استغفار کے معنی ہیں گزشتہ گناہوں کی معافی مانگنا
اور توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرلینا یا زبان سے گناہ نہ
کرنے کا عہد استغفار ہے سے عہد توبہ ہے استغفار غفارہ سے ماخوذ ہے بمعنی چھپانا یا
چھلکا و پوست چونکہ استغفار کی برکت سے گناہ ڈھک جاتے ہیں اس لیے اسے استغفار کہتے
ہیں۔ (مراۃ المناجیح، 3/400)
استغفار کے بہت سے فضائل احادیث مبارکہ میں آئے ہیں
جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو
اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی کو دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے
راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اس کو گمان بھی
نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 2/457، حدیث: 3819)
2۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم نے آسمان کے
برابر گناہ کر لیے اور پھر شرمندہ ہو کر توبہ کر لی تو اللہ پاک تمہاری توبہ قبول
فرمائے گا۔ ( کتاب التوابین للمقدسی، ص104)
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں
نے حضور پاک ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ پاک کی قسم میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ
اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ (مشکوۃ المصابیح، 1/434، حدیث:2323)
4۔ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
میں نے شہنشاہ مدینہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے نامہ
اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/ 257، حدیث: 3818)
5۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ کا فرمان
دلنشین ہے: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہےاور اس کی جلا یعنی صفائی
استغفار کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/ 346، حدیث: 17575)