1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان دلنشین ہے: بےشک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء(یعنی صفائی) استغفار ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

2۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محبوب ذوالجلال ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

3۔ حضرت زبیر بن عوام سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان مسرت نشان ہے: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/ 347، حدیث: 17570)

4۔ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہ مدنیہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خوشخبری ہے اسکے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)

5۔ فرمانِ آخری نبی ﷺ اگر تم اتنی خطائیں کرو کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر توبہ کرو تو اللہ پاک ضرور تمہاری توبہ قبول فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 4/ 490، حدیث: 4248)

یاد رہے کہ اولاد کے حصول، بارش کی طلب، تنگدستی سے نجات اور پیداوار کی کثرت کے لیے استغفار کرنا بہت مجرب قرآنی عمل ہے اسی سلسلے میں یہاں دو حکایات ملا حظہ ہوں،

چنانچہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ کے ملازم نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں،مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جس سے اللہ مجھے اولاد دے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:استغفار پڑھا کرواس نے استغفار کی یہاں تک کثرت کی کہ روزانہ سات سو مرتبہ استغفار پڑھنے لگا،اس برکت سے اس شخص کے ہاں دس بیٹے ہوئے۔

اسی طرح حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے بارش کی قلت کی شکایت کی، آپ رضی اللہ عنہ نے اسے استغفار کا حکم دیا،دوسرا شخص آیا اور اس نے تنگدستی کی شکایت کی تو اسے بھی یہی حکم فرمایا،پھر تیسرا شخص اور اس نے نسل کم ہونے کی شکایت کی تو اسے بھی یہی حکم فرمایا۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں استغفار کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے میں بے شمار دینی اور دنیاوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں:

استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰) (پ 5، النساء: 110) ترجمہ:اور جو کوئی برا کام کرے تو یا اپنی جان پر ظلم کرے تو پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔

استغفار گناہوں کو مٹانے اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک جب جنت میں نیک بندے کے درجے بلند فرمائے گا تو بندہ عرض کرے گا اے پروردگار عالم مجھے یہ مرتبہ کیسے ملا اللہ پاک فرمائے گا: تیرے لیے تیرے بچوں کے استغفار کے سبب۔

استغفار بارش کے نزول مال و اولاد کی ترقی اور دخول جنت کا سبب ہے۔

استغفار ہر طرح کی طاقت اور قوت کی زیادتی کا ذریعہ ہے۔

استغفار سامان زندگی کا سبب ہے باری تعالیٰ ہے: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى (پ 11، ہود: 3) ترجمہ: اور کہ اپنے رب سے معافی مانگوپھر اس کی طرف توبہ کرو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔