استغفار کے معنی اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے پچھلے گناہوں کی معافی طلب کرنا ہےاستغفار دل کی سلامتی اور صفائی کا ذریعہ ہے دین اسلام میں استغفار کی بڑی اہمیت ہے استغفار کرنا یقیناً بہت بڑی سعادت اور خوش قسمتی کی بات ہے انسان سے گناہ و معصیت کا سرزد ہونا عام بات ہے ایسا ممکن نہیں کہ انسان ہمہ وقت گناہوں سے بچا رہے کیونکہ ہر وقت ہر طرح کے گناہوں سے پاک رہنا انبیاء علیہم السلام اور ملائکہ کی صفت ہے اور گناہ ہو جانے کے بعد اپنے گناہ پر شرمندہ ہوتے ہوئے اللہ جل و علا سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا اللہ جل و علا کی طرف رجوع کرنا اور گزشتہ گناہوں سے دور رہنا بندہِ مؤمن کی صفت ہے جب کہ اپنے گناہ پر اڑے رہنا اور معافی طلب نہ کرنا شیطان کی صفت ہے۔قرآن و احادیث میں بارہا مرتبہ استغفار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰) ترجمۂ کنز الایمان: اللہ سے بخشش مانگو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ29، المزمل:20)

لہٰذا جب بھی انسان سے کوئی گناہ سرزد ہو تو فورا اپنے گناہ سے استغفار کرنی چاہیے استغفار کرنے سے گناہوں کی معافی کے ساتھ ساتھ اور بھی کثیر فوائد کا مجموعہ ہاتھ آتا ہے جن میں سے چند فوائد احادیث نبویہ کی روشنی میں ذکر کیے جاتے ہیں۔

دل کی سیاہی کا علاج :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُهُ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ ہوجاتا ہے پھر اگر وہ اس گناہ سے توبہ کرلیتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو اس کا دل اس نقطہ سیاہ سے صاف کردیا جاتا ہے۔(جامع ترمذی، کتاب تفسیر القرآن عنہ رسول اللہ باب سورۃ المطففین،حدیث 3334)

ہر غم سے آزادی اور وسیع رزق کا وظیفہ:

وعنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضِي اللہ عنْهُما قَال: قالَ رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: منْ لَزِم الاسْتِغْفَار، جَعَلَ اللہ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مخْرجًا، ومنْ كُلِّ هَمٍّ فَرجًا، وَرَزَقَهُ مِنْ حيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ۔رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو استغفار کو لازم کر لے اللہ پاک اس کی ہر تنگی دور فرما دیتا ہے اور ہر غم سے خلاصی عطا فرما دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 2339۔البقي في السنن الكبرى (3/351)

استغفار قبر میں ثابت قدمی کا باعث ہے:‏‏‏‏وَعَن عُثْمَان رَضِيَ اللہ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ ثُمَّ سَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو اس کے پاس کھڑے ہو کر فرماتے: اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو، اس کے لیے (سوال و جواب کے موقع پر) ثابت قدمی کی درخواست کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیا جائے گا۔(مشکوۃالمصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 133)

روزانہ 100 مرتبہ توبہ: عن الأغر بن يسار المزني رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: يا أيُّهَا النَّاسُ، تُوبُوا إلى اللهِ واسْتَغْفِرُوهُ، فَإنِّي أَتُوبُ في اليَّومِ مائةَ مَرَّةٍ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا لوگو اللہ کے حضور توبہ کرو کیونکہ میں اللہ کی بارگاہ میں روزانہ سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں ۔ (مشکوہ المصابیح حدیث 2325)

پیارے اسلامی بھائیو! اِستغفارکے بے شمار فضائل و فوائد کے باوجود بعض بدنصیب نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر توبہ و اِستغفار کا موقع ملنے کے باوجود توبہ و استغفار کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔توبہ کا موقع ملنا بھی بہت بڑی سعادت کی بات ہے بہت سے لوگوں کو توبہ کا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ بغیر توبہ کئے اس دارِ فانی سے چلے جاتے ہیں، موت کا کوئی بھروسا نہیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ فورًا سے پیشتر اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کریں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم