توبہ و استغفار سے مراد یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو اللہ کی نافرمانی جان کر اس کے کرنے پر شرمندہ ہوتے ہوئے رب سے معافی مانگے اور آئندہ کے لئے اس گناہ سے بچنے کا پکّا ارادہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کے لئے کوشش کرے، مثلاً نماز قضا کی تھی تو اب ادا بھی کرے،چوری کی تھی یا رِشوت لی تھی تو بعد ِ توبہ وہ مال اصل مالک یا اس کے وُرَثاءکو واپس کرے یا معاف کروا لے اور اگر اصل مالک یا وُرَثاء نہ ملیں تو ان کی طرف سے راہِ خدا میں اس نیّت سے صدقہ کر دے کہ وہ لوگ جب ملے اور صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوئے تو اپنے پاس سے انہیں واپس دوں گا۔

اِستِغْفار کے فضائل احادیث کی روشنی میں:

(1)دِلوں کے زَنگ کی صفائی: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زَنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جِلاء ( یعنی صفائی )اِستِغْفار کرنا ہے۔ ( مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

(2) پریشانیوں اور تنگیوں سے نَجات: جس نے اِستِغفارکو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اُس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گُمان بھی نہ ہو گا۔(ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

(3) خوش کرنے والا نامہ اعمال: جو اِس با ت کو پسند کرتاہے کہ اس کا نامۂ اعمال اُسے خوش کرے تو اُسے چاہیے کہ اس میں اِستِغفارکا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/347، حدیث: 17579)

(4) خوشخبری: حضرت عبدُ اللہ بن بُسْر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہِ مدینہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنے نامۂ اعمال میں اِستِغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)

(5)جنّت کی بشارت:

حضرت شَدّادبن اَوس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ المُرسَلین ﷺ نے فرمایا کہ یہ سیِّدُ الْاِسْتِغفار ہے: اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّی لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِی وَاَنَاعَبدُكَ وَاَنَا عَلٰی عَهدِكَ وَ وَعدِكَ مَا استَطَعتُ اَعُوذُبِكَ مِن شَرِّ مَا صَنَعتُ اَبُوءُلَكَ بِنِعمَتِكَ عَلَیَّ وَاَبُوءُبِذَنبِی فَاغفِرلِی فَاِنَّهٗ لَايَغفِرُالذُّنُوبَ اِلَّااَنتَ۔

ترجمہ:اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو نے مجھے پیدا کیا میں تیرا بندہ ہوں اور بقدر طاقت تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں میں اپنے کیے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں مجھے بخش دے کہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔

جس نے اسے دن کے وقت ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر اسی دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔ (بخاری، 4/ 190،189، حدیث: 6306)

(6)گناہ پر ندامت: حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَلنَّدَمُ تَوْبَة (گناہ پر) پشیمان ہونا توبہ ہے۔(ابن ماجہ، 4/492، حدیث: 4252)

(7) استغفار قربت ِالہی کا سبب ہے: ارشادِ باری ہے: هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ- (پ 12، ہود: 61) ترجمہ: اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کاقبول کرنے والا ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! توبہ و اِستغفارکی تمام تر اہمیت اور فضائل کے باوجود بعض لوگ بدنصیب نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر توبہ و اِستغفار کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ توبہ کا موقع ملنا بھی بہت بڑی سعادت کی بات ہے بہت سے لوگوں کو توبہ کا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ بغیر توبہ کئے اس دارِ فانی سے چلے جاتے ہیں، موت کا کوئی بھروسا نہیں اس لئے ہمیں بھی بکثرت توبہ و اِستِغفار کرنی چاہئے اور توبہ کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین