ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ گناہوں سے ایسی توبہ کرے
جیسی توبہ کرنے کا حق ہے اور اللہ سے ویسی توبہ کرنے کی توفیق بھی مانگتا رہے جیسی
توبہ اس کی بارگاہ میں مقبول اور پسندیدہ ہے۔ قرآن کریم کے پارہ 2 سورۃ البقرہ کی
آیت نمبر 222 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ
التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) ترجمہ:
بے شک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔اب
فرامینِ مصطفیٰ ﷺ بھی ملاحظہ فرما لیجیے:
فرامین مصطفیٰ:
1۔ الله پاک اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی
زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری جنگل میں گم ہونے کے بعد مل گئی ہو۔ (بخاری، 4/190،
حدیث: 6308)
2۔ اگر تم اتنی خطائیں کرو کہ وہ آسمان تک پہنچ
جائیں پھر توبہ کرو تو اللہ پاک ضرور تمہاری توبہ قبول فرمائے گا۔(ابن ماجہ، 4/
490، حدیث: 4248)
3۔ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے وہ شخص جس
کا کوئی گناہ نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 4/491، حدیث: 4250)
4۔ بے شک لوہے کی طرح دِلوں کو بھی زَنگ لگ جاتا ہے
اور اس کی جلاء (یعنی صفائی) اِستِغفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث:
17575)
5۔ جو اِس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال
اُسے خوش کرے تو اُسے چاہئے کہ اِستِغفار میں اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/437،
حدیث:18089)
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ پاک کی بارگاہ میں خوب
خوب توبہ و استغفار کو لازم کر لیں جس کی برکت سے ہمارے دل نرم ہو جائیں، دلوں کا
زنگ دور ہو جائے۔ استغفار کرنے سے گناہوں کی معافی کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے
فوائد ملتے ہیں۔