مُفَسِّر شہِیرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اِستِغفَار کے معنی ہیں گُزَشتَہ گناہوں کی معافی مانگنا۔اِستِغفَار غَفْرٌ سے بنا ہے اس کا مطلب ہے،چھپانا یا چھلکاو پَوست وغیرہ چونکہ اِسْتِغفَار کی برَکَت سے گناہ ڈھک جاتے ہیں اِس لئے اِسے اِستِغفَارکہتے ہیں۔(مر اٰۃ لمناجیح،۳/۳۵۲)

استغفار کرنے کے کثیر فضائل اور دینی و دنیوی فوائد قرآن و احادیث میں بیان کئے گئے ہیں۔موضوع کو پیش نظر رکھتے ہوئے چند احادیث بطور ترغیب ذکر کرتا ہوں:

(1)ترجمان قرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے لازم کر لیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار الحدیث: ۳۸۱۹)

(2) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شیطان نے کہا: اے میرے رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں، میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری ، الحدیث: 11244)

(3) حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ پاک کی قَسَم!میں ایک دن میں 70 مرتبہ سے بھی زیادہ اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ وا ِستِغفَار کرتا ہوں۔ (بخاری، کتاب الدعوات، باب استغفار النبی فی الیوم واللیلۃ، حدیث 6307)

(4) صحابی رسول حضرتِ سیدنا اَغَر بن یسار مُزَنِی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے لوگو!اللہ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش چاہو۔بے شک میں روزانہ 100 مرتبہ اللہ پاک کے حضور توبہ کرتا ہوں۔(صحیح مسلم،کتاب الذکر والدعا والتوبۃ والاستغفار، حدیث: 2703)

(5)حضرت شداد ابن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا استغفار کا سردار یہ ہے کہ تم کہو الٰہی تو میرا رب ہے،تیرے سوا کوئی معبود نہیں،تو نے مجھے پیدا کیا،میں تیرا بندہ ہوں اور بقدر طاقت تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں میں اپنے کئے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اسکا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اقراری ہوں مجھے بخش دے،تیرے سوا کوئی گناہ کو نہیں بخش سکتا حضور نے فرمایا کہ جو یقین قلبی کے ساتھ دن میں یہ کہہ لے پھر اسی دن شام سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا اور جو یقین دل کے ساتھ رات میں یہ کہہ لے پھر صبح سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا (مشکوٰۃ المصابیح جلد:3 ، حدیث نمبر:2335)

(6)حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضور جان جاناں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :مبارک ہو اس آدمی کو جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح جلد:3 ، حدیث نمبر:2356)

(7)۔خادم رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شفیع المذنبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا بے شک تانبے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس زنگ کی صفائی استغفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، کتاب التوبۃ، حدیث 17575، ج 10 ص 346)

(8)امیر المومنین، حیدر کرار، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں وہ شخص ہوں کہ جب سید المرسلین، خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے حدیث سنتا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے اس سے جتنا چاہے نفع دیتا ہے اور جب رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کوئی صحابی مجھے حدیث سناتے ہے تو میں ان سے حلف لے لیتا ہوں اور جب وہ حلف اٹھا لیتے ہیں تو میں ان کی تصدیق کرتا ہوں اور مجھے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی اور اُنہوں نے سچ فرمایا کہ میں نے مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ جو بندہ گناہ کر بیٹھے پھر احسن طریقے سے وضو کرے پھر کھڑے ہو کر دو رکعتیں ادا کرے اور استغفار کرے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اَڑ نہ جائیں۔(پ4، الِ عمرٰن:135)(ترمذی شریف،کتاب الصلاۃ، حدیث 496)

(9)۔جلیل القدر صحابی حضرت سیدنا زبیر بن عوّام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ذیشان، نبیوں کے سلطان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جسے یہ پسند ہو کہ اسکا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو وہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، کتاب التوبہ، حدیث 17579، ج 10 ،ص 347)

(10)حضرت سیدنا بلال بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے والد نے میرے دادا سے روایت کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس نے یہ کہا:اَسْتَغْفِرُاللہ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہو الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، کائنات کا نگہبان ہے اور میں اس کے حضور توبہ کرتا ہوں۔ اس کی مغفرت کر دی جائے گی اگرچہ میدان جہاد سے بھاگا ہو۔(ترمذی شریف، حدیث 3588 ج 5 ص 336)

پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ استغفار کے کتنے ہی دینی و دنیوی فوائد ہیں۔ کثرت سے استغفار کرنا بھی اللہ کو پسند ہے حضور نے فرمایا تم میں سے بہتر وہ ہے جو کثرت سے گناہ کرتا ہے پھر کثرت سے توبہ و استغفار کرتا ہے۔ (مسند بزار، حدیث 700)

لہٰذا جس چیز کے اتنے فضائل و فوائد ہوں اسے اختیار کرنے میں دنیا و آخرت کا فائدہ ہے اللہ پاک ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سیدنا خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


استغفار ایسی اہم ترین چیز ہے جس سے بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش اور مغفرت کا پروانہ حاصل کر سکتا ہے۔علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جان لو! استغفار صابن کی طرح ہے۔جس طرح صابن ظاہری میل کچیل کو دور کر دیتا ہے اسی طرح استغفار باطنی گناہوں کی میل اور گندگیوں کو صاف کر دیتا ہے۔

استغفار کا مطلب: حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بندہ استغفراللہ کہتا ہے اس کا مطلب ہے کہ (مولی! مجھے بخش دے)۔(احیاء العلوم،ص935،ج1)

اللہ کے محبوب بندے: حضرت سید نا خالد بن معدان رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میرے محبوب بندے وہ ہیں جو مجھ سے محبت کے سبب آپس میں محبت رکھتے ہیں ان کے دل مساجد میں لگے رہتے ہیں اور وقت سحر استغفار کرتے ہیں۔جب میں اہل زمین کو عذاب دینے کا ارادہ کرتا ہوں تو انہی لوگوں کی وجہ سے (عذاب) پھیر یتا ہوں۔(احیاء العلوم، ص934، ج1)

بیٹے کا باپ کیلئے استغفار کرنا: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک بندے کو جنت میں ایک درجہ عطا فرمائے گا۔بندہ عرض کرے گا اے مولی پاک یہ درجہ مجھے کیسے ملا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا اُس استعفار کے بدلے جو تیرے بیٹے نے تیرے لئے کیا ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل/حدیث 10610/ج3/ص584)

استغفار کے ذریعے رزق کی فراوانی: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو استغفار کی کثرت کرے گا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دورفرمادے گا، ہر تنگی سے اس کے لئے نجات کی راہ نکالے گا اور ایسی جگہ سے رزق حلال عطافرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔(سنن ابی داؤد/حدیث1518/ج2/ص122)

گناہ کا علاج : حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، قرآن پاک تمہاری بیماری کی تشخیص کرتا اور اس کے لئے دوا تجویز فرماتا ہے گناہ تمہاری بیماری ہے۔اور استغفار اس کا علاج ہے۔(احیاء العلوم/ص 193/ج 1)

استغفار کے فوائد : سنت رسول پر عمل کا موقع، رضائے رب باری تعالیٰ،دل کانرم ہو جانا ،ثواب کے انبار،بزرگان دین کے طریقے پر عمل، پریشانی اور تنگی سے نجات، دل کا چمکا دیا جانا،بخش کا ذریعہ، قرآن پر عمل، گناہ کا علاج۔

نامہ اعمال خوش کرے : فرمان مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:مِنْ أَحَبَّ اَنْ یَسُرَّہٗ صَحِیْفَتُہٗ فَلْیُکْثِرْفِیْہا مِنَ الْاِسْتِغْفَارِ جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسےخوش کرے تو اسے چاہیے کہ اُس میں استغفار کا اضافہ کرے۔(مجمع الزوائد 347/10، حدیث: 17579)

اللہ پاک ہم سب کو استغفار کی کثرت کرنے اور ذات باری تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فر مائے۔آمین


انسان سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن اللہ پاک نے ایک دروازہ توبہ و استغفار کا بھی بنایا ہے جو بندہ استغفار کرتا ہے اللہ پاک اس کو اپنی رحمت عطا فرماتا ہے اور میں آپ کی نظر کچھ فرامینِ مصطفیٰ پیش کرتا ہوں:

(1)ہر پریشانی دور ہو گی: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو استغفار کی کثرت کرے گا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گااور اس کے لیے نجات کی راہ نکالے گا اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسکا گمان بھی نہ ہو گا۔(سنن ابی داؤد،کتاب الوتر،باب فی الاستغفار،الحدیث:،1018ج،2ص،122بتغیر)

(2)100 مرتبہ استغفار کرنا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا میں روزانہ 100 مرتبہ اللہ پاک سے استغفار کرتا ہوں۔(کتاب الدعاء للطبرانی،فصل الاستغفار فی ادبارالصلوۃ، الحدیث:،1838ص،516بتقدم وتاخر۔)

(3)اللہ ایک درجہ عطا فرمائے گا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اللہ پاک اپنے بندے کو ایک درجہ عطا فرمائے گا وہ بندہ عرض کرے گا مجھے یہ درجہ کیسے ملا؟ اللہ پاک فرمائے گا: اس استغفار کے بدلے جو تیرے بیٹے نے تیرے لیے کیا۔( المسندللامام احمد بن حنبل،مسندابی ھریرہ،الحدیث:،10615ج،3ص583)

(4)اپنے بندے کی بخشش فرما دی: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب بندہ کوئی گناہ کر لے پھر کہے کہ یا اللہ مجھے معاف فرما دے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے سے گناہ ہو گیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ پر پکڑ بھی فرماتا ہے اور بخش بھی دیتا ہے اے میرے بندے! جو چاہے کر میں نے تیری بخشش فرما دی۔(صحیح مسلم،کتاب التوبہ،باب قبول التوبہ من الذنوب۔۔۔۔ الخ،الحدیث:2758ص1373۔،1375بتقدم وتاخر)

ہمیں بھی اللہ پاک کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتے رہنا چاہیے اس کی رحمت بہت بڑی ہے وہ ہمیں اپنے حبیب کے صدقے بخشے گا اللہ پاک ہم سب کو ان احادیثِ مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 


اِسْتِغْفار کے معنی خداوند متعال(یعنی اللہ پاک)سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں۔جو زبانی طور پر استغفراللہ کہنے کے ذریعے بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔قرآن کریم اور احادیث میں استغفار کرنے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ قرآن مجید کی تقریباً 30 آیات میں انبیاکے استغفار کا بیان ملتا ہے۔اللہ پاک کے عذاب سے نجات، گناہوں کی مغفرت اور رزق و روزی میں وسعت استغفار کے آثار میں شمار کیا جاتا ہے۔

توبہ اور استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر نا توبہ ہے۔ روایت ہے حضرت عائشہ سے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یوں عرض کرتے تھے الٰہی مجھے ان لوگوں میں سے بنا جو نیکیاں کریں اور خوش ہوجائیں اور گناہ کریں تو معافی مانگ لیں۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ، جلد:3،حدیث نمبر:2357)

سبحان الله! کیسی پیاری دعا ہے یعنی مجھے اس جماعت سے بنا جو اپنی نیکی پر فخر نہیں کرتے بلکہ توفیق خیر ملنے پر تیرا شکر کرتے ہیں اور گناہوں پر لاپرواہی نہیں کرتے بلکہ اس دھبہ کو فورًا توبہ کے پانی سے دھو ڈالتے ہیں۔رب تعالیٰ حضور کے صدقہ سے یہ صفتیں ہم کو بھی نصیب کرے آمین!

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: وَاللہ اِنِّی لَاَسْتَغْفِرُ اللہ وَاَتُوبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّۃً (مشکاۃ المصابیح،ج1،ص434،حدیث:2323) ترجمہ: خدا کی قسم! میں دن میں ستر (70) سے زیادہ مرتبہ اللہ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ کریم کے سارے ہی انبیائے کرام علیہمُ السَّلام معصوم ہیں، وہ گناہوں سے پاک ہیں اور رسولِ اکرم جنابِ محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو سب انبیاء و رُسُل کے سردار ہیں۔علمائے کرام و محدثینِ عظام نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِستغفار کرنے (یعنی مغفرت مانگنے) کی مختلف حکمتیں بیان فرمائی ہیں چنانچہ

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےاِستِغفَار کرنے کی حکمتیں:

علّامہ بدرُالدّین عَیْنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرماتے ہیں: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بطورِ عاجزی یا تعلیمِ اُمّت کیلئے اِستِغفَار کرتے تھے۔ (عمدۃ القاری،ج 15،ص413، تحت الحدیث:6307ملخصاً)

حکیمُ الاُمّت مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں: توبہ و استغفار روزے نماز کی طرح عبادت بھی ہے اسی لئے حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس پر عمل کرتے تھے ورنہ حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا۔ (مراٰۃ المناجیح،ج3،ص353ملخصاً)

اللہ کریم کے سب سے مقبول ترین بندے یعنی دونوں جہاں کے سلطان محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو گناہوں سے پاک ہونے کے باوجو ہماری تعلیم کے لئے اِستغفار کریں اور ایک ہم ہیں کہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہونے کے باوجود اِستغفار کی کمی رکھیں، ہمیں چاہئے کہ اللہ کی بارگاہ میں خوب خوب توبہ واستغفار کرتے رہیں۔

ہمیں استغفار کی تعلیم وہ سلطان دو جہاں ارشاد فرما رہے ہے ہیں جن کے وسیلے سے اللہ پاک گناہ گاروں کو بخششیں عطا فرماتا ہے قرآن کریم میں رب العزت کا ارشاد ہے:

وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5، النسآء: 64)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بندوں کو حکم ہے کہ ان (یعنی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم،اس کا سَمع (یعنی سننا)، اس کا شُہود (یعنی دیکھنا) سب جگہ ایک سا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔ (تفسیر صراط الجنان)

حضور کے عالَم حیات ظاہری میں حضور (یعنی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہونا) ظاہر تھا، اب حضورِمزار پُر انوار ہے اور جہاں یہ بھی مُیَسَّر نہ ہو تو دل سے حضور پُر نور کی طرف توجہ،حضور سے تَوَسُّل، فریاد، اِستِغاثہ، طلبِ شفاعت (کی جائے) کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اب بھی ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں۔

مولانا علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں رُوْحُ النَّبِیِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حَاضِرَۃٌ فِیْ بُیُوْتِ اَھْلِ الْاِسْلَامِ ترجمہ: نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں۔ (فتاوی رضویہ، 15/954)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ حدائق بخشش میں فرماتے ہیں :

وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا

ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا

استغفار پر احادیث مبارکہ:

وَعَنْ ثَوْبَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ:

«اللہمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجلَالِ وَالْإِكْرَامِ»

روایت ہے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفار پڑھتے اور کہتے الٰہی تو سلام ہے تجھ سے سلامتی ہے تو برکت والا ہے اے جلالت اور بزرگی والے (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2،حدیث نمبر:961)

روایت ہے حضرت عبداللہ ابن بسر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:3،حدیث نمبر:2356)

اس حدیث پاک کی شرح میں ہے یعنی اس نے مقبول استغفار بہت کئے ہوں جو اس کے نامہ اعمال میں لکھے جاچکے ہوں اسی لئے یہاں بہت استغفار کرنے کا ذکر نہ فرمایا بلکہ نامہ اعمال میں پانے کا ذکر کیا۔مقبول استغفار وہ ہے جو دل کے درد، آنکھوں کے آنسو اور اخلاص سے کی جائے صرف اخلاص بھی کافی ہے۔

اِسْتِغْفار کرنے کے بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد و فضائل ہیں جن میں سے چند درج ذیل میں تحریر ہیں:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، 4/257، الحدیث: 3819)

سبحان اللہ اس حدیث مبارکہ میں استغفار کے 2 فائدے حاصل ہوئے :(1)اس استغفار کی بر کت سے اللہ رنج و الم دور فرماتا ہے(2)استغفار کرنے والے کے رزق میں برکت و وسعت عطا فرماتا ہے۔

اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (پ2، البقرۃ: 222)

اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔ (مجمع البحرین،ج 4،ص272، حدیث:4739)

جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناہ بُھلا دیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں)کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔ (الترغیب والترھیب،ج4،ص48، رقم:17)

سبحان اللہ اِن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رب تعالیٰ کی رحمت کتنی وسیع ہے لہذا ہر شخص کو چاہیے کہ اللہ پاک سے رحمت کی اُمید رکھتے ہوئے اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے توبہ و استغفار کرے، بروز قیامت حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت نصیب ہوگی۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ


 استغفار کسے کہتے ہیں: جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے۔

قرآن و احادیث میں استغفار کے بیشمار فضائل و فوائد بیان کیے گئے ہیں

استغفار یہ ایک مجرب وظیفہ بھی ہے استغفار کی برکت سے گنہگار بندہ بھی متقی پرہیزگار بن جاتا ہے اور قرآن پاک میں استغفار کا حکم بھی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید پارہ 29 سورہ نوح آیت نمبر10 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔(پ29، نوح10)

اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی قوم لمبے عرصے تک آپ علیہ السّلام  کو جھٹلاتی رہی تو اللہ تعالیٰ نے اُن سے بارش روک دی اور چالیس سال تک ان کی عورتوں کو بانجھ کردیا، ان کے مال ہلاک ہوگئے اور جانور مرگئے، جب ان کا یہ حال ہوا تو حضرت نوح عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے ان سے فرمایا: اے لوگو! تم اپنے رب پاک کے ساتھ کفر و شرک کرنے پر اس سے معافی مانگو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس سے استغفار یعنی مغفرت طلب کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت میں مشغول ہونا خیر و برکت اور وسعت ِرزق کا سبب ہوتا ہے اور کفر سے دنیا بھی برباد ہو جاتی ہے، بیشک اللہ تعالیٰ اُسے بڑا معاف فرمانے والا ہے جو (سچے دل سے) اس کی بارگاہ میں رجوع کرے، اگر تم توبہ کر لو گے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت کا اقرار کرکے صرف اسی کی عبادت کرو گے تو وہ تم پر موسلا دہار بارش بھیجے گا اور مال اور بیٹوں میں اضافے سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا تاکہ ان سے تم اپنے باغات اور کھیتیوں کو سیراب کرو۔(تفسیر طبری، نوح، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ۱۲/۲۴۹، خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ۴/۳۱۲، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ص۱۲۸۳، ملتقطاً)

اِستغفار کرنے کے دینی اور دُنْیَوی فوائد:  اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِستغفار کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے سے بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔مثلا اولاد کے حصول،بارش کی طلب،تنگدستی سے نجات اور پیداوار کی کثرت کے لئے استغفار کرنا بہت مُجَرَّبْ قرآنی عمل ہے۔اِستغفار کرنے کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی بُرائی یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش چاہے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔(پ5، النسآء:110)

 اور ارشاد فرمایا: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی استغفار کرنے کے متعلق فضائل و فوائد بیان کیے گئے ہیں جن میں سے تین احادیث ملاحظہ فرمائیں :

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یَقُوْلُ:وَاللہِ اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُاللہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ فِیْ الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔(بخاری،کتاب الدعوات، باب استغفار النبی فی الیوم واللیلۃ، ۴/۱۹۰، حدیث:۶۳۰۷)

ترجمہ: ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ پاک کی قَسَم!میں ایک دن میں 70 مرتبہ سے بھی زیادہ اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ وا ِستِغفَار کرتا ہوں۔

عَنِ الْاَغَرِّ بْنِ یَسَارِ الْمُزَنِیِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:یَااَیُّہَا النَّاسُ: تُوْبُوْا اِلَی اللہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ، فَاِنِّیْ اَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ ِالَیْہِ مِئَۃَ مَرَّۃٍ (مسلم،کتاب الذکر والدعا والتوبۃ والاستغفار، باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ، ص ۱۴۴۹، حدیث: ۲۷۰۳) ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا اَغَربن یَسَارمُزَنِی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نَبِیّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے لوگوـ!اللہ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش چاہو بے شک میں روزانہ 100 مرتبہ اللہ پاک کے حضور توبہ کرتا ہوں۔

وَعَنْ ابنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ -صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللہ لَهٗ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَهٗ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ۔ ترجمہ حدیث روایت ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جو استغفار کو اپنے پر لازم کرلے توﷲاس کے لیے ہرتنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات دے گا اور وہاں سے اسے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(احمد،ابوداؤد،ابن ماجہ) استغفار کو اپنے اوپر لازم کرنے سے مراد یہ ہے کہ استغفار کے کلمے زبان سے ادا کیا کرے گناہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ،۔بہتر یہ ہے کہ نماز فجر کے وقت سنت فجر کے بعد فرض سے پہلے ستر بار پڑھا کرے کہ یہ وقت استغفار کے لیے بہت ہی موزوں ہے، رب تعالیٰ فرماتاہے: وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸) ترجمہ کنزالایمان:اور پچھلی رات اِستغفار کرتے۔

یہ عمل بہت ہی مجرب ہے۔روزی سے مراد مال،اولاد،عزت سب ہی ہے۔استغفار کرنے والے کو رب تعالیٰ یہ تمام نعمتیں غیبی خزانہ سے بخشتا ہے،قرآن کریم فرماتاہے: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ(۱۱) وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔تم پر شرّاٹے کا مینہ(موسلا دھار بارش) بھیجے گا۔اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔(پ29، نوح10تا12)

رب تعالیٰ فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) یہ حدیث اس آیت کی شرح ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابی،ح جلد:3 ، حدیث نمبر:2339)

استغفار عبادت ہے : مُفتِی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرما تے ہیں:توبہ و اِستِغفَار، نماز، روزے کی طرح عبادت ہے، اِسی لئے حضور انورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بکثرت توبہ واِستِغفَار کیا کرتے تھے۔ورنہ حضور انورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مَعصُوم ہیں گناہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب بھی نہیں آتا، صوفیاء فرماتے ہیں کہ ہم لوگ گناہ کرکے توبہ کرتے ہیں اور وہ حضرات عبادت کرکے توبہ کرتے ہیں۔

زاہِداں اَزْ گناہْ تَوبَہْ کُنَنْدْ عارِفاں اَزْ عبادتْ اِسْتِغْفَار

(یعنی زاہد گناہ کی وجہ سے توبہ کرتے ہیں اور عارف لوگ عبادت کرکے اِستِغفار کرتے ہیں) یاپھرآپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کایہ عمل تعلیمِ اُمَّت کے لئے تھا۔(ملخصاََ ازمراٰۃالمناجیح،۳/۳۵۳)

استغفار کی برکت:حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایک ملازم نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں، مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللہ پاک مجھے اولاد دے۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: استغفار پڑھا کرو۔اس نے استغفار کی یہاں تک کثرت کی کہ روزانہ سا ت سو مرتبہ اِستغفار پڑھنے لگا، اس کی برکت سے اس شخص کے دس بیٹے ہوئے ، جب یہ بات حضرت امیر معاویہ رضی اللٍہ عنہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے یہ کیوں نہ دریافت کیا کہ یہ عمل آپ رضی اللہ عنہ نے کہاں سے فرمایا۔دوسری مرتبہ جب اس شخص کو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اس نے یہ دریافت کیا۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے حضرت ہود علیہ السّلام کا قول نہیں سنا جو اُنہوں نے فرمایا یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ (اللہ تمہاری قوت کے ساتھ مزید قوت زیادہ کرے گا)اور حضرت نوح علیہ السّلام کا یہ ارشاد نہیں سنا یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ (اللہ مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا)۔ (مدارک، ھود، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۵۰۲)

یعنی کثرتِ رزق اور حصولِ اولاد کے لئے اِستغفار کا بکثرت پڑھنا قرآنی عمل ہے۔


جہاں انسان اچھے اعمال کرتا ہے وہیں انسان سے غلطیاں اورگناہ بھی ہوتےہیں۔ ان میں سے کچھ اسے گناہ ہوتے ہیں جو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔تو انسان کو چاہیے کہ وقتا فوقتا استغفار یعنی توبہ کرتے رہنا چاہئے تاکہ وہ نیکیوں کی طرف رغبت رکھے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا(۷۱) ترجمہ کنز الایمان: اور جو توبہ کرے اور اچھا کام کرے تو وہ اللہ کی طرف رجوع لایا جیسی چاہیے تھی (پ19، الفرقان: 71)

اس آیت مبارکہ میں بھی توبہ کی ترغیب دی گئی ہے اور توبہ کے بارے میں احادیث ملاحظہ فرمائے۔

حدیث(1):حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب مومن گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرلے اور بخشش طلب کرلے تو دل میں چمک اور جلا پیدا ہوجاتی ہے۔(مسند امام احمد، 3/154، حدیث7957)

معلوم ہوا کہ دل گناہوں کی وجہ سے سیاہ ہوجاتا ہےاور توبہ کرنے سے چمک اٹھتا ہے۔

حدیث(2): حضور علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا فرمان عالیشان ہے: بیشک اللہ پاک رات کے وقت اپنا دست قدرت پھیلائے رکھتا ہےتاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے اور دن کےوقت دست قدرت پھیلائے رکھتا ہے تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کر لےیہاں تک کے سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔(مسلم، کتاب التوبۃ، ص 1156،حديث6989)

حدیث (3):حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنت کے8 دروازے ہیں، 7 بند ہیں اور ایک دروازہ توبہ کے لیے کھلا ہوا ہے یہاں تک کہ سورج اس کی طرف سے طلوع ہو۔(معجم كبير،ج10،ص 206، حديث 10479)

توبہ کو جنت کا دروازہ قرار دیا گیا ہے گویا کہ یہ جنت کا دروازہ ہے تو پھر توبہ کرنے والے کا دل کیوں نہ اجلا اجلا ہو اور عبادت میں دل کیوں نہ لگے۔جب بندہ توبہ کرلے تو عبادت میں دل لگ جاتا ہے۔

حدیث (4):پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان مغفرت نشان ہے:انسان کے لیے سعادت ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اللہ عزوجل توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔(مستدرک، ج3،ص34، حدیث 7676)

گناہوں پر توبہ یعنی استغفار کرنے والے کو سعادت مند کہا گیا ہےلہٰذا ہمیں استغفار کی کثرت کرنی چاہیے۔

حدیث (5):حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد گرامی ہے:تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہے جو توبہ کرنے والا ہے۔(جامع ترمذی، ص341، حدیث 2499)

قارئین کرام! معلوم ہوا کہ تمام بنی آدم ہی خطا کار ہیں لیکن جو توبہ کرلے وہ اُن سب سےبہتر ہے۔ضروری نہیں کہ ہم صرف اسی وقت تو بہ واستغفار کریں جب ہمیں اپنے گناہ کا پتا چلے بلکہ ہر وقت توبہ کرتی رہنی چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں عبادت کی لذت و سرور عطا فرمائے اور اللہ پاک ہم سب کو سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


عام انسان کی خصلت ہے کہ وہ گناہ سے محفوظ نہیں رہ سکتا اسی وجہ سے وہ دانستہ یا نادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے۔بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے اور اگر اس نے توبہ نہ کی تو یہ غلطی اللہ پاک کو ناراض کر دے گی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی انسان کو کسی صورت برداشت نہیں ہوتی اس لئے انسان فوری طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ و اِستغفار کرتا ہے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرتا ہے۔استغفار کے جہاں قرآن مجید میں فضائل و فوائد مذکور ہے وہیں احادیث مبارکہ میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے۔احادیث کی روشنی میں استغفار کے فضائل و فوائد درج ذیل ہیں:

(1)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص کثرت سے استغفار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ عطا فرما دیتا ہے، ہر تنگی سے اس کو نکالتا ہے، اور اس کو ایسے مقام سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔(مستدرک للحاکم ،حدیث نمبر 7677)

(2)زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا اعمال نامہ اسے اچھا لگےتو وہ کثرت سے استغفار کرے۔(السلسلۃ الصحیحہ ، حدیث نمبر 2945)

(3)سیدنا فضالہ بن عبید سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بندہ اس وقت تک اللہ پاک کے عذاب سے امن میں رہتا ہے جب تک اللہ پاک سے استغفار کرتا رہتا ہے۔(مسند امام احمد، حدیث نمبر 5483)

(4)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی بندہ گناہ کرے اور اس پر نادم ہوجائے تو اس کے استغفار کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتا ہے۔(مستدرک للحاکم، حدیث نمبر 1894)

(5)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم اتنی خطائیں کرو کہ زمین وآسمان کا خلا پُر ہوجائے، پھر تم اللہ سے استغفار کرو تو وہ تمہیں بخش دے گا۔(السلسلۃ الصحیحہ، حدیث نمبر 3702)

(6)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بندہ مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نشان پڑ جاتا ہے اگر وہ اس سے توبہ و استغفار کر لے اور اسے چھوڑ دے تو وہ نشان وہاں سے ختم ہوجاتا ہے اور اگر وہ مزید گناہ کرے تو یہ سیاہی بھی بڑھ جاتی ہے حتّٰی کہ اس کا دل مکمل کالا ہوجاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، حدیث نمبر 3908)

(7)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا کرتے تھے: اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں شامل فرما جو جب نیکی کرتے ہیں تو انہیں خوشی ہوتی ہے اور جب گناہ کرتے ہیں تو استغفار کرتے ہیں۔(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3820)۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور خوب خوب توبہ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


قرآن مجید میں الله پاک فر ما تا ہے: اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اپنے رب سے معافی مانگو۔(پ11، ھود: 3)

استغفاریعنی جوگناہ ہو چکے ان سے بارگاہ الٰہی میں معافی مانگنا یہ وہ مجرب عمل ہے،جس کے سبب گناہ معاف ہوتے ہیں، رزق میں کشادگی ہو تی ہے،آزمائشیں دور ہو تی ہیں، الله پاک را ضی ہوتا ہےاور اس کے علاوہ کئی دینی ودنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں، سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے احادیث میں کئی فضائل بیان فرمائے،چنانچہ

(1)غضب الٰہی دور ہوتا ہے:حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں،حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا:اللہ پاک فرماتاہے: میں زمین والوں پر عذاب اتارنا چاہتا ہوں،جب میرے گھر آباد کرنے والے اور میرے لیے باہم محبت رکھنے والےاورپچھلی رات کو استغفار کرنے والے دیکھتا ہوں تو اپنا غضب ان سے پھیر دیتا ہوں۔(شعب الایمان، حدیث9051)

(2)بخشش کا ذریعہ:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشادفرمایا:شیطان نے کہا:اےمیرےرب!تیری عزت وجلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں،میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا،اللہ پاک نےفرمایا:میرے عزت و جلال کی قسم!جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، حدیث11244)

(3)رزق کا ملنا:کئی ایسے وظائف و اوراد ہیں،جن سے رزق میں وسعت ہوتی ہے اور رزق کی تنگی ختم ہوتی ہے،ان میں سے ایک عمل استغفار بھی ہے چنانچہ حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لیے ضروری قرار دیا تو اللہ پاک اسے ہر غم و تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سےاسےوہم وگمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، حدیث 3819)

(4)سو بار استغفار:استغفار و بخشش طلب کرنا، یوں تو گناہوں سے ہوتا ہے، مگر نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گناہوں سے معصوم ہیں،اس کے باوجود استغفار فرماتے، چنانچہ سرکارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک میں روزانہ 100 مرتبہ اللہ پاک سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ (مشکوة حدیث2324)

(5) خوشخبری:بروز قیامت نیکو کار اپنےنامہ اعمال کو دیکھ کر خوش ہوگا اور جس کا اعمال نامہ نیکیوں سے مزین ہوگا،اس کے لیے کئی بشارتیں ہوں گی،چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: اس کے لیے خوشخبری ہے جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔(مشکوة، حدیث2356)

یعنی اس نے مقبول استغفار بہت کیے ہوں،جو اس کے نامہ اعمال میں لکھے جا چکے ہوں،مقبول استغفار وہ ہے جو دل کے درد،آنکھوں کےآنسواوراخلاص سے کیاجائے،صرف اخلاص بھی کافی ہے۔(مرآةالمناجیح، ج3،حدیث2356)

اللہ پاک ہمیں کثرت سے استغفار کرنے کی توفیق عطافرمائےاور ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے۔آمین


یاد رہے زندگی میں الله پاک نے انسان کو کئی طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے اب چاہے وہ انعام ظاہری ہو یا باطنی، اور باطنی انعام و نعمتوں کا مل جانا ظاہری نعمتوں کے مقابلے میں کئی درجہ بہترین ثابت ہوتا ہے جیسے عبادت نماز وغیرہ میں خشوع و خضوع یعنی دل کا لگنا، دل کا حسد،تکبر،بغض جیسی گندی بیماریوں سے پاک و صاف ہونا، ان نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت توفیق کا ملنا بھی ہے، اب چاہے صدقہ کرنے کی ہو، نوافل پڑھنے کی ہو یا علم دین حاصل کرنے کی ہو بالعموم عام حالت میں،بالخصوص گناہ کرنے کے بعد توبہ کرکے الله پاک سے مغفرت طلب کرنے کی ہو لہٰذا اسی مناسبت سے کچھ استغفار یعنی مغفرت و بخشش طلب کرنے کے فضائل و فوائد بیان کئے جاتے ہیں:

کئی مصیبتوں کا حل:حضرت سیّدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے خُشک سالی کی شکایت کی، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اِستغفار کرنے کا حکم دیا، دوسرا شخص آیا، اس نے تنگ دستی کی شکایت کی تو اسے بھی یہی حکم فرمایا، پھر تیسرا شخص آیا، اُس نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا، پھر چوتھا شخص آیا، اس نے اپنی زمین کی پیداوار کم ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا۔حضرت رَبیع بن صَبِیح رحمۃ اللہ علیہ وہاں حاضر تھے انہوں نے عرض کی: آپ کے پاس چند لوگ آئے اور انہوں نے مختلف حاجتیں پیش کیں، آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ اِستغفار کرو؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے سامنے یہ آیات پڑھیں(جن میں اِستغفار کو بارش، مال، اولاد اور باغات کے عطا ہونے کا سبب فرمایا گیا ہے): فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ(۱۱) وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔تم پر شرّاٹے کا مینہ(موسلا دھار بارش) بھیجے گا۔اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔(خازن، نوح، ج4، ص335، تحت الآیۃ:10تا12)

اِستغفار کے 4فوائد:

(1)اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔(پ2، البقرۃ: 222)

(2)جو اِستغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(ابو داؤد،ج2،ص122، حدیث:1518)

(3)اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔(مجمع البحرین،ج 4،ص272، حدیث:4739)

(4)جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلادیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں)کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔(الترغیب والترھیب،ج4،ص48، رقم:17)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔(لیکن) اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہی وہ رَان (زنگ) ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرمایا ہے: كَلَّا بَلْٚ- رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۱۴)ترجمہ کنزالایمان: کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے ان کی کمائیوں نے۔ (اخرجہ الترمذی فی السنن، کتاب: تفسیر القرآن، باب: ومن سورۃ ویل للمطففین، 5/434، الرقم: 3334، وابن ماجہ فی السنن، کتاب: الزھد، باب: ذکر الذنوب، 2/1418، الرقم: 4244، والنسائی فی السنن الکبری، 6/110، الرقم: 10251، 11658، وفی عمل الیوم واللیلۃ، 1/317، الرقم: 418، والحاکم فی المستدرک، 2/562، الرقم: 3908۔)

الله پاک ہمیں ہر وقت استغفار و بخشش طلب کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تمام انسانوں میں سے سب افضل و اعلیٰ ذات انبیاء و مرسلین کی ذات ہے ان مبارک ہستیوں کو اللہ پاک نے ہر گناہ سے معصو م رکھا۔اپنے اولیاء کو محفوظ رکھتا ہے ،مان کے علاوہ کوئی بھی انسان چاہے کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو اس سے گناہ کا سرزد ہونا ایک ممکن بات ہے کیونکہ ابن آدم سے غلطی کا صدور اور اس کا گناہ میں پڑنا ایک فطری بات ہے۔جیسا کہ حدیث پاک میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: كلُّ بني آدم خَطَّاءٌ وخيرُ الخَطَّائِينَ التوابون یعنی تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں۔( سنن الترمذی،4/659)

بتقاضائے بشریت بھی انسان سے گناہ سرزد ہو ہی جاتے ہیں، اللہ پاک کی رحمت پر قربان اس نے امت کے سب سے بڑے غمخوار،سرکارِ عالی وقارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے مؤمنین کو استغفار جیسی ایک ایسی عظیم نعمت سے نوازا ہے جس کا کثرت سے ذکر کرنا گناہوں کی معافی کا بہترین سبب ہے۔خود اللہ پاک نے استغفار کرنے کی ترغیب قرآن پاک میں ارشاد فرمائی ہے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ(۹۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بےشک میرا رب مہربان محبت والا ہے۔(پ12، ھود:90)

ایک اور مقام میں فرمایا:وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰) ترجمۂ کنز الایمان: اللہ سے بخشش مانگو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ29، المزمل:20)

ہر مسلمان کو کثرت سے استغفار کرتے رہنا چاہئے کیونکہ دعائے مغفرت نہایت محبوب شے ہے خصوصاً اگر گناہوں سے توبہ کرکے ہو اور نورٌ علیٰ نور یہ کہ بارگاہِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضر ہو کر اپنی بخشش کی دعا کی جائے۔

جس کا طریقہ خود قرآن نے بتایا کہ اگر تم سے کوئی گناہ ہو جائے تو اس کی معافی کے لئے رؤف و رحیم نبی کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اللہ پاک کی بارگاہ میں بخشش کی التجا کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5، النسآء: 64)

اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی استغفار اور اللہ سے بخشش طلب کرنے کی ترغیب کثیر فضائل کے ساتھ ذکر کی گئی ہے، جن میں سے 7 احادیث ذکر کی جاتی ہیں:

(1)جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تواللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، 4/257، حدیث: 3819)

(2)شیطا ن نے کہا: اے میرے رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں، میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، 4/59، حدیث:11244)

(3)اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے انسان! جب تک تومجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے انسان! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں،پھر تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تجھے ا س کے برابر بخش دوں گا۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ، والاستغفار۔۔۔الخ، 5/318، حدیث: 3551)

(4)حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز سے فارغ ہونے کے بعد تین بار اِستغفار کرتے اور فرماتے: اَللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامْ یعنی اے اللہ! تو سلام ہے اور تجھ سے سلامتی ہے اور تو برکت والا ہے (اے) جلالت اور بزرگی والے۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ و بیان صفتہ، ص 297، حدیث: 591)

(5)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: استغفار کا سردار یہ ہے کہ تم کہو: اَللّٰہُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَ اَنَا عَبْدُکَ وَ اَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْ ءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَ اَبُوْ ءُ بِذَنْبِی فَاغْفِرْلِی فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ یعنی الٰہی تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا، میں تیرا بندہ ہوں اور اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے کیے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اقراری ہوں، مجھے بخش دے تیرے سوا گناہ کوئی نہیں بخش سکتا۔ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو یقینِ قلبی کے ساتھ دن میں یہ کہہ لے پھر اسی دن شام سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا اور جو یقینِ دل کے ساتھ رات میں یہ کہہ لے پھر صبح سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا۔ (بخاری، کتاب الدعوات، باب افضل الاستغفار، 4/189، الحدیث: 6306)

(6)جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلادیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں)کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔(الترغیب والترھیب،ج4،ص48، رقم:17)

(7)اللہ تعالیٰ نے میری اُمّت کے لئے مجھ پر دو امن(والی آیات) اتاری ہیں، ایک: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو۔اور دوسری: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33) جب میں اس دنیا سے پردہ کر لوں گا تو قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑ دوں گا۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانفال، 5/56، حدیث: 3093)

جہاں توبہ و استغفار کے اتنے فضائل ہیں وہیں اس کے بے شمار فوائد بھی ہیں جن میں سے 6یہ ہیں:

(1)توبہ کرنے والوں کواللہ پاک پسند فرماتا ہے۔(پ2، سورۃالبقرۃ: آیت 222)

(2) جس شخص نے استغفار کو لازم کرلیا تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اور ہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔ (سنن النسائی/الیوم واللیلة (456)، سنن ابن ماجہ/الأدب 57، 3819)

(3)استغفار کرنے والا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے عمل کی پیروی کرنے والا ہوتا ہے۔(مشکاۃ المصابیح، ج1، ص434، حدیث:2323)

(4) استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے۔(تفسیرِ صراط الجنان، سورة الانفال ،تحت الآیۃ: 33)

(5)اِستغفار کرنے والے کے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔(مجمع البحرین،ج 4،ص272، حدیث:4739)

(6)حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایک ملازم نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں، مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللہ پاک مجھے اولاد دے۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: استغفار پڑھا کرو۔ اس نے استغفار کی یہاں تک کثرت کی کہ روزانہ سا ت سو مرتبہ اِستغفار پڑھنے لگا، اس کی برکت سے اس شخص کے دس بیٹے ہوئے ، جب یہ بات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے یہ کیوں نہ دریافت کیا کہ یہ عمل آپ رضی اللہ عنہ نے کہاں سے فرمایا۔دوسری مرتبہ جب اس شخص کو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اس نے یہ دریافت کیا۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے حضرت ہود عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا قول نہیں سنا جو اُنہوں نے فرمایا: یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ (اللہ تمہاری قوت کے ساتھ مزید قوت زیادہ کرے گا)اور حضرت نوح عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا یہ ارشاد نہیں سنا: یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ (اللہ مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا) (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: 52، ص502) یعنی کثرتِ رزق اور حصولِ اولاد کے لئے اِستغفار کا بکثرت پڑھنا قرآنی عمل ہے۔ (تفسیرِ صراط الجنان، سورة ہود، تحت الآیۃ: 52)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچتے رہنے اور کثرث سے استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

گناہوں سے توبہ کی توفیق دے دے ہمیں نیک بندہ بنا یاالٰہی (وسائلِ فردوس)


استغفار ایک بہت ہی اہم عمل ہے جو ہمیں اللہ سے مغفرت کی دعا کرنے کا موقع دیتا ہے۔یہ ہمیں اپنے گناہوں کو تسلیم کرنے اور ان سے توبہ کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔استغفار کرنے سے ہمارے دل کی پاکی، روح اور ذہن کی صفائی میں اضافہ ہوتا ہے۔استغفار اللہ کی بخشش کا دروازہ ہے اور ہمیں نیکیوں کی طرف رجوع کرنے کا راستہ دکھاتا ہے۔

آئیے! استغفار کے حوالے سے کچھ احادیث ملاحظہ فرمائیں:

(1)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں ایک دن میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 6858)

(2)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ کہتا ہے: اے آدم کے بیٹے! جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتا رہے گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا، چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں، مجھے کسی بات کی پرواہ و ڈر نہیں ہے، اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرنے لگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کسی بات کی پرواہ نہ ہو گی۔اے آدم کے بیٹے! اگر تو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھر مجھ سے (مغفرت طلب کرنے کے لیے) ملے لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آؤں گا (اور تجھے بخش دوں گا)۔(جامع ترمذی، حدیث نمبر 3540)

(3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایک مجلس میں سو مرتبہ (یہ استغفار کہتے ہوئے ) شمار کرتے تھے: رَبِّ اغْفِرْلِی وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُیعنی اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما۔بے شک تو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3814)

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں ایک دن میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ سے بخشش کی درخواست (استغفار) اور توبہ کرتا ہوں۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3815)

(1)حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مبارک ہو اس شخص کو جسے اپنے نامہ اعمال میں زیادہ استغفار ملا۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3818)

ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ استغفار کے بہت فضائل ہیں،لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جو ہم سے خطائیں ہوئیں ان کی اللہ تبارک و تعالیٰ سے معافی مانگیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتے رہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین 


انسان دنیا کے اندر مختلف کاموں کو سرانجام دیتا ہے اللہ پاک کے نیک بندے اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزارتے ہیں اور جبکہ دیگر گنہگار لوگ اللہ پاک کی نافرمانی اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کو بجا نہیں لاتے اس طرح وہ اپنی زندگی گناہوں میں گزار رہے ہوتے ہیں لیکن ان گنہگار بندوں میں سے کچھ لوگوں کو اللہ پاک کی توفیق سے توبہ اور استغفار کرنے کی توفیق مل جاتی ہے۔

یاد رہے استغفار کے فضائل احادیث میں کثیر آئیں ہیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:بیشک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلا صفائی استغفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/340، حدیث:17575)

اس حدیث مبارکہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ آج ہمارے دلوں کو بھی زنگ لگ چکا ہے اس لیے ہمیں کوئی بھی نصیحت کی بات اثر نہیں کرتی، اس لیے ہمیں چاہیےکہ ہم زیادہ سے زیادہ استغفارکریں تاکہ ہمارے دل جو گناہ کرکے سیاہ ہوگئے ہیں اس کی صفائی ہوسکے لیکن اس کے لیے ضروری ہےکہ ہم اخلاص کے ساتھ استغفار کریں جیسا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اس کے لیے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔(مرآۃ المناجیح، شرح مشکوۃ المصابیح جلد 3، حدیث 2356)

یعنی اس نے مقبول استغفار بہت کیے یوں جو اس کے نامہ اعمال میں لکھے جا چکے ہوں اس لیے یہاں کثرت سےاستغفار کرنے کا ذکر نہ فرمایا بلکہ نامہ اعمال میں پانے کا ذکر فرمایا۔مقبول استغفارسے مراد جو دل کے درد، آنسو، اخلاص سے کئے جائیں صرف اخلاص بھی کافی ہے۔اس حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ استغفارکرنے میں اخلاص بہت ضروری ہے اگر اخلاص نہ ہو تو استغفارمقبول نہیں ہوگی اور اگر ہم اخلاص کے ساتھ استغفارکریں گے تو ہمارے دل کا زنگ بھی دور ہو جائے گا اور ہمارے نامہ اعمال میں بھی استغفار کی کثرت ہوگی۔

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں کی سیاہی کو دور فرمادے اور ہمیں اخلاص کے ساتھ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین