استغفر الله کا مطلب ہے مولا مجھے بخش دے۔ بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ گناہ کے بعد استغفار یعنی توبہ کرے اور آئندہ گناہ سے بچنے کی کوشش اور گناہ سے بچنے کے لئے اللہ پاک سے دعا مانگے بے شک الله قبول کرنے والا مہربان ہے۔ الله پاک فرماتا ہے کہ اسے بندو! تم دن اور رات میں گناہ کرتے ہو تو میں تمہارے گناہوں کو بخشنے والا ہوں پس تم مجھ سے بخشش طلب کرو میں بندے کی توبہ قبول کرنے والا ہوں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ بندہ جب ایک گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے پھر اگر توبہ کرے اور اس گناہ سے باز آجائے اور استغفار کرے تو اس کا دل چمکا دیا جاتا ہے اور اگر وہ مزید گناہ کرے تو اس سیاہی میں اضافہ کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر غلاف آجاتا ہے یہ وہی ”رین“ ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ (ترمذی، 5/220، حدیث: 3345)

2۔ جب ابلیس نے کہا کہ اے اللہ! مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو اس وقت تک بہکاتا رہوں گا جب تک ان کی رو حیں ان کے جسم میں رہیں گی تو اللہ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگنے رہیں گے میں ان کی مغفرت کرتا رہوں گا۔ (مسند امام احمد، 4/58، حدیث: 11337)

3۔ ایک روایت میں ہے: اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! تمہیں گناہ گار ہو مگر جسے میں نے بچا لیا، لہذا مجھ سے مغفرت کا سوال کرو، میں تمہاری مغفرت فرما دوں گا اور تم میں سے جس نے یقین کر لیا کہ میں بخش دینے پر قادر ہوں پھر مجھ سے میری قدرت کے وسیلہ سے استغفار کیا تو میں اس کی مغفرت فرما دوں گا۔ (ابن ماجہ، 4 /495، حدیث: 4257)

4۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے! اگر تم گناہ کرنا چھوڑ دو تو الله تمہیں لے جائے گا اور ایسی قوم کو لائے گا جو گناہ کرے گی اور الله سے مغفرت چاہے گی اور الله ان کی مغفرت فرمادے گا۔ (مسلم، ص 1128، حدیث: 2749)

5۔ بےشک تانبے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء یعنی (صفائی) استغفار کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)