اِستغفار یعنی(توبہ کرنا) کسے کہتے ہیں؟ : عمدۃُ القاری میں توبہ سے متعلق علمائے کرام کے مختلف اقوال:

(1): بعض مشائخِ کرام کے نزدیک نَدامت توبہ ہے۔

(2): بعض کے نزدیک گناہوں کی طرف نہ لوٹنے کاعَزْمِ مُصَمَّم (یعنی پکا ارادہ) توبہ ہے۔

(3):گناہ سے باز رہنے کا نام توبہ ہے۔

(4):مذکورہ تینوں باتوں کے مجموعے کانام توبہ ہے اور یہی سچّی توبہ کہلاتی ہے۔

(5):علّامہ جَوہَرِی نے فرمایاکہ گناہوں سے رُجوع کرنے کا نام توبہ ہے۔(عمدۃ القاری، الدعوات، باب التوبۃ،۱۵/۴۱۴)

سچّی توبہ کی علامات: حضرتِ سَیِّدُناعَبدُ اللہ بِنْ مُبارَک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سچّی توبہ کی چھ علامات ہیں: (۱) گُزَشتَہ گناہوں پر نادم ہونا (۲)گناہوں کی طرف نہ لوٹنے کاعَزْمِ مُصَمَّم (۳) جن فرائض میں کوتاہی کی ہے ان کی ادائیگی (۴)جن کا حَق تَلَف کیا ہے انہیں ان کا حق دینا (۵)ناجائز و حرام مال سے بدن پر جو چربی چڑھ گئی ہو اُسےغَم وحُزْن کے ذریعے پگھلانا یہاں تک کہ کھال ہڈی سے چمٹ جائے اور پھر اگر اُس پہ گوشت آئے تو ایسا گوشت آئے جو حلال و طیب سے پروان چڑھا ہو(۶) جس طرح بدن کو نفسانی خواہشات کی لذت پہنچائی ہے اسی طرح اسے اطاعت کا مزہ چکھانا۔(شرح بخاری لابن بَطّال،کتاب الدعائ، باب توبوا الی اللہ توبۃ نصوحا،۱۰/۸۰)

حضرتِ سَیِّدُنا اَغَر بنْ یَسَارمُزَنِی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نَبِیّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش چاہو بے شک میں روزانہ 100 مرتبہ اللٌٰہ پاک کے حضور توبہ کرتا ہوں۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعا والتوبۃ والاستغفار، باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ، ص ۱۴۴۹، حدیث: ۲۷۰۳)

پیارے اسلامی بھائیو!توبہ و اِستِغفَار، نماز، روزے کی طرح عبادت ہے، اِسی لئے حضور انورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بکثرت توبہ واِستِغفَار کیا کرتے تھے۔ورنہ حضور انورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مَعصُوم ہیں گناہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب بھی نہیں آتا اس سے ہمیں اپنی اصلاح کرنے کا درس ملتا ہے۔

استغفار کے فضائل:حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم اُس شخص کی خوشی سے متعلق کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی کسی سنسان جنگل میں اپنی نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی نکل جائے، جس سر زمین میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو اور اس اونٹنی پر اس کے کھانے پینے کی چیزیں لدی ہوں، وہ شخص اس اونٹنی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائے،پھر وہ اونٹنی ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور اس کی نکیل اس تنے میں اٹک جائے اور اس شخص کو وہ اونٹنی تنے میں اٹکی ہوئی مل جائے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ بہت خوش ہو گا، حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سنو! بخدا! اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص کی سواری کے (ملنے کی) بہ نسبت زیادہ خوشی ہوتی ہے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: گناہ سے (سچی) توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم گِنا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک مجلس کے اندر سو مرتبہ کہا کرتے۔اے رب! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما بے شک تو توبہ قبول کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔

جوانی میں توبہ کی فضیلت: اللہ کے محبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تعالیٰ عَلَیہ وَ اٰلہٖ وَ سَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: اِنَّ اللہَ تعالیٰ یُحِبُّ الشَّابَّ التَّائِبَ یعنی جوانی میں توبہ کرنے والا شخص اللہ پاک کا محبوب ہے۔ (کنز العُمّال، کتاب التوبۃ، الفصل الاول فی الخ، الجزء۴، ۳/۸۷، حدیث: ۱۰۱۸۱)

مُبَلِّغِ اِسلام حضرتِ علّامہ شیخ شُعَیْب حَرِیفِیْش رَحمۃُ اللہِ تعالیٰ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اللہ پاک کی اپنے بندے سے مَحَبَّت اُس وقْت ہوتی ہے جبکہ وہ جوانی میں توبہ کرنے والا ہو کیونکہ نوجوان تَر اورسرسبزٹہنی کی طرح ہوتاہے۔جب وہ اپنی جوانی اور ہر طرف سے شہوات ولذات سے لطف اٹھانے اوران کی رغبت پیدا ہونے کی عمر میں توبہ کرتاہے، اوریہ ایسا وقت ہوتاہے کہ دُنیا اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔اس کے باوجود محض رضائے الٰہی کے لئے وہ ان تمام چیزوں کوترک کردیتا ہے تو اللہ پاک کی محبت کامستحق بن جاتاہے اوراس کے مقبول بندوں میں اس کا شمار ہونے لگتا ہے۔ (حکایتیں اور نصیحتیں، ص۷۵)

پیارے اسلامی بھائیو! ذرا غور وفکر کرنے کا مقام ہے کہ بندے کی توبہ کرنے سے الله پاک کتنا زیادہ خوش ہوتا ہے جب تو اسے مالک تسلیم کررہا ہے تو اُس کے ہر حکم کو سرِ خم تسلیم کرکے اطاعت وفرمانبرداری کو بجا لاکر اپنے بندے ہونے کا ثبوت بھی دے۔

استغفار کے فوائد: جو اِستغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(ابو داؤد،ج2،ص122، حدیث:1518)

اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔(مجمع البحرین،ج 4،ص272، حدیث:473)

جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلادیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں)کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔(الترغیب والترھیب،ج4،ص48، رقم:17)

مزید ایک اور فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بندہ عذابِ الٰہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ اِستغفار کرتا رہتا ہے ۔ (مسند احمد شعیب ارنووط نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے)

پیارے اسلامی بھائیو!آپ نے ان احادیث کریمہ کو ملاحظہ فرمایا کہ اِستغفار سے اللہ پاک اپنے بندے پر کتنی رحمتوں کی بارش برساتا ہےاب توبہ کے دروازے بند نہیں ہوئے ہیں تو اُس ربِّ کریم کی بلند بارگاہ میں گناہوں کی معافی اور آئندہ گناہوں سے بچنے کی استقامت طلب کرنی چاہئے۔