وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) (پ 3، آل عمران: 135) ترجمہ: اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے۔

استغفار کے بے شمار فوائد ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

1۔ استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے، ارشادِ باری ہے: وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰) (پ 5، النساء: 110) ترجمہ:اور جو کوئی برا کام کرے تو یا اپنی جان پر ظلم کرے تو پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔

2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مغرب سے سورج طلوع ہونے (یعنی آثار قیامت نمودار ہونے) سے پہلے پہلے توبہ کرلے گا اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1112، حدیث: 2703)

3۔ استغفار گناہوں کے مٹانے اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ جب جنت میں نیک بندے کے درجہ کو بلند فرمائے گا تو بندہ عرض کرے گا: پروردگار یہ مرتبہ مجھے کیسے ملا؟ اللہ فرمائے گا: تیرے لئے تمہارے بچوں کے استغفار کے سبب۔ (مسند امام احمد، 3/584، حدیث: 10715)

4۔ استغفار بارش کے نزول مال و اولاد کی ترقی اور دخولِ حنت کا سبب ہے۔

5۔ استغفار ہر طرح کی طاقت وقوت کی زیادتی کا ذریعہ ہے۔

6۔ استغفار سامانِ زندگی کا سبب ہے۔

7۔ استغفار بندے کے دنیاوی واخروی عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بندہ عذاب الہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ استغفار کرتا رہتا ہے۔

8۔ استغفار نزولِ رحمت کا سبب ہے۔

9۔ استغفار دلوں کی صفائی کا ذریعہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے اگر وہ گناہ چھوڑکر توبہ واستغفار کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگرگناہ پرگناہ کئے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل پر چھاجاتی ہے یہی وہ ”رین “ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ (ترمذی، 5 / 220، حدیث: 3345)

10۔ استغفار قربت ِالہی کا سبب ہے۔

سچی توبہ: سچی توبہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو اللہ کی نافرمانی جان کر اس کے کرنے پر شرمندہ ہوتے ہوئے رب سے معافی مانگے اور آئندہ کے لئے اس گناہ سے بچنے کا پکّا ارادہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کے لئے کوشش کرے، مثلاً نماز قضا کی تھی تو اب ادا بھی کرے،چوری کی تھی یا رِشوت لی تھی تو بعد ِ توبہ وہ مال اصل مالک یا اس کے وُرَثاءکو واپس کرے یا معاف کروالے اور اگر اصل مالک یا وُرَثاء نہ ملیں تو ان کی طرف سے راہِ خدا میں اس نیّت سے صدقہ کر دے کہ وہ لوگ جب ملے اور صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوئے تو اپنے پاس سے انہیں واپس دوں گا۔

توبہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے: پیارے اسلامی بھائیو! توبہ و اِستغفارکی تمام تر اہمیت اور فضائل کے باوجود بعض بدنصیب نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر توبہ و اِستغفار کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ توبہ کا موقع ملنا بھی بہت بڑی سعادت کی بات ہے بہت سے لوگوں کو توبہ کا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ بغیر توبہ کئے اس دارِ فانی سے چلے جاتے ہیں، موت کا کوئی بھروسا نہیں اس لئے ہمیں بھی بکثرت توبہ و اِستِغفار کرنی چاہئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور سچی توبہ کرنے اور استغفار کو اپنا معمول بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!