استغفار کا معنی: طلبِ مغفرت، توبہ، گناہوں کی معافی کیلئے دعا کرنا، بخشش طلب کرنا، خدا کی پناہ۔

احادیث مبارکہ:

1۔ خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔ اور اسکی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/434، حدیث: 2323)

پیاری اسلامی بہنو! اللہ کریم کے سارے ہی انبیاءمعصوم ہیں وہ گناہوں سے پاک ہیں اور رسول پاک ﷺ تو سب نبیوں کے سردار ہیں۔ علمائے کرام و محدثین عظام نے حضور نبی کریم ﷺکے استغفار کرنے (یعنی مغفرت مانگنے) کی مختلف حکمتیں بیان فرمائی ہیں، چنانچہ علامہ بدرالدين عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ بطور عاجزی یا تعلیم اُمت کے لیے استغفار کرتے تھے۔ (عمدۃالقاری، 15/413)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: توبہ استغفار، روزے، نماز کی طرح عبادت بھی ہے۔ اسی لیے حضور انورﷺاس پر عمل کرتے تھے ورنہ حضور اکرم ﷺ معصوم ہیں گناہ آپﷺ کے قریب بھی نہیں آتا تھا۔ (مراۃالمناجیح، ج3/353)

استغفار کے فوائد: اللہ رب العزت قرآن مجید فرقان حمید میں پارہ 2 سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 222 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) ترجمہ: بے شک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔

جو استغفار کو لازم کر لے اللہ اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی عطا فرما دے گا جہاں سے اسکا گمان بھی نہ ہو۔ (ابو داود، 4/122، حدیث: 1518)

استغفار سے دلوں کا زنگ دور ہو جاتا ہے۔ (مجمع البحرین، 4/272، حدیث: 4739)

جب بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللہ لکھنے والے فرشتوں کو اسکے گناہ بھلا دیتا ہے۔ اسی طرح اسکے اعضاء کو بھی بھلا دیتا ہے۔ اور زمین سے اسکے نشانات بھی مٹا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ کی طرف سے اسکے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔ (الترغیب و الترہیب، 4/48، رقم:17)

آخر میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کا صدقہ عطا فرما کر ہمیں زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گناہوں کو در گزر فرمائے اور پیارے آقا ﷺ کی ساری امت کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ