استغفار کے لغوی معنی مغفرت طلب کرنا ہے اور مغفرت گناہ کے شر سے بچنے کو کہتے ہیں۔ دین اسلام میں استغفار کی بڑی اہمیت ہے اور قرآن کریم میں بہت ساری آیتیں موجود ہیں جو مغفرت و استغفار کے بارے میں بتاتی ہیں۔ کچھ آیتیں اس کے بارے میں حکم دیتی ہیں کچھ اس کی طلب کے بارے میں ہیں اور کچھ اس کی تعریف بیان کرتی ہیں۔ سورۃ المزمل میں رب کریم نے مومنوں کو اس بارے میں حکم دیا: وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰) (پ 29، المزمل: 20) ترجمہ: اور اللہ سے بخشش مانگو بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کے تحت وہ دانستہ یا نادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے۔ بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تویہ غلطی اس کے خالق ومالک کو اس سے ناراض کردے گی۔ اس سےاپنے معبود ومالک کی ناراضگی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ فوری طور پر اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہوکر گڑگڑاتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتےہوئے توبہ کرتا ہے کہ اے مالک الملک اس مرتبہ معاف کردے آئندہ میں ایسا کبھی نہ کروں گا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ہر انسان خطا کار ہے، یعنی ہر انسان گناہ کرتا ہے، کوئی نہ کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے، اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ یعنی جن لوگوں سے گناہ ہوگیا اور انہوں نے اپنے گناہ سے توبہ کرلی، یہ سب سے بہترین لوگ ہیں۔ اگر انسان گناہ سے توبہ نہیں کرتا بلکہ بار بار گناہ کرتا رہتاہے تو اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔

ارشاد باری ہے: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى (پ 11، ہود: 3) ترجمہ: اور کہ اپنے رب سے معافی مانگوپھر اس کی طرف توبہ کرو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔

حضرت بلال بن یسار بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مندرجہ ذیل کلمات کے ذریعہ اللہ رب العزت سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے گا تو اسے ضرور معاف کردیا جائے گا، اگرچہ وہ میدانِ جہاد سے بھاگا ہوا ہی کیوں نہ ہو:استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھوا الحی القیوم واتوب الیہ ترجمہ: میں اللہ رب العزت سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ ہمیشہ سے زندہ اور قائم ہے اور میں اسی سے توبہ کرتا ہوں۔ (ترمذی، 5/ 336، حدیث: 3588)

توبہ و اِستغفار کے فوائد:

(1) اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

(2)جو اِستغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

(3)اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

(4) جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلا دیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں )کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔(الترغیب والترہیب، 4/48، رقم:17)

کئی پریشانیوں کا ایک ہی وظیفہ: حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے خشک سالی کی شکایت کی، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اِستغفار کرنے کا حکم دیا، دوسرا شخص آیا، اس نے تنگ دستی کی شکایت کی تو اسے بھی یہی حکم فرمایا، پھر تیسرا شخص آیا، اُس نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا، پھر چوتھا شخص آیا، اس نے اپنی زمین کی پیداوار کم ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا۔حضرت رَبیع بن صبیح رحمۃ اللہ علیہ وہاں حاضر تھے انہوں نے عرض کی: آپ کے پاس چند لوگ آئے اور انہوں نے مختلف حاجتیں پیش کیں، آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ اِستغفار کرو؟ تو آپ نے ان کے سامنے یہ آیات پڑھیں(جن میں اِستغفار کو بارش، مال، اولاد اور باغات کے عطا ہونے کا سبب فرمایا گیا ہے)۔