استغفار کے لُغوی معنی مغفرت طلب کرنا ہیں۔ مغفرت گناہ کے شر سے بچنے کو کہتے ہیں۔ استغفار و توبہ دونوں لازم و ملزوم ہیں لیکن ان میں معمولی سا فرق پایا جاتا ہے۔ استغفار احساسِ ندامت کے ساتھ سابقہ گناہوں سے معافی مانگنے جبکہ توبہ آئندہ کیلئے ہمیشہ گناہ چھوڑنے کے پختہ ارادے کا نام ہے۔

ارشادِ ربّ الانام ہے: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى (پ 11، ہود: 3) ترجمہ: اور کہ اپنے رب سے معافی مانگوپھر اس کی طرف توبہ کرو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔

قرآنِ پاک کی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی استغفار کے فضائل و فوائد بیان ہوئے ہیں، چنانچہ

1)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لے تو الله اس کیلئے ہر تنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات دے گا اور وہاں سے اسے رزق دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

2) اس کیلئے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامۂ اعمال میں بہت استغفار پائے۔ (مجمع الزوائد، 10/437، حدیث:18089)

3) میرے دل پر پردہ آتا رہتا ہے حالانکہ میں دن میں سو بار استغفار پڑھتا ہوں۔ (مراۃ المناجیح، 3/548) یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ پیارے آقا ﷺ معصوم ہیں ان کا استغفار کرنا اُمّت کی تعلیم اور تکمیلِ بندگی کیلئے ہے۔

4) جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے، جب وہ اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور توبہ و استغفار کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ پھر گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بڑھتا ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ (ترمذی، 5 / 220، حدیث: 3345)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ غم سے نجات، رزق میں برکت اور دلوں کی صفائی وغیرہ کیلئے استغفار کو لازم پکڑنا چاہیے۔

نوٹ: استغفار کے متعلق یہ بات قابلِ غور ہے کہ بعض گناہ ایسے ہیں جو محض استغفار سے معاف نہیں ہوتے بلکہ انسان کے ذمہ کچھ حقوق واجب ہوتے ہیں جنہیں ادا کرنا استغفار کی تکمیل کیلئے ضروری ہے، مثلاً کسی کے ذمہ قضا نمازیں، روزے، گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ وغیرہ ہو تو استغفار سے ان کو مؤخر کرنے کا گناہ تو معاف ہو جائے گا لیکن ان کی ادائیگی بندہ کے ذمہ واجب ہی رہے گی۔

الله رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور کثرتِ استغفار کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین