہوں کی مغفرت طلب کرنا استغفار ایک اہم عبادت ہے جو قرآن و حدیث میں بڑی فضیلتوں کے ساتھ ذکر ہوئی ہے یہاں چند قرآنی آیات اور حدیثوں کی روشنی میں استغفار کے فضائل کو پیش کیا جا رہا ہے۔

احادیث رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بھی استغفار کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔حضرت اِبن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو شخص ہمہ وقت استغفارکرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ ہر تنگی کے وقت اس کے نکلنے کے لئے راہ پیدا کردیتا ہے اور ہر غم سے نجات دیتا ہے اور اسے اس راہ سے رزق عطا فرماتا ہے جس کا وہ گمان بھی نہ کرسکے۔(ابو داؤد)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ فرماتے تھے کہ بخدا میں اللہ تعالیٰ سے دن میں 70 مرتبہ سے بھی زیادہ توبہ و استغفار کرتا ہوں۔(صحیح بخاری)

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری امت کو دو امانتیں دینے کے بارہ میں وحی نازل کی جو یہ ہیں: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳)ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33) پس جب میں ان سے الگ ہوا تو میں نے ان میں قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑا۔(جامع ترمذی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اے ابن آدم! جب تک تو مجھ سے گناہوں کی بخشش مانگے اور بخشش کی امید رکھے گا میں تجھے بخش دوں گا۔تجھ میں جو بھی گناہ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں لَوْبَلَغَتْ ذُنُوبُکَ عَنَانَ السَّمَاءِ اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے بخشش مانگے میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اگر تو اس حال میں مجھے ملے کہ ساری زمین تیرے گناہوں سے بھری ہو تو میں بھی اُتنی ہی بڑی مغفرت کے ساتھ تیرے پاس آؤں گا۔(سنن ترمذی)