توبہ اور استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر نا توبہ ہے

ویسے تو جس لمحہ اور جس ساعت انسان اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور پکارتا ہے تو وہ سنتا ہے اور اس سے جب بھی دعا کی جائے قبول فرماتا ہے۔لیکن رات کا آخری ثلث بطور خاص اس کام کے لیے معین کیا گیا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا۔

وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(۱۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور پچھلے پہرسے معافی مانگنے والے۔(پ3، اٰل عمرٰن:17)

ایک دوسرے مقام پر فرمایا :

وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور پچھلی رات اِستغفار کرتے۔ (پ26، الذٰریٰت: 18)

جس طرح لوہا پانی میں پڑا رہنے سے زنگ خوردہ ہو جاتا ہے۔اسی طرح انسانی قلوب گناہوں کی نجاست سے آلودہ ہونے کے باعث زنگ خوردہ اور سیاہی آلود ہو جاتے ہیں۔ایسے وقت استغفار کی ریتی ہی اس زنگ کو دور کر کے چمکا سکتی ہے۔چنانچہ آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک طویل حدیث ہے جس کے آخر میں یہ ذکر ہے:

فإن تاب واستغفر صقل قلبه

یعنی اگر انسان توبہ کر لے اور اپنے گناہوں سے معافی مانگے تو اس سے اس کا قلب چمک اُٹھتا ہے۔ (ترمذی)

فوائدِ استغفار: جو استغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہر غم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔

استغفار سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے: جب بندہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناہ بھلا دیتا ہے، اسی طرح اس کے اعضا (یعنی ہاتھ پاؤں) کو بھی بھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مٹا ڈالتا ہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا ۔

گناہوں سے معافی: انسان کے گناہ خواہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں یا بحرِ بیکراں کے قطرات سے زائد ہوں تو بھی استغفار سے سب محو ہو جاتے ہیں۔

(1) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری اُمّت کے لئے مجھ پر دو امن(والی آیات) اتاری ہیں، ایک: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو۔اور دوسری: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33) جب میں اس دنیا سے پردہ کر لوں گا تو قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑ دوں گا۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانفال، ۵/۵۶، الحدیث: ۳۰۹۳)

(2) حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شیطا ن نے کہا: اے میرے رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں، میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، ۴/۵۹، الحدیث: ۱۱۲۴۴)

(3) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تواللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴/۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)

(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہمارا رب تعالیٰ ہر رات اس وقت دنیا کے آسمان کی طرف نزولِ اِجلال فرماتا ہے جب رات کا تھائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے کوئی ایساہے جو مجھ سے دعا کرے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں،کوئی ایساہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اسے عطا کروں، کوئی ایساہے جو مجھ سے معافی چاہے تاکہ میں اسے بخش دوں۔(بخاری، کتاب التّھجّد، باب الدّعاء والصّلاۃ من آخر اللّیل، ۱/۳۸۸، الحدیث: ۱۱۴۵۔صراط الجنان)

(5) نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب سے اہم اور افضل استغفار یہ ہے کہ بندہ کہے: اے اللہ! تو میرا رب ہے۔تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔تو میرا خالق ہے۔میں تیرا بندہ ہوں اور میں اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق تجھ سے کیے ہوئے عہد و وعدے پر قائم ہوں۔میں اپنے گناہوں کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔میں اپنے ہر قسم کے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں اور اپنے آپ پر تیری نوازشات کا اقرار کرتا ہوں، لہٰذا مجھے معاف فرما کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی شخص یقین و ایمان کے ساتھ صبح کے وقت یہ کلمات پڑھے، پھر مر جائے تو جنت میں داخل ہو گا اور اگر شام کے وقت یہی کلمات یقین و ایمان رکھتے ہوئے کہے اور مر جائے تو جنت میں داخل ہو گا۔ (سنن نسائی، 2/319۔مکتبہ قدیمی کتب خانہ)