استغفار کے معنی ہیں گزشتہ گناہوں کی معافی مانگنا
استغفار غفر سے بنا ہے، چھپانا یا چھلکا و پوست وغیرہ چونکہ استغفار کی برکت سے
گناہ ڈھک جاتے ہیں اس لیے اسے استغفار کہتے ہیں۔ مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد
یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تو بہ و استغفار نماز روزے کی طرح عبادت
ہے اس لیے آپ ﷺ بکثرت توبہ استغفار کیا کرتے تھے ورنہ آپ ﷺ معصوم ہیں گناہ آپ ﷺ کے
قریب بھی نہیں آ تا، صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ ہم لوگ گناہ کر کے توبہ کرتے ہیں
اور وہ حضرات عبادت کر کے توبہ کرتے ہیں
زاھداں از گناہ توبہ کنند
عار فان از عبادت استغفار
یعنی زاہد گناہ کی وجہ سے توبہ کرتے ہیں اور عارف
لوگ عبادت کر کے استغفار کرتے ہیں، پھرآپ ﷺ کا یہ عمل تعلیم امت کے لیے تھا۔ (مراة
المناجیح، 3/353)
جب میں دنیا سے پردہ کر لوں گا تو ان میں قیامت تک
کے لیے استغفار چھوڑ دوں گا۔ (مراۃ المناجیح، 3/547)
حدیث: حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: جس نے استغفار کو اپنے
اوپر لازم کر لیا اللہ اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت
عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ
ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)
حدیث: حضرت زبیر بن
عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ
اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع
الزوائد، 10/348، حدیث: 18089)
حدیث: حضرت شداد بن
اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ سید الاستغفار ہے: اَللّٰهُمَّ
اَنْتَ رَبِّی لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِی وَاَنَاعَبدُكَ وَاَنَا عَلٰی
عَهدِكَ وَ وَعدِكَ مَا استَطَعتُ اَعُوذُبِكَ مِن شَرِّ مَا صَنَعتُ اَبُوءُلَكَ
بِنِعمَتِكَ عَلَیَّ وَاَبُوءُبِذَنبِی فَاغفِرلِی فَاِنَّهٗ لَايَغفِرُالذُّنُوبَ
اِلَّااَنتَ۔
ترجمہ:اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود
نہیں تو نے مجھے پیدا کیا میں تیرا بندہ ہوں اور بقدر طاقت تیرے عہد و پیمان پر
قائم ہوں میں اپنے کیے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے
اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں مجھے بخش دے کہ تیرے سوا کوئی
گناہ نہیں بخش سکتا۔
جس نے اسے دن کے وقت ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر
اسی دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔ (بخاری،4/ 190، حدیث:6306)