انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا اس کے تحت وہ دانستہ یا نا دانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تو یہ غلطی اس کے رب پاک کو اس سے ناراض کر دے گی، اسی لئے وہ فوری طور پر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر گڑ گڑاتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتا ہے۔

استغفار کے بے شمار فوائد و فضائل ہے چند ایک ملاحظہ کیجئے:

(1) استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے: چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمعہ کنزالایمان:جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا پائے گا ۔ (سورت النسآء:110)

(2) استغفار گناہوں کو مٹانے اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے: رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جب جنت میں نیک بندے کے درجے کو بلند فرمائے گا تو بندہ عرض کرے گا پروردگار یہ مرتبہ مجھے کیسے ملا؟اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا تیرے لئے تمہارے بچوں کے استغفار کے سبب ہے۔ (مسند احمد شعیب)

(3) استغفار دلوں کی صفائی ہے: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:کہ مومن بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے اگر وہ اس گناہ کو چھوڑ کر توبہ واستغفار کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔

(4) استغفار تنگی کو دور کرتا ہے : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو شخص توبہ واستغفار میں پابندی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی ہر تنگی کو دور فرمائے گا اور ہر غم سے خلاصی دے گا اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اس کا خیال بھی نہ ہو گا۔ (سنن ابی داؤد:1518)

(5) اصل بیماری اور اس کا علاج : رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں تمہاری بیماری اور اس کی دوا نہ بتاؤں؟(سن لو) تمہاری بیماری گناہ اور تمہاری دوا توبہ واستغفار ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی:7147)

اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ خصوصاً جب ہم سے گناہ کا ارتکاب ہو جائے اور ویسے بھی زیادہ سے زیادہ توبہ واستغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے (اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)


استغفار کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳)ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33)

مفسرین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ آیت سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔پھر جب آپ نے ہجرت فرمائی اور کچھ مسلمان رہ گئے جو اِستغفار کیا کرتے تھے تو وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) جب تک استغفار کرنے والے ایماندار موجود ہیں اس وقت تک بھی عذاب نہ آئے گا۔اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اَنْتَ فِیْهِمْ نے عَدُوْ کو بھی لیا دامن میں عیشِ جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست

عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ: علامہ علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں اس آیت سے ثابت ہوا کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲/۱۹۳)

احادیث میں استغفار کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں:

(1)نبی رحمت شفیعِ اُمم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو تم سب گناہگار ہو مگر میں نے بچایا لہٰذا مجھ سے مغفرت کاسوال کرو میں مغفرت فرمادوں گا اور تم میں سے جس نے یقین کرلیا کہ میں بخش دینے پر قادر ہوں پھر بھی مجھ سے میری قدرت کے وسیلے سے استغفار کرے تو میں اس کی مغفرت فرمادوں گا ۔ (ابنِ ماجہ، کتاب الزھد، باب ذکر التوبہ 4/494حدیث4257)

(2)حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شیطا ن نے کہا: اے میرے رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں، میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، ۴/۵۹، الحدیث: ۱۱۲۴۴)

(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تواللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴/۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)

توبہ اور اِستغفار میں فرق اور وسعتِ رزق کے لئے بہتر عمل: توبہ اور استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر نا توبہ ہے اوراس آیت سے معلوم ہوا کہ اخلاص کے ساتھ توبہ وا ستغفار کرنا درازیٔ عمر اور رزق میں وسعت کیلئے بہتر عمل ہے۔

(4)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب استغفار النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فی الیوم واللیلۃ، ۴/۱۹۰، الحدیث: ۶۳۰۷)

(5)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا فرماتے ہیں: اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھے اوراُن سے استغفار کرے۔

اِستغفار کرنے کے دینی اور دُنْیَوی فوائد:

دینی فوائد: استغفار کرنے سے ہمارے گناہ معاف ہوتے ہے اور سچی توبہ کرنے سے ہمارے کبیرہ صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہے اور عبادت میں مشغول رہتے ہے اور اسکو پڑھنے سےعبادت میں لذت بھی ملتی ہے اور گناہ سے بچنے کا ذہین بنتا ہے اور گناہ سے توبہ کرتا ہے۔

دنیاوی فوائد: اس سے علم، عمرمیں اضافہ ہوتاہے اور رزق حلال میں برکتیں وسعتیں نازل ہوتی ہے اور اولاد میں اضافہ ہوتاہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِستغفار کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے سے بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

(6)اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴/۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱)


پیارے اسلامی بھائیو دعائے استغفار کرنا نہایت محبوب شے ہے اور ہمارے پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت مبارکہ ہے۔تو لہٰذا مسلمان بندے کو اپنی بخشش کی دعا کرتے رہنا چاہیے اس کا ایک طریقہ توبہ کرنا اور استغفار کرنا بھی ہے۔کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں‌‌۔

وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳)ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہواور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33)

تفسیر:علامہ علی بن محمد خازن رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت سے ثابت ہوا کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے۔(خازن، الانفال تحت الآيۃ: 193/2،33)

احادیث میں استغفار کرنے کے بہت فضائل بیان کیے گئے ہیں ان میں سے (5)احادیث درج ذیل ہیں:

( 1)استغفار بخشش کا ذریعہ: حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شیطان نے کہا: اے میرے رب تیری عزت و جلال کی قسم جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا میری عزت و جلال کی قسم جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، 4/59 الحدیث :11244)

(2) ہر غم اور تکلیف سے نجات: حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے۔رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔جس نے استغفار کو اپنے لیے ضروری قرار دیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہرغم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔(ابن ماجہ کتاب الادب باب الاستغفار 257/4 الحدیث:3819)

(3) نامہ اعمال خوش کرے گا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال خوش کرے تو اسے چاہئے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔(مجمع الزوائد 10/347۔حدیث 17579)

(4) کس کے لیے زیادہ خوبیاں ہیں: روایت ہے حضرت عبداللہ ابن بسر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے لیے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔(ابن ماجہ) اور نسائی نے اس حدیث کو دن رات کے عمل میں روایت کیا۔مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ج: 3 ، حدیث 2356)

(5) جنت میں ایک درجہ:الله پاک جنت میں بندے کو ایک درجہ عطا فرمائے گا۔بندہ عرض کرئے گا: اے مولیٰ پاک یہ درجہ مجھے۔کیسے ملا؟ الله عز وجل ارشاد فرمائے گا۔اس استغفار کے بدلے جو تیرے بیٹے نے تیرے لیے کیا۔(المسند للام احمد بن حنبل مسند أبی ھریرہ الحدیث 10615ج 3 ص 585 )

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ایمان پر قائم رہنے اور گناہوں سے توبہ و استغفار کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہےوَاللہِ اِنِّی لَاَسْتَغْفِرُ اللہَ وَاَتُوبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّۃً ترجمہ:خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ۔ (مشکاۃ المصابیح،ج1،ص434، حدیث:2323)

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ کریم کے سارے ہی انبیائے کرام علیہمُ السَّلام معصوم ہیں، وہ گناہوں سے پاک ہیں اور رسولِ اکرم جنابِ محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو سب انبیاء و رُسُل کے سردار ہیں۔علمائے کرام و محدثینِ عظام نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِستغفار کرنے (یعنی مغفرت مانگنے) کی مختلف حکمتیں بیان فرمائی ہیں چنانچہ

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےاِستِغفَار کرنے کی حکمتیں:

 علّامہ بدرُالدّین عَیْنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بطورِ عاجزی یا تعلیمِ اُمّت کیلئے اِستِغفَار کرتے تھے۔ (عمدۃ القاری،ج 15،ص413، تحت الحدیث: 6307ملخصاً)

حکیمُ الاُمّت مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں: توبہ و استغفار روزے نماز کی طرح عبادت بھی ہے اسی لئے حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس پر عمل کرتے تھے ورنہ حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا۔(مراٰۃ المناجیح،ج3،ص353ملخصاً)

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ کریم کے سب سے مقبول ترین بندے یعنی دونوں جہاں کے سلطان محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو گناہوں سے پاک ہونے کے باوجود ہماری تعلیم کے لئے اِستغفار کریں اور ایک ہم ہیں کہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہونے کے باوجود اِستغفار کی کمی رکھیں، ہمیں چاہئے کہ اللہ کی بارگاہ میں خوب خوب توبہ و استغفار کرتے رہیں۔

ترغیب کے لیے استغفار کرنے کے فضائل و فوائد عرض کرتا ہوں:

(1)دِلوں کے زَنگ کی صفائی: حضرت اَنَس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ النَّبِیِّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ دِلنشین ہے:بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زَنگ لگ جاتا ہےاور اس کی جِلاء (یعنی صفائی)اِستِغْفار کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

(2)پریشانیوں اور تنگیوں سے نَجات: حضرت عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ محبوبِ ربِّ ذُوالجلال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمانِ عالیشان ہے:جس نے اِستِغفارکو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اُس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گُمان بھی نہ ہو گا۔(ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

(3)خوش کرنے والا اعمال نامہ: حضرت زُبیر بن عوّام رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ مکرم، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مَسرَّت نشان ہے: جو اِس با ت کو پسند کرتاہے کہ اس کا نامۂ اعمال اُسے خوش کرے تو اُسے چاہیے کہ اس میں اِستِغفارکا اضافہ کرے۔(مجمع الزوائد، 10/347، حدیث: 17579)

(4)خوشخبری! حضرت عبدُ اللہ بن بُسْر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سناکہ خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنے نامۂ اعمال میں اِستِغفار کو کثرت سے پائے۔(ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)

(5)سیِّدُ الْاِسْتِغفار پڑھنے والے کے لئے جنّت کی بشارت: حضرت شَدّادبن اَوس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ المُرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ یہ سیِّدُ الْاِسْتِغفار ہے:

اللہمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَ اَنَا عَبْدُكَ وَ اَنَا عَلٰی عَهْدِكَ وَ وَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعْتُ اَبُوْءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَیَّ اَبُوْءُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّه لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ

جس نے اِسے دن کے وَقت ایما ن و یقین کے ساتھ پڑھا پھر اُسی دن شام ہونے سے پہلے اُس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنّتی ہے اور جس نے رات کے وقت اِسے ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر صبح ہونے سے پہلے اُس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنّتی ہے۔ (بخاری، 4/190، حدیث: 6306)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو کثرت سے استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین اسلام کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت سیدنا علقمہ اور حضرت سیدنا اسودرضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قرآن پاک میں یہ آیتیں ایسی ہیں کہ اگر گناہگار ان کی تلاوت کر کے رب پاک سے مغفرت طلب کرے تو اس کی مغفرت کر دی جائے۔

(1) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠(۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو اپنے رب کی ثناء کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔(پ30،النصر: 3)

(2) وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی بُرائی یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش چاہے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔(پ5، النسآء:110)

(3) وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(۱۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور پچھلے پہرسے معافی مانگنے والے۔(پ3، اٰل ِعمرٰن:17)

استغفار سے متعلق فرامین مصطفی:

(1) جو استغفار کی کثرت کرے گا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا، ہر تنگی سے اس کے لئے نجات کی راہ نکالے گا اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو گا۔(سنن ابی داؤد الحدیث: 1518، ج 2 ص 122)

(2) بلاشبہ میں روزانہ 70 مرتبہ اللہ پاک سے استغفار کرتا ہوں۔حلانکہ آپ کے صدقے اگلے پچھلے لوگوں نے مغفرت کی نعمت پائی۔(كتاب الدعا الطبرانی، الحديث: 1838 ،ص 516)

(3) میرے دل پر کبھی (انوار الٰہی کے غلبہ چھا جاتا ہے)اور میں روزانہ 100 بار استغفار کرتا ہوں۔(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء الحدیث 270 ص (1449)

(4)جس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور وہ یقین رکھے کے اللہ پاک میری اس خطا پر مطلع ہے تو اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے اگر چہ وہ استغفار بھی نہ کرے۔(المعجم الاوسط، الحدیث 4472، ج 3 ص 244)

(5) اے میرے بندو تم سب گناہ گار ہو سوائے اس کے جسے میں محفوظ رکهوں لہذا مجھ سے مغفرت کا سوال کرو میں تمہاری مغفرت فرما دوں گا اور تم میں سے جو یہ جان لے کے میں بخش دینے پر قادر ہوں تو میں اس کی مغفرت فرما دوں گا۔ (سنن الترمذی الحدیث 2503 ص 22)


انسان میں شر کی دو طاقتیں ہیں ایک انسانی نفس یہ اندرونی اور دوسرا شیطان یہ بیرونی طاقت ہے یہ دونوں انسان کو گناہوں کی طرف لے جاتی ہیں اس لئے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان سے کچھ نا کچھ غلطیاں اور گناہ صادر ہو جاتے ہیں کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے سوائے انبیاء کرام علیہم السلام کے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا جب انسان خطا کا پتلا ہے تو اس سے گناہ سرزد ہو ہی جاتے ہیں تو ان گناہوں کے ازالے کے لیے قرآن کریم نے ہدایت و راہنمائی کی چنانچہ الله تبارک وتعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اَڑ نہ جائیں۔(پ4، اٰلِ عمرٰن:135)

اس آیت میں الله تبارک وتعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ کسی سے گناہ سرزد ہوجائے تو فوراً الله پاک کو یاد کرے ایسے لوگ اللہ پاک کو بہت پسند ہیں یہ لوگ گناہ کے فوراً بعد توبہ و استغفار کرتے ہیں،الله پاک کی طرف رجوع کرتے ہیں، خود نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم المعصومین ہونے کے باوجود الله پاک کی بارگاہ میں استغفار کیا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت سیدنا عبدااللہ بن عمر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں: ہم شمار کرتے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک مجلس میں سو مرتبہ استغفار کرتے جس کے الفاظ یہ ہیں: رب اغفر لی وتب علی انک انت التواب الغفور اے میرے رب! مجھے معاف فرما اور مجھ پر رجوع فرما،یقیناً تو بہت رجوع فرمانے والا،بخشنے والا ہے۔ (سنن ابی داؤد ،رقم: ١٥١٢)

قرآن پاک کے ساتھ ساتھ احادیث طیبہ میں استغفار یعنی الله پاک سے مغفرت و بخشش طلب کرنے کے کثیر فضائل بیان کیے گئے ہیں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں:

گناہوں سے بخشش کا سبب: الله پاک کی بارگاہ میں استغفار کرنا گناہوں کی بخشش کا سبب ہے چنانچہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! جب تو مجھے پکارتا ہے اور مجھ سے امید رکھتا ہے تو میں تیرے گناہوں کی بخشش فرما دیتا ہوں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کے بادلوں کے برابر بھی پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے بخشش مانگے تو میں تیری خطائیں بخش دوں گا اے ابن آدم! اگر تو میرے پاس گناہوں سے زمین بھر کر بھی لے آئے پھر مجھ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو میں تیرے زمین بھر کے گناہوں کو بھی بخش دوں گا۔ (ترمذی ،کتاب الدعوات باب ماجاء فی فضل التوبہ والاستغفار،رقم٣٥٥١،ج ٥،ص ٣١٨)

حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور پہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب ابلیس نے کہا کہ اے اللہ پاک مجھے تیری عزت کی قسم میں تیرے بندوں کو اس وقت تک بہکاتا رہوں گا جب تک ان کی روحیں ان کے جسم میں رہیں گی تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں ان کی مغفرت کرتا رہوں گا۔ (مسند امام احمد،مسند ابی سعید الخدری،رقم ١١٢٣٧،ج ٥،ص ٥٨)

حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک سفر کے موقع پر ارشاد فرمایا: استغفار کرو تم، ہم استغفار کرنے لگے پھر فرمایا، اسے 70 مرتبہ پورا کرو، ہم نے یہ تعداد پوری کر دی تو رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا، جو آدمی یا عورت اللہ پاک سے ایک دن میں 70 مرتبہ استغفار کرتا ہے اللہ پاک اس کے سات سو گناہ معاف فرما دیتا ہے اور بے شک جو بندہ دن رات ہیں 700 سے زیادہ گناہ کرے وہ بڑا بد نصیب ہے۔ ( بیہقی شعب الایمان،باب فی محبۃ الله،رقم ٢٥٢،ج ١،ص ٤٤٢ )

حضرت سیدنا بلال بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میرے والد نے میرے دادا رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میں نے سرور کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا، جس نے یہ کہا استغفراللہ الذی لا الہ الا ہو الحی القیوم واتوب الیہ ترجمہ: میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ ہے نگہبان ہے اور میں اس کے حضور توبہ کرتا ہوں تو اس کی مغفرت کر دی جائے گی اگرچہ میدان جہاد سے بھاگا ہو۔ ( سنن الترمذی،کتاب الدعوات،رقم ٣٥٨٨،ج ٥،ص ٣٣٦)

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ جو بندہ گناہ کر بیٹھے پھر احسن طریقے سے وضو کرے پھر کھڑے ہوکر دو رکعتیں ادا کرے پھر الله پاک سے استغفار کرے تو اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اَڑ نہ جائیں۔(پ4، الِ عمرٰن:135) (ترمذی،کتاب الصلوۃماجاءفی الصلوۃعند التوبہ، رقم ٤٩٦،ج ١،ص ٤١٤بتغیر)

استغفار کرنا الله پاک کو محبوب ہے : الله پاک کی بارگاہ عالی میں استغفار کرنا اسے بے حد محبوب ہے یہاں تک کہ حدیث پاک میں فرمایا اگر تم استغفار نہیں کرو گے تو الله پاک تمہاری جگہ ایسی قوم کے آئے گا جو اس کی بارگاہ میں استغفار کرے گی چنانچہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار والا تبار ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا، مجھے اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر تم گناہ کرنا چھوڑ دو تو اللہ پاک تمہیں لے جائے گا اور ایسے قوم کو لائے گا جو گناہ کرے گی اور اللہ سے مغفرت چاہے گی اللہ پاک ان کی مغفرت فرما دے گا۔ (مسلم،کتاب التوبہ،باب سقوط الذنوب بالاستغفار،رقم ٢٧٤٩،ص ١٤٧٠)

دلوں کے زنگ کو دور کرنے کا ذریعہ : گناہ کر کر کے دل زنگ آلود ہو جاتا ہے جس کا حل حدیث پاک میں استغفار بتایا گیا ہے چنانچہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے اخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بندہ جب ایک گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے پھر اگر وہ توبہ کرے اور اس گناہ سے باز ا ٓجائے اور استغفار کرے تو اس کا دل چمکا دیا جاتا ہے اگر مزید گناہ کرے تو اس سیاہی میں اضافہ کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر غلاف ا جاتا ہے یہ وہی زنگ ہے جسے اللہ پاک نے قران پاک میں یوں بیان فرمایا ہے:

كَلَّا بَلْٚ- رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(14) ترجمۂ کنز الایمان:کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے ان کی کمائیوں نے۔(المطففین آیت 14۔ترمذی کتاب التفسیر رقم ٣٣٤٥،ج ٥،ص٢٢٠)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین جناب صادق و امین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک تانبے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء (یعنی صفائی) استغفار کرنا ہے- (مجمع الزوائد،کتاب التوبہ باب ماجاءفی الاستغفار رقم١٧٥٧٥،ج١٠،ص٣٤٦)

دفع بلائیں اور کشادگی رزق کا سبب: کثرت استغفار سے بلائیں دور ہوتی ہیں اور رزق میں اضافہ بھی ہوتا ہے چنانچہ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آقا مظلوم سرور معصوم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسے جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ،کتاب الادب،باب الاستغفار،رقم ٣٨١٩،ج ٤،ص ٥)

نامہ اعمال میں خوشی کا سبب : ہر شخص چاہتا ہے اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے اور نامہ اعمال دیکھ کر وہ خوش ہوجاتے تو حدیث پاک میں کثرت استغفار کو نامہ اعمال میں خوشی کا ذریعہ بتایا گیا چنانچہ حضرت سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے ( مجمع الزوائد،کتاب التوبہ،باب الاکثار من الاستغفار،رقم ١٧٥٧٩،ج ١٠،ص ٣٤٧ )

حضرت سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہ مدینہ قرار قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت کو پائے۔ (ابن ماجہ،کتاب الادب،باب الاستغفار،رقم ٣٨١٨،ج ٤،ص ٢٥٧)

قرآن پاک کی آیات اور احادیث طیبہ میں استغفار کے کثیر فوائد بیان ہوئے ہیں ہمیں چاہیے کہ عاجزی و انکساری کے ساتھ الله پاک کی بارگاہ عالی میں کثرت سے استغفار کریں ۔ الله پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین


استغفار کے معنی اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے پچھلے گناہوں کی معافی طلب کرنا ہےاستغفار دل کی سلامتی اور صفائی کا ذریعہ ہے دین اسلام میں استغفار کی بڑی اہمیت ہے استغفار کرنا یقیناً بہت بڑی سعادت اور خوش قسمتی کی بات ہے انسان سے گناہ و معصیت کا سرزد ہونا عام بات ہے ایسا ممکن نہیں کہ انسان ہمہ وقت گناہوں سے بچا رہے کیونکہ ہر وقت ہر طرح کے گناہوں سے پاک رہنا انبیاء علیہم السلام اور ملائکہ کی صفت ہے اور گناہ ہو جانے کے بعد اپنے گناہ پر شرمندہ ہوتے ہوئے اللہ جل و علا سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا اللہ جل و علا کی طرف رجوع کرنا اور گزشتہ گناہوں سے دور رہنا بندہِ مؤمن کی صفت ہے جب کہ اپنے گناہ پر اڑے رہنا اور معافی طلب نہ کرنا شیطان کی صفت ہے۔قرآن و احادیث میں بارہا مرتبہ استغفار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰) ترجمۂ کنز الایمان: اللہ سے بخشش مانگو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ29، المزمل:20)

لہٰذا جب بھی انسان سے کوئی گناہ سرزد ہو تو فورا اپنے گناہ سے استغفار کرنی چاہیے استغفار کرنے سے گناہوں کی معافی کے ساتھ ساتھ اور بھی کثیر فوائد کا مجموعہ ہاتھ آتا ہے جن میں سے چند فوائد احادیث نبویہ کی روشنی میں ذکر کیے جاتے ہیں۔

دل کی سیاہی کا علاج :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُهُ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ ہوجاتا ہے پھر اگر وہ اس گناہ سے توبہ کرلیتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو اس کا دل اس نقطہ سیاہ سے صاف کردیا جاتا ہے۔(جامع ترمذی، کتاب تفسیر القرآن عنہ رسول اللہ باب سورۃ المطففین،حدیث 3334)

ہر غم سے آزادی اور وسیع رزق کا وظیفہ:

وعنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضِي اللہ عنْهُما قَال: قالَ رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: منْ لَزِم الاسْتِغْفَار، جَعَلَ اللہ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مخْرجًا، ومنْ كُلِّ هَمٍّ فَرجًا، وَرَزَقَهُ مِنْ حيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ۔رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو استغفار کو لازم کر لے اللہ پاک اس کی ہر تنگی دور فرما دیتا ہے اور ہر غم سے خلاصی عطا فرما دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 2339۔البقي في السنن الكبرى (3/351)

استغفار قبر میں ثابت قدمی کا باعث ہے:‏‏‏‏وَعَن عُثْمَان رَضِيَ اللہ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ ثُمَّ سَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو اس کے پاس کھڑے ہو کر فرماتے: اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو، اس کے لیے (سوال و جواب کے موقع پر) ثابت قدمی کی درخواست کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیا جائے گا۔(مشکوۃالمصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 133)

روزانہ 100 مرتبہ توبہ: عن الأغر بن يسار المزني رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: يا أيُّهَا النَّاسُ، تُوبُوا إلى اللهِ واسْتَغْفِرُوهُ، فَإنِّي أَتُوبُ في اليَّومِ مائةَ مَرَّةٍ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا لوگو اللہ کے حضور توبہ کرو کیونکہ میں اللہ کی بارگاہ میں روزانہ سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں ۔ (مشکوہ المصابیح حدیث 2325)

پیارے اسلامی بھائیو! اِستغفارکے بے شمار فضائل و فوائد کے باوجود بعض بدنصیب نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر توبہ و اِستغفار کا موقع ملنے کے باوجود توبہ و استغفار کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔توبہ کا موقع ملنا بھی بہت بڑی سعادت کی بات ہے بہت سے لوگوں کو توبہ کا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ بغیر توبہ کئے اس دارِ فانی سے چلے جاتے ہیں، موت کا کوئی بھروسا نہیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ فورًا سے پیشتر اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کریں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


استغفار کے بہت سے فضائل ہیں استغفار کرنے سے بندہ گناہ سے بچتا ہے استغفار کی کثرت ہونی چاہیے استغفار کے متعلق بہت سی احادیث ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

آیت مبارکہ استغفار کے با رے میں جسں کا مفہوم یہ ہے ۔ اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش ما نگ رہے ہے۔

(1) رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو تم سب گناہ گار ہو مگر جیسے میں نے بچایا۔لہذا مجھ سے مغفر ت کا سوال کرو میں تمہاری مغفرت فرما دوں گا تم میں سے جس نے یقین کر لیا کہ میں بخش دنیے پر قادرہوں پھر مجھ سے میری قدرت کے وسیلہ سے استغفار کیا تو میں اس کی مغفرت فرما دوں گا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزہر باب ذکر التوبۃ، رقم 425،ج4،ص495)

(2) دل کی صفائی کا سبب:حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے خاتم المرسلین حضور کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔بیشک تانبے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء یعنی صفائی استغفار کر نا ہے ۔ (مجمع الزوائد، کتاب التوبہ، باب ماجاء فی الاستغفا ر، رقم 17575، ج 10 ص 495)

(3) زرق کی کشادگی کا سبب: حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ار شا د فرمایا جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ تعالیٰ اس کی ہر پریشانی دور فرما دے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرما کے گا اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔ ( ابن ماجہ ، کتا ب الآ دا ب ، با ب استغفار، رقم: 3819 ، ج 4، ص 257)

(4) نامہ اعمال خوش کرئے گا: حضرت سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فر ما یا: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے اس کو چاہیے۔کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔(مجمع الزروالہ، کتاب التوبہ، باب الاكثار من الاستغفارر قم 17579، ج107 ، ص 347)

(5) سترہ مرتبہ استغفار کرنے کا ثواب: حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہے حضور کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک سفر کے موقع پر ارشاد فرمایا۔استغفار کرو تو ہم استغفار کرنے لگے۔پھر فرمایا، اسے سترہ مرتبہ پورا کرو جب ہم نے یہ تعداد پوری کردی تو حضور کریم نے ارشاد فرمایا جو آدمی یا عورت اللہ تعالیٰ سے ایک دن میں سترہ مرتبہ استغفار کر تاہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سات سو گناہ معاف فرما دیتا ہے اور بے شک جو شخص دن یارات میں سات سو سے زیادہ گناہ کرے وہ بڑا بد نصیب ہے۔(بیہقی شعب الایمان، باب فی محبۃ الله، فصل فی ادامہ ذکر اللہ پاک رقم 252، جلدا ص (442)


استغفار کے فضائل و فوائد استغفار کے لغوی معنی مغفرت طلب کرنا ہے۔اور ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا استغفار ہے۔استغفار کے متعلق قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(۱۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور پچھلے پہرسے معافی مانگنے والے۔(پ3، ال عمرٰن:17)

(1) رزق میں برکت کا نسخے :

حدیث مبارکہ میں ہے جو استغفار کی کثرت کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی ہر پریشانی دور کرے گا ہر تنگی سے اس کی نجات کی راہ نکالے گا ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہوگا۔(سنن ابوداؤد اور کتاب الوترج ۲ صفحہ١٢٢)

(2) زبان کی ہلاکت سے بچنے کیلئے استغفار:حضرت حذیفہ بن یمان فرماتے ہیں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ سخت کلامی کیا کرتا تھا۔ایک دن بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی یارسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں میری زبان میرے لیے جہنم کا باعث نہ بن جائے یہ سن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تم استغفار کیوں نہیں کرتے میں تو روزانہ 100 مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔(سنن الدارمی کتاب الوتر ج ۲، ص ۱۲۱ )

(3)گناہوں کی کثرت پر استغفارکی کثرت: حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا معافی مانگنے والا گناہ پر اڑا رہنے والا نہیں اگر چہ دن میں 70 بار گناہ کرے۔(سنن ابوداؤد اور کتاب الوتر ج ۲ ،ص ۱۲۱)

(4)اللهم اغفر لی کہنے کی فضیلت: حضور اکرم صلی اللہ علیہ سلام نے فرمایا جب کوئی گناہ کر بیٹھے پھر کہے اللہہم اغفرلی تو اللہ پاک فرماتا ہے میرے بندے سے گناہ ہو گیا اور وہ جانتا ہے اس کا رب بھی ہے جو گناہ پر پکڑ فرماتا ہے۔اور بخش بھی دیتا ہے۔(اے بندے جو چاہے کر میں نے تیری بخشش فرمادی) ۔ (صحیح مسلم، کتاب التوبۃ، ص ١٤٧٤)

(5)حدیث قدسی میں استغفار کی فضیلت:حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :رب پاک فرماتا ہے اے بندو تم سب گناہ گار ہو سوائے اس کے جسے میں محفوظ رکھوں، لہٰذا مجھ سے مغفرت کا سوال کرو میں مغفرت فرمادوں گا جو یہ جان لے کہ میں بخشنے پر قادر ہوں تو میں اس کی مغفرت فرما دوں گا اور مجھے کچھ پروا نہیں۔ (سنن الترمذى كتاب صفۃ القيامۃ، ص۔۲۲۲، ج ٤) 


ارادہ سے خدا کی مغفرت طلب کرنے کا عمل ہے جو قرآن و سنت کے روشن مناظر سے ایک بہت اہم عبادت ہے۔یہاں کچھ قرآنی آیات اور حدیثوں کے ذریعے استغفار کے فضائل اور فوائد پر غور کرتے ہیں:

(1) خوشخبری!

حضرت عبدُ اللہ بن بُسْر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سناکہ خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنے نامۂ اعمال میں اِستِغفار کو کثرت سے پائے۔(ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)

(2)مِنٹوں میں چار خَتمِ قرآنِ پاک : حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہُ عنہ سے رِوایت ہے مصطفٰے جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے: جو بعدِ فجر بارہ مرتبہ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ (پوری سورۃ) پڑہے گا گویا وہ چار بار (پورا) قرآن پڑہے گا اور اس دن اس کا یہ عمل اَہلِ زمین سے افضل ہے جبکہ وہ تقویٰ کا پابند رہے۔(شعب الایمان، 2/501، حدیث: 2528)

(3) آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں: حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہُ عنہ سے رِوایت ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَروَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: جس بندے نے اِخلاص کے ساتھ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ کہا تو آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ عرش تک پہنچ جاتا ہے جبکہ کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔(ترمذی، 5/340، حدیث: 3601)

(4) سونے کا پہاڑ صَدَقہ کرنے کا ثواب: حضرت ابو اُمامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم، رء ُوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ دِلنَشِین ہے: جس کے لئے رات میں عبادت کرنا دُشوار ہو یا وہ اپنا مال خرچ کرنے میں بُخْل سے کام لیتا ہو یا دشمن سے جہاد کرنے سے ڈرتا ہو تو وہ سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِهٖ کثرت سے پڑھا کرے کیونکہ ایسا کرنا اللہ پاک کو اپنی راہ میں سونے کا پہاڑ صَدَقہ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔(مجمع الزوائد، 10/112، حدیث: 16876)

(5)شیطان سے مَحفوظ رہنے کا : سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے: جس نے نمازِ فجر ادا کی اور بات کئے بغیر قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ (پوری سورت) کو دس مرتبہ پڑھا تو اُس دِن میں اُسے کوئی گُناہ نہ پہنچے گا اور وہ شیطان سے بچایا جائے گا۔(تفسیر در منثور،پ 30، الاخلاص، تحت الآیۃ: 1، 8/678)

نماز کے بعد پڑھنے کے مزید اَوراد مکتبۃُ المدینہ کی کتاب بہارِ شریعت حصہ 3، صفحہ 107 تا 110 پر، الوظِیفَۃُ الکریمہ اور شجرۂ قادریہ میں مُلاحظہ فرما لیجئے۔

(6) پریشانیوں اور تنگیوں سے نَجات: حضرت عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ محبوبِ ربِّ ذُوالجلال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جس نے اِستِغفارکو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اُس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گُمان بھی نہ ہو گا۔(ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

(7)دِلوں کے زَنگ کی صفائی: حضرت اَنَس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ النَّبِیِّین، محبوبِ ربُّ العالَمِین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ دِلنشین ہے: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زَنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جِلاء (یعنی صفائی)اِستِغْفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

(8) پریشانیوں اور تنگیوں سے نَجات : حضرت عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ محبوبِ ربِّ ذُوالجلال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جس نے اِستِغفارکو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اُس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گُمان بھی نہ ہو گا۔(ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

(9) خوش کرنے والا اعمال نامہ : حضرت زُبیر بن عوّام رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ مکرم، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مَسرَّت نشان ہے: جو اِس با ت کو پسند کرتاہے کہ اس کا نامۂ اعمال اُسے خوش کرے تو اُسے چاہیے کہ اس میں اِستِغفارکا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/347، حدیث: 17579)

(10)ننانوے بیماریوں کے لیے دَوا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ احمدِ مُجتبیٰ، محمدِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس نے لَاحَوْلَ وَ لَاقُوَّةَاِلَّا بِاللہ کہا تو یہ (اُس کے لئے) ننانوے بیماریوں کی دوا ہے اِن میں سب سے ہلکی بیماری رَنج و اَلَم ہے۔(الترغیب و الترہیب، 2/285، حدیث: 2448 )

توبہ اور استغفار میں فرق: یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر نا توبہ ہے۔ (صراط الجنان جلد 4 پارہ 11 سورہ ہود آیت نمبر 3)


انسان دنیا میں بے شمار گناہ کرتا رہتا ہےخواہ وہ چھوٹا یا بڑا گناہ ہو لیکن اللہ پاک کی رحمت اتنی وسعی ہے کہ اللہ پاک ہم لوگوں کو استغفار کی دولت عطا فرماتا ہے لہٰذا یہاں حدیث کی روشنی میں استغفار کے فضائل و فوائد بیان کئے جائیں گے

حدیث کی روشنی میں استغفار کے فضائل و فوائد:

استغفار کی نصیحت: حضرتِ سَیِّدُنا اَغَربِنْ یَسَارمُزَنِی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش چاہو بے شک میں روزانہ100 مرتبہ اللہ پاک کے حضور توبہ کرتا ہوں۔(فیضان ریاض الصالحین جلد:1 ، حدیث نمبر:14)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان: ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ پاک کی قَسَم!میں ایک دن میں 70مرتبہ سے بھی زیادہ اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ وا ِستِغفَار کرتا ہوں۔( فیضان ریاض الصالحین جلد:1 ، حدیث نمبر:13)

گناہ پر استغفار:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس شخص نے اپنے گناہ پر استغفار کیا اس نے اپنے گناہ پر اصرار نہیں کیا اگرچہ وہ دن میں ستر بار گناہ کرے۔(ترمذی، ابوداؤد)

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے ان لوگوں میں سے بنا جو نیکی کریں تو خوش ہوں اور برائی کریں تو استغفار کریں۔(ابن ماجہ، بیہقی)

گناہ کا سیاہ نقطہ: حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ ہوجاتا ہے پھر اگر وہ اس گناہ سے توبہ کرلیتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو اس کا دل اس نقطہ سیاہ سے صاف کردیا جاتا ہے اور اگر زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے پس یہ ران یعنی زنگ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا:

كَلَّا بَلْٚ- رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۱۴) ترجمہ کنزالایمان: کوئی نہیں بلکہ اُن کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔ (پ30، المطففین: 14) اس روایت کو احمد، ترمذی، ابن ماجہ نے نقل کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

ان احادیث نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مطالعہ کے بعد ہمیں یہ سبق ملا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استغفار کے فضائل و فوائد کا بہت بڑا مرتبہ رکھا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں گناہ سے معافی اور استغفار کرکے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔


انسان دنیا کے اندر مختلف کاموں کو سرانجام دیتا ہے اللہ پاک کے نیک بندے اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزارتے ہیں اور جبکہ دیگر گنہگار لوگ اللہ پاک کی نافرمانی اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کو بجا نہیں لاتے اس طرح وہ اپنی زندگی گناہوں میں گزار رہے ہوتے ہیں لیکن ان گنہگار بندوں میں سے کچھ لوگوں کو اللہ پاک کی توفیق سے توبہ اور استغفار کرنے کی توفیق مل جاتی ہے۔

یاد رہے استغفار کے فضائل احادیث میں کثیر آئے ہیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

استغفار کی فضیلت پر فرمانِ مصطفیٰ:

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: وَاللہِ اِنِّی لَاَسْتَغْفِرُ اللہَ وَاَتُوبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّۃً ترجمہ:خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ (مشکاۃ المصابیح،ج1،ص434، حدیث:2323)

گناہ آسمان تک: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اگر تم گناہ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ جائے پھر تم توبہ کرو تب بھی اللہ پاک تمہاری توبہ قبول فرما لےگا۔ (سنن ابنِ ماجہ،ج4،ص49 حدیث)

روزانہ سو بار استغفار: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث روایت کی کہ وہ فرمائے: میں روزانہ سو بار استغفار کرتا ہوں۔(صحیح بخاری حدیث نمبر ٦٩٩٦)

خطاکاروں میں بہتر: رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : سارے انسان خطاکار ہیں اور خطاکاروں میں سے بہتر وہ ہے جو توبہ کرلیتے ہیں۔ (سنن ابنِ ماجہ،ج4،ص491،حدیث)

مشکلات سے نجات :رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ استغفار کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے بہترین رزق اور راحت دیتا ہے اور اس کو مشکلات سے نجات دیتا ہے۔(سنن الترمذی حدیث نمبر ٣٤٨٢)

استغفار کرنے سے دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہوتی ہے۔حضرت نوح علیہ السّلام نے اپنی قوم کی سلامتی اور رحمت کیلئے اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا، جس سے ان کو بحر میں تنہائی سے بچنے کا نجات بخش واقعہ پیدا ہوا۔(قرآن، سورة نوح)

استغفار کے فوائد:

(1) اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

2)جو اِستغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔

3)اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔

4)جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلادیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں)کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم