حافظ
روبیل (درجہ اولیٰ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
دین ہمیں گناہوں سے بچنے کا درس دیتا ہے۔لہٰذا اگر خلوصِ نیت
کے ساتھ استغفار کی جائے تو بارگاہِ الٰہی میں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں اور گناہوں
کا خاتمہ ہوتا ہے۔اب ہم استغفار کے متعلق چند احادیث مبارکہ پیش کریں گے۔
(1)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اس
کے لئے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔(مرآۃ المناجیح
شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد3 ، حدیث نمبر:2356)
(2)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
استغفار کا سردار یہ ہے کہ تم کہو الٰہی تو میرا رب ہے،تیرے سوا کوئی معبود نہیں،تو
نے مجھے پیدا کیا،میں تیرا بندہ ہوں اور بقد ر طاقت تیرے عہدوپیمان پر قائم ہوں میں
اپنے کئے کی شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں
اور اپنے گناہوں کا اقراری ہوں مجھے بخش دے،تیرے سوا گناہ کوئی نہیں بخش سکتا،
حضور نے فرمایا کہ جو یقین قلبی کے ساتھ دن میں یہ کہہ لے پھر اسی دن شام سے پہلے
مرجائے تو وہ جنتی ہوگا اور جو یقین دل کے ساتھ رات میں یہ کہہ لے پھر صبح سے پہلے
مرجائے تو وہ جنتی ہوگا۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد3 ، حدیث
نمبر:2335)
(3)رسول اﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو
استغفار کو اپنے پر لازم کرلے تواﷲاس کے لیے ہرتنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات
دے گا اور وہاں سے اسے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(مرآۃ المناجیح
شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد3 ، حدیث نمبر:2339)
(4)امام محمدغزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبیِّ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیشہ بلند درجات کی طرف ترقی فرماتے ہیں اور جب آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرتے تو اپنے
پہلے حال پر اِستِغفَار کرتے ہیں۔(فتح الباری،ج 12،ص85،تحت الحدیث:6307)
(5)علّامہ ابنِ بطّال مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
انبیائے کرام علیہمُ السَّلام (کسی گناہ پر نہیں بلکہ)لوگوں میں سب سے زیادہ شکر
گزاری و عبادت گزاری کے باوجود اللہ پاک کا کما حقّہ حق ادا نہ ہوسکنے پر
اِستِغفَار کرتے ہیں۔ (شرح بخاری لابن بطال،ج10،ص77)
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں
دنیا وآخرت کی بھلائیاں عطا فرمائے اور ہمیں کثرت سے استغفار کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اٰمین۔