شیخ
دانش تیمور عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان سخی سرور، ضلع ڈیرہ غازی خان،،
پاکستان)
اللہ تبارک وتعالیٰ کی پاک بارگاہ میں اپنے گناہوں کی بخشش
و مغفرت چاہتے رہنا اور استغفار کو اپنی زبان پر جاری رکھنا ایک بہترین اور بہت زیادہ
فضیلت والا عمل ہے۔
قرآن و حدیث میں کئی جگہوں پر استغفار کی ترغیب دی گئی ہے،
چنانچہ قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ
مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗؕ-
ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر
اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا برتنا(فائدہ) دے گا ایک ٹھہرائے وعدہ تک اور ہر
فضیلت والے کواس کا فضل پہنچائے گا۔(پ11، ھود:3)
مفتی اہل سنت مفتی محمد قاسم عطاری دام ظلہ اس آیت مبارکہ
کے تحت لکھتے ہیں:اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم لوگوں کو یہ حکم دیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی
مانگو اور آئندہ گناہ کرنے سے توبہ کرو تو جس نے اپنے گناہوں سے پکی توبہ کی اور
اخلاص کے ساتھ رب تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بن گیا تو اللہ تعالیٰ اسے کثیررزق
اور وسعت عیش عطا فرمائے گا جس کی وجہ سے وہ امن وراحت کی حالت میں زندگی گزارے گا
اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گا، اگر دنیا میں اسے کسی مشقت کا سامنا بھی ہوا تو
اللہ پاک کی رضا حاصل ہونے کی وجہ سے یہ اس کے درجات کی بلندی کا سبب ہو گی۔
توبہ اور استغفار میں فرق:توبہ اور استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے
معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا
عہد کر نا توبہ ہے۔
قرآن پاک کی طرح
احادیث مبارکہ میں بھی استغفار کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں،ان میں سے 5احادیث
درج ذیل ہیں:
(1) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے میری اُمّت کے لئے مجھ پر دو امن(والی آیات) اتاری ہیں، ایک: وَ مَا
كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب
تم ان میں تشریف فرما ہو۔اور دوسری: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ
وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان:اور
اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33)جب میں
اس دنیا سے پردہ کر لوں گا تو قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑ دوں گا۔(ترمذی، کتاب
التفسیر، باب ومن سورۃ الانفال، 5/56، الحدیث: 3093)
(2) حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید
المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شیطان نے کہا: اے میرے
رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں، میں
انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب
تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، مسند
ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، 4/59، الحدیث: 11244)
(3) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے،
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے
لئے ضروری قرار دیا تواللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی
جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب
الادب، باب الاستغفار، 4/257، الحدیث: 3819)
(4) حضرت عبدالله بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اس شخص کو مبارک ہو جس کے
نامہ اعمال میں بکثرت استغفار ہے۔(سنن ابن ماجہ رقم الحديث: 3818، الجامع الصغير
رقم الحديث: 3930)
ہمیں بھی اللہ پاک کے حضور اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے اور
اخلاص کے ساتھ استغفار کرتے رہنا چاہیے
اللہ کریم ہمارے گناہوں کو معاف کرے، آئندہ گناہوں سے بچنے
اور پابندی کے ساتھ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، امین۔