ندامتِ قلب کے ساتھ ہمیشہ کیلئے گناہ سے رک جانا تو بہ ہے جبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا استغفار ہے۔ تو بہ اصل ہے جبکہ تو بہ کی طرف جانے والا راستہ استغفار ہے۔ اللہ نے سورہ ہود میں توبہ سے قبل استغفار کا حکم فرمایا ہے، ارشادِ ربانی ہے: هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ- (پ 12، ہود: 61) ترجمہ: اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کاقبول کرنے والا ہے۔

گویا گنا ہوں سے باز آنا، آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا اور صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونا تو بہ ہے جبکہ اللہ سے معافی طلب کرنا، گناہوں کی بخشش مانگنا اور بارگاہ الٰہی میں گریہ و زاری کر کے اپنے رب کو منانا استغفار ہے۔

سچی توبہ: سچی توبہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو اللہ کی نافرمانی جان کر اس کے کرنےپر شرمندہ ہوتے ہوئے رب سے معافی مانگے اور آئندہ کے لئے اس گناہ سے بچنے کا پکّا ارادہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کے لئے کوشش کرے، مثلاً نماز قضا کی تھی تو اب ادا بھی کرے،چوری کی تھی یا رِشوت لی تھی تو بعد ِ توبہ وہ مال اصل مالک یا اس کے وُرَثاءکو واپس کرے یا معاف کروالے اور اگر اصل مالک یا وُرَثاء نہ ملیں تو ان کی طرف سے راہِ خدا میں اس نیّت سے صدقہ کر دے کہ وہ لوگ جب ملے اور صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوئے تو اپنے پاس سے انہیں واپس دوں گا۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جب کوئی بندہ اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ کو اس توبہ کرنے والے پر، اس آدمی سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جو جنگل میں سواری پر آرام کے لئے سوجائے اس دوران سواری کہیں اور چلی جائے جس پر اس کا کھانا اور پانی ہو۔ وہ جب بیدار ہو تو اپنی سواری کونہ پائے اور مایوس ہوکر ایک درخت کے سائے میں لیٹ جائے۔ جس وقت وہ سواری سے مایوس ہوکر لیٹا ہوا ہو پھر اچانک سواری اس کے پاس واپس آجائے اور وہ اس کی لگام پکڑے اور خوشی کی شدت سے یہ کہے۔ اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں یعنی شدتِ مسرت کی وجہ سے الفاظ الٹ ہوجائیں۔ (بخاری، 4/190، حدیث: 6308)

2۔ اللہ فرماتا ہے: اے آدم کے بیٹے! جب تک تم مجھ سے دعا کرتے رہو گے اور مجھ سے امیدیں وابستہ رکھو گے میں تم کو معاف کرتا رہوں گا جو گناہ بھی تم نے کئے ہوں گے اور مجھے کچھ پرواہ نہیں (تم نے کتنے گناہ کئے)۔ اے آدم کے بیٹے، اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تم مجھ سے معافی طلب کرو تو میں تمہیں معاف کردوں گا اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ اے آدم کے بیٹے، اگر تم زمین کے برابر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملاقات کرو لیکن جب تیری مجھ سے ملاقات ہو تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں تیرے پاس ان گناہوں کے برابر بخشش کے ساتھ آؤں گا۔

3۔ اس آدمی کی (آخرت کی زندگی) نہایت عمدہ ہے جس نے اپنے اعمال میں کثرت کے ساتھ استغفار لکھا ہوا پایا۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)

4۔ ایماندار آدمی جب گناہ کرتا ہے تو گناہ کا سیاہ نقطہ اس کے دل پر نمودار ہوجاتا ہے۔ اگر وہ توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ مزید گناہ کرنے لگ جائے تو زنگ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ زنگ اس کے دل پر غالب آجاتا ہے پس یہی وہ زنگ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں ذکر ہے۔ (ترمذی، 5 / 220، حدیث: 3345)

5۔ جس آدمی نے استغفار کو لازم کرلیا اللہ اس کو ہر تنگی سے نکال دے گا، اس کے ہر غم کو دور کر دے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اس کو وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

6۔ نبی اکرم ﷺ جب کسی میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو اس کے پاس ٹھہر کر فرماتے: اپنے بھائی کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرواور اس کے ثابت قدمی کی دعا کروکیوں کہ اس وقت اس سے سوال کیا جائے گا۔

اللہ ہمیں کثرت سے توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ہمیں گناہوں سے بچائے ان سے بیزاری عطا فرمائے۔ آمین