استغفار کے فضائل و فوائد از بنت شمس القمر، فیضان
ام عطار گلبہار سیالکوٹ
پیاری پیاری اسلامی بہنو! دنیا کی فانی زندگی چند
روزہ مطلب و خود غرضی کی زندگی ہے جس کی تمام آسائشیں اور لذتیں فانی ہیں انسان ان
پر فریفتہ ہو کر اللہ کی ناراضگی کے کاموں میں مصروف رہتا ہے اور یہ انتہائی کم
درجے کی نادانی ہے شیطان انسان کو لمبی امیدوں میں ڈال کر معصیتوں اور گناہوں میں
مبتلا کر کےتوبہ استغفار سے غافل کر دیتا ہے اور یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ جو
ایمان پر ثابت قدم رہتے ہوئے توبہ اور استغفار کرتا ہے اس کا خاتمہ ایمان پر ہوتا
ہے اور وہی کامیاب و کامران ہوتا ہے خالقِ کائنات نے اہلِ ایمان کو اعمال صالحہ پر
استقامت کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کا بھی حکم فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا: وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱) (پ 18، النور: 31) ترجمہ کنز الایمان:
اے ایمان والو تم سب مل کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
سچی توبہ کو توبہ و نصوح بھی کہتے ہیں جس کے متعلق
ارشاد خداوندی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ- (پ 28،
التحریم: 8) ترجمہ: اے ایمان والوں! اللہ کی بارگاہ میں ایسی توبہ کرو کہ آئندہ کے
لیے نصیحت ہو جائے۔ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا اجتماعی توبہ کرنا
جائز ہے اور چاہیے کہ ہر مسلمان توبہ کرے چاہے گناہگار ہو یا نیکوکار، یہ بھی
معلوم ہوا کہ گناہ کے سبب انسان ایمان سے باہر نہیں نکل سکتا چونکہ وہ لوگ جو
احکام میں کوتاہی کر چکے تھے رب تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں انہیں ایمان والا کہہ
کر توبہ کا حکم فرمایا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سچی توبہ ہونی چاہیے کہ ایسی توبہ
گناہوں کی معافی اور جنت میں داخلے کا سبب ہے۔
ندامت اور شرمندگی بھی توبہ ہے: انسان
کو اگر خلافِ شریعت کام کرنے پر شرمندگی اور ندامت ہو جائے تو یہ بھی توبہ ہے۔ نبی
کریم ﷺ نے فرمایا: ندامت توبہ ہے۔(ابن ماجہ، 4/492، حدیث: 4252)
توبہ و استغفار کے فوائد:
1۔ توبہ کرنے والوں کے لیے بہترین جزا کا ذکر کرتے
ہوئے اللہ پاک نے فرمایا: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا
رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى
اَجَلٍ مُّسَمًّى (پ 11، ہود: 3) ترجمہ: اور کہ اپنے رب سے معافی
مانگوپھر اس کی طرف توبہ کرو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔
2۔ اللہ کی رحمت کے دروازے ہر اس بندے کے لیے کھلے
ہیں جو اس کی بارگاہ میں استغفار کرے، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: اللہ رات بھر اپنے دست رحمت پھیلائے رکھتا ہے تاکہ
دن میں گناہ کرنے والا رات میں توبہ کرے اور دن بھر دست رحمت پھیلائے رہتا ہے کہ
رات میں گناہ کرنے والا دن میں توبہ کرے یہاں تک کہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو
جائے۔ (مسلم، ص 1131، حدیث: 6989)
3۔ جو لوگ توبہ کرتے ہیں پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں
گناہوں سے بچتے اور صالح اعمال انجام دیتے ہیں انہیں بے شمار رحمتیں اور برکتیں
نصیب ہوتی ہیں ایسے لوگوں کو اللہ وہاں سے روزی عطا فرماتا ہے جہاں ان کا گمان
نہیں غموں سے نجات دے کر غیب سے رزق عطا فرماتا ہے۔ ارشادِ باری ہے: وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ
یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ- (پ 28،
الطلاق: 3،4) ترجمہ کنز الایمان: جواللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال
دے گا اور وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو۔
4۔ توبہ اللہ کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے، فرمان
مصطفی ﷺ ہے: اگر کوئی شخص جنگل میں اپنی سواری پر ہو اور وہ سواری اس سے گم ہو
جائے جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو پھر وہ تلاش کے بعد مایوس ہو کر ایک درخت
کے سائے میں لے جائیں اچانک وہ واری اس کے پاس کھڑی ہو تو اس سے کس قدر خوشی ہوگی
جب اللہ کا بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔ (بخاری، 4/190،
حدیث: 6308)
ارشادِ باری ہے: وَ
اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ
اهْتَدٰى(۸۲)
(پ 16، طہ: 82) ترجمہ: یقیناً جب کسی نے توبہ کی اور ایمان لائے اور اچھا کام کیا
پھر ہدایت پر رہا میں اسے خوب بخشنے والا ہوں۔