میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: توبہ ایک بہت بڑی نعمت ہے توبہ کے معنی: نافرمانی کو چھوڑنا ہے، جس کی معصیت یعنی نافرمانی کی ہے اس یعنی اللہ کریم سے نئے سرے سے فرمانبرداری کرنے کا وعدہ کر کے اس کو راضی کرنا۔ توبہ و استغفار کے ضروری ہونے کی دو وجوہات ہیں:

پہلی وجہ یہ ہے کہ توبہ کی برکت سے عبادت کی توفیق نصیب ہوگی کیونکہ گناہوں کا بوجھ نیکیوں میں آسانی اور عبادات میں لذت سے رکاوٹ بنتا ہے اور لگاتار گناہ کیے جانا دلوں کو کالا کر دیتا ہے اگر خدا نخواستہ اللہ پاک کی رحمت شامل حال نہ ہو تو گناہ بندے کو کفر و بدبختی تک لے جاتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ تیری عبادت قبول ہو بے شک قرض خواہ قبول نہیں کرتا بلکہ اپنے قرض کا مطالبہ کرتا ہے یوں ہی اللہ کی نافرمانی سے توبہ کرنا اور اللہ کریم کو راضی کرنا فرض یعنی لازم و ضروری ہے۔ (منہاج العابدین، ص 19)

سچی توبہ یہ ہے کہ بندہ کیے ہوئے گناہ پر شرمندہ ہو کر توبہ کرے اور وہ گناہ چھوڑ دے اور آئندہ اس گناہ سے بچنے کا پکا عہد کرے بہرحال مرنے سے پہلے پہلے رب کو منانا چاہیے۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں استغفار کی فضیلت پڑھئے، چنانچہ

1۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زَنگ لگ جاتا ہےاور اس کی جِلاء ( یعنی صفائی )اِستِغْفار کرنا ہے۔ ( مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

2۔ پریشانیوں اور تنگیوں سے نَجات: جس نے اِستِغفارکو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اُس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گُمان بھی نہ ہو گا۔(ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

3۔ خوش کرنے والا اعمال نامہ: جو اِس با ت کو پسند کرتاہے کہ اس کا نامۂ اعمال اُسے خوش کرے تو اُسے چاہیے کہ اس میں اِستِغفارکا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/347، حدیث: 17579)

4۔ خوشخبری! خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنے نامۂ اعمال میں اِستِغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)