معروف معانی میں توبہ گناہوں کی آلودگی سے احکامِ الٰہیہ کی اطاعت و فرمانبردای کی طرف ظاہری اور باطنی طور پر رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا(۷۱) (پ 19، الفرقان: 71) ترجمہ: اور جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھا۔ توبہ کا ایک معنی نادم و پشیمان ہونا بھی ہے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے: (گناہ پر) پشیمان ہونا توبہ ہے۔

توبہ کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے حضور غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: اتباعِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس میں یکسوئی اختیار کر لو پھر اپنا آپ، حتیٰ کہ سب کچھ اللہ کے سپرد کر دو اور اپنے قلب کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ اس میں احکاماتِ الٰہیہ کے علاوہ اور کوئی چیز داخل ہی نہ ہو سکے اور ہر اس چیز کو اپنے قلب میں جاگزیں کر لو جس کا تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے اور ہر اس شے کا داخلہ بند کر دو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور جن خواہشات کو تم نے اپنے قلب سے نکال پھینکا ہے ان کو دوبارہ کبھی داخل نہ ہونے دو۔ (فتوح الغیب، ص 15)

الله رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰) (پ 5، النساء: 110) ترجمہ:اور جو کوئی برا کام کرے تو یا اپنی جان پر ظلم کرے تو پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔(مشکاۃ المصابیح،1/ 434، حدیث:2323)

پیاری اسلامی بہنو! اللہ کریم کے سارے ہی انبیائے کرام علیہمُ السَّلام معصوم ہیں، وہ گناہوں سے پاک ہیں اور رسولِ اکرم جنابِ محمدِ مصطفےٰ ﷺ تو سب انبیاء و رُسُل کے سردار ہیں۔ علمائے کرام و محدثینِ عظام نے حضور نبیِّ کریم ﷺ کے اِستغفار کرنے (یعنی مغفرت مانگنے) کی مختلف حکمتیں بیان فرمائی ہیں چنانچہ

نبیِّ کریم ﷺ کےاِستِغفَار کرنے کی حکمتیں: علّامہ بدرُالدّین عَیْنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبیِّ کریم ﷺ بطورِ عاجزی یا تعلیمِ اُمّت کیلئے اِستِغفَار کرتے تھے۔(عمدۃ القاری، 15/413، تحت الحدیث: 6307ملخصاً)

علّامہ ابنِ بطّال مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: انبیائے کرام علیہمُ السَّلام ( کسی گناہ پر نہیں بلکہ )لوگوں میں سب سے زیادہ شکر گزاری و عبادت گزاری کے باوجود اللہ پاک کا کما حقّہ حق ادا نہ ہوسکنے پر اِستِغفَار کرتے ہیں(شرح بخاری لابن بطال، 10/77)

امام محمدغزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبیِّ کریم ﷺ ہمیشہ بلند درجات کی طرف ترقی فرماتے ہیں اور جب آپ ﷺ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرتے تو اپنے پہلے حال پر اِستِغفَار کرتے ہیں۔ (فتح الباری، 12/85، تحت الحدیث:6307)

حکیمُ الاُمّت مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں: توبہ و استغفار روزے نماز کی طرح عبادت بھی ہے اسی لئے حضور انور ﷺ اس پر عمل کرتے تھے ورنہ حضور انور ﷺ معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا۔ (مراۃ المناجیح، 3/353 ملخصاً)

پیاری اسلامی بہنو!اللہ کریم کے سب سے مقبول ترین بندے یعنی دونوں جہاں کے سلطان محمد مصطفےٰ ﷺ تو گناہوں سے پاک ہونے کے باوجود ہماری تعلیم کے لئے اِستغفار کریں اور ایک ہم ہیں کہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہونے کے باوجود اِستغفار کی کمی رکھیں، ہمیں چاہئے کہ اللہ کی بارگاہ میں خوب خوب توبہ و استغفار کرتے رہیں۔ اِستغفار کرنے سے گناہوں کی معافی کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی فوائد ملتے ہیں جن میں سے چند فوائد ملاحظہ ہوں:

توبہ و اِستغفار کے فوائد:

(1) اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ پارہ 2 سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 222 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) ترجمہ: بے شک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔

(2)جو اِستغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔ (ابو داود، 2/122، حدیث:1518)

(3)اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔ (مجمع البحرین، 4/272، حدیث:4739)

(4)جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلادیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں )کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔ (الترغیب والترہیب، 4/48، رقم:17)

( 5)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہوجاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ ”رین“ ہے جس کا ذکر اللہ نے قرآن کریم میں کیا ہے۔ (ترمذی، 5 / 220، حدیث: 3345)

دل کے پتھر ہونے کی وجہ گناہ ہیں، گناہ اور پتھردلی کا علاج استغفار اور توبہ ہے۔

( 6)سیدنا ابو موسی عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

اللہ، رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کر لے، اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے۔ (یہ سلسلہ روزانہ چلتا رہے گا) حتی کہ سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ (مسلم، ص 1131، حدیث: 6989)

(7) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مغرب سے سورج طلوع ہونے (یعنی آثار قیامت نمودار ہونے) سے پہلے پہلے توبہ کرلے گا، اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1112، حدیث: 2703)

سچی توبہ: سچی توبہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو اللہ کی نافرمانی جان کر اس کے کرنےپر شرمندہ ہوتے ہوئے رب سے معافی مانگے اور آئندہ کے لئے اس گناہ سے بچنے کا پکّا ارادہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کے لئے کوشش کرے، مثلاً نماز قضا کی تھی تو اب ادا بھی کرے،چوری کی تھی یا رِشوت لی تھی تو بعد ِ توبہ وہ مال اصل مالک یا اس کے وُرَثاءکو واپس کرے یا معاف کروالے اور اگر اصل مالک یا وُرَثاء نہ ملیں تو ان کی طرف سے راہِ خدا میں اس نیّت سے صدقہ کر دے کہ وہ لوگ جب ملے اور صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوئے تو اپنے پاس سے انہیں واپس دوں گا۔(ماخوذ ازفتاویٰ رضویہ، 21/121)

توبہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے: پیاری اسلامی بہنو! توبہ و اِستغفارکی تمام تر اہمیت اور فضائل کے باوجود بعض بدنصیب نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر توبہ و اِستغفار کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ توبہ کا موقع ملنا بھی بہت بڑی سعادت کی بات ہے بہت سے لوگوں کو توبہ کا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ بغیر توبہ کئے اس دارِ فانی سے چلے جاتے ہیں، موت کا کوئی بھروسا نہیں اس لئے ہمیں بھی بکثرت توبہ و اِستِغفار کرنی چاہئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین