استغفار کے معنی ومفہوم: استغفار کے معنی ہیں اللہ پاک سے اپنی بخشش چاہنا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم!جب تک تو مجھ سے گناہوں کی معافی مانگتا رہے گا اور مجھ سے امید رکھے گا میں تجھے بخشوں گا تو نے جو برا کام کیا ہو گا اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہوگی یعنی تو چاہے کتنا ہی بڑا گنہگار ہو تجھے بخشنا میرے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے اے ابن آدم!اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائے اور تو مجھ سے بخشش چاہے تو میں تجھ کو بخش دوں گا۔ اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہوگی۔ اے ابن آدم!اگر تو مجھ سے اس حال میں ملے کہ تیرے ساتھ گناہوں سے بھری ہوئی زمین ہو تو میں تیرے پاس بخشش مغفرت سے بھری ہوئی زمین کو لے کر آؤں گا۔ بشر طیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو۔

حالت نزع میں کی جانے والی توبہ: فرمانِ رسول ﷺ: بے شک اللہ پاک اپنے بندے کی توبہ قبول کر لیتا ہے جب تک اس پر نزع کا عالم طاری نہیں ہوتا۔ (ترمذی، 5/317، حدیث: 3548) علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ توبہ قبول ہونے کی حد ہے کہ مغرب کی سمت سے آفتاب نکلنے سے پہلے تک توبہ کا دروازہ کھلا رہے گا لہذا اس وقت جو بھی توبہ کرے گا اس کی توبہ قبول کی جائے گی لیکن اس کے بعد کی جانے والی توبہ قبول نہیں ہو گی۔

سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک توبہ کی مہلت: بے شک اللہ پاک اپنے دست رحمت کو رات کے وقت بڑھاتا ہے تاکہ دن کے وقت غلطی کرنے والا توبہ کرے اور اپنے دست رحمت کو دن کے وقت بڑھاتا ہے تاکہ رات کے وقت غلطی کرنے والا توبہ کرلے۔ یہا ں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے گا۔ (مسلم، ص 1131، حدیث: 6989)

دن میں سو بار توبہ کرنا: بے شک میں روزانہ سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ (ابن ماجہ، 4/256، حدیث: 3815)

نبی ﷺ کثرت سے توبہ اس لیے نہیں کرتے تھے کہ معاذ اللہ آپ گناہ میں مبتلا تھے کیونکہ آپ معصوم تھے بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آقاﷺ مقام عبدیت کے سب سے اونچے مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے اپنے طور پر یہ سمجھتے تھے کہ شاید مجھ سے اللہ کی بندگی و عبادت میں کوئی قصور ہو اور میں وہ بندگی نہ کرسکا ہوں جو رب زوالجلال کی شان کے لائق ہے نیز اس سے مقصود امت کو اسغفار و توبہ کی تر غیب دلانا تھا۔

اللہ پاک ہم سب کو اخلاص کے ساتھ بکثرت استغفار کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا اخلاص کے ساتھ ایمان پر خاتمہ فرمائے۔