اسلام بطور دین ایک مکمل ضابطہ حیات جو مسلمانوں کو بامقصد زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ بتاتا۔اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا یعنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی،صحیح اور غلط کی آگاہی دی،اب یہ انسانی عقل پر منحصر ہے کہ وہ نیکی کرتا ہے یا گناہ۔ لیکن انسان خطا کا پتلا ہے اور اللہ ہمیشہ اپنے بندوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرتا ہے اس لئے اس نے مسلمانوں کے لیے ہدایت کا راستہ بھی کھلا رکھا ہے تاکہ اگر کوئی مسلمان گناہ کا مرتکب ہوجائے تو توبہ و استغفار سے فلاح کا راستہ پاسکے۔

اللہ تبارک وقرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰) (پ 29، المزمل: 20) ترجمہ: اور اللہ سے بخشش مانگو بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں استغفار کے بے شمار فضائل ہیں چند ملاحظہ فرمائیے:

1۔ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان جنت نشان ہے: جس شخص کے نامہ اعمال میں بہت زیادہ استغفار ہو تو اس کے لئے طوبیٰ (خوشخبری) ہے۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)

2۔ حضرت انس سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء ( صفائی ) استغفار کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد،10/346، حدیث: 17575)

3۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی کو دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257،حديث: 3819)

4۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت کہ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اس بات کو پسند کرتا ہے اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد،10/347، حدیث:17579)

استغفار کے فوائد:

ہمارا دین ہمیں گناہوں سے بچنے کا درس دیتا ہے۔لہذا اگر خلوص نیت کے ساتھ توبہ و استغفار کی جائے تو بارگاہ الہی میں یہ قبولیت کا درجہ پاتی ہے اور گناہوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اللہ پاک توبہ و استغفار کرنے والے پر رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔

ہمارے پیارے آقا ﷺ کا عمل مبارک خود بھی کثرت استغفار تھا، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی وفات سے پہلے یہ کلمات کثرت سے پڑھتے، سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہ، اَسْتَغْفِرُ اللہِ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ یعنی اللہ پاک ہے اور اپنی حمدوثنا کے ساتھ، میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

اللہ پاک ہم سب کو اپنے حضور عاجزی و انکساری، خشوع و خضوع کے ساتھ صدق دل سے توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

استغفار کے لغوی معنی مغفرت طلب کرنا ہے اور مغفرت گناہ کے شر سے بچنے کو کہتے ہیں۔ دین اسلام میں استغفار کی بڑی اہمیت ہے اور قرآن کریم میں بہت ساری آیتیں موجود ہیں جو مغفرت و استغفار کے بارے میں بتاتی ہیں۔ کچھ آیتیں اس کے بارے میں حکم دیتی ہیں کچھ اس کی طلب کے بارے میں ہیں اور کچھ اس کی تعریف بیان کرتی ہیں۔ سورۃ المزمل میں رب کریم نے مومنوں کو اس بارے میں حکم دیا: وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰) (پ 29، المزمل: 20) ترجمہ: اور اللہ سے بخشش مانگو بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کے تحت وہ دانستہ یا نادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے۔ بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تویہ غلطی اس کے خالق ومالک کو اس سے ناراض کردے گی۔ اس سےاپنے معبود ومالک کی ناراضگی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ فوری طور پر اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہوکر گڑگڑاتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتےہوئے توبہ کرتا ہے کہ اے مالک الملک اس مرتبہ معاف کردے آئندہ میں ایسا کبھی نہ کروں گا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ہر انسان خطا کار ہے، یعنی ہر انسان گناہ کرتا ہے، کوئی نہ کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے، اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ یعنی جن لوگوں سے گناہ ہوگیا اور انہوں نے اپنے گناہ سے توبہ کرلی، یہ سب سے بہترین لوگ ہیں۔ اگر انسان گناہ سے توبہ نہیں کرتا بلکہ بار بار گناہ کرتا رہتاہے تو اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔

ارشاد باری ہے: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى (پ 11، ہود: 3) ترجمہ: اور کہ اپنے رب سے معافی مانگوپھر اس کی طرف توبہ کرو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔

حضرت بلال بن یسار بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مندرجہ ذیل کلمات کے ذریعہ اللہ رب العزت سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے گا تو اسے ضرور معاف کردیا جائے گا، اگرچہ وہ میدانِ جہاد سے بھاگا ہوا ہی کیوں نہ ہو:استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھوا الحی القیوم واتوب الیہ ترجمہ: میں اللہ رب العزت سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ ہمیشہ سے زندہ اور قائم ہے اور میں اسی سے توبہ کرتا ہوں۔ (ترمذی، 5/ 336، حدیث: 3588)

توبہ و اِستغفار کے فوائد:

(1) اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

(2)جو اِستغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

(3)اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

(4) جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلا دیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں )کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔(الترغیب والترہیب، 4/48، رقم:17)

کئی پریشانیوں کا ایک ہی وظیفہ: حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے خشک سالی کی شکایت کی، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اِستغفار کرنے کا حکم دیا، دوسرا شخص آیا، اس نے تنگ دستی کی شکایت کی تو اسے بھی یہی حکم فرمایا، پھر تیسرا شخص آیا، اُس نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا، پھر چوتھا شخص آیا، اس نے اپنی زمین کی پیداوار کم ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا۔حضرت رَبیع بن صبیح رحمۃ اللہ علیہ وہاں حاضر تھے انہوں نے عرض کی: آپ کے پاس چند لوگ آئے اور انہوں نے مختلف حاجتیں پیش کیں، آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ اِستغفار کرو؟ تو آپ نے ان کے سامنے یہ آیات پڑھیں(جن میں اِستغفار کو بارش، مال، اولاد اور باغات کے عطا ہونے کا سبب فرمایا گیا ہے)۔

معروف معانی میں توبہ گناہوں کی آلودگی سے احکامِ الٰہیہ کی اطاعت و فرمانبردای کی طرف ظاہری اور باطنی طور پر رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا(۷۱) (پ 19، الفرقان: 71) ترجمہ: اور جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھا۔ توبہ کا ایک معنی نادم و پشیمان ہونا بھی ہے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے: (گناہ پر) پشیمان ہونا توبہ ہے۔

توبہ کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے حضور غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: اتباعِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس میں یکسوئی اختیار کر لو پھر اپنا آپ، حتیٰ کہ سب کچھ اللہ کے سپرد کر دو اور اپنے قلب کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ اس میں احکاماتِ الٰہیہ کے علاوہ اور کوئی چیز داخل ہی نہ ہو سکے اور ہر اس چیز کو اپنے قلب میں جاگزیں کر لو جس کا تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے اور ہر اس شے کا داخلہ بند کر دو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور جن خواہشات کو تم نے اپنے قلب سے نکال پھینکا ہے ان کو دوبارہ کبھی داخل نہ ہونے دو۔ (فتوح الغیب، ص 15)

الله رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰) (پ 5، النساء: 110) ترجمہ:اور جو کوئی برا کام کرے تو یا اپنی جان پر ظلم کرے تو پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔(مشکاۃ المصابیح،1/ 434، حدیث:2323)

پیاری اسلامی بہنو! اللہ کریم کے سارے ہی انبیائے کرام علیہمُ السَّلام معصوم ہیں، وہ گناہوں سے پاک ہیں اور رسولِ اکرم جنابِ محمدِ مصطفےٰ ﷺ تو سب انبیاء و رُسُل کے سردار ہیں۔ علمائے کرام و محدثینِ عظام نے حضور نبیِّ کریم ﷺ کے اِستغفار کرنے (یعنی مغفرت مانگنے) کی مختلف حکمتیں بیان فرمائی ہیں چنانچہ

نبیِّ کریم ﷺ کےاِستِغفَار کرنے کی حکمتیں: علّامہ بدرُالدّین عَیْنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبیِّ کریم ﷺ بطورِ عاجزی یا تعلیمِ اُمّت کیلئے اِستِغفَار کرتے تھے۔(عمدۃ القاری، 15/413، تحت الحدیث: 6307ملخصاً)

علّامہ ابنِ بطّال مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: انبیائے کرام علیہمُ السَّلام ( کسی گناہ پر نہیں بلکہ )لوگوں میں سب سے زیادہ شکر گزاری و عبادت گزاری کے باوجود اللہ پاک کا کما حقّہ حق ادا نہ ہوسکنے پر اِستِغفَار کرتے ہیں(شرح بخاری لابن بطال، 10/77)

امام محمدغزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبیِّ کریم ﷺ ہمیشہ بلند درجات کی طرف ترقی فرماتے ہیں اور جب آپ ﷺ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرتے تو اپنے پہلے حال پر اِستِغفَار کرتے ہیں۔ (فتح الباری، 12/85، تحت الحدیث:6307)

حکیمُ الاُمّت مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں: توبہ و استغفار روزے نماز کی طرح عبادت بھی ہے اسی لئے حضور انور ﷺ اس پر عمل کرتے تھے ورنہ حضور انور ﷺ معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا۔ (مراۃ المناجیح، 3/353 ملخصاً)

پیاری اسلامی بہنو!اللہ کریم کے سب سے مقبول ترین بندے یعنی دونوں جہاں کے سلطان محمد مصطفےٰ ﷺ تو گناہوں سے پاک ہونے کے باوجود ہماری تعلیم کے لئے اِستغفار کریں اور ایک ہم ہیں کہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہونے کے باوجود اِستغفار کی کمی رکھیں، ہمیں چاہئے کہ اللہ کی بارگاہ میں خوب خوب توبہ و استغفار کرتے رہیں۔ اِستغفار کرنے سے گناہوں کی معافی کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی فوائد ملتے ہیں جن میں سے چند فوائد ملاحظہ ہوں:

توبہ و اِستغفار کے فوائد:

(1) اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ پارہ 2 سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 222 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) ترجمہ: بے شک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔

(2)جو اِستغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔ (ابو داود، 2/122، حدیث:1518)

(3)اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔ (مجمع البحرین، 4/272، حدیث:4739)

(4)جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلادیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں )کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔ (الترغیب والترہیب، 4/48، رقم:17)

( 5)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہوجاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ ”رین“ ہے جس کا ذکر اللہ نے قرآن کریم میں کیا ہے۔ (ترمذی، 5 / 220، حدیث: 3345)

دل کے پتھر ہونے کی وجہ گناہ ہیں، گناہ اور پتھردلی کا علاج استغفار اور توبہ ہے۔

( 6)سیدنا ابو موسی عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

اللہ، رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کر لے، اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے۔ (یہ سلسلہ روزانہ چلتا رہے گا) حتی کہ سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ (مسلم، ص 1131، حدیث: 6989)

(7) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مغرب سے سورج طلوع ہونے (یعنی آثار قیامت نمودار ہونے) سے پہلے پہلے توبہ کرلے گا، اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1112، حدیث: 2703)

سچی توبہ: سچی توبہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو اللہ کی نافرمانی جان کر اس کے کرنےپر شرمندہ ہوتے ہوئے رب سے معافی مانگے اور آئندہ کے لئے اس گناہ سے بچنے کا پکّا ارادہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کے لئے کوشش کرے، مثلاً نماز قضا کی تھی تو اب ادا بھی کرے،چوری کی تھی یا رِشوت لی تھی تو بعد ِ توبہ وہ مال اصل مالک یا اس کے وُرَثاءکو واپس کرے یا معاف کروالے اور اگر اصل مالک یا وُرَثاء نہ ملیں تو ان کی طرف سے راہِ خدا میں اس نیّت سے صدقہ کر دے کہ وہ لوگ جب ملے اور صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوئے تو اپنے پاس سے انہیں واپس دوں گا۔(ماخوذ ازفتاویٰ رضویہ، 21/121)

توبہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے: پیاری اسلامی بہنو! توبہ و اِستغفارکی تمام تر اہمیت اور فضائل کے باوجود بعض بدنصیب نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر توبہ و اِستغفار کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ توبہ کا موقع ملنا بھی بہت بڑی سعادت کی بات ہے بہت سے لوگوں کو توبہ کا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ بغیر توبہ کئے اس دارِ فانی سے چلے جاتے ہیں، موت کا کوئی بھروسا نہیں اس لئے ہمیں بھی بکثرت توبہ و اِستِغفار کرنی چاہئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین


توبہ و استغفار سے مراد یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو اللہ کی نافرمانی جان کر اس کے کرنے پر شرمندہ ہوتے ہوئے رب سے معافی مانگے اور آئندہ کے لئے اس گناہ سے بچنے کا پکّا ارادہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کے لئے کوشش کرے، مثلاً نماز قضا کی تھی تو اب ادا بھی کرے،چوری کی تھی یا رِشوت لی تھی تو بعد ِ توبہ وہ مال اصل مالک یا اس کے وُرَثاءکو واپس کرے یا معاف کروا لے اور اگر اصل مالک یا وُرَثاء نہ ملیں تو ان کی طرف سے راہِ خدا میں اس نیّت سے صدقہ کر دے کہ وہ لوگ جب ملے اور صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوئے تو اپنے پاس سے انہیں واپس دوں گا۔

اِستِغْفار کے فضائل احادیث کی روشنی میں:

(1)دِلوں کے زَنگ کی صفائی: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زَنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جِلاء ( یعنی صفائی )اِستِغْفار کرنا ہے۔ ( مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

(2) پریشانیوں اور تنگیوں سے نَجات: جس نے اِستِغفارکو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اُس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گُمان بھی نہ ہو گا۔(ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

(3) خوش کرنے والا نامہ اعمال: جو اِس با ت کو پسند کرتاہے کہ اس کا نامۂ اعمال اُسے خوش کرے تو اُسے چاہیے کہ اس میں اِستِغفارکا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/347، حدیث: 17579)

(4) خوشخبری: حضرت عبدُ اللہ بن بُسْر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہِ مدینہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنے نامۂ اعمال میں اِستِغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)

(5)جنّت کی بشارت:

حضرت شَدّادبن اَوس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ المُرسَلین ﷺ نے فرمایا کہ یہ سیِّدُ الْاِسْتِغفار ہے: اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّی لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِی وَاَنَاعَبدُكَ وَاَنَا عَلٰی عَهدِكَ وَ وَعدِكَ مَا استَطَعتُ اَعُوذُبِكَ مِن شَرِّ مَا صَنَعتُ اَبُوءُلَكَ بِنِعمَتِكَ عَلَیَّ وَاَبُوءُبِذَنبِی فَاغفِرلِی فَاِنَّهٗ لَايَغفِرُالذُّنُوبَ اِلَّااَنتَ۔

ترجمہ:اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو نے مجھے پیدا کیا میں تیرا بندہ ہوں اور بقدر طاقت تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں میں اپنے کیے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں مجھے بخش دے کہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔

جس نے اسے دن کے وقت ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر اسی دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔ (بخاری، 4/ 190،189، حدیث: 6306)

(6)گناہ پر ندامت: حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَلنَّدَمُ تَوْبَة (گناہ پر) پشیمان ہونا توبہ ہے۔(ابن ماجہ، 4/492، حدیث: 4252)

(7) استغفار قربت ِالہی کا سبب ہے: ارشادِ باری ہے: هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ- (پ 12، ہود: 61) ترجمہ: اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کاقبول کرنے والا ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! توبہ و اِستغفارکی تمام تر اہمیت اور فضائل کے باوجود بعض لوگ بدنصیب نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر توبہ و اِستغفار کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ توبہ کا موقع ملنا بھی بہت بڑی سعادت کی بات ہے بہت سے لوگوں کو توبہ کا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ بغیر توبہ کئے اس دارِ فانی سے چلے جاتے ہیں، موت کا کوئی بھروسا نہیں اس لئے ہمیں بھی بکثرت توبہ و اِستِغفار کرنی چاہئے اور توبہ کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) (پ 3، آل عمران: 135) ترجمہ: اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے۔

استغفار کے بے شمار فوائد ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

1۔ استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے، ارشادِ باری ہے: وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰) (پ 5، النساء: 110) ترجمہ:اور جو کوئی برا کام کرے تو یا اپنی جان پر ظلم کرے تو پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔

2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مغرب سے سورج طلوع ہونے (یعنی آثار قیامت نمودار ہونے) سے پہلے پہلے توبہ کرلے گا اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1112، حدیث: 2703)

3۔ استغفار گناہوں کے مٹانے اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ جب جنت میں نیک بندے کے درجہ کو بلند فرمائے گا تو بندہ عرض کرے گا: پروردگار یہ مرتبہ مجھے کیسے ملا؟ اللہ فرمائے گا: تیرے لئے تمہارے بچوں کے استغفار کے سبب۔ (مسند امام احمد، 3/584، حدیث: 10715)

4۔ استغفار بارش کے نزول مال و اولاد کی ترقی اور دخولِ حنت کا سبب ہے۔

5۔ استغفار ہر طرح کی طاقت وقوت کی زیادتی کا ذریعہ ہے۔

6۔ استغفار سامانِ زندگی کا سبب ہے۔

7۔ استغفار بندے کے دنیاوی واخروی عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بندہ عذاب الہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ استغفار کرتا رہتا ہے۔

8۔ استغفار نزولِ رحمت کا سبب ہے۔

9۔ استغفار دلوں کی صفائی کا ذریعہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے اگر وہ گناہ چھوڑکر توبہ واستغفار کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگرگناہ پرگناہ کئے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل پر چھاجاتی ہے یہی وہ ”رین “ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ (ترمذی، 5 / 220، حدیث: 3345)

10۔ استغفار قربت ِالہی کا سبب ہے۔

سچی توبہ: سچی توبہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو اللہ کی نافرمانی جان کر اس کے کرنے پر شرمندہ ہوتے ہوئے رب سے معافی مانگے اور آئندہ کے لئے اس گناہ سے بچنے کا پکّا ارادہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کے لئے کوشش کرے، مثلاً نماز قضا کی تھی تو اب ادا بھی کرے،چوری کی تھی یا رِشوت لی تھی تو بعد ِ توبہ وہ مال اصل مالک یا اس کے وُرَثاءکو واپس کرے یا معاف کروالے اور اگر اصل مالک یا وُرَثاء نہ ملیں تو ان کی طرف سے راہِ خدا میں اس نیّت سے صدقہ کر دے کہ وہ لوگ جب ملے اور صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوئے تو اپنے پاس سے انہیں واپس دوں گا۔

توبہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے: پیارے اسلامی بھائیو! توبہ و اِستغفارکی تمام تر اہمیت اور فضائل کے باوجود بعض بدنصیب نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر توبہ و اِستغفار کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ توبہ کا موقع ملنا بھی بہت بڑی سعادت کی بات ہے بہت سے لوگوں کو توبہ کا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ بغیر توبہ کئے اس دارِ فانی سے چلے جاتے ہیں، موت کا کوئی بھروسا نہیں اس لئے ہمیں بھی بکثرت توبہ و اِستِغفار کرنی چاہئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور سچی توبہ کرنے اور استغفار کو اپنا معمول بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!

1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان دلنشین ہے: بےشک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء(یعنی صفائی) استغفار ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

2۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محبوب ذوالجلال ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

3۔ حضرت زبیر بن عوام سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان مسرت نشان ہے: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/ 347، حدیث: 17570)

4۔ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہ مدنیہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خوشخبری ہے اسکے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)

5۔ فرمانِ آخری نبی ﷺ اگر تم اتنی خطائیں کرو کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر توبہ کرو تو اللہ پاک ضرور تمہاری توبہ قبول فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 4/ 490، حدیث: 4248)

یاد رہے کہ اولاد کے حصول، بارش کی طلب، تنگدستی سے نجات اور پیداوار کی کثرت کے لیے استغفار کرنا بہت مجرب قرآنی عمل ہے اسی سلسلے میں یہاں دو حکایات ملا حظہ ہوں،

چنانچہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ کے ملازم نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں،مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جس سے اللہ مجھے اولاد دے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:استغفار پڑھا کرواس نے استغفار کی یہاں تک کثرت کی کہ روزانہ سات سو مرتبہ استغفار پڑھنے لگا،اس برکت سے اس شخص کے ہاں دس بیٹے ہوئے۔

اسی طرح حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے بارش کی قلت کی شکایت کی، آپ رضی اللہ عنہ نے اسے استغفار کا حکم دیا،دوسرا شخص آیا اور اس نے تنگدستی کی شکایت کی تو اسے بھی یہی حکم فرمایا،پھر تیسرا شخص اور اس نے نسل کم ہونے کی شکایت کی تو اسے بھی یہی حکم فرمایا۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں استغفار کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے میں بے شمار دینی اور دنیاوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں:

استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰) (پ 5، النساء: 110) ترجمہ:اور جو کوئی برا کام کرے تو یا اپنی جان پر ظلم کرے تو پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔

استغفار گناہوں کو مٹانے اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک جب جنت میں نیک بندے کے درجے بلند فرمائے گا تو بندہ عرض کرے گا اے پروردگار عالم مجھے یہ مرتبہ کیسے ملا اللہ پاک فرمائے گا: تیرے لیے تیرے بچوں کے استغفار کے سبب۔

استغفار بارش کے نزول مال و اولاد کی ترقی اور دخول جنت کا سبب ہے۔

استغفار ہر طرح کی طاقت اور قوت کی زیادتی کا ذریعہ ہے۔

استغفار سامان زندگی کا سبب ہے باری تعالیٰ ہے: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى (پ 11، ہود: 3) ترجمہ: اور کہ اپنے رب سے معافی مانگوپھر اس کی طرف توبہ کرو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔

استغفار کے معنی ہیں گزشتہ گناہوں کی معافی مانگنا استغفار غفر سے بنا ہے، چھپانا یا چھلکا و پوست وغیرہ چونکہ استغفار کی برکت سے گناہ ڈھک جاتے ہیں اس لیے اسے استغفار کہتے ہیں۔ مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تو بہ و استغفار نماز روزے کی طرح عبادت ہے اس لیے آپ ﷺ بکثرت توبہ استغفار کیا کرتے تھے ورنہ آپ ﷺ معصوم ہیں گناہ آپ ﷺ کے قریب بھی نہیں آ تا، صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ ہم لوگ گناہ کر کے توبہ کرتے ہیں اور وہ حضرات عبادت کر کے توبہ کرتے ہیں

زاھداں از گناہ توبہ کنند

عار فان از عبادت استغفار

یعنی زاہد گناہ کی وجہ سے توبہ کرتے ہیں اور عارف لوگ عبادت کر کے استغفار کرتے ہیں، پھرآپ ﷺ کا یہ عمل تعلیم امت کے لیے تھا۔ (مراة المناجیح، 3/353)

جب میں دنیا سے پردہ کر لوں گا تو ان میں قیامت تک کے لیے استغفار چھوڑ دوں گا۔ (مراۃ المناجیح، 3/547)

حدیث: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

حدیث: حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/348، حدیث: 18089)

حدیث: حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ سید الاستغفار ہے: اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّی لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِی وَاَنَاعَبدُكَ وَاَنَا عَلٰی عَهدِكَ وَ وَعدِكَ مَا استَطَعتُ اَعُوذُبِكَ مِن شَرِّ مَا صَنَعتُ اَبُوءُلَكَ بِنِعمَتِكَ عَلَیَّ وَاَبُوءُبِذَنبِی فَاغفِرلِی فَاِنَّهٗ لَايَغفِرُالذُّنُوبَ اِلَّااَنتَ۔

ترجمہ:اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو نے مجھے پیدا کیا میں تیرا بندہ ہوں اور بقدر طاقت تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں میں اپنے کیے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں مجھے بخش دے کہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔

جس نے اسے دن کے وقت ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر اسی دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔ (بخاری،4/ 190، حدیث:6306)

توبہ کی بڑی فضیلت ہے ہمیں بھی روزانہ کم از کم ستر مرتبہ توبہ استغفار کرنی چاہیے کہ آپ ﷺ نے بھی ستر مرتبہ توبہ استغفار فرمایا۔ استغفار سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں اللہ بھی خوش ہوتا ہے اور یہ آپ ﷺ کی سنت بھی ہے۔

 استغفار کا معنی: طلبِ مغفرت، توبہ، گناہوں کی معافی کیلئے دعا کرنا، بخشش طلب کرنا، خدا کی پناہ۔

احادیث مبارکہ:

1۔ خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔ اور اسکی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/434، حدیث: 2323)

پیاری اسلامی بہنو! اللہ کریم کے سارے ہی انبیاءمعصوم ہیں وہ گناہوں سے پاک ہیں اور رسول پاک ﷺ تو سب نبیوں کے سردار ہیں۔ علمائے کرام و محدثین عظام نے حضور نبی کریم ﷺکے استغفار کرنے (یعنی مغفرت مانگنے) کی مختلف حکمتیں بیان فرمائی ہیں، چنانچہ علامہ بدرالدين عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ بطور عاجزی یا تعلیم اُمت کے لیے استغفار کرتے تھے۔ (عمدۃالقاری، 15/413)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: توبہ استغفار، روزے، نماز کی طرح عبادت بھی ہے۔ اسی لیے حضور انورﷺاس پر عمل کرتے تھے ورنہ حضور اکرم ﷺ معصوم ہیں گناہ آپﷺ کے قریب بھی نہیں آتا تھا۔ (مراۃالمناجیح، ج3/353)

استغفار کے فوائد: اللہ رب العزت قرآن مجید فرقان حمید میں پارہ 2 سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 222 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) ترجمہ: بے شک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔

جو استغفار کو لازم کر لے اللہ اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی عطا فرما دے گا جہاں سے اسکا گمان بھی نہ ہو۔ (ابو داود، 4/122، حدیث: 1518)

استغفار سے دلوں کا زنگ دور ہو جاتا ہے۔ (مجمع البحرین، 4/272، حدیث: 4739)

جب بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللہ لکھنے والے فرشتوں کو اسکے گناہ بھلا دیتا ہے۔ اسی طرح اسکے اعضاء کو بھی بھلا دیتا ہے۔ اور زمین سے اسکے نشانات بھی مٹا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ کی طرف سے اسکے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔ (الترغیب و الترہیب، 4/48، رقم:17)

آخر میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کا صدقہ عطا فرما کر ہمیں زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گناہوں کو در گزر فرمائے اور پیارے آقا ﷺ کی ساری امت کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

استغفار کے لُغوی معنی مغفرت طلب کرنا ہیں۔ مغفرت گناہ کے شر سے بچنے کو کہتے ہیں۔ استغفار و توبہ دونوں لازم و ملزوم ہیں لیکن ان میں معمولی سا فرق پایا جاتا ہے۔ استغفار احساسِ ندامت کے ساتھ سابقہ گناہوں سے معافی مانگنے جبکہ توبہ آئندہ کیلئے ہمیشہ گناہ چھوڑنے کے پختہ ارادے کا نام ہے۔

ارشادِ ربّ الانام ہے: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى (پ 11، ہود: 3) ترجمہ: اور کہ اپنے رب سے معافی مانگوپھر اس کی طرف توبہ کرو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔

قرآنِ پاک کی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی استغفار کے فضائل و فوائد بیان ہوئے ہیں، چنانچہ

1)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لے تو الله اس کیلئے ہر تنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات دے گا اور وہاں سے اسے رزق دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

2) اس کیلئے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامۂ اعمال میں بہت استغفار پائے۔ (مجمع الزوائد، 10/437، حدیث:18089)

3) میرے دل پر پردہ آتا رہتا ہے حالانکہ میں دن میں سو بار استغفار پڑھتا ہوں۔ (مراۃ المناجیح، 3/548) یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ پیارے آقا ﷺ معصوم ہیں ان کا استغفار کرنا اُمّت کی تعلیم اور تکمیلِ بندگی کیلئے ہے۔

4) جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے، جب وہ اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور توبہ و استغفار کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ پھر گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بڑھتا ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ (ترمذی، 5 / 220، حدیث: 3345)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ غم سے نجات، رزق میں برکت اور دلوں کی صفائی وغیرہ کیلئے استغفار کو لازم پکڑنا چاہیے۔

نوٹ: استغفار کے متعلق یہ بات قابلِ غور ہے کہ بعض گناہ ایسے ہیں جو محض استغفار سے معاف نہیں ہوتے بلکہ انسان کے ذمہ کچھ حقوق واجب ہوتے ہیں جنہیں ادا کرنا استغفار کی تکمیل کیلئے ضروری ہے، مثلاً کسی کے ذمہ قضا نمازیں، روزے، گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ وغیرہ ہو تو استغفار سے ان کو مؤخر کرنے کا گناہ تو معاف ہو جائے گا لیکن ان کی ادائیگی بندہ کے ذمہ واجب ہی رہے گی۔

الله رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور کثرتِ استغفار کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰) (پ 29، المزمل: 20) ترجمہ: اور اللہ سے بخشش مانگو بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ استغفار کرنا ایک ایسا پیارا عمل ہے کہ اس پر انبیائے کرام علیہم السلام کے سردار دو عالم کے مالک و مختار ﷺ کا عمل رہا اس کے علاوہ بزرگان دین بھی اس پر کاربند رہے اور آپ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے رہے۔

مراۃ المناجیح میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول ملتا ہے کہ ہم لوگوں کے لیے دنیا میں دو امانیں ہیں: ایک نے پردہ فرمالیا اور دوسری قیامت تک ہمارے پاس ہے یعنی نبی کریم ﷺ اور استغفار۔ (مراۃ المناجیح، 3/547)

استغفار کے معنی معافی مانگنا، بخشش طلب کرنا ہیں۔ استغفار کے بے شمار فضائل و فوائد اور برکتیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی استغفار فرمایا اور اس کے فضائل بھی بیان فرمائے ان میں سے چند احادیث طیبہ پیش کی جاتی ہیں:

1۔ پیارے آقا ﷺ کی استغفار کے متعلق عادت کریمہ: اللہ کی قَسَم! میں ایک دن میں 70 مرتبہ سے بھی زیادہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ وا ِستِغفَار کرتا ہوں۔ (بخاری، 4/190، حدیث: 6307)

ہمارے پیارے آقا ﷺ سمیت تمام انبیاء معصوم ہیں یہ حضرات معصوم ہونے کے باوجود استغفار فرماتے۔ علمائے کرام نے آپ ﷺ کے استغفار فرمانے کی کئی وجوہات بیان فرمائیں جن میں سے ایک قول یہ ملتا ہے کہ استغفار کرنا ایک عبادت ہے اس لیے ہمارے آقا ﷺ اس پر عمل فرماتے تھے۔

2۔ استغفار کے فوائد: جو استغفار کو اپنے پر لازم کرلے توﷲاس کے لیے ہرتنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات دے گا اور وہاں سے اسے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)یعنی اس طرح کہ گناہ کرے یا نہ کرے روزانہ استغفار کے کلمے زبان سے ادا کیا کرے۔ بہتر یہ ہے کہ نماز فجر کے وقت سنت فجر کے بعد فرض سے پہلے ستر بار پڑھا کرے کہ یہ وقت استغفار کے لیے بہت ہی موزوں ہے۔

3۔ استغفار کا سردار: استغفار کا سردار یہ ہے کہ تم کہو الٰہی تو میرا رب ہے،تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا، میں تیرا بندہ ہوں اور بقد ر طاقت تیرے عہدوپیمان پر قائم ہوں میں اپنے کئے کی شر سے تیری پناہ مانگتا ہو تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اقراری ہوں مجھے بخش دے،تیرے سواء گناہ کوئی نہیں بخش سکتا حضور نے فرمایا کہ جو یقین قلبی کے ساتھ دن میں یہ کہہ لے پھر اسی دن شام سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا اور جو یقین دل کے ساتھ رات میں یہ کہہ لے پھر صبح سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا۔ (بخاری،4/ 190، حدیث:6306)

4۔ اس کے لئے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔ (مجمع الزوائد، 10/437، حدیث:18089)

5۔ شعبان کی پندرہویں رات استغفار کرنے کی فضیلت ملاحظہ ہو، چنانچہ ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں شب میں اپنے بندوں پر خاص تجلی فرماتا ہے، جو استغفار کرتے ہیں ان کی مغفرت کرتا ہے اور جو رحم کی درخواست کرتے ہیں ان پر رحم کرتا ہے اور عداوت والوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 3/382، حدیث: 3835)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں استغفار کرتے رہنے کی سعادت نصیب فرمائے اور ہمیں گناہوں سےخود بھی بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

حدیث مبارکہ میں استغفار کے فضائل و فوائد بے شمار بیان کیے گئے ہیں یہاں ان میں سے کچھ احادیث ملاحظہ ہوں۔

1۔ خدا کی قسم! میں دن میں 70 سے زیادہ مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/434، حدیث: 2323)

2۔ اللہ جب جنت میں نیک بندے کے درجے کو بلند فرمائے گا تو بندہ عرض کرے گا اللہ یہ مرتبہ مجھے کیسے ملا؟ اللہ فرمائے گا: تیرے لیے تمہارے بچوں کے استغفار کے سبب۔ (مسند امام احمد، 3/584، حدیث: 10715)

3۔ بندہ عذاب الہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ استغفار کرتا رہتا ہے۔

4۔ ایک اور مقام پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: مومن بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے اگر وہ گناہ چھوڑ کر توبہ و استغفار کر لیتا ہے اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر گناہ پر گناہ کیے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل پر چھا جاتی ہے یہی وہ رین ہے جس کا ذکر قران مجید میں ہے کہ دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے۔ (ترمذی، 5 / 220، حدیث: 3345)

5۔ ایک حدیث پاک میں ہے: جو استغفار کو لازم پکڑ لے اللہ پاک اس کے تمام مشکلوں میں آسانی فرماتا، ہر غم سے آزادی دیتا اور وہاں سے روزی عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔ (ابو داود، 2/122، حدیث: 1518)

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنے والا بنا دے۔

توبہ اور استغفار میں فرق: ندامتِ قلب کے ساتھ ہمیشہ کے لئے گناہ سے رُک جانا توبہ ہے جبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا استغفار ہے توبہ اصل ہے جبکہ توبہ کی طرف جانے والا راستہ استغفار ہے۔

دِلوں کے زنگ کی صفائی: نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور اس کا جِلاء یعنی صفائی استغفار کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف لوہے کو ہی زنگ نہیں لگتا بلکہ ہمارے دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور یہ زنگ گناہوں کے دلدل میں پھنسنے سے ہی لگتا ہے اور اس زنگ کو دور کرنے کے لئے بہترین دعا توبہ و استغفار ہے۔

پریشانیوں اور تنگدستیوں سے نجات: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اُس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث:3819)

جس طرح پہلی حدیث سے پتا چلا کہ استغفار کرنے سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے اور جب ہمارے دلوں کا زنگ دور ہوگا اس سے ہماری زیادہ توجہ نیکیوں کی طرف ہو گی اور اللہ ہم سے خوش ہوگا پھر ہماری پریشانیاں اور تنگدستیاں دور کرے گا اور پھر ہمیں ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے ہمارا ظن گماں بھی نہ ہوگا اور یہ سب استغفار کرنے کی بدولت ملے گا۔

توبہ و استغفار کے دُنیوی و اُخروی فوائد:

1۔ توبہ و استغفار کرنے سے اللہ بے پناہ خوش ہوتا ہے۔

2۔ توبہ و استغفار کرنے سے خوش حال زندگی نصب ہو گی۔

3۔ توبہ و استغفار کرنے سے طاقت و قوت ملے گی۔

4۔ توبہ و استغفار کرنے سے مال ملے گا۔

5۔ توبہ و استغفار کرنے سے اولاد نصیب ہو گی۔

6۔ مبارکبادی ہے اس شخص کے لیے جس کے نامہ اعمال میں استغفار زیادہ ہو۔

خوش کرنے والا اعمال نامہ: حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ کا فرمان مسرت ہے: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اُسے خوش کرے تو اُسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/347، حدیث:17579)

اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ دنیا میں استغفار کا اضافہ کریں اور اپنے نامہ اعمال کو نیکیوں سے بھر لیں تاکہ آخرت میں ہمارا بیڑا پار ہو۔

گناہ پر ندامت، گناہ کو مٹا دیتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4/492، حدیث: 4252)

اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ پاک ہمیں نیک کام کرنے اور کثرت سے استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ