استغفار کے فضائل و فوائد از بنت محمد نصیر، فیضان
ام عطار گلبہار سیالکوٹ
جب بھی ہم لوگ کوئی گناہ کریں تو ہمیں اس پر
شرمندگی محسوس کرتے ہوئے اس گناہ سے فوراً توبہ کر لینی چاہیے۔ ہمیشہ تو بہ و
استغفار کرتے رہنا چاہیے اور بیشک اللہ توبہ قبول فرمانے والا ہے لیکن تو بہ بھی
پکی سچی نیت کے ساتھ ہی کرنی چاہیے ایسی ترکیب بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے کہ ابھی
تو بہ کی اور بعد میں پھر سے اسی گناہ میں مبتلا ہو گئے، ویسے تو اللہ توبہ قبول
فرمانے والا ہے پر ہمیں دل سے توبہ کرنی چاہیے اور دل سے یقین ہونا چاہے کہ میرا
اللہ میری توبہ ضرور قبول فرمائے گا۔ ہمیں بالکل بھی شک میں مبتلا نہیں ہونا بس
اپنے الله پاک کی ذات پر یقین کامل رکھنا چاہیے خود بھی اور دوسروں کو بھی گناہوں
پر توبہ و استغفار کی ترغیب دلاتے رہنا چاہیے۔
ارشاد خداوندی ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-
(پ
28، التحریم: 8) ترجمہ: اے ایمان والوں! اللہ کی بارگاہ میں ایسی توبہ کرو کہ
آئندہ کے لیے نصیحت ہو جائے۔
ارشادِ خداوندی ہے: وَ
الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ
فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ
وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) (پ 3، آل
عمران: 135) ترجمہ: اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی
جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی
مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے اور پھر جو گناہ وہ کر
بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے۔
ایک اور مقام پر خالقِ کائنات ارشاد فرماتا ہے: پارہ
2 سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 222 میں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) (پ
2، البقرۃ: 222) ترجمہ: بے شک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند
رکھتا ہے ستھروں کو۔