انسان میں شر کی دو طاقتیں ہیں۔ایک انسانی نفس یہ اندرونی اور دوسرا شیطان یہ بیرونی طاقت ہے، یہ دونوں طاقتیں انسان کو گناہوں کی طرف لے جاتی ہیں، اس لیے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان سے کچھ نہ کچھ غلطیاں اور گناہ صادر ہوجاتے ہیں کیوں کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔سوائے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والتسلیمات کے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں، ان سے کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا، نبوت سے پہلے بھی اور نبوت کے بعد بھی انبیاء کی جماعت معصوم ہوتی ہے، یہ معزز گھرانے کے افراد ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا بطور خاص انتخاب فرماتا ہے، یہ ہمارا متفقہ عقیدہ ہے۔

انبیا کی تخلیق ہی ایسی ہے کہ وہ ان دونوں شر کی طاقتوں سے محفوظ ہوتے ہیں، انہیں جو نفس عطا کیا جاتا ہے، وہ نفس مطمئنہ ہوتا ہے، جس میں طبعی طور پر ہر گناہ اور معصیت سے نفرت ہوتی ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! کئی احادیث میں استغفار کے فضائل بیان کئے گئے ہیں اور اس کو کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے ان میں سے چند روایات درج ذیل ہیں :

عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ -صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللہ لَهٗ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَهٗ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ۔

ترجمہ: روایت ہے ان ہی(حضرت ابن عباس)سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جو استغفار کو اپنے پر لازم کرلے توﷲاس کے لیے ہرتنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات دے گا اور وہاں سے اسے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔ (احمد،ابوداؤد،ابن ماجہ)

شرح حدیث:

اس طرح کہ روزانہ استغفار کے کلمے زبان سے ادا کیا کرے گناہ کرے یا نہ کرے۔بہتر یہ ہے کہ نماز فجر کے وقت سنت فجر کے بعد فرض سے پہلے ستر بار پڑھا کرے کہ یہ وقت استغفار کے لیے بہت ہی موزوں ہے، رب تعالیٰ فرماتاہے: وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸) یہ عمل بہت ہی مجرب ہے۔روزی سے مراد مال،اولاد،عزت سب ہی ہے۔استغفار کرنے والے کو رب تعالیٰ یہ تمام نعمتیں غیبی خزانہ سے بخشتا ہے، قرآن کریم فرماتاہے:

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ(۱۱) وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔تم پر شرّاٹے کا مینہ(موسلا دھار بارش) بھیجے گا۔اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔(پ29، نوح10تا12) قرآن کریم میں استغفار پر پانچ نعمتوں کا ذکر فرمایا اور اس حدیث نے تین نعمتوں کا مگر ہماری اس شرح سے وہ پانچوں نعمتیں ان تین میں آگئیں،رب تعالیٰ فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ- یہ حدیث اس آیت کی شرح ہے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:3 حدیث نمبر:2339 )

وَعَنْ ثَوْبَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ: «اللہمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجلَالِ وَالْإِكْرَامِ»۔رَوَاهُ مُسْلِمٌ

ترجمہ: روایت ہے حضرت ثوبان رضی الله عنہ سے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفار پڑھتے اور کہتے الٰہی تو سلام ہے تجھ سے سلامتی ہے تو برکت والا ہے اے جلالت اور بزرگی والے (مسلم۔مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 حدیث نمبر:96 )

توبہ واستغفار کے 4 فوائد :

1: اللہ پاک تو بہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے 2:جو استغفار کو لازم کر لے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہر غم سے آزادی اور اسے، وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔3: استغفار سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے 4- جب بندہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناہ بھلا دیتا ہے، اسی طرح اس کے اعضا (یعنی ہاتھ یہ پاؤں) کو بھی بھلا دیتا ہے اور زمین سے اس کے نشانات بھی مٹا ڈالتا ہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے؟ گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ملے گا ( الترغیب والترہیب 48/4 رقم (17)