توبہ کے بہت سے فضائل ہیں توبہ یہ ہے کہ انسان اپنے تمام گناہوں اور اپنی خطاؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تمام گناہوں اور خطاؤں کو دل میں برا جانے اور دوبارہ اس کے نہ کرنے کا دل میں ہی عہد کرے زبان سے کہنا افضل ہے ہماری زندگی میں توبہ کی بے حد فضیلت ہے سچے دل سے توبہ کر لینے سے انسان کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اللہ بھی توبہ و استغفار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے انسان کو چاہیے کہ وہ ہر وقت استغفار کرتا رہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے بالکل اسی طرح استغفار کرنا گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔

احادیث کی روشنی میں توبہ و استغفار کی فضیلت:

سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس کا گناہ تھا ہی نہیں۔ (ابن ماجہ، 4/491، حدیث: 4250) اس حدیث سے توبہ کی فضیلت صاف صاف ظاہر ہوتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان مغفرت نشان ہے کہ سارے انسان خطا کار ہیں اور خطاکاروں میں سے بہتر وہ ہے جو توبہ کر لیتے ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/491، حدیث: 4251)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مقبول استغفار وہ ہے جو دل کے درد، آنکھوں کے آنسو اور اخلاص سے کی جائے۔ میرے آقا اعلی حضرت امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ سچی توبہ اللہ نے نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کا ازالہ کو کافی و وافی ہے کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک و کفر۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہے کہ گناہوں پر اس لیے کہ وہ اس کے رب کی نافرمانی تھی نادم و پریشان ہو کر فورا چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گناہ کے پاس نہ جائے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کر لے۔

اللہ پاک ہمیں توبہ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

استغفار کے معنی ومفہوم: استغفار کے معنی ہیں اللہ پاک سے اپنی بخشش چاہنا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم!جب تک تو مجھ سے گناہوں کی معافی مانگتا رہے گا اور مجھ سے امید رکھے گا میں تجھے بخشوں گا تو نے جو برا کام کیا ہو گا اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہوگی یعنی تو چاہے کتنا ہی بڑا گنہگار ہو تجھے بخشنا میرے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے اے ابن آدم!اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائے اور تو مجھ سے بخشش چاہے تو میں تجھ کو بخش دوں گا۔ اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہوگی۔ اے ابن آدم!اگر تو مجھ سے اس حال میں ملے کہ تیرے ساتھ گناہوں سے بھری ہوئی زمین ہو تو میں تیرے پاس بخشش مغفرت سے بھری ہوئی زمین کو لے کر آؤں گا۔ بشر طیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو۔

حالت نزع میں کی جانے والی توبہ: فرمانِ رسول ﷺ: بے شک اللہ پاک اپنے بندے کی توبہ قبول کر لیتا ہے جب تک اس پر نزع کا عالم طاری نہیں ہوتا۔ (ترمذی، 5/317، حدیث: 3548) علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ توبہ قبول ہونے کی حد ہے کہ مغرب کی سمت سے آفتاب نکلنے سے پہلے تک توبہ کا دروازہ کھلا رہے گا لہذا اس وقت جو بھی توبہ کرے گا اس کی توبہ قبول کی جائے گی لیکن اس کے بعد کی جانے والی توبہ قبول نہیں ہو گی۔

سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک توبہ کی مہلت: بے شک اللہ پاک اپنے دست رحمت کو رات کے وقت بڑھاتا ہے تاکہ دن کے وقت غلطی کرنے والا توبہ کرے اور اپنے دست رحمت کو دن کے وقت بڑھاتا ہے تاکہ رات کے وقت غلطی کرنے والا توبہ کرلے۔ یہا ں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے گا۔ (مسلم، ص 1131، حدیث: 6989)

دن میں سو بار توبہ کرنا: بے شک میں روزانہ سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ (ابن ماجہ، 4/256، حدیث: 3815)

نبی ﷺ کثرت سے توبہ اس لیے نہیں کرتے تھے کہ معاذ اللہ آپ گناہ میں مبتلا تھے کیونکہ آپ معصوم تھے بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آقاﷺ مقام عبدیت کے سب سے اونچے مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے اپنے طور پر یہ سمجھتے تھے کہ شاید مجھ سے اللہ کی بندگی و عبادت میں کوئی قصور ہو اور میں وہ بندگی نہ کرسکا ہوں جو رب زوالجلال کی شان کے لائق ہے نیز اس سے مقصود امت کو اسغفار و توبہ کی تر غیب دلانا تھا۔

اللہ پاک ہم سب کو اخلاص کے ساتھ بکثرت استغفار کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا اخلاص کے ساتھ ایمان پر خاتمہ فرمائے۔ 

ندامتِ قلب کے ساتھ ہمیشہ کیلئے گناہ سے رک جانا تو بہ ہے جبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا استغفار ہے۔ تو بہ اصل ہے جبکہ تو بہ کی طرف جانے والا راستہ استغفار ہے۔ اللہ نے سورہ ہود میں توبہ سے قبل استغفار کا حکم فرمایا ہے، ارشادِ ربانی ہے: هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ- (پ 12، ہود: 61) ترجمہ: اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کاقبول کرنے والا ہے۔

گویا گنا ہوں سے باز آنا، آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا اور صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونا تو بہ ہے جبکہ اللہ سے معافی طلب کرنا، گناہوں کی بخشش مانگنا اور بارگاہ الٰہی میں گریہ و زاری کر کے اپنے رب کو منانا استغفار ہے۔

سچی توبہ: سچی توبہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو اللہ کی نافرمانی جان کر اس کے کرنےپر شرمندہ ہوتے ہوئے رب سے معافی مانگے اور آئندہ کے لئے اس گناہ سے بچنے کا پکّا ارادہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کے لئے کوشش کرے، مثلاً نماز قضا کی تھی تو اب ادا بھی کرے،چوری کی تھی یا رِشوت لی تھی تو بعد ِ توبہ وہ مال اصل مالک یا اس کے وُرَثاءکو واپس کرے یا معاف کروالے اور اگر اصل مالک یا وُرَثاء نہ ملیں تو ان کی طرف سے راہِ خدا میں اس نیّت سے صدقہ کر دے کہ وہ لوگ جب ملے اور صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوئے تو اپنے پاس سے انہیں واپس دوں گا۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جب کوئی بندہ اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ کو اس توبہ کرنے والے پر، اس آدمی سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جو جنگل میں سواری پر آرام کے لئے سوجائے اس دوران سواری کہیں اور چلی جائے جس پر اس کا کھانا اور پانی ہو۔ وہ جب بیدار ہو تو اپنی سواری کونہ پائے اور مایوس ہوکر ایک درخت کے سائے میں لیٹ جائے۔ جس وقت وہ سواری سے مایوس ہوکر لیٹا ہوا ہو پھر اچانک سواری اس کے پاس واپس آجائے اور وہ اس کی لگام پکڑے اور خوشی کی شدت سے یہ کہے۔ اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں یعنی شدتِ مسرت کی وجہ سے الفاظ الٹ ہوجائیں۔ (بخاری، 4/190، حدیث: 6308)

2۔ اللہ فرماتا ہے: اے آدم کے بیٹے! جب تک تم مجھ سے دعا کرتے رہو گے اور مجھ سے امیدیں وابستہ رکھو گے میں تم کو معاف کرتا رہوں گا جو گناہ بھی تم نے کئے ہوں گے اور مجھے کچھ پرواہ نہیں (تم نے کتنے گناہ کئے)۔ اے آدم کے بیٹے، اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تم مجھ سے معافی طلب کرو تو میں تمہیں معاف کردوں گا اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ اے آدم کے بیٹے، اگر تم زمین کے برابر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملاقات کرو لیکن جب تیری مجھ سے ملاقات ہو تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں تیرے پاس ان گناہوں کے برابر بخشش کے ساتھ آؤں گا۔

3۔ اس آدمی کی (آخرت کی زندگی) نہایت عمدہ ہے جس نے اپنے اعمال میں کثرت کے ساتھ استغفار لکھا ہوا پایا۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)

4۔ ایماندار آدمی جب گناہ کرتا ہے تو گناہ کا سیاہ نقطہ اس کے دل پر نمودار ہوجاتا ہے۔ اگر وہ توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ مزید گناہ کرنے لگ جائے تو زنگ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ زنگ اس کے دل پر غالب آجاتا ہے پس یہی وہ زنگ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں ذکر ہے۔ (ترمذی، 5 / 220، حدیث: 3345)

5۔ جس آدمی نے استغفار کو لازم کرلیا اللہ اس کو ہر تنگی سے نکال دے گا، اس کے ہر غم کو دور کر دے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اس کو وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

6۔ نبی اکرم ﷺ جب کسی میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو اس کے پاس ٹھہر کر فرماتے: اپنے بھائی کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرواور اس کے ثابت قدمی کی دعا کروکیوں کہ اس وقت اس سے سوال کیا جائے گا۔

اللہ ہمیں کثرت سے توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ہمیں گناہوں سے بچائے ان سے بیزاری عطا فرمائے۔ آمین

ہمارے معاشرے میں دن بدن گناہوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ بدترین بدحالی کا شکار ہے اگر ہم توبہ و استغفار کریں اور اللہ پاک کی پاکی بیان کریں تو الله کی رضا کے ساتھ بہت سے فوائد حاصل ہوں گے اور توبہ واستغفار کے بہت سے فوائد ہیں، مثلاً اس سے اللہ پاک راضی ہوتا ہے۔ رزق میں اضافہ ہوتا ہے تنگ ستی دور ہوتی ہے حضور ﷺ ہمیں بیدار کرتے تھے اور حضور اکرم ﷺ نے اس کے فضائل و برکات بھی بیان فرمائے آپ بھی پڑھیے۔چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے رسول ﷺ کو فرماتے سنا: میں ہر دن اللہ سے ستر سے زیادہ مرتبہ توبہ و استغفار کرتا ہوں۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک میں ایک دن میں سو مرتبہ توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ (ابن ماجہ، 4/256، حدیث: 3815)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ اپنے بندے کی تو بہ پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا بندہ جس نے جنگل میں اپنا اونٹ گم ہونے کے بعد پالیا۔ (بخاری، 4/190، حدیث: 6308)

اللہ رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والا تو بہ کرے اور دن میں گناہ کرنے والا تو بہ کرے یہ سلسلہ سورج کے مغرب سے نکلنے تک ہے۔ (مسلم، ص 1131، حدیث: 6989)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! دنیا کی فانی زندگی چند روزہ مطلب و خود غرضی کی زندگی ہے جس کی تمام آسائشیں اور لذتیں فانی ہیں انسان ان پر فریفتہ ہو کر اللہ کی ناراضگی کے کاموں میں مصروف رہتا ہے اور یہ انتہائی کم درجے کی نادانی ہے شیطان انسان کو لمبی امیدوں میں ڈال کر معصیتوں اور گناہوں میں مبتلا کر کےتوبہ استغفار سے غافل کر دیتا ہے اور یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ جو ایمان پر ثابت قدم رہتے ہوئے توبہ اور استغفار کرتا ہے اس کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے اور وہی کامیاب و کامران ہوتا ہے خالقِ کائنات نے اہلِ ایمان کو اعمال صالحہ پر استقامت کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کا بھی حکم فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا: وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱) (پ 18، النور: 31) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو تم سب مل کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

سچی توبہ کو توبہ و نصوح بھی کہتے ہیں جس کے متعلق ارشاد خداوندی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ- (پ 28، التحریم: 8) ترجمہ: اے ایمان والوں! اللہ کی بارگاہ میں ایسی توبہ کرو کہ آئندہ کے لیے نصیحت ہو جائے۔ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا اجتماعی توبہ کرنا جائز ہے اور چاہیے کہ ہر مسلمان توبہ کرے چاہے گناہگار ہو یا نیکوکار، یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ کے سبب انسان ایمان سے باہر نہیں نکل سکتا چونکہ وہ لوگ جو احکام میں کوتاہی کر چکے تھے رب تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں انہیں ایمان والا کہہ کر توبہ کا حکم فرمایا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سچی توبہ ہونی چاہیے کہ ایسی توبہ گناہوں کی معافی اور جنت میں داخلے کا سبب ہے۔

ندامت اور شرمندگی بھی توبہ ہے: انسان کو اگر خلافِ شریعت کام کرنے پر شرمندگی اور ندامت ہو جائے تو یہ بھی توبہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ندامت توبہ ہے۔(ابن ماجہ، 4/492، حدیث: 4252)

توبہ و استغفار کے فوائد:

1۔ توبہ کرنے والوں کے لیے بہترین جزا کا ذکر کرتے ہوئے اللہ پاک نے فرمایا: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى (پ 11، ہود: 3) ترجمہ: اور کہ اپنے رب سے معافی مانگوپھر اس کی طرف توبہ کرو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔

2۔ اللہ کی رحمت کے دروازے ہر اس بندے کے لیے کھلے ہیں جو اس کی بارگاہ میں استغفار کرے، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: اللہ رات بھر اپنے دست رحمت پھیلائے رکھتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والا رات میں توبہ کرے اور دن بھر دست رحمت پھیلائے رہتا ہے کہ رات میں گناہ کرنے والا دن میں توبہ کرے یہاں تک کہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو جائے۔ (مسلم، ص 1131، حدیث: 6989)

3۔ جو لوگ توبہ کرتے ہیں پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں گناہوں سے بچتے اور صالح اعمال انجام دیتے ہیں انہیں بے شمار رحمتیں اور برکتیں نصیب ہوتی ہیں ایسے لوگوں کو اللہ وہاں سے روزی عطا فرماتا ہے جہاں ان کا گمان نہیں غموں سے نجات دے کر غیب سے رزق عطا فرماتا ہے۔ ارشادِ باری ہے: وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ- (پ 28، الطلاق: 3،4) ترجمہ کنز الایمان: جواللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا اور وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو۔

4۔ توبہ اللہ کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے، فرمان مصطفی ﷺ ہے: اگر کوئی شخص جنگل میں اپنی سواری پر ہو اور وہ سواری اس سے گم ہو جائے جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو پھر وہ تلاش کے بعد مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے میں لے جائیں اچانک وہ واری اس کے پاس کھڑی ہو تو اس سے کس قدر خوشی ہوگی جب اللہ کا بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔ (بخاری، 4/190، حدیث: 6308)

ارشادِ باری ہے: وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى(۸۲) (پ 16، طہ: 82) ترجمہ: یقیناً جب کسی نے توبہ کی اور ایمان لائے اور اچھا کام کیا پھر ہدایت پر رہا میں اسے خوب بخشنے والا ہوں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں علم نافع عطا فرمائے۔ آمین

استغفر الله کا مطلب ہے مولا مجھے بخش دے۔ بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ گناہ کے بعد استغفار یعنی توبہ کرے اور آئندہ گناہ سے بچنے کی کوشش اور گناہ سے بچنے کے لئے اللہ پاک سے دعا مانگے بے شک الله قبول کرنے والا مہربان ہے۔ الله پاک فرماتا ہے کہ اسے بندو! تم دن اور رات میں گناہ کرتے ہو تو میں تمہارے گناہوں کو بخشنے والا ہوں پس تم مجھ سے بخشش طلب کرو میں بندے کی توبہ قبول کرنے والا ہوں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ بندہ جب ایک گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے پھر اگر توبہ کرے اور اس گناہ سے باز آجائے اور استغفار کرے تو اس کا دل چمکا دیا جاتا ہے اور اگر وہ مزید گناہ کرے تو اس سیاہی میں اضافہ کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر غلاف آجاتا ہے یہ وہی ”رین“ ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ (ترمذی، 5/220، حدیث: 3345)

2۔ جب ابلیس نے کہا کہ اے اللہ! مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو اس وقت تک بہکاتا رہوں گا جب تک ان کی رو حیں ان کے جسم میں رہیں گی تو اللہ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگنے رہیں گے میں ان کی مغفرت کرتا رہوں گا۔ (مسند امام احمد، 4/58، حدیث: 11337)

3۔ ایک روایت میں ہے: اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! تمہیں گناہ گار ہو مگر جسے میں نے بچا لیا، لہذا مجھ سے مغفرت کا سوال کرو، میں تمہاری مغفرت فرما دوں گا اور تم میں سے جس نے یقین کر لیا کہ میں بخش دینے پر قادر ہوں پھر مجھ سے میری قدرت کے وسیلہ سے استغفار کیا تو میں اس کی مغفرت فرما دوں گا۔ (ابن ماجہ، 4 /495، حدیث: 4257)

4۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے! اگر تم گناہ کرنا چھوڑ دو تو الله تمہیں لے جائے گا اور ایسی قوم کو لائے گا جو گناہ کرے گی اور الله سے مغفرت چاہے گی اور الله ان کی مغفرت فرمادے گا۔ (مسلم، ص 1128، حدیث: 2749)

5۔ بےشک تانبے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء یعنی (صفائی) استغفار کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقا ﷺ کا فرمان دلنشین ہے: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء (یعنی صفائی) استغفار کرتا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575 )

حدیث مبارکہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے بہرہ مند ہونے والے خوش نصیب لوگ کون ہونگے؟ فرمایا: اے ابوہریرہ! میرا گمان یہی تھا کہ تم سے پہلے مجھ سے یہ بات کوئی نہ پوچھے گا کیونکہ میں حدیث سننے کے معاملہ میں تمہاری حرص کو جانتا ہوں، قیامت کے دن میری شفاعت پانے والا خوش نصیب وہ ہوگا جو صدق دل سے لااله الا الله کی گواہی دے گا۔ (بخاری، 1/53، حدیث: 99)

حضرت عبد الله بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پیارے آقا ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4 / 257، حدیث 3818)

پیاری اسلامی بہنو! جہاں استغفار کے اتنےفضائل ہیں وہیں اس کے برکات و فوائد بھی بے شمار ہیں۔ حدیث مبارکہ سے استغفار کےفضائل آپ کے پیش خدمت ہیں اب استغفار کے فوائد ملاحظہ کیجئے:

1۔ حدیث مبارکہ: جوہر فرض نماز کے بعد دس مرتبہ سورۃ اخلاص پوری پڑھے گا اللہ پاک اُس کیلئے اپنی رضا اور مغفرت لازم فرما دے گا۔ (در منثور، 1/678)

2۔ حدیث مبارکہ: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اُس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گمان بھی نہ ہوگا (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819) سبحان اللہ اس حدیث مبارکہ میں استغفار کے بے شمار فوائد بیان ہوئے ہیں۔ استغفار کرنےوالےکی پریشانی دور ہوتی ہے اس کے رزق میں برکت ہوتی ہے۔ یقیناً استغفار کے بے شمار فوائد احادیث مبارکہ میں ذکر کیے گئے ہیں۔ استغفار کرنے والے کی توبہ قبول ہوتی ہے، استغفار کرنے والے کے گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں، استغفار کرنے والے کو اللہ کی رضا نصیب ہوتی ہے، استغفار کرنے والے کی تنگی دور ہوتی ہے۔ استغفار کرنے والے کو راحت ملتی ہے۔ استغفار کرنے والے کی مغفرت لازم ہو جاتی ہے۔ استغفار کرنے والے کے دل میں استغفار کے ذریعے الله کا خوف پیدا ہوتا۔ استغفار کرنے والے کو بے شمار نعمتیں ملتی ہیں اور جنت میں اُس کے لیے خوشخبری ہے۔ استغفار کرنے سے انسان کا دل اللہ کی عبادت میں مشغول رہتا ہے۔ استغفار کرنے سے انسان کے دل میں دوسرے مسلمانوں کے لیے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ استغفار کرنے والے کو اُس کے نامہ اعمال بھی خوش کریں گے۔ استغفار کرنے والا جب تک استغفار کرتا رہتا ہے تب تک وہ اللہ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ ہے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم، رسول اکرم ﷺ کا فرمان مسرت نشان ہے: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اُسے خوش کرے تو اُسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/347، حدیث:17579)

جب بھی ہم لوگ کوئی گناہ کریں تو ہمیں اس پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے اس گناہ سے فوراً توبہ کر لینی چاہیے۔ ہمیشہ تو بہ و استغفار کرتے رہنا چاہیے اور بیشک اللہ توبہ قبول فرمانے والا ہے لیکن تو بہ بھی پکی سچی نیت کے ساتھ ہی کرنی چاہیے ایسی ترکیب بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے کہ ابھی تو بہ کی اور بعد میں پھر سے اسی گناہ میں مبتلا ہو گئے، ویسے تو اللہ توبہ قبول فرمانے والا ہے پر ہمیں دل سے توبہ کرنی چاہیے اور دل سے یقین ہونا چاہے کہ میرا اللہ میری توبہ ضرور قبول فرمائے گا۔ ہمیں بالکل بھی شک میں مبتلا نہیں ہونا بس اپنے الله پاک کی ذات پر یقین کامل رکھنا چاہیے خود بھی اور دوسروں کو بھی گناہوں پر توبہ و استغفار کی ترغیب دلاتے رہنا چاہیے۔

ارشاد خداوندی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ- (پ 28، التحریم: 8) ترجمہ: اے ایمان والوں! اللہ کی بارگاہ میں ایسی توبہ کرو کہ آئندہ کے لیے نصیحت ہو جائے۔

ارشادِ خداوندی ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) (پ 3، آل عمران: 135) ترجمہ: اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے۔

ایک اور مقام پر خالقِ کائنات ارشاد فرماتا ہے: پارہ 2 سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 222 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) (پ 2، البقرۃ: 222) ترجمہ: بے شک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔

الله اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ گناہوں سے ایسی توبہ کرے جیسی توبہ کرنے کا حق ہے اور اللہ سے ویسی توبہ کرنے کی توفیق بھی مانگتا رہے جیسی توبہ اس کی بارگاہ میں مقبول اور پسندیدہ ہے۔ قرآن کریم کے پارہ 2 سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 222 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) ترجمہ: بے شک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔اب فرامینِ مصطفیٰ ﷺ بھی ملاحظہ فرما لیجیے:

فرامین مصطفیٰ:

1۔ الله پاک اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری جنگل میں گم ہونے کے بعد مل گئی ہو۔ (بخاری، 4/190، حدیث: 6308)

2۔ اگر تم اتنی خطائیں کرو کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر توبہ کرو تو اللہ پاک ضرور تمہاری توبہ قبول فرمائے گا۔(ابن ماجہ، 4/ 490، حدیث: 4248)

3۔ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے وہ شخص جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 4/491، حدیث: 4250)

4۔ بے شک لوہے کی طرح دِلوں کو بھی زَنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء (یعنی صفائی) اِستِغفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

5۔ جو اِس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اُسے خوش کرے تو اُسے چاہئے کہ اِستِغفار میں اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/437، حدیث:18089)

لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ پاک کی بارگاہ میں خوب خوب توبہ و استغفار کو لازم کر لیں جس کی برکت سے ہمارے دل نرم ہو جائیں، دلوں کا زنگ دور ہو جائے۔ استغفار کرنے سے گناہوں کی معافی کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے فوائد ملتے ہیں۔

اللہ ہمیں سابقہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور آئندہ گناہوں سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: توبہ ایک بہت بڑی نعمت ہے توبہ کے معنی: نافرمانی کو چھوڑنا ہے، جس کی معصیت یعنی نافرمانی کی ہے اس یعنی اللہ کریم سے نئے سرے سے فرمانبرداری کرنے کا وعدہ کر کے اس کو راضی کرنا۔ توبہ و استغفار کے ضروری ہونے کی دو وجوہات ہیں:

پہلی وجہ یہ ہے کہ توبہ کی برکت سے عبادت کی توفیق نصیب ہوگی کیونکہ گناہوں کا بوجھ نیکیوں میں آسانی اور عبادات میں لذت سے رکاوٹ بنتا ہے اور لگاتار گناہ کیے جانا دلوں کو کالا کر دیتا ہے اگر خدا نخواستہ اللہ پاک کی رحمت شامل حال نہ ہو تو گناہ بندے کو کفر و بدبختی تک لے جاتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ تیری عبادت قبول ہو بے شک قرض خواہ قبول نہیں کرتا بلکہ اپنے قرض کا مطالبہ کرتا ہے یوں ہی اللہ کی نافرمانی سے توبہ کرنا اور اللہ کریم کو راضی کرنا فرض یعنی لازم و ضروری ہے۔ (منہاج العابدین، ص 19)

سچی توبہ یہ ہے کہ بندہ کیے ہوئے گناہ پر شرمندہ ہو کر توبہ کرے اور وہ گناہ چھوڑ دے اور آئندہ اس گناہ سے بچنے کا پکا عہد کرے بہرحال مرنے سے پہلے پہلے رب کو منانا چاہیے۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں استغفار کی فضیلت پڑھئے، چنانچہ

1۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زَنگ لگ جاتا ہےاور اس کی جِلاء ( یعنی صفائی )اِستِغْفار کرنا ہے۔ ( مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

2۔ پریشانیوں اور تنگیوں سے نَجات: جس نے اِستِغفارکو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اُس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گُمان بھی نہ ہو گا۔(ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

3۔ خوش کرنے والا اعمال نامہ: جو اِس با ت کو پسند کرتاہے کہ اس کا نامۂ اعمال اُسے خوش کرے تو اُسے چاہیے کہ اس میں اِستِغفارکا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/347، حدیث: 17579)

4۔ خوشخبری! خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنے نامۂ اعمال میں اِستِغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)


اسلام بطور دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے مسلمانوں کو بامقصد زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ بتایا ہے۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا یعنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی،صحیح اور غلط کی آگاہی دی،اب یہ انسانی عقل پر منحصر ہے کہ وہ نیکی کرتا ہے یا گناہ لیکن انسان خطا کا پتلا ہے اور اللہ ہمیشہ اپنے بندوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرتا ہے اس لئے اس نے مسلمانوں کے لیے ہدایت کا راستہ بھی کھلا رکھا ہے تاکہ اگر کوئی مسلمان گناہ کا مرتکب ہوجائے تو توبہ و استغفار سے فلاح کا راستہ پاسکے۔

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰) (پ 29، المزمل: 20) ترجمہ: اور اللہ سے بخشش مانگو بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ استغفار کے حوالے سے روایات میں ہے کہ

1۔ جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

2۔ جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/347، حدیث: 17570)

3۔ خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)

4۔ اگر تم اتنی خطائیں کرو کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر توبہ کرو گے تو اللہ پاک ضرور تمہاری توبہ قبول فرمائے گا۔ (ابنِ ماجہ، 4/490، حدیث: 4248)

5۔ بےشک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء ( صفائی ) استغفار کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

اس سے معلوم ہوا کہ استغفار کرنے میں بے شمار دینی اور دنیاوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں کثرت کے ساتھ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

ارشادِ باری ہے: وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ (پ 29، نوح: 12) ترجمہ: استغفار کرنے پر وہ تمہارے مال میں اضافہ فرمائے گا۔ اللہ پاک نے سورہ نوح کی آیت نمبر 12 میں استغفار کے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: بنین یعنی جو استغفار کرے گا اللہ اسے اولاد نرینہ کی نعمت سے نوازے گا۔

استغفار کی فضیلت:

1۔ حضرتِ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کا فرمانِ دلنشین ہے: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائیگا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

2۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: دلوں پر لوہے کی طرح زنگ چڑھ جاتا ہے، اس کی صفائی استغفار ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

3۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بائیں طرف والا( یعنی گناہ لکھنے پر مامور فرشتہ ) گناہ کرنے والے مسلمان کا گناہ لکھنے سے 6 گھنٹے تک قلم اُٹھائے رکھتا ہے، اگر وہ (گناہ گار شخص اس دوران) اپنے کئے پر نادم ہو جائے اور اللہ سے توبہ و استغفار کر لے تو وہ فرشتہ گناہ نہیں لکھتا، اگر توبہ نہ کرے تو ( ایک گناہ کے بدلے) ایک گناہ لکھ لیتا ہے۔ (معجم كبير، 8/185،حدیث: 7765) نیکی لکھنے پر مامور فرشتہ تو نیکی فوراً لکھ لیتا ہے، جبکہ گناہ لکھنے پر مامور فرشتہ 6 گھنٹے تک گناہ کی ایف آئی آر درج نہیں کرتا اور مسلسل انتظار کرتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اس مہلت سے اگر ہم فائدہ نہ اٹھائیں تو بڑی محرومی اور بدنصیبی کی بات ہے۔

4۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: نا دم اور شرمندہ ہونا بھی تو بہ ہے۔ (ابن ماجہ، 4/492، حدیث: 4252)

5۔ فرمان خاتم الانبیاء ﷺ: بکثرت استغفار کرنے والے کو اللہ پاک ایسی جگہ سے روزی دے گا جہاں سے گمان بھی نہیں ہوگا۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

6۔ حدیث قدسی ہے: اے ابن آدم! اگر تمہارے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تیری مغفرت کر دوں گا اور مجھے کوئی پرواہ بھی نہیں ہوگی۔

7۔ خوشخبری! حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہ مدینہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث:3818)

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کثرت سے توبہ اور استغفار کرنے والوں میں شامل فرما ئے۔