انسان میں شر کی دو طاقتیں ہیں۔ایک انسانی نفس یہ اندرونی اور دوسرا شیطان یہ بیرونی طاقت ہے، یہ دونوں طاقتیں انسان کو گناہوں کی طرف لے جاتی ہیں، اس لیے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان سے کچھ نہ کچھ غلطیاں اور گناہ صادر ہوجاتے ہیں کیوں کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔سوائے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والتسلیمات کے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں، ان سے کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا، نبوت سے پہلے بھی اور نبوت کے بعد بھی انبیاء کی جماعت معصوم ہوتی ہے، یہ معزز گھرانے کے افراد ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا بطور خاص انتخاب فرماتا ہے، یہ ہمارا متفقہ عقیدہ ہے۔

انبیا کی تخلیق ہی ایسی ہے کہ وہ ان دونوں شر کی طاقتوں سے محفوظ ہوتے ہیں، انہیں جو نفس عطا کیا جاتا ہے، وہ نفس مطمئنہ ہوتا ہے، جس میں طبعی طور پر ہر گناہ اور معصیت سے نفرت ہوتی ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! کئی احادیث میں استغفار کے فضائل بیان کئے گئے ہیں اور اس کو کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے ان میں سے چند روایات درج ذیل ہیں :

عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ -صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللہ لَهٗ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَهٗ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ۔

ترجمہ: روایت ہے ان ہی(حضرت ابن عباس)سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جو استغفار کو اپنے پر لازم کرلے توﷲاس کے لیے ہرتنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات دے گا اور وہاں سے اسے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔ (احمد،ابوداؤد،ابن ماجہ)

شرح حدیث:

اس طرح کہ روزانہ استغفار کے کلمے زبان سے ادا کیا کرے گناہ کرے یا نہ کرے۔بہتر یہ ہے کہ نماز فجر کے وقت سنت فجر کے بعد فرض سے پہلے ستر بار پڑھا کرے کہ یہ وقت استغفار کے لیے بہت ہی موزوں ہے، رب تعالیٰ فرماتاہے: وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸) یہ عمل بہت ہی مجرب ہے۔روزی سے مراد مال،اولاد،عزت سب ہی ہے۔استغفار کرنے والے کو رب تعالیٰ یہ تمام نعمتیں غیبی خزانہ سے بخشتا ہے، قرآن کریم فرماتاہے:

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ(۱۱) وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔تم پر شرّاٹے کا مینہ(موسلا دھار بارش) بھیجے گا۔اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔(پ29، نوح10تا12) قرآن کریم میں استغفار پر پانچ نعمتوں کا ذکر فرمایا اور اس حدیث نے تین نعمتوں کا مگر ہماری اس شرح سے وہ پانچوں نعمتیں ان تین میں آگئیں،رب تعالیٰ فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ- یہ حدیث اس آیت کی شرح ہے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:3 حدیث نمبر:2339 )

وَعَنْ ثَوْبَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ: «اللہمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجلَالِ وَالْإِكْرَامِ»۔رَوَاهُ مُسْلِمٌ

ترجمہ: روایت ہے حضرت ثوبان رضی الله عنہ سے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفار پڑھتے اور کہتے الٰہی تو سلام ہے تجھ سے سلامتی ہے تو برکت والا ہے اے جلالت اور بزرگی والے (مسلم۔مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 حدیث نمبر:96 )

توبہ واستغفار کے 4 فوائد :

1: اللہ پاک تو بہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے 2:جو استغفار کو لازم کر لے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہر غم سے آزادی اور اسے، وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔3: استغفار سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے 4- جب بندہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناہ بھلا دیتا ہے، اسی طرح اس کے اعضا (یعنی ہاتھ یہ پاؤں) کو بھی بھلا دیتا ہے اور زمین سے اس کے نشانات بھی مٹا ڈالتا ہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے؟ گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ملے گا ( الترغیب والترہیب 48/4 رقم (17)


توبہ اور استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر نا توبہ ہے

ویسے تو جس لمحہ اور جس ساعت انسان اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور پکارتا ہے تو وہ سنتا ہے اور اس سے جب بھی دعا کی جائے قبول فرماتا ہے۔لیکن رات کا آخری ثلث بطور خاص اس کام کے لیے معین کیا گیا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا۔

وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(۱۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور پچھلے پہرسے معافی مانگنے والے۔(پ3، اٰل عمرٰن:17)

ایک دوسرے مقام پر فرمایا :

وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور پچھلی رات اِستغفار کرتے۔ (پ26، الذٰریٰت: 18)

جس طرح لوہا پانی میں پڑا رہنے سے زنگ خوردہ ہو جاتا ہے۔اسی طرح انسانی قلوب گناہوں کی نجاست سے آلودہ ہونے کے باعث زنگ خوردہ اور سیاہی آلود ہو جاتے ہیں۔ایسے وقت استغفار کی ریتی ہی اس زنگ کو دور کر کے چمکا سکتی ہے۔چنانچہ آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک طویل حدیث ہے جس کے آخر میں یہ ذکر ہے:

فإن تاب واستغفر صقل قلبه

یعنی اگر انسان توبہ کر لے اور اپنے گناہوں سے معافی مانگے تو اس سے اس کا قلب چمک اُٹھتا ہے۔ (ترمذی)

فوائدِ استغفار: جو استغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہر غم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔

استغفار سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے: جب بندہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناہ بھلا دیتا ہے، اسی طرح اس کے اعضا (یعنی ہاتھ پاؤں) کو بھی بھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مٹا ڈالتا ہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا ۔

گناہوں سے معافی: انسان کے گناہ خواہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں یا بحرِ بیکراں کے قطرات سے زائد ہوں تو بھی استغفار سے سب محو ہو جاتے ہیں۔

(1) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری اُمّت کے لئے مجھ پر دو امن(والی آیات) اتاری ہیں، ایک: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو۔اور دوسری: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33) جب میں اس دنیا سے پردہ کر لوں گا تو قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑ دوں گا۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانفال، ۵/۵۶، الحدیث: ۳۰۹۳)

(2) حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شیطا ن نے کہا: اے میرے رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں، میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، ۴/۵۹، الحدیث: ۱۱۲۴۴)

(3) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تواللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴/۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)

(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہمارا رب تعالیٰ ہر رات اس وقت دنیا کے آسمان کی طرف نزولِ اِجلال فرماتا ہے جب رات کا تھائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے کوئی ایساہے جو مجھ سے دعا کرے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں،کوئی ایساہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اسے عطا کروں، کوئی ایساہے جو مجھ سے معافی چاہے تاکہ میں اسے بخش دوں۔(بخاری، کتاب التّھجّد، باب الدّعاء والصّلاۃ من آخر اللّیل، ۱/۳۸۸، الحدیث: ۱۱۴۵۔صراط الجنان)

(5) نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب سے اہم اور افضل استغفار یہ ہے کہ بندہ کہے: اے اللہ! تو میرا رب ہے۔تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔تو میرا خالق ہے۔میں تیرا بندہ ہوں اور میں اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق تجھ سے کیے ہوئے عہد و وعدے پر قائم ہوں۔میں اپنے گناہوں کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔میں اپنے ہر قسم کے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں اور اپنے آپ پر تیری نوازشات کا اقرار کرتا ہوں، لہٰذا مجھے معاف فرما کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی شخص یقین و ایمان کے ساتھ صبح کے وقت یہ کلمات پڑھے، پھر مر جائے تو جنت میں داخل ہو گا اور اگر شام کے وقت یہی کلمات یقین و ایمان رکھتے ہوئے کہے اور مر جائے تو جنت میں داخل ہو گا۔ (سنن نسائی، 2/319۔مکتبہ قدیمی کتب خانہ)


اللہ تعالیٰ کے ہم پر بہت سارے انعامات ہیں ہمیں ان کا شکر ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے ہوئے توبہ و استغفار کی کثرت کرنی چاہیے

استغفار کے فضائل پر احادیث:

حدیث:1 امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیشہ بلند درجات کی طرف ترقی فرماتے اور جب آپ اپنے ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرتے تو اپنے پہلے حال پر استغفار فرماتے۔ (فتح الباری، جلد 12،صفحہ 85،تحت حدیث 6307)

حدیث 2: علامہ ابن بطّال فرماتےہیں : انبیائے کرام لوگوں میں سب سے زیادہ شکر گزاری عبادت گزاری کے باوجود اللہ پاک کا كَمَا حَقَّهُ حَقْ ادا نہ ہونے پر استغفار کرتے تھے۔ (شرح بخاری ابن بطال، جلد 10،صفحہ 71)

حدیث 3: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وَاللهُ اِنِّي لَاَسْتَغْفِرُ اللهَ وَ اَتُوْبُ اِلَيْهِ فِيْ الْيَوْمِ اَكْثَرُ مِنْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً

ترجمہ: خدا کی قسم میں دن میں 70 سے زیادہ مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ (مشکاۃ المصابیح، جلد 1،صفحہ 434، حدیث: 2323)

حدیث: 4 علامہ بدر الدین فرماتے ہیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بطورِ عاجزی یا تعلیم امت کے لئے استغفار کرتے ۔ (عمدۃ القاری، جلد 15، صفحہ 413 تحت حدیث 6307 مُلْخَصًا)

حدیث: 5 حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں توبہ و استغفار روزے نماز کی طرح ایک عبادت ہیں اس لئے حضور انور اس پر عمل کرتے ورنہ حضور انور معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا ۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 3، ص 353 مُلْخَصًا)

استغفار کے فوائد ملاحظہ فرمائیں:

(1) اللہ پاک استغفار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

(2)استغفار کرنے سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہیں ۔

(3)جو استغفار کو لازم کرے تو اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی ہر غم سے آزادی اور اسے وہاں سے رزق ادا کرتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا ۔

ان احادیث کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استغفار کے فضائل و فوائد کا بہت بڑا مقام رکھا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں استغفار کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین


ماجد علی ،اللہ پاک ساری کائنات کا خالق و مالک ہے۔جس نے تمام عالم کو تخلیق فرمایا۔انسان کو اللہ پاک نے تصرف کی قوت بخشی ہے۔انسان اپنے افعال و اعمال کا عطائی مالک ہے۔انسان کو اللہ پاک نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔انسان سے اپنے افعال و اعمال و عبادت میں اگر غلطی و خطا ہو جائے تو اللہ پاک نے استغفار کا راستہ عطا فرمایا ہے۔جس سے بندہ اپنی خطا و غلطی کا ازالہ کر سکے۔جس کے بے شمار فوائد ہیں۔

وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ۔(پ12، ھود:90)

(1)دن میں سو مرتبہ توبہ کرنا: حضرت اغر بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو اللہ کی طرف رجوع کرو اور اس سے بخشش مانگو، میں دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ (ریاض الصالحین باب التوبہ جلد01 ، حدیث:14)

(2)جنگل میں اونٹ کا گم ہو جانا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے، جتنا کوئی شخص جنگل میں اپنا اونٹ گم کر دے اور پھر پالے۔ (ریاض الصالحین، باب التوبہ، جلد1، حدیث:15)

(3) مغفرت مل جانا: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے میں نے سنا کہ: جو شخص گناہ کرے، پھر اٹھ کر وضو کرے اور نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ (جامع ترمذی، ص 85)

(4)نامہ اعمال خوش ہونا: حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس شخص کو یہ بات محبوب ہے کہ اسے اعمال نامہ سے خوشی ہو تو وہ اس میں استغفار کثرت سے کرے۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج10 ص 208)

(5)ستّر بار استغفار کرے: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: اللہ پاک کی قسم میں اللہ سے معافی و بخشش چاہتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں دن میں ستّر بار سے بھی زیادہ۔ (ریاض الصالحین، باب التوبہ جلد01، حدیث:13)

خلاصہ : استغفار ایک نعمت ہے جو اللہ پاک کی طرف سے ایک عظیم انعام ہے۔جو اللہ پاک سے استغفار کرتا ہے اللہ پاک اس سے مصیبت و پریشانی دور فرما دیتا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو سچے دل کے ساتھ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


انسان اشرف المخلوقات ہے اللہ پاک نے ہم سب کو تمام مخلوق سے افضل بنایا ہے ہم سب کو صد انعامات سے بھی نوازا ہے اگر ہم سب اللہ کے انعامات کو شمار کریں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ہم سب نے اپنا معمول بنا کر یہ تو کہنا شروع کر دیا کہ اللہ پاک کا شکر ہے لیکن کیا کبھی اس کے ہمارے اوپر انعامات کو سوچ کر یہ جملہ کہا ہے؟ اور ہم بڑے فخر سے کہتے تو ہیں کہ ہم اشرف المخلوقات ہیں ۔لیکن قربان جائیں اپنے رب کی غفاریت کے کہ ہم سب دن میں اتنے گناہ کرتے ہیں لیکن اگر ہم ان سب گناہوں پر ندامت لا کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کریں تو وہ ہماری توبہ کو قبول فرماتا اور پہلے سے زیادہ نوازتا ہے۔اور استغفار کا اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُؕ-اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴)

ترجمہ کنز الایمان: اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کے سبب جو اس سے کر چکا تھا پھر جب ابراہیم کو کھل گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اس نے تنکا توڑ دیا بیشک ابراہیم ضرور بہت آہیں کرنے والا متحمل ہے (التوبۃ: 114)

صراط الجنان: اس سے یاتو وہ وعدہ مراد ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے آزرسے کیا تھا کہ میں اپنے رب پاک سے تیری مغفرت کی دعا کرو گا یا وہ وعدہ مراد ہے جو آزر نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے اسلام لانے کا کیا تھا۔ (تفسیر مدارک التوبۃ ،تحت الايۃ: 114)

اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں بھی استغفار کی بہت ساری فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔چنانچہ حدیث پاک میں ہے۔

دلوں کا زنگ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے۔بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء (صفائی) استغفار کرنا ہے۔(فضائل استغفار، ص 2)

سبحان الله! کہ ہمیں اپنے دلوں کے زنگ اتارنے کا فارمولا مل گیا گناہوں کی وجہ سے ہمارے دل دن بھر دن زنگ پکڑتے جاتے ہیں اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ ہمارے اندر شرم نہ حیا نہ کسی کا احترام نہ عبادت میں لذت جب یہ چیزیں زندگی میں آجاتی ہے تو زندگی بے رنگ ہو جاتی ہے تو ہمیں چاہیئے کہ کثرت سے استغفار کرتے رہیں۔

پریشانیوں سے نجات: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے۔جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔(ابن ماجہ، ج4 ص257)

سبحان الله! آج کل ہر کوئی پریشان رہتا ہے کہ کسی کو گھر کی پریشانی تو کوئی کاروبار کی وجہ سے پریشان تو کسی کو اس کی جاب میں پریشانی لیکن قربان جاؤں اپنے رب کریم کی رحمت اور میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی شفقت پر کہ پریشانیوں سے نجات کا فارمولا مل گیا رزق میں وسعت کا فارمولا مل گیا کتنے پیارے فضائل ہیں استغفار کے کہ گناہ بھی رب تعالیٰ کے کریں اور اس سے معافی مانگنے پر وہ کیسے کیسے انعامات سے نوازتا ہے۔

خوشخبری: حضرت عبدالله بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، ج14 ، ص257)

الله اکبر کیا شان ہے استغفار پڑھنے والے کی کہ وجہ تخلیق کائنات خود خوشخبری دے رہے ہیں اس کو جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت پائے تو کیوں نا ہم اپنے نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت کریں۔

(1)استغفار کرنے سے پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔

(2)استغفار کرنے سے دل کو راحت ملتی ہے۔

(3)استغفار کرنے سے رزق میں برکت ہوتی ہے۔

(4)استغفار کرنے سے دل کا زنگ دور ہوتا ہے۔

(5)استغفار کرنے والا اپنے گناہوں پر نادم رہتا ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو استغفار کی کثرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 


بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اُس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے پھر اگر وہ توبہ کرے اور اس گناہ سے باز آ جائے اور استغفار کرے تو اُس کا دل چمکا دیا جاتا ہے، اور اگر وہ مزید گناہ کرے۔تو اس سیاہی میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ اس کےدل پر سیاہی چھا جاتی ہے۔یہ وہی زنگ ہے جسے اللہ پاک نے قرآن پاک میں یوں ارشاد فرمایا:

كَلَّا بَلْٚ- رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۱۴) ترجمہ کنزالایمان: کوئی نہیں بلکہ اُن کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔ (پ30، المطففین: 14)

ہر پریشانی سے نجات : جو استغفار کی کثرت کرے گا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا ہرتنگی سے اس کے لئے نجات کی راہ نکالے گااور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار ،الحديث:1518 ،ج 2 ،ص122)

دریا کی جھاگ کے برابر گنا ہوں کی بخشش: رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو شخص سوتے وقت تین مرتبہ استغفر الله الذی لا اله الا ہو الحی القیوم پڑھے تو اس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں اگر چہ وہ کثرت کے اعتبار سے دریا کی جھاگ صحرا کی ریت ،درخت کے پتوں اور دنیا کے ایام کے برابرہوں۔(کیمیائے سعادت مترجم ص 164)

گناہ کے بعد استغفار کرنا: حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں دو آیتیں ایسی ہیں کہ جو شخص گناہ کے بعد ان دونوں آیتوں کو پڑھ کر استغفار کرے گا تو اس کا گناہ بخش دیا جائیگا۔وه دو آیتیں یہ ہیں:

وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اَڑ نہ جائیں۔(پ4، اٰلِ عمرٰن:135)

دوسری آیت یہ ہے: وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی بُرائی یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش چاہے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔(پ5، النسآء:110)

گناہوں کی بخشش: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص گناہ کے بعد اچھی طہارت کر کے دو رکعت نماز پڑھتا ہے اور اس کے بعد استغفار کرتا ہے تو اُس کا گناہ بخش دیا جاتا ہے۔(ایضا)

جنت میں ایک درجہ: الله عز و جل جنت میں بندے کو ایک درجہ عطا فرمائے گا۔بندہ عرض کرے گا۔اے مولی پاک، یہ درجہ مجھے کیسے ملا؟ الله پاک ارشاد فرمائے گا۔اس استغفار کے بدلےجوتیرے بیٹے نے تیرے لئے کیا۔ (ایضاً)

الله عز و جل ہمیں اپنے لیےاور اپنے والدین کیلئے استغفار کی کثرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)۔


استغفار کا مطلب ہے کسی سے معافی مانگنا یا گناہوں کی مغفرت طلب کرنا استغفار ایک اہم عبادت ہے جو قرآن و حدیث میں بڑی فضیلتوں کے ساتھ ذکر ہوئی ہے یہاں چند قرآنی آیات اور حدیثوں کی روشنی میں استغفار کے فضائل کو پیش کیا جا رہا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے:وَّ اسْتَغْفِرِ اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۚ(۱۰۶) ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ سے معافی چاہو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ5، النسآء: 106)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔(پ29، نوح10)

اگلی آیت ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے کس طرح مغفرت طلب کرنی ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۱۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: عرض کی اے میرے رب میں نے اپنی جان پر زیادتی کی تو مجھے بخش دے تو رب نے اُسے بخش دیا بےشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔(پ20، القصص:16)

امام جلالُ الدین سیوطی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گناہوں سے معصوم ہیں،اس کے باوجود آپ کو گناہ سے مغفرت طلب کرنے کا فرمایا گیا(یہ امت کی تعلیم کے لئے ہے) تاکہ اس معاملے میں امت آپ کی پیروی کرے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مغفرت طلب بھی کی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا: میں روزانہ سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتا ہوں ۔ (جلالین، ص 421)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو شخص استغفار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات کم کرتا ہے اور رزق میں برکت دیتا ہے۔

اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز سے فارغ ہونے کے بعد تین بار اِستغفار کرتے۔

اورحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے انسان! جب تک تومجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے انسان! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں،پھر تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تجھے اس کے برابر بخش دوں گا۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ، والاستغفار۔۔۔الخ، ۵/۳۱۸، الحدیث: ۳۵۵۱)

اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی اس طرح نہ کہے یا اللہ! پاک اگر تو چاہے تو مجھے بخش۔یا اللہ! پاک، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما۔بلکہ یقین کے ساتھ سوال کرناچاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۷۷-باب، ۵/۲۹۹، الحدیث: ۳۵۰۸)

استغفار کرنے کا عمل ایک ایسا ذکر ہے جو روزانہ کی زندگی میں شامل کیا جا سکتا ہے اور یہ ایک سادہ اور قوی طریقہ ہے توبہ کرنے کا۔ استغفار کرتے وقت دل کی سچی توبہ اور نیک نیتی کے ساتھ کی جانی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ارادہ ہونا چاہیے۔ استغفار کرنے سے انسان کی روحانیت مضبوط ہوتی ہے اور اس کی زندگی میں سکون اور اطمینان پایا جاتا ہے۔ استغفار کرنے سے ہم اپنے گناہوں سے بچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور برکت حاصل کرتے ہیں۔

استغفار ایک مقدس عبادت ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت حاصل کرنے کا ذریعہ فراہم کرتی ہے اس سے ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابی اور سکون ملتا ہے یہ آپ کے دل کی صفائی اور روح کی پرہیزگاری کی عبادت ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی نزدیکی کے قریب لے جاتے ہیں۔


اسلام بطور دین ایک مکمل ضابطہ حیات جو مسلمانوں کو بامقصد زندگی گزارنے کامکمل طریقہ بتاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا یعنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی، صحیح اور غلط کی آگاہی دی، اب یہ انسانی عقل پر منحصر ہے کہ وہ سیاہ کرتا ہے یا سفید۔لیکن انسان خطا کا پتلا ہے اور اللہ ہمیشہ اپنے بندوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرتا ہے اس لئے اُس نے مسلمانوں کے لئے ہدایت کا راستہ بھی کھلا رکھا ہے تاکہ اگر کوئی مسلمان گناہ کا مرتکب ہو جائے تو توبہ و استغفار سے فلاح کا راستہ پاس کے۔

استغفار کے فوائد:ہمارا دین ہمیں گناہوں سے بچنے کا درس دیتا ہے۔لہٰذا اگر خلوص نیت کے ساتھ توبہ کی جائے تو بارگاہ الٰہی میں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں اور گناہوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید مسلمانوں کی فلاح کیلئے استغفار کے بڑے میں فوائد بتائے ہیں۔

یہ رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے: قرآن میں ایک جگہ استغفار کی اہمیت اس طرح بیان کی گئی ہے کہ اپنے رب سے معافی مانگتے رہو بیشک وہ ہمیشہ معافی دینے والا ہے۔یعنی صرف اللہ سے رحمت کے طلب گار رہیں کیونکہ وہ ہی معاف کرنے والا ہے۔ایک حدیث کے مطابق نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گاجس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کا ایسے ذکر کیا کہ اس کے آنسو جاری ہو گئے۔(صحيح بخاری: 1337)

استغفار سید المرسلين: آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات گرامی وہ ہستی ہے جس کے متعلق امت محمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور دیگر انبیائے کرام معصوم عن الخطا ہیں۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی حیات مبارکہ کا ایک ایک لمحہ اطاعت اور عبادت الٰہی میں گزارا۔گناہ کرنا تو کجا آپ کے دل و دماغ میں گناہ کا کبھی تصور بھی پیدا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود آنحضرت کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے۔چنانچہ ایک حدیث شریف میں ذکر ہے کہ آنحضرت نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:يأيها الناس توبوا إلى الله فإني أتوب إليه في اليوم مائة مرة کہ لوگو! اللہ کی بارگاہ میں تو بہ کرو۔میں ایک دن میں سو مرتبہ اللہ رب العزت سے دعا کرتا ہوں اور تو بہ کرتا ہوں۔(بخارى) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مندرجہ ذیل استغفار کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ أسْتَغْفِرُ الله الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ میں اللہ سے بخشش کی دعا کرتا ہوں، وہ اللہ جس کے بغیر کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہ اللہ جو ہمیشہ زندہ اور قائم ہے اور میں اس کی طرف تو بہ کرتا ہوں۔ (ابوداؤد)

گناہوں سے معافی: انسان کے گناہ خواہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں یا پھر بحر بیکراں کے قطرات سے زائد ہوں تو بھی استغفار سے سب محو ہو جاتے ہیں۔چنانچہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يا ابن آدم ما دعوتني ورجوتني غفرت لك ما كان فيك ولا أبالي يا ابن آدم لو بلغت ذنوبك عنان السماء ثم استغفرتني غفرت لك ولا أبالي يا ابن آدم أنك لو لقيتني بقراب الأرض خطا يا ثم لقيتني لا تشرك شيئا لا تيتك بقرابها مغفرة

اے ابن آدم! تو جب تک مجھ سے دعا کرے گا اور امید رکھے گا تیرے جو گناہ بھی ہوں گے معاف کر دونگا اور مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں۔اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک ہی جائیں پھر تو مجھ سے معافی مانگے تو بھی میں تجھے گناہوں سے معافی دونگا، اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔اے ابن آدم! اگر تو زمین کے برابر گناہ لایا لیکن شرک نہ کیا تو میں اتنی ہی مغفرت اور بخشش لے کر تیرے پاس آؤں گا۔

صفائی قلب: جس طرح لوہا پانی میں پڑا رہنے سے زنگ خوردہ ہو جاتا ہے۔اسی طرح انسانی قلوب گناہوں کی نجاست سے آلودہ ہونے کے باعث زنگ خوردہ ہو جاتے ہیں۔ایسے وقت استغفار کی ریتی ہی اس زنگ کو دور کر کے چمکا سکتی ہے۔چنانچہ آنحضرت ص صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک طویل حدیث ہے جس کے آخر میں یہ ذکر ہے: فإن تاب واستغفر صقل قلبه (ترمذی) یعنی اگر انسان تو بہ کر لے اور اپنے گناہوں سے معافی مانگے تو اس سے اس کا قلب چمک اُٹھتا ہے۔

موجب جنت: ایک دفعہ آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استغفار کا ذکر فرمایا اور اس کی فضیلت ذکر کرتے ہوئے فرمایا: فمن قالها من النهار موقنا بها فمات من يومه قبل أن يمسي فهو من أهل الجنة ومن قالها من الليل موقنا بها فمات قبل أن يصبح فهو من أهل الجنة جو آدمی یقین کے ساتھ دن کو سید الاستغفار پڑھتا ہے اور شام سے پہلے فوت ہو جاتا ہے تو وہ اہل جنت سے ہے اور جو رات کو یقین کے ساتھ پڑھتا ہے اور صبح سےپیشتر ہی وفات پا جاتا ہے تو وہ بھی اہل جنت سے ہے ۔ (بخارى)

پریشانی اور تنگی رزق سے نجات: آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تنگ دستی اور ذہنی و قلبی پریشانی میں مبتلا اشخاص کو یہ مژدہ جاں فزا سنایا۔ من لزم الاستغفار جعل الله له من كل ضيق مخرجا ومن كل هم فرجا ورزقه الله من حيث لا يحتسب جو انسان استغفار کو ہمیشہ کے لئے اپنا وظیفہ بنا لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر قسم کی تنگی اور پریشانی کو دور کرتا ہے اور اسے ایسے ذریعے سے رزق عطا کرتا ہے جس کا اسے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ (احمد، ابوداود)

میت کے لئے استغفار: نبی کریم سے فرماتے ہیں: ان الله ليرفع الدرجة للعبد الصالح في الجنة فيقول يا رب أنى لي هذا فيقول باستغفار ولدك لك (احمد) اللہ رب العزت اپنے نیک بندوں کا جنت میں مرتبہ بڑھائے گا۔انسان کہے گا کہ اے میرے پروردگارا یہ درجہ مجھے کیسے نصیب ہوا؟ اللہ تعالیٰ جواب فرمائے گا کہ تیرا لڑکا تیرے لئے استغفار کرتا رہا ہے۔اس لئے تجھے یہ بلند درجہ نصیب ہوا۔

مردوں کے لئے بہترین تحفہ: آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ قبر میں میت کی مثال اس غرق ہونے والے کی ہے جو امداد کا طالب ہوتا ہے۔جب اس کی بخشش کی دعا کی جاتی ہے اور اس کے لئے استغفار کی جاتی ہے وہ دنیا کی تمام اشیاء سے اسے محبوب ہوتی ہے۔ پھر فرمایا: اللہ تعالی اہل زمین کی دعا کی برکت سے اہل قبور پر پہاڑوں کی مانند رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر آخر میں فرمایا: إن هدية الأحياء إلى الأموات الاستغفار لهم کہ جو لوگ بقید حیات ہیں ان کا تحفہ مردوں کے لئے یہ ہے کہ ان کے حق میں بخشش کی دعا کریں۔ اللہ پاک ہم سب کی مغفرت فرمائے آمین


استغفار کا مطلب ہے کسی سے معافی مانگنا یا گناہوں کی مغفرت طلب کرنا استغفار ایک اہم عبادت ہے جو قرآن و حدیث میں بڑی فضیلتوں کے ساتھ ذکر ہوئی ہے یہاں چند قرآنی آیات اور حدیثوں کی روشنی میں استغفار کے فضائل کو پیش کیا جا رہا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَّ اسْتَغْفِرِ اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۚ(۱۰۶) ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ سے معافی چاہو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ5، النسآء: 106)

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔(پ29، نوح10)

اگلی آیت ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے کس طرح مغفرت طلب کرنی ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۱۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: عرض کی اے میرے رب میں نے اپنی جان پر زیادتی کی تو مجھے بخش دے تو رب نے اُسے بخش دیا بےشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔(پ20، القصص:16)

امام جلالُ الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہ تعالیٰ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گناہوں سے معصوم ہیں،اس کے باوجود آپ کو گناہ سے مغفرت طلب کرنے کا فرمایا گیا(یہ امت کی تعلیم کے لئے ہے) تاکہ اس معاملے میں امت آپ کی پیروی کرے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مغفرت طلب بھی کی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا: میں روزانہ سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتا ہوں (جلالین، القتال، تحت الآیۃ: 19، ص 421)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو شخص استغفار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات کم کرتا ہے اور رزق میں برکت دیتا ہے۔ اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز سے فارغ ہونے کے بعد تین بار اِستغفار کرتے۔

اورحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے انسان! جب تک تومجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے انسان! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں،پھر تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تجھے ا س کے برابر بخش دوں گا۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ، والاستغفار۔۔۔الخ، ۵/۳۱۸، الحدیث: ۳۵۵۱)

اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی اس طرح نہ کہے یا اللہ! پاک،اگر تو چاہے تو مجھے بخش۔یا اللہ! پاک، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما۔بلکہ یقین کے ساتھ سوال کرناچاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۷۷-باب، ۵/۲۹۹، الحدیث: ۳۵۰۸)

استغفار کرنے کا عمل ایک ایسا ذکر ہے جو روزانہ کی زندگی میں شامل کیا جا سکتا ہے اور یہ ایک سادہ اور قوی طریقہ ہے توبہ کرنے کا۔ استغفار کرتے وقت دل کی سچی توبہ اور نیک نیتی کے ساتھ کی جانی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ارادہ ہونا چاہیے۔

استغفار کرنے سے انسان کی روحانیت مضبوط ہوتی ہے اور اس کی زندگی میں سکون اور اطمینان پایا جاتا ہے۔

استغفار کرنے سے ہم اپنے گناہوں سے بچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور برکت حاصل کرتے ہیں۔

استغفار ایک مقدس عبادت ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت حاصل کرنے کا ذریعہ فراہم کرتی ہے اس سے ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابی اور سکون ملتا ہے یہ آپ کے دل کی صفائی اور روح کی پرہیزگاری کی جانی اور مالی عبادت ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی نزدیکی کے قریب لے جاتے ہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو! حضور علیہ السّلام مرحوم و مغفور ہو کر دن اور رات میں (70) بار استغفار کرتے تھے تو ہم گنہگار ہو کر استغفار کے کتنے حاجت مند ہیں تو آئیے چند معلومات استغفار کے متعلق حاصل کرتے ہیں۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہواور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33)

تفسیر:علامہ علی بن محمد خازن رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں۔اس آیت سے ثابت ہوا کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے۔(خازن، الانفال تحت الآية 193/2،33)احادیث میں استغفار کرنے کے بہت فضائل بیان کیے گئے ہیں ان میں سے (5)احادیث درج ذیل ہیں:

(1) رب پاک فرماتا ہے: عن ابی سعيد الخدری رضی اللہ عنہ عن النبی علیہ السّلام قال الرب: وعزتي وجلالی لا ازال اغفر لهم ما استغفرونى ترجمہ:میں ہمیشہ اس کو بخشتا رہوں گا جو مجھ سے بخشش طلب کرتا رہے گا۔(احمد بن حنبل ، 3 - 29 - رقم 255 11 - المستدرك للحاکم رقم7672)

(2)ایسی جگہ سے رزق جہاں وہم و گمان بھی نہ ہوگا: حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے:رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لیے ضروری قرار دیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہرغم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔(ابن ماجہ ، کتاب الادب، باب الاستغفار، 257/4، الحدیث:3819)

(3)استغفار میں اضافہ : من أَحَبَّ أَنْ تَسُرہ صَحِيفَتُه فَلْيُكثر فيها مِنَ الْاِسْتِغْفَارِ ترجمہ: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال خوش کرے تو اسے چاہئے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرئے ۔ (اربعین عطار، ص 35)

(4) کس کے لیے زیادہ خوبیاں ہیں: روایت ہے حضرت عبداللہ ابن بسر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے لیے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔(ابن ماجہ۔ مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ، ج: 3 ، حدیث: 2356)

(5) نیک اولاد کا فائدہ : الله پاک جنت میں بندے کو ایک درجہ عطا فرمائے گا بندہ عرض کرئے گا: اے مولیٰ پاک یہ درجہ مجھے۔کیسے ملا؟ الله عز وجل ارشاد فرمائے گا۔اس استغفار کے بدلے جو تیرے بیٹے نے تیرے لیے کیا۔(المسند للام احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرہ، الحدیث: 10615، ج 3، ص 585 )

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ایمان پر قائم رہنے اور گناہوں سے توبہ و استغفار کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


اِستغفار یعنی(توبہ کرنا) کسے کہتے ہیں؟ : عمدۃُ القاری میں توبہ سے متعلق علمائے کرام کے مختلف اقوال:

(1): بعض مشائخِ کرام کے نزدیک نَدامت توبہ ہے۔

(2): بعض کے نزدیک گناہوں کی طرف نہ لوٹنے کاعَزْمِ مُصَمَّم (یعنی پکا ارادہ) توبہ ہے۔

(3):گناہ سے باز رہنے کا نام توبہ ہے۔

(4):مذکورہ تینوں باتوں کے مجموعے کانام توبہ ہے اور یہی سچّی توبہ کہلاتی ہے۔

(5):علّامہ جَوہَرِی نے فرمایاکہ گناہوں سے رُجوع کرنے کا نام توبہ ہے۔(عمدۃ القاری، الدعوات، باب التوبۃ،۱۵/۴۱۴)

سچّی توبہ کی علامات: حضرتِ سَیِّدُناعَبدُ اللہ بِنْ مُبارَک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سچّی توبہ کی چھ علامات ہیں: (۱) گُزَشتَہ گناہوں پر نادم ہونا (۲)گناہوں کی طرف نہ لوٹنے کاعَزْمِ مُصَمَّم (۳) جن فرائض میں کوتاہی کی ہے ان کی ادائیگی (۴)جن کا حَق تَلَف کیا ہے انہیں ان کا حق دینا (۵)ناجائز و حرام مال سے بدن پر جو چربی چڑھ گئی ہو اُسےغَم وحُزْن کے ذریعے پگھلانا یہاں تک کہ کھال ہڈی سے چمٹ جائے اور پھر اگر اُس پہ گوشت آئے تو ایسا گوشت آئے جو حلال و طیب سے پروان چڑھا ہو(۶) جس طرح بدن کو نفسانی خواہشات کی لذت پہنچائی ہے اسی طرح اسے اطاعت کا مزہ چکھانا۔(شرح بخاری لابن بَطّال،کتاب الدعائ، باب توبوا الی اللہ توبۃ نصوحا،۱۰/۸۰)

حضرتِ سَیِّدُنا اَغَر بنْ یَسَارمُزَنِی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نَبِیّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش چاہو بے شک میں روزانہ 100 مرتبہ اللٌٰہ پاک کے حضور توبہ کرتا ہوں۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعا والتوبۃ والاستغفار، باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ، ص ۱۴۴۹، حدیث: ۲۷۰۳)

پیارے اسلامی بھائیو!توبہ و اِستِغفَار، نماز، روزے کی طرح عبادت ہے، اِسی لئے حضور انورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بکثرت توبہ واِستِغفَار کیا کرتے تھے۔ورنہ حضور انورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مَعصُوم ہیں گناہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب بھی نہیں آتا اس سے ہمیں اپنی اصلاح کرنے کا درس ملتا ہے۔

استغفار کے فضائل:حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم اُس شخص کی خوشی سے متعلق کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی کسی سنسان جنگل میں اپنی نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی نکل جائے، جس سر زمین میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو اور اس اونٹنی پر اس کے کھانے پینے کی چیزیں لدی ہوں، وہ شخص اس اونٹنی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائے،پھر وہ اونٹنی ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور اس کی نکیل اس تنے میں اٹک جائے اور اس شخص کو وہ اونٹنی تنے میں اٹکی ہوئی مل جائے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ بہت خوش ہو گا، حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سنو! بخدا! اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص کی سواری کے (ملنے کی) بہ نسبت زیادہ خوشی ہوتی ہے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: گناہ سے (سچی) توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم گِنا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک مجلس کے اندر سو مرتبہ کہا کرتے۔اے رب! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما بے شک تو توبہ قبول کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔

جوانی میں توبہ کی فضیلت: اللہ کے محبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تعالیٰ عَلَیہ وَ اٰلہٖ وَ سَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: اِنَّ اللہَ تعالیٰ یُحِبُّ الشَّابَّ التَّائِبَ یعنی جوانی میں توبہ کرنے والا شخص اللہ پاک کا محبوب ہے۔ (کنز العُمّال، کتاب التوبۃ، الفصل الاول فی الخ، الجزء۴، ۳/۸۷، حدیث: ۱۰۱۸۱)

مُبَلِّغِ اِسلام حضرتِ علّامہ شیخ شُعَیْب حَرِیفِیْش رَحمۃُ اللہِ تعالیٰ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اللہ پاک کی اپنے بندے سے مَحَبَّت اُس وقْت ہوتی ہے جبکہ وہ جوانی میں توبہ کرنے والا ہو کیونکہ نوجوان تَر اورسرسبزٹہنی کی طرح ہوتاہے۔جب وہ اپنی جوانی اور ہر طرف سے شہوات ولذات سے لطف اٹھانے اوران کی رغبت پیدا ہونے کی عمر میں توبہ کرتاہے، اوریہ ایسا وقت ہوتاہے کہ دُنیا اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔اس کے باوجود محض رضائے الٰہی کے لئے وہ ان تمام چیزوں کوترک کردیتا ہے تو اللہ پاک کی محبت کامستحق بن جاتاہے اوراس کے مقبول بندوں میں اس کا شمار ہونے لگتا ہے۔ (حکایتیں اور نصیحتیں، ص۷۵)

پیارے اسلامی بھائیو! ذرا غور وفکر کرنے کا مقام ہے کہ بندے کی توبہ کرنے سے الله پاک کتنا زیادہ خوش ہوتا ہے جب تو اسے مالک تسلیم کررہا ہے تو اُس کے ہر حکم کو سرِ خم تسلیم کرکے اطاعت وفرمانبرداری کو بجا لاکر اپنے بندے ہونے کا ثبوت بھی دے۔

استغفار کے فوائد: جو اِستغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(ابو داؤد،ج2،ص122، حدیث:1518)

اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔(مجمع البحرین،ج 4،ص272، حدیث:473)

جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلادیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں)کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔(الترغیب والترھیب،ج4،ص48، رقم:17)

مزید ایک اور فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بندہ عذابِ الٰہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ اِستغفار کرتا رہتا ہے ۔ (مسند احمد شعیب ارنووط نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے)

پیارے اسلامی بھائیو!آپ نے ان احادیث کریمہ کو ملاحظہ فرمایا کہ اِستغفار سے اللہ پاک اپنے بندے پر کتنی رحمتوں کی بارش برساتا ہےاب توبہ کے دروازے بند نہیں ہوئے ہیں تو اُس ربِّ کریم کی بلند بارگاہ میں گناہوں کی معافی اور آئندہ گناہوں سے بچنے کی استقامت طلب کرنی چاہئے۔


حضرت سیدنا علقمہ اور حضرت سیدنا اسود رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قرآن پاک میں کچھ آیتیں ایسی ہیں کہ اگر گناہ گار ان کی تلاوت کرکے رب پاک سے مغفرت طلب کرے تو اس کی مغفرت کر دی جائے۔

(1) اللہ پاک ہر پریشانی دور فرما دے گا: جو استغفار کی کثرت کرے گا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور کرے گا۔ہر تنگی سے اس کے لیے نجات کی راہ نکالے گا اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گمان بھی نہ ہوگا ۔(سنن ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، الحدیث 1518، ج 2، ص 122)

(2) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اکثر یہ پڑھتے تھے: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اکثر یہ پڑھا کرتے تھے۔اے اللہ عزومل! تیری ذات پاک ہے۔اور سب تعریفیں تیرے لئے ہیں اے الله پاک! میری مغفرت فرما بے شک تو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ (کتاب الدعا للطبرانی، القول فی السجود،الحديث، 597، ص 193)

(3) جو یہ کلمات پڑہے اللہ پاک اس کے گناہ بخش دے گا: سوتے وقت جو یہ کلمات میں عظمت و بزرگی والے پروردگار پاک سے مغفرت طلب کرتا ہوں اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ زندہ اور دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے اور میں اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں،تین مرتبہ پڑھ لے اللہ پاک اس کے گناہ بخش دےگا۔(سنن الترمذی، کتاب الدعوات، الحدیث 3508 ،ج 5، ص 255)

(4) الله پاک جنت میں بندے کو ایک درجہ عطا کرے گا: اللہ پاک جنت میں بندے کو ایک درجہ عطا کرے گا، بندہ عرض کرے گا: اے اللہ عروجل! یہ درجہ مجھے کیسے ملا؟ اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: اس استغفار کے بدلے جو تیرے بیٹےنے تیرے لیے کیا ۔ (المسند الامام احمد بن حنبل، مسند ابی ھر یرہ ، الحدیث: 615، ج 3 ، ص 584)

(5)الله پاک سے مغفرت طلب کرنا: ایک شخص جس نے کبھی نیکی نہ کی تھی ایک روز آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر کہنے لگا بے شک میرا ایک پروردگار ہے، اے میرے اللہ عزو جل! میری مغفرت فرما۔اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: میں نے تجھے بخش دیا۔(موسوعۃ الامام ابن ابی الدنیا، حسن الظن باالله، الحدیث: 106، ج 1، ص 104)