استغفار کے فضائل و فوائد از بنت محمد حسین، فیضان
بسم اللہ سِوِل لائن کراچی
یاد رہے کہ کسی بھی چیز کے فضائل پڑھنے کے لئے اس
کا معنی و مفہوم سمجھنا بہت ضروری ہے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے استغفار کے معنی
قلمبند کرتی ہوں۔
استغفار کے معنی ہیں اپنے گناہوں سے معافی طلب
کرنا، توبہ کرنااور توبہ کے لئے سب سے پہلے اس گناہ کا علم ہونا پھر اس پر نادم
ہونا اور پھر عزمِ ترک کرنا ضروری ہے۔
آئیں اب کچھ استغفار کے فضائل پر روشنی ڈالنے کی
کوشش کرتی ہوں، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ
تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَ(۳۱) (پ
18، النور: 31) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو تم سب مل کر اللہ کی بارگاہ میں
توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
اس آیتِ مبارکہ کے تحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ استغفار
ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے انسان اپنے دلوں سے گناہوں کی سیاہی کو دور کر کے
اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی
رحمت ﷺ کا فرمان شفقت نشان ہے: ترجمہ: بے شک تانبے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا
ہے اور اس کی جلاء (یعنی صفائی) کرنا استغفار ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث:
17575)
استغفار کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ اس کی کثرت
انسان کی پریشانیوں کو دور کرتی اور رزق میں بھی برکتیں نصیب ہوتی ہیں، جیسا کہ حضرت
عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ دو جہاں کے تاجدار، مکی مدنی سرکار ﷺ کا فرمانِ
برکت نشان ہے: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی
دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا
فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا (ابن ماجہ، 4/ 257، حدیث 3819)
استغفار ایک ایسی بہترین نیکی اور عبادت ہے جس کے
ذریعے مسلمان اپنے نامہ اعمال کو مضبوط کر سکتا ہے اور اللہ پاک سے مغفرت طلب کر
کے جنت کا بھی حقدار بن سکتا ہے۔ روایت ہے کہ سرور کونین، نانائے حسنین ﷺ نے ارشاد
فرمایا: خوشخبری ہے اس کے لئے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے لائے۔ (ابن
ماجہ، 4/ 257، حدیث: 3818)
مزید روایت ہے حضرت شدّاد بن اوس سے کہ خاتم
النبیین ﷺ کا فرمانِ شفاعت نشان ہے: اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّىْ لَآ
اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِىْ وَاَنَا عَبْدُكَ وَاَنَا عَلٰى عَهْدِكَ
وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْءُلَكَ
بِنِعْمَتِكَ عَلَىَّ اَبُوْءُ بِذَنْبِىْ فَاغْفِرْلِىْ فَاِنَّهٗ لَا يَغْفِرُ
الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ
ترجمہ: اے اللہ پاک تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا میں
تیرا بندہ ہوں اور بقدر طاقت تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے کئے کے شر سے
تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں
کا اعتراف کرتا ہوں مجھے بخش دے کہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔
جس نے اسے دن کے وقت ایمان و یقین سے پڑھا پھر اسی
دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنّتی ہے اور جس نے رات کے وقت
اِسے ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر صبح ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ
جنَّتی ہے۔(بخاری، 4/ 190، حدیث 6306)
انسان نسیان سے بنا ہے جس کی وجہ سے انسان سے خطا
ہوتی رہتی ہے لیکن ﷲ نے اس سے انسان کو بچانے کیلئے ایک طریقہ عطا فرمایا ہے جسے
استغفار کا نام دیا گیا ہے۔ استغفار کے ذریعے بندہ جو اس نے غلطیاں اور گناہ کیے
ہوتے ہیں ان سے بندہ نجات پا لیتا ہے۔ آئیے قرآن کریم کی روشنی میں استغفار کے
فضائل ملاحظہ فرمائیے:
آیت مبارکہ: اَلصّٰبِرِیْنَ
وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ
بِالْاَسْحَارِ(۱۷) ( پ 3، اٰل عمران: 17) ترجمہ: یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں اور قول و عمل میں سچائی
والے ہیں اور ادب و اطاعت میں جھکنے والے ہیں اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں
اور رات کے پچھلے پہر (اٹھ کر) ﷲ سے معافی مانگنے والے ہیں۔
احادیث مبارکہ:
1۔ لوہے کی طرح دلوں کا بھی ایک زنگ ہے اور اس کا
پالش استغفار ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)
2۔ خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں
استغفار کو کثرت سے لائے۔ (ابن ماجہ، 4/256، حدیث:
3818)
3۔ گناہوں سے استغفار یعنی توبہ کرنے کے حوالے سے
ایک جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے اوپر استغفار ( توبہ کو ) لازم کیا اﷲ
پاک اس کی ہر پریشانی کو دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عنایت فرمائے گا
اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/ 257، حدیث: 3819)
4۔ شیطان نے ( بارگاہ الہی میں ) کہا: (اے اﷲ!)
مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں باقی
رہیں گی، گمراہ کرتا رہوں گا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم!
جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔ (مسند امام احمد، 4 / 59، حدیث:11244)
5۔ ایک اور جگہ منقول ہے کہ حضرت سعید بن ابی بردہ
اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں رسول اکرم ﷺ تشریف لائے
اس حال میں کہ ہم سبھی بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا: کوئی صبح طلوع نہیں ہوتی
مگر میں اس میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 7/172، حدیث:
3507)
ان تمام روایات اور احادیثِ مبارکہ سے ہمیں یہ
معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں استغفار کرتے رہنا چائیے اور استغفار کو اپنی زندگی کا حصہ
بنانا چاہیے۔
استغفار کی تعریف:
لغوی طور پر اعمال صالحہ پر قائم ہونا، ان کی طرف متوجہ ہونا اور برے کاموں سے
اعراض کرنا استغفار کہلاتا ہے۔ علمائے دین نے فرمایا گناہ کی نحوست قول و فعل میں
بگاڑ کو درست کرنا استغفار کہلاتا ہے۔ کہا جاتا ہے اس معاملے کو معاف کر دو یعنی
اس طرح درست کرو جس طرح درست کرنا چاہیے۔
كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ
مَا یَهْجَعُوْنَ(۱۷) وَ بِالْاَسْحَارِ
هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸)
(پ 26، الذّٰریٰت: 17،18) ترجمہ کنز الایمان: وہ رات میں کم سویا کرتے اور پچھلی
رات استغفار کرتے۔
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ آیت کی تفسیر میں فرماتے
ہیں: یہ آیت مستغفرین کے لیے نازل ہوئی یہ لوگ رات کا زیادہ حصہ شب بیداری کر کے
نماز پڑھ کر گزارتے ہیں یعنی تہجد، اور بہت تھوڑی رات سوتے ہیں اور شب کا پچھلا
حصہ استغفار میں گزارتے ہیں۔
احادیث مبارکہ:
1۔ بے شک تانبے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگتا ہے اور
اس کی جلا یعنی صفائی استغفار کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)
2۔ جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کیا اللہ پاک
اس کی پریشانی دور فرمائے گا اور تنگی سے راحت عطا فرمائے گا اور ایسی جگہ سے رزق
عطا فرمائے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)
3۔ تم میں سے کوئی اس طرح نہ کہے یا اللہ اگر تو
چاہے تو میری مغفرت فرما بلکہ یقین کے ساتھ سوال کرے کیونکہ اللہ کو مجبور کرنے
والا کوئی نہیں۔ گنہگار مسلمانوں کو بخش دینا اللہ پاک کا فضل اور اسے عذاب دینا
اس کا عدل ہے۔ (صراط الجنان)
استغفار سے متعلق بزرگان دین کے اقوال:
1۔ اے بیٹے! اللہ سے مغفرت طلب کرو بے شک وہ مغفرت
طلب کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (منہاج العابدین، ص159)
2۔ سنو! میں تمہیں اللہ کا پسندیدہ عمل بتاؤں وہ
استغفار کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ ( کشف المحجوب، ص59)
3۔ متقی لوگوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ رب
کائنات سے توبہ اور استغفار کرتے رہتے ہیں۔ (بیٹے کو نصیحت، ص25)
4۔ دن میں 70 بار رب سے مغفرت طلب کیا کرو۔ (بزم
اولیاء، ص 239)
استغفار کا حکم: استغفار کرنا
واجب ہے روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دن میں 70 مرتبہ استغفار فرمایا کرتے تھے۔
حکایت
شیخین کی روایت ہے کہ ایک بندے نے گناہ کیا پھر کہا
اے رب میں نے گناہ کیا مجھے معاف فرما دے تو رب نے فرمایا میرے بندے کو معلوم ہے
اس کا ایک رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا ہے اور اس پر مواخذہ بھی فرماتا ہے چنانچہ
اسے بخش دیا جاتا ہے پھر جب تک رب چاہے وہ گناہوں سے رکا رہتا ہے پھر ایک اور گناہ
کر لیتا ہے اب پھر کہنے لگتا ہے کہ اے میرے رب میں نے دوبارہ گناہ کر لیا مجھے
معاف فرما دے رب فرماتا ہے میرے بندے کو معلوم ہے اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف
فرماتا ہے اس پر مواخذہ فرماتا ہے اور پھر معاف فرما دیتا ہے پھر جب تک رب چاہے وہ
رکا رہتا ہے پھر ایک اور گناہ کر بیٹھتا ہے اور عرض گزار ہوتا ہے اے میرے رب میں
نے ایک اور گناہ کر لیا ہے مجھے معاف فرما دے تو رب فرماتا ہے میرے بندے کو معلوم
ہے اس کا ایک رب ہے جو گناہ کو معاف فرماتا ہے اس پر مواخذہ بھی فرماتا ہے پھر رب
کائنات نے فرمایا میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا اب جو چاہے کرے۔
امام منذری فرماتے ہیں: اب جو چاہے کرے کا مطلب یہ
ہے کہ جب تک وہ گناہ کر بیٹھنے پر استغفار کرتا رہے گا اور توبہ کرتا رہے گناہ سے
رکنے کا عزم رکھے اس لیے فرمایا پھر ایک اور گناہ کر بیٹھے اس لیے فرمایا جب بھی
گناہ کرے گا تو بعد کی توبہ استغفار اس کے لیے کفارہ بن جائے گی اور اس کا مطلب یہ
نہیں کہ گناہ کر لے اور زبان سے توبہ اور استغفار کریں مگر دل میں گناہ سے رکنے کا
عہد نہ کریں یہ توبہ کذاب لوگوں کی ہے جو بے نتیجہ اور غیر مقبول ہے۔ (مکاشفۃ
القلوب، ص 450)
استغفار کے فضائل و فوائد: اخلاص
کے ساتھ توبہ استغفار کرنا دراز ی عمر و کشائش رزق کے لیے بہتر عمل ہے۔ (دلچسپ
معلومات،1/186) اہلِ معرفت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ اعمال حسنہ کے باوجود بھی
رب سے توبہ و استغفار کرتے ہیں۔ توبہ و استغفار کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ اللہ
کریم کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنا اس کی مغفرت حاصل ہونے کا بہترین
ذریعہ ہے۔
جس شخص نے یہ کہا استغفراللہ
الذی لا الہ الا ہو الحیی القیوم الیہ اس کی مغفرت کردی جائے گی
اگرچہ میدان جہاد سے بھاگا ہوا کیوں نہ ہو۔ (ترمذی، 5/ 336، حدیث: 3588)
جو شخص دن میں 70 مرتبہ استغفار کرے اللہ کریم اس
کے سات سو گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 1/442، حدیث:252)
توبہ و استغفار کرنا اللہ کریم کی طرف سے عطا ہونے
والی بہت پیاری نعمت ہے۔ قرب الہی پانی کا ذریعہ ہے۔ رحمت الہی کا سبب ہے۔ غضب
الہی سے امن دلاتا ہے۔ مستغفرین کو رب کائنات پسند فرماتا ہے۔
استغفار کے فضائل و فوائد از بنت محمد عرفان قادری،
فیض مدینہ نارتھ کراچی
فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: خدا کی قسم میں دن میں 70 سے
زیادہ مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ (مشکوۃ
المصابیح،1/434، حدیث:2323)
اللہ پاک قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) ترجمہ:
(پ 2، البقرۃ: 222) بے شک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند
رکھتا ہے ستھروں کو۔ ترجمہ کنز العرفان: بے شک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت
فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
استغفار کی تعریف: استغفار
لفظ غفر سے بنا ہے جس کا مطلب ہے چھپانا چونکہ استغفار کی برکت سے گناہ ڈھک جاتے
ہیں اسی لیے اسے استغفار کہتے ہیں۔
استغفار کی اہمیت: استغفار
کی اہمیت کا اندازہ ہم اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: توبہ استغفار روزہ نماز کی طرح عبادت بھی ہے اسی
لیے حضور اکرم نور مجسم ﷺ بھی اس پر عمل کرتے تھے ورنہ حضور ﷺ معصوم ہیں گناہ آپ
کے قریب بھی نہیں آتا۔ (مراۃ المناجیح، 3/353 )
ارشادِ باری ہے: وَّ
اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا
حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى (پ 11، ہود: 3) ترجمہ: اور کہ اپنے رب
سے معافی مانگوپھر اس کی طرف توبہ کرو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا
فائدہ دے گا۔
استغفار کرنے کے فوائد: استغفار
کرنے والوں کی اللہ پاک روزی میں برکت دیتا ہے۔ استغفار کرنے والوں کو اللہ پاک
محتاجی سے بچاتا ہے۔ استغفار کرنے والوں کو اللہ پاک خوب نوازتا ہے۔ خدا کی قسم!
جو استغفار کرنے والے ہیں وہ رب العالمین کے بہت پیارے ہیں۔ استغفار کی عادت بنانے
والے یقین مانیں اللہ پاک ان کا حامی ان کا ناصر اور ان کا مددگار بنتا ہے۔
استغفار کرنے کے پانچ فضائل:
1۔ دلوں کے زنگ کی صفائی: حضرت
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین ﷺ کا فرمان دل نشین ہے: بے شک لوہے
کی طرح دل کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلا (یعنی صفائی) استغفار کرتا ہے۔ (مجمع
الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)
2۔ جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ
پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور
اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ،
4/257، حدیث: 3819)
3۔ جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال
اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔(مجمع الزوائد، 10/437،
حدیث:18089)
4۔ خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں
استغفار کو کثرت سے پائے۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)
استغفار کے فوائد: استغفار
کرنے والے سے اللہ پاک بہت خوش ہوتا ہے۔ استغفار گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔
استغفار کے معنی ہیں گزشتہ گناہوں کی معافی مانگنا
اور توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرلینا یا زبان سے گناہ نہ
کرنے کا عہد استغفار ہے سے عہد توبہ ہے استغفار غفارہ سے ماخوذ ہے بمعنی چھپانا یا
چھلکا و پوست چونکہ استغفار کی برکت سے گناہ ڈھک جاتے ہیں اس لیے اسے استغفار کہتے
ہیں۔ (مراۃ المناجیح، 3/400)
استغفار کے بہت سے فضائل احادیث مبارکہ میں آئے ہیں
جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو
اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی کو دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے
راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اس کو گمان بھی
نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 2/457، حدیث: 3819)
2۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم نے آسمان کے
برابر گناہ کر لیے اور پھر شرمندہ ہو کر توبہ کر لی تو اللہ پاک تمہاری توبہ قبول
فرمائے گا۔ ( کتاب التوابین للمقدسی، ص104)
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں
نے حضور پاک ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ پاک کی قسم میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ
اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ (مشکوۃ المصابیح، 1/434، حدیث:2323)
4۔ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
میں نے شہنشاہ مدینہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے نامہ
اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/ 257، حدیث: 3818)
5۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ کا فرمان
دلنشین ہے: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہےاور اس کی جلا یعنی صفائی
استغفار کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/ 346، حدیث: 17575)
استغفار کے لغوی معنی مغفرت طلب کرنا ہے اور مغفرت
گناہ کے شر سے بچنے کو کہتے ہیں دین اسلام میں استغفار کی بڑی اہمیت ہے۔ جیسا کہ
قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاعْلَمْ
اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ
لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ- (پ 26، محمد: 19) ترجمہ کنز الایمان:
جان لو کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں اور اے محبوب اپنے خاصوں اور عام مسلمان
مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔
یہاں آیت میں اگر خطاب حضورِ اقدس ﷺ سے ہو تو اس کا
یہ مطلب نہیں ہوگا کہ نبی کریم ﷺ سے کوئی گناہ ہوا تھاجس کی معافی مانگنے کا
فرمایا گیا کیونکہ آپ یقینی طور پر گناہوں سے معصوم ہیں بلکہ یہ کسی دوسرے مقصد کے
پیش نظر فرمایا گیا ہوگا، جیسا کہ امام جلالُ الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: نبی کریم ﷺ گناہوں سے معصوم ہیں، اس کے باوجود آپ کو گناہ سے مغفرت طلب کرنے
کا فرمایا گیا (یہ امت کی تعلیم کے لئے ہے) تاکہ اس معاملے میں امت آپ کی پیروی
کرے اور نبی کریم ﷺ نے مغفرت طلب بھی کی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: میں روزانہ سو
مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرتا ہوں۔ (تفسیر جلالین، ص 421، تحت الآیۃ: 19)
استغفار کے فضائل:
1۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگوں! اللہ پاک
سے اپنے گناہوں کی توبہ کیا کرو کیونکہ میں اللہ پاک سے ایک دن میں سو بار توبہ
کرتا ہوں۔ ( صحیح مسلم، ص 1111، حدیث: 6859)
2۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے
رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو آدمی بھی کوئی گناہ کرتا ہے پھر اٹھ کر وضو
کرتا، پھر نماز پڑھتا، پھر اللہ سے استغفار کرتا ہے تو اللہ اسے معاف فرما دیتاہے۔
3۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک بندے نے گناہ
کیا اور کہا: اے اللہ! میرے گناہ بخش دے۔ اللہ پاک نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ
کیا اور اس کو یقین ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت
بھی فرماتا ہے۔ پھر دوبارہ وہ گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے رب! میرا گناہ
معاف فرما اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے میرے بندے نے گناہ کیا اور اس کو یقین ہے کہ
اس کا رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے۔ وہ بندہ پھر
گناہ کر کے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے:اے میرے رب! میرا گناہ معاف فرما
دے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اس کو یقین ہے کہ اس
کا رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر مواخذہ (پکڑ) بھی فرماتا ہے۔ (پھر
فرماتا ہے) تو جو چاہے کر میں نے تیری مغفرت فرمادی۔ (مسلم، ص 1474، حدیث: 2758)
استغفار کے فوائد: استغفار
کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں: استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ
ہے۔ استغفار گناہوں کو مٹانے اور درجات بلند کرنے کا ذریعہ ہے۔ استغفار بارش کے
نزول، مال و اولاد کی ترقی اور دخول جنت کا سبب ہے۔ استغفار بندے کے دنیاوی اور
اخروی عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ استغفار کرتے رہنے سے دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ جو
پابندی سے استغفار کرے گا تو اللہ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا۔ ہر تنگی سے
نکلنے کا راستہ پیدا فرمائے گا۔ اسے اسی جگہ سے رزق دےگا جہاں سے اسے وہم و گمان
بھی نہ ہوگا۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)
انسان فطری طور پر خطا کار اور خاکسار ہے اور ایسے
جرائم کا ارتکاب کربیٹھتا ہے جس کی وجہ سے ان جرائم کی سزاؤں کا اسے سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ بعض لوگ تو خود کو کسی نہ کسی طرح (پہچان، عہدے یا پیسے کے بل پر) دنیاوی
قانون سے بچالیتے ہیں لیکن آخرت میں وہ کس طرح بچ سکتے ہیں؟ جس وقت مجھے کچھ کام
نہ آئے گا سوائے سچی توبہ کے۔ گناہوں کی کثرت سے انسان کا دل زنگ آلود ہو جاتا ہے
کہ حدیث پاک میں ہے: بےشک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلا
(یعنی صفائی) استغفار کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575) اس حدیث سے
معلوم ہوا دل کو پاک و صاف رکھنے (یعنی اس کی صفائی کرتے) اور گنا ہوں سے بچنے کا
بہترین طریقہ استغفار کی کثرت ہے کہ انسان اللہ کی بارگاہ میں اپنےگناہوں (صغیرہ
کبیرہ) کی توبہ اور مغفرت طلب کرتا رہے۔ مغفرت سے مراد گناہوں کی بخشش ہے اور کسی
کا عیب چھپا لینا مغفرت ہے۔
کون گناہ گار بہتر ہے ؟ گناہ
گاروں میں بھی وہ گناہ گار سب سے بہتر ہے جو توبہ کرے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: ہر
آدمی گناہ گار ہے اور ان میں سے بہتر وہ ہے جو توبہ کر لیتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/491،
حدیث: 4251) اس حدیث پاک سے استغفار کی فضلیت بیان کرنا مقصود ہے کہ جب بندہ سچی
توبہ کرے لیکن پھر نفس اور دنیا کے دھوکے میں آکر دوبارہ گناہ کرے پھر نادم ہو کر
سچی توبہ کرے، پھر گناہ کر بیٹھے پھر توبہ کرے تو اللہ اس سے ناراض نہیں بلکہ خوش
ہوتا ہے۔ استغفار کرنے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
استغفار کے فضائل:
1۔ جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال
اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10 /
347، حدیث: 17579 )
2۔ جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ اس
کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی
جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/ 257، حدیث:
3819)
3۔ خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں
استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)
توبہ کرنا کس پر فرض ہے؟ اکمال
المعلم شرح مسلم میں ہے: توبہ کرنا ہر اس شخص پر فرض ہے جو اپنی طرف سے ہونے والے
گناہ کو جان لے خواہ وہ گناہ صغیرہ ہویا کبیرہ اور توبہ تمام فرائض کی اصل ہے۔ گناہ
چھوٹا ہو یا بڑا اس پر توبہ و استغفار فرض ہے۔ استغفار کا بکثرت پڑھنا قرآنی عمل
ہے۔ استغفار اس خوبصورت عمل کا نام ہے جو انبیائے کرام کا شیوہ اور انسانیت کی
معراج ہے۔ استغفار سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، الله بھی خوش ہوتا ہے اور یہ آپ ﷺ کی
سنت بھی ہے علاوہ ازیں استغفار کرنے کے بے شمار فوائد ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
استغفار کے فوائد: استغفار کی
کثرت سے انسانی زندگی میں انقلاب برپا ہوتا ہے۔ استغفار سے فیوض و برکات کا نزول
ہوتا ہے۔ استغفار کی کثرت سے روح کو پاکیزگی اور طہارت حاصل ہوتی ہے۔ استغفار کی
کثرت سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ استغفار کی کثرت سے مصائب و آلام سے نجات ملتی ہے۔
استغفار کی کثرت حصول اولاد کا سبب بھی ہے۔ اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اللہ کی ذات
سب سے زیادہ رحیم ہے وہ الرحمن الراحمین ہے وہ ہر سچی توبہ قبول فرماتا ہے اگرچہ
کتنی ہی مرتبہ کی جائے۔ مشرک اور کافر کے علاوہ سب کی مغفرت فرما دے گا جس سے گناہ
سرزد ہو جائیں اسے اللہ کی رحمت سے کبھی نا امید نہیں ہونا چاہیے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تاجدار ﷺ
نے فرمایا: اگر تم گناہ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تم توبہ
کرو تو اللہ تمہاری توبہ قبول فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 4/ 490، حدیث: 4248)
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جب بھی ہم سے گناہ سرزد ہو
جائے تو بارگاہِ خداوندی میں توبہ کریں اپنے رب سے توبہ کا موقع ملنا بھی بہت بڑی
سعادت کی بات ہے۔ بہت سے لوگوں کو توبہ کا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ بغیر توبہ
کیے اس دار فانی دنیا سے چلے جاتے ہیں، موت کا کوئی بھروسہ نہیں اس لیے ہمیں بھی
بکثرت توبہ واستغفار کرنی چاہیے۔
استغفار کے فضائل و فوائد از بنت طفیل الرحمٰن
ہاشمی، فیض مدینہ نارتھ کراچی
اگر کوئی شخص کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کو
جرم کی سنگینی کے لحاظ سے سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا میں ایسے مناظر بھی
دیکھنے کو ملتے ہیں کہ صاحب سرمایہ، امیر و طاقت ور شخص قانون کی گرفت سے بچ نکلنے
میں کامیاب ہو جاتے ہیں جرائم کا ارتکاب کرنے والے بعض لوگ تو کئی مرتبہ مال،
تعلقات اور اثرورسوخ کی بدولت قانون سے بچ جاتے ہیں لیکن اللہ کی طاقت اور کبریائی
کے مقابلے میں نہ تو فرعون کی رعونت چل سکتی ہے، نہ قارون کا مال، نہ ہامان کا
منصب، نہ شداد کی جاگیر، نہ ہی ابو لہب کی خاندانی وجاہت کسی کام آسکتی ہے۔ اگر
کوئی چیز انسان کو اللہ کے قہر و غضب سے بچا سکتی ہے۔ تو وہ توبہ و استغفار ہے
اللہ بہت رحیم وکریم ہے ہمارا خالق و مالک ہے۔ اللہ پاک کی ذات اس کے لائق ہے کہ
بندہ ہر وقت اس کے سامنے سجدہ ریز رہے لیکن چونکہ انسان میں غلطی اور بھول چوک کا
مادہ ہے۔ یہاں تک کے انسان ہر وقت گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ لیکن قربان جائیے اس
مہربان رب کی ذات پر الله پاک بہت رحیم وکریم ہے کہ انسان کیلئے بخشش کے دروازے
کھولے ہوئے ہے۔
اللہ کی
خوشنودی کے حصول کرنے کا ذریعہ اللہ کی بارگاہ میں ندامت کے آنسو گرانا اور توبہ و
استغفار اختیار کرنا ہے بہت سے پیغمبروں نے اپنی قوموں کو توبہ و استغفار کا حکم
دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ و استغفار بڑی اہم چیز ہے۔
توبہ و استغفار میں فرق: توبہ
و استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ہیں ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور
پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرنا توبہ ہے۔ جب انسان
کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر اپنے رب سے توبہ و استغفار کرتا ہے اور مغفرت طلب
کرتا ہے تو مہربان رب نہ صرف بندے کے گناہ معاف کرتا ہے بلکہ بہت سے فضائل و
انعامات سے نوازتا ہے جن کا ذکر ہمیں قرآن و حدیث سے ملتا ہے۔ ذیل میں استغفار کے
فضائل و فوائد پر چند احادیث و آیات کا تذکرہ کیا جاتا ہے،
قرآن کریم کی روشنی میں استغفار کے
فضائل:
1۔ وَ مَنْ یَّعْمَلْ
سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ
غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰)
(پ 5، النساء: 110) ترجمہ:اور جو کوئی برا کام کرے تو یا اپنی جان پر ظلم کرے تو
پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔
2۔ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ
لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ
یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ( پ 9، الانفال: 33) ترجمہ:اور
اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگ رہے ہوں۔
3۔ وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا
رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى
اَجَلٍ مُّسَمًّى (پ 11، ہود: 3) ترجمہ: اور کہ اپنے رب سے معافی
مانگوپھر اس کی طرف توبہ کرو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔
احادیث مبارکہ:
1۔ حدیث قدسی ہے: اے ابن آدم! اگر تمہارے گناہ
آسمان تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تیری مغفرت کردوں گا اور
مجھے کوئی پرواہ بھی نہیں ہوگی۔
2۔ جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تو اللہ
اسے ہر غم سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم و
گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)
3۔ بکثرت استغفار کرنے والے کو اللہ ہر مشکل سے
خلاصی عطا فرمائے گا۔
استغفار کے فوائد: استغفار
اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے کا نام ہے۔ الله پاک سے مغفرت طلب کرتے رہنا نہایت مفید
عمل ہے اور اللہ کی رحمتوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔ استغفار کی برکت سے اللہ انسان کے
گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ استغفار کرنا صرف اخروی بھلائیوں کو ہی سمیٹنے کا باعث
نہیں بنتا بلکہ اس کے نتیجے میں دنیا میں بھی بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً
استغفار کرنا آسمانوں سے بارش اور کھیتی و باغات میں برکت و کثرت کا سبب ہے۔ استغفار
کرنا نرینہ اولاد اور قوت و طاقت میں اضافے کا ذریعہ ہے۔ استغفار کرنا خوشحال
زندگی گزارنے اور غموں سے نجات کا باعث بنتا ہے۔ استغفار کرنا درازی عمر اور رزق
میں وسعت کا بہترین عمل ہے۔ استغفار کرنا مال میں اضافے کا سبب ہے۔
یاد رہے کہ اولاد کے حصول، بارش کی طلب، تنگدستی سے
نجات اور پیداوار کی کثرت کیلئے استغفار کرنا بہت مجرب قرآنی عمل ہے۔
اگر ہم چاہیں تو توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے
پروردگار کو راضی کر سکتے ہیں ہمیں چاہیے کہ لمحہ بہ لمحہ اپنے پروردگار سے
استغفار کرتے رہیں اپنے گناہوں کی معافی اور بخشش و مغفرت طلب کرتے رہیں۔
استغفار بھی ذکر الہی ہے اور ذکر الٰہی اطمینانِ
قلب کا باعث ہے، اللہ کا فرمان ہے: اَلَا بِذِكْرِ
اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُؕ(۲۸) (پ 13، الرعد: 28) ترجمہ: سن
لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔
عام مشاہدہ ہے کہ مخلوق کے دل ذکر اللہ کی طرف اس
وقت متوجہ ہوتے ہیں جب وہ کسی حاجت برآری کے طالب یا پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔
کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تب وہ توبہ و استغفار
کرتا ہے، پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا اس
نے گناہ کیا ہی نہیں۔ (ابن ماجہ، 4/ 491،
حدیث:4250)
الله پاک نے اپنے کامیاب بندوں کی کس طرح تعریف
فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ
الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ(۱۷) وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸) (پ
26، الذّٰریٰت: 17،18) ترجمہ کنز الایمان: وہ رات میں کم سویا کرتے اور پچھلی رات استغفار
کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رات کا آخری حصہ اللہ سے مغفرت طلب کرنے اور دعا کے لئے
بہت مَوزوں ہے۔ یہاں اس سے متعلق ایک حدیث پاک بھی ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہمارا رب تعالیٰ ہر
رات اس وقت دنیا کے آسمان کی طرف نزولِ اِجلال فرماتا ہے جب رات کا تہائی حصہ باقی
رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے کوئی ایساہے جو مجھ سے دعا کرے تاکہ میں اس کی دعا قبول
کروں، کوئی ایساہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اسے عطا کروں، کوئی ایساہے جو مجھ
سے معافی چاہے تاکہ میں اسے بخش دوں۔ (بخاری، 1/388،
حدیث: 1145)
احادیث مبارکہ:
1۔ دلوں کے زنگ کی صفائی: بے
شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء (یعنی صفائی ) استغفار
کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10 / 346، حدیث: 17575)
2۔ خوش کرنے والا اعمال نامہ: جو
اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اُسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں
استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10 / 347، حدیث: 17579)
3۔ پریشانیوں اور تنگیوں سے نجات: جس
نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اُس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا
اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا
جہاں سے اُسے گمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)
4۔ خوشخبری: خوشخبری ہے
اُس کے لئے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/257،
حدیث: 3818)
استغفار کے فوائد: استغفار کرنے
سے حکم الہی کی تعمیل ہوتی ہے۔ استغفار کرنے سے رزق میسر آتا اور اس میں اضافہ
ہوتا ہے۔ استغفار جنت میں داخلے کا پروانہ ہے۔ استغفار کرنے سے گناہ معاف ہوتے اور
خطائیں مٹ جاتی ہیں۔ استغفار کرنے سے بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ استغفار کرنے سے دل کو
پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔
استغفار کسے کہتےہیں: استغفار
غفر سے بنا ہے اس کا مطلب ہے، چھپانا یا چھلکا و پوست وغیرہ چونکہ استغفار کی برکت
سے گناہ ڈھک جاتے ہیں اس لیے اسے استغفار کہتے ہیں۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: توبہ و استغفار نماز، روزے کی طرح عبادت ہے۔
استغفار کے فضائل احادیث کی روشنی میں:
1۔ حضرت
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک شخص
نے حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی: ہائے میرے گناہ! ہائے میرے گناہ! اس
نے یہ بات دو یا تین مرتبہ کہی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ دعا پڑھو! ترجمہ: اے
اللہ تیری شان غفاری میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے اور میں اپنے عمل کے مقابلے میں
تیری رحمت کی زیادہ امید رکھتا ہوں اس نے یہ کلمات دہرائے تو رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: دوبارہ پڑھو اس نے پھر یہ کلمات دہرائے، فرمایا: پھر پڑھو، اس نے پھر وہی
کلمات پڑھے تو فرمایا: کھڑے ہوجاؤ! بے شک اللہ نے تمہاری مغفرت فرمادی ہے۔ (مستدرک
للحاکم، 2/238، حدیث: 2038 )
2۔ نبی
رحمت ﷺ نے فرمایا: اللہ فرماتا ہے: اے میرے بندو! تم سب گناہگار ہو مگر جسے میں نے
بچایا۔ لہذا مجھ سے مغفرت کا سوال کرو۔ میں تمہاری مغفرت فرمادوں گا اور تم میں سے
جس نے یقین کر لیا کہ میں بخشنے پر قادر ہوں پھر مجھ سے میری قدرت کے وسیلہ سے
استغفار کیاتو میں اس کی مغفرت فرمادوں گا۔(ابن ماجہ، 4 /495، حدیث: 4257)
3۔ حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حسن اخلاق کے پیکر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کرلیا اللہ اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور
ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے
اسے گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)
4۔ حضرت
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: جو اس
بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ نامہ اعمال
میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/437، حدیث:18089)
5۔ حضرت
عبداللہ بن بسر رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ
خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ،
4/257، حدیث: 3818)
استغفار کو اپنا وظیفہ بنا لینا چاہیے کہ اس سے دین
و دنیا کی بے شمار فوائد اور بھلائی
ملتی ہے اور آفتیں دور ہوتی ہیں۔ استغفار کرنا اللہ پاک کی رضا کا سبب ہے۔
ارشادِ باری ہے: فَقُلْتُ
اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) (پ
29، نوح: 10) ترجمہ: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو
بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔
استغفار کے معنی: استغفار
کے معنی ہیں گزشتہ گناہوں کی معافی مانگنا اور توبہ کی حقیقت ہے آئندہ گناہ نہ
کرنے کا عہد کر لینا یا زبان سے گناہ نہ کرنے کا عہد استغفار ہے اور دل سے عہد
کرنا تو بہ ہے۔ استغفار غَفَرٌ سے بنا ہے،
بمعنی چھپانا یا چھلکاو پوست، چونکہ استغفار کی برکت سے گناہ ڈھنک جاتے ہیں اس لیے
اسے استغفار کہتے ہیں۔
احادیث مبارکہ:
1۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: اے اولادِ آدم! جب تو مجھ
سے دعا مانگے اور مجھ سے آس لگائے تو میں تجھے تیرے عیوب کے باوجود بخشتا رہوں گا
میں بے پرواہ ہوں اے ابن آدم اگر تیرے گناہ کنارۂ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ
سے معافی مانگے تو میں تجھے بخش دوں گا کچھ پرواہ نہ کروں گا اے اولاد آدم اگر تو
زمین بھر کر خطاؤں کے ساتھ ملے مگر ایسے ملے کہ کسی کو میرا شریک نہ ٹھہراتا ہو تو
میں زمین بھر بخشش کے ساتھ تیرے پاس آؤں گا۔
گنہ رضا کا حساب کیا وہ اگر چہ لاکھوں
سے ہیں سوا
مگر اے کریم تیرے عفو کا نہ حساب ہے نہ
شمار ہے
2۔ استغفار کی اہمیت: الله
کی قسم! میں ایک دن میں 70 مرتبہ سے بھی زیادہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار
کرتا ہوں۔ (بخاری، 4/190، حدیث: 6307)
مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: توبہ و
استغفار، نماز، روزے کی طرح عبادت ہے، اسی لیے حضور انور ﷺ بکثرت توبہ و استغفار
کیا کرتے تھے۔ ورنہ حضور ﷺ معصوم ہیں گناہ آپ ﷺ کے قریب بھی نہیں آتا، صوفیا
فرماتے ہیں: ہم لوگ گناہ کر کے تو بہ کرتے ہیں اور وہ حضرات عبادت کر کے توبہ کرتے
ہیں۔ یا پھر آپ کا یہ عمل تعلیمِ امت کے لئے تھا۔ (مراة المنا جیح، 3/353)
3۔ دلوں کے زنگ کی صفائی: بے
شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء (یعنی صفائی ) استغفار
کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد،10/346، حدیث:17575)
4۔ پریشانیوں اور تنگیوں سے نجات: جس
نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور
ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے
اسے گمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث:
3810)
5۔ خوش کرنے والا اعمال نامہ:
جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس
میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/347، حدیث:
17579)
6۔ خوشخبری: خوشخبری ہے اس
کے لئے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث:3818)
7۔ سید الاستغفار پڑھنے والے کے لئے جنت
کی بشارت:
یہ سید الاستغفار ہے: اللهم انتَ رَبی لَا إِله إِلا انت
خَلَقْتَنِي وَأَنا عَبدك وَانَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ أعوذ
بكَ مِنْ شَرَ مَا صَنَعْتُ أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَى ابوءُبذنبی فاغفرلى
فانه لا يغفر الذنوب إلا انت ترجمہ: جس نے اسے دن کے وقت ایمان
ویقین کے ساتھ پڑھا پھر اسی دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی
ہے اور جس نے رات کے وقت اسے ایمان ویقین کے ساتھ پڑھا پھر صبح ہونے سے پہلے اس کا
انتقال ہوگیا تو وہ جنتی ہے۔
استغفار کے فوائد: استغفار کرنا
جہاں رحمت خداوندی کے حصول کا ذریعہ ہے اسی طرح استغفار کے بے شمار دینی و دنیاوی
فوائد بھی ہیں، مثلاً استغفار کرنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ
ہے۔ توبہ و استغفار اللہ کی خوشنودی کا سبب ہے۔ استغفار سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں۔
اللہ بھی خوش ہوتا ہے اور یہ آپ ﷺ کی سنت بھی ہے۔ استغفار کی کثرت سے رزق میں
اضافہ ہوتا ہے۔ استغفار کی کثرت سے روح کو پاکیزگی اور
طہارت حاصل ہوتی ہے۔ استغفارکی کثرت حصولِ اولاد کا سبب ہے۔ استغفار کی کثرت بارش
کا سبب ہے۔
استغفار کی تعریف: استغفار
لفظ غَفَرَ سے بنا ہے جس کا مطلب ہے چھپانا چونکہ استغفار کی
برکت سے گناہ ڈھک جاتے ہیں اس لئے اسے استغفار کہتے ہیں۔ (مراۃ المناجیح، 3/353) آئیے
قرآن وحدیث کی روشنی میں استغفار کے فضائل سنتی ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ
یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى (پ
11، ہود: 3) ترجمہ: اور کہ اپنے رب سے معافی مانگوپھر اس کی طرف توبہ کرو تو وہ
تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔اسی طرح ایک مقام پر فرمایا: وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ
یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰) (پ 5، النساء: 110) ترجمہ:اور جو کوئی
برا کام کرے تو یا اپنی جان پر ظلم کرے تو پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ کو
بخشنے والا مہربان پائے گا۔ سورۂ انفال میں ارشاد ہوتا ہے: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-وَ مَا
كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ( پ 9، الانفال: 33) ترجمہ:اور اللہ
انہیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگ رہے ہوں۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جو کوئی استغفار کو لازم کرے اللہ پاک اُس کے
لیے ہر تنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات دے گا اور وہاں سے اُسے رزق عطا کرے گا
جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)
2۔ ایک شخص نے حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض
کی: ہائے میرے گناہ! ہائے میرے گناہ! اس نے یہ بات دو تین مرتبہ کی تو رسول الله ﷺ
نے فرمایا: یہ دعا پڑھو: ترجمہ: اے اللہ تیری شان غفاری میرے گناہوں سے زیادہ وسیع
ہے اور میں اپنے عمل کے مقابلے میں تیری رحمت کی زیادہ امید رکھتا ہوں۔ اس نے یہ
کلمات دہرائے تو رسول الله ﷺ نے فرمایا: پھر پڑھو اس نے پھر یہی کلمات پڑھے تو
فرمایا کھڑے ہو جاؤ ہے۔ الله نے تمہاری مغفرت فرمادی۔ (مستدرک للحاکم، 2/238، حدیث:
2038 )
3۔ اے ابن آدم! اگر تمہارے گناہ آسمان کو پہنچ جائیں
تو پھر مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تیری مغفرت کردوں گا اور مجھے کوئی پرواہ بھی
نہیں ہوگی۔
4۔ بکثرت استغفار کرنے والے کو اللہ ہر مشکل سے
خلاصی عطا فرمائے گا۔
استغفار کے فوائد: استغفار
اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے کا نام ہے۔ استغفار کرنا آسمانوں سے بارش اور کھیتی و
باغات میں برکت و کثرت کا سبب ہے۔ استغفار کرنا ہے درازی عمر اور رزق میں برکت و
کثرت کا بہترین عمل ہے۔ استغفار بندے کے دنیاوی واخروی عذاب سے بچاؤ کا طریقہ ہے۔ استغفار
خیر میں ثابت قدمی رہنے والا ذریعہ ہے۔ استغفار کی کثرت سے مصائب و آلام سے نجات ملتی
ہے۔ استغفار کی کثرت حصول اولاد کا سبب بھی بنتا ہے۔ استغفار کرنا خوشحال زندگی
گزار سے اور غموں سے نجات کا باعث بنتا ہے۔ استغفار کرتے رہنے سے دعائیں قبول ہو تی
ہے۔ استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔