استغفار کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳)ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33)

مفسرین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ آیت سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔پھر جب آپ نے ہجرت فرمائی اور کچھ مسلمان رہ گئے جو اِستغفار کیا کرتے تھے تو وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) جب تک استغفار کرنے والے ایماندار موجود ہیں اس وقت تک بھی عذاب نہ آئے گا۔اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اَنْتَ فِیْهِمْ نے عَدُوْ کو بھی لیا دامن میں عیشِ جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست

عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ: علامہ علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں اس آیت سے ثابت ہوا کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲/۱۹۳)

احادیث میں استغفار کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں:

(1)نبی رحمت شفیعِ اُمم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو تم سب گناہگار ہو مگر میں نے بچایا لہٰذا مجھ سے مغفرت کاسوال کرو میں مغفرت فرمادوں گا اور تم میں سے جس نے یقین کرلیا کہ میں بخش دینے پر قادر ہوں پھر بھی مجھ سے میری قدرت کے وسیلے سے استغفار کرے تو میں اس کی مغفرت فرمادوں گا ۔ (ابنِ ماجہ، کتاب الزھد، باب ذکر التوبہ 4/494حدیث4257)

(2)حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شیطا ن نے کہا: اے میرے رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں، میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، ۴/۵۹، الحدیث: ۱۱۲۴۴)

(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تواللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴/۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)

توبہ اور اِستغفار میں فرق اور وسعتِ رزق کے لئے بہتر عمل: توبہ اور استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر نا توبہ ہے اوراس آیت سے معلوم ہوا کہ اخلاص کے ساتھ توبہ وا ستغفار کرنا درازیٔ عمر اور رزق میں وسعت کیلئے بہتر عمل ہے۔

(4)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب استغفار النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فی الیوم واللیلۃ، ۴/۱۹۰، الحدیث: ۶۳۰۷)

(5)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا فرماتے ہیں: اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھے اوراُن سے استغفار کرے۔

اِستغفار کرنے کے دینی اور دُنْیَوی فوائد:

دینی فوائد: استغفار کرنے سے ہمارے گناہ معاف ہوتے ہے اور سچی توبہ کرنے سے ہمارے کبیرہ صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہے اور عبادت میں مشغول رہتے ہے اور اسکو پڑھنے سےعبادت میں لذت بھی ملتی ہے اور گناہ سے بچنے کا ذہین بنتا ہے اور گناہ سے توبہ کرتا ہے۔

دنیاوی فوائد: اس سے علم، عمرمیں اضافہ ہوتاہے اور رزق حلال میں برکتیں وسعتیں نازل ہوتی ہے اور اولاد میں اضافہ ہوتاہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِستغفار کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے سے بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

(6)اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴/۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱)