استغفار کے فضائل و فوائد از بنت محمد حسین، فیضان
بسم اللہ سِوِل لائن کراچی
یاد رہے کہ کسی بھی چیز کے فضائل پڑھنے کے لئے اس
کا معنی و مفہوم سمجھنا بہت ضروری ہے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے استغفار کے معنی
قلمبند کرتی ہوں۔
استغفار کے معنی ہیں اپنے گناہوں سے معافی طلب
کرنا، توبہ کرنااور توبہ کے لئے سب سے پہلے اس گناہ کا علم ہونا پھر اس پر نادم
ہونا اور پھر عزمِ ترک کرنا ضروری ہے۔
آئیں اب کچھ استغفار کے فضائل پر روشنی ڈالنے کی
کوشش کرتی ہوں، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ
تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَ(۳۱) (پ
18، النور: 31) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو تم سب مل کر اللہ کی بارگاہ میں
توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
اس آیتِ مبارکہ کے تحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ استغفار
ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے انسان اپنے دلوں سے گناہوں کی سیاہی کو دور کر کے
اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی
رحمت ﷺ کا فرمان شفقت نشان ہے: ترجمہ: بے شک تانبے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا
ہے اور اس کی جلاء (یعنی صفائی) کرنا استغفار ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث:
17575)
استغفار کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ اس کی کثرت
انسان کی پریشانیوں کو دور کرتی اور رزق میں بھی برکتیں نصیب ہوتی ہیں، جیسا کہ حضرت
عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ دو جہاں کے تاجدار، مکی مدنی سرکار ﷺ کا فرمانِ
برکت نشان ہے: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی
دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا
فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا (ابن ماجہ، 4/ 257، حدیث 3819)
استغفار ایک ایسی بہترین نیکی اور عبادت ہے جس کے
ذریعے مسلمان اپنے نامہ اعمال کو مضبوط کر سکتا ہے اور اللہ پاک سے مغفرت طلب کر
کے جنت کا بھی حقدار بن سکتا ہے۔ روایت ہے کہ سرور کونین، نانائے حسنین ﷺ نے ارشاد
فرمایا: خوشخبری ہے اس کے لئے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے لائے۔ (ابن
ماجہ، 4/ 257، حدیث: 3818)
مزید روایت ہے حضرت شدّاد بن اوس سے کہ خاتم
النبیین ﷺ کا فرمانِ شفاعت نشان ہے: اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّىْ لَآ
اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِىْ وَاَنَا عَبْدُكَ وَاَنَا عَلٰى عَهْدِكَ
وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْءُلَكَ
بِنِعْمَتِكَ عَلَىَّ اَبُوْءُ بِذَنْبِىْ فَاغْفِرْلِىْ فَاِنَّهٗ لَا يَغْفِرُ
الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ
ترجمہ: اے اللہ پاک تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا میں
تیرا بندہ ہوں اور بقدر طاقت تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے کئے کے شر سے
تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں
کا اعتراف کرتا ہوں مجھے بخش دے کہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔
جس نے اسے دن کے وقت ایمان و یقین سے پڑھا پھر اسی
دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنّتی ہے اور جس نے رات کے وقت
اِسے ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر صبح ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ
جنَّتی ہے۔(بخاری، 4/ 190، حدیث 6306)