ساجد
علی عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان بغداد کورنگی کراچی، پاکستان)
استغفار کسے کہتے ہیں: جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے۔
قرآن و احادیث میں استغفار کے بیشمار فضائل و فوائد بیان کیے
گئے ہیں
استغفار یہ ایک مجرب وظیفہ بھی ہے استغفار کی برکت سے
گنہگار بندہ بھی متقی پرہیزگار بن جاتا ہے اور قرآن پاک میں استغفار کا حکم بھی ہے
۔ چنانچہ قرآن مجید پارہ 29 سورہ نوح آیت نمبر10 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا
معاف فرمانے والا ہے۔(پ29، نوح10)
اس آیت اور ا
س کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیہِ الصّلوٰۃُ
والسّلام کی قوم لمبے عرصے تک آپ علیہ السّلام کو جھٹلاتی رہی
تو اللہ تعالیٰ نے اُن سے بارش روک دی اور چالیس سال تک ان کی عورتوں کو
بانجھ کردیا، ان کے مال ہلاک ہوگئے اور جانور مرگئے، جب ان کا یہ حال ہوا تو حضرت
نوح عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے ان سے فرمایا: اے لوگو! تم اپنے
رب پاک کے ساتھ کفر و شرک کرنے پر اس سے معافی مانگو
اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس سے استغفار یعنی مغفرت طلب کرو
تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے کیونکہ اللہ تعالیٰ
کی اطاعت اور عبادت میں مشغول ہونا خیر و برکت اور وسعت ِرزق کا سبب
ہوتا ہے اور کفر سے دنیا بھی برباد ہو جاتی ہے، بیشک اللہ تعالیٰ اُسے
بڑا معاف فرمانے والا ہے جو (سچے دل سے) اس کی بارگاہ میں رجوع
کرے، اگر تم توبہ کر لو گے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت کا اقرار
کرکے صرف اسی کی عبادت کرو گے تو وہ تم پر موسلا دہار بارش بھیجے گا اور مال اور بیٹوں
میں اضافے سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں
بنائے گا تاکہ ان سے تم اپنے باغات اور کھیتیوں کو سیراب کرو۔(تفسیر طبری، نوح،
تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ۱۲/۲۴۹، خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ۴/۳۱۲،
مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ص۱۲۸۳، ملتقطاً)
اِستغفار کرنے کے دینی اور دُنْیَوی فوائد: اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں
اِستغفار کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے سے بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد
حاصل ہوتے ہیں۔مثلا اولاد کے حصول،بارش کی طلب،تنگدستی سے نجات اور پیداوار کی
کثرت کے لئے استغفار کرنا بہت مُجَرَّبْ قرآنی عمل ہے۔اِستغفار کرنے کے بارے میں ایک
اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ
اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی بُرائی یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ
سے بخشش چاہے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔(پ5، النسآء:110)
اور ارشاد فرمایا: وَ
مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- وَ مَا كَانَ اللّٰهُ
مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب
تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ
رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی استغفار کرنے کے متعلق
فضائل و فوائد بیان کیے گئے ہیں جن میں سے تین احادیث ملاحظہ فرمائیں :
عَنْ
اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم یَقُوْلُ:وَاللہِ اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُاللہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ
فِیْ الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔(بخاری،کتاب الدعوات، باب استغفار النبی فی الیوم واللیلۃ، ۴/۱۹۰، حدیث:۶۳۰۷)
ترجمہ: ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں: میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے
سنا کہ اللہ پاک کی قَسَم!میں ایک دن میں 70 مرتبہ سے بھی زیادہ اللہ پاک کی
بارگاہ میں توبہ وا ِستِغفَار کرتا ہوں۔
عَنِ الْاَغَرِّ بْنِ یَسَارِ الْمُزَنِیِّ رَضِیَ اللہُ
عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:یَااَیُّہَا
النَّاسُ: تُوْبُوْا اِلَی اللہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ، فَاِنِّیْ اَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ
ِالَیْہِ مِئَۃَ مَرَّۃٍ (مسلم،کتاب الذکر والدعا والتوبۃ والاستغفار، باب استحباب
الاستغفار والاستکثار منہ، ص ۱۴۴۹، حدیث: ۲۷۰۳) ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا اَغَربن یَسَارمُزَنِی
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نَبِیّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اے لوگوـ!اللہ سے توبہ کرو
اور اس سے بخشش چاہو بے شک میں روزانہ 100 مرتبہ اللہ پاک کے حضور توبہ کرتا ہوں۔
وَعَنْ ابنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ
اللہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ -صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: مَنْ لَزِمَ
الِاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللہ لَهٗ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ
فَرَجًا، وَرَزَقَهٗ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ۔ ترجمہ حدیث روایت ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲصلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جو استغفار کو اپنے پر لازم کرلے توﷲاس کے لیے ہرتنگی
سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات دے گا اور وہاں سے اسے روزی دے گا جہاں سے اس کا
گمان بھی نہ ہو۔(احمد،ابوداؤد،ابن ماجہ) استغفار کو اپنے اوپر لازم کرنے سے مراد یہ
ہے کہ استغفار کے کلمے زبان سے ادا کیا کرے گناہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ،۔بہتر یہ ہے
کہ نماز فجر کے وقت سنت فجر کے بعد فرض سے پہلے ستر بار پڑھا کرے کہ یہ وقت
استغفار کے لیے بہت ہی موزوں ہے، رب تعالیٰ فرماتاہے: وَ
بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸) ترجمہ کنزالایمان:اور پچھلی رات اِستغفار کرتے۔
یہ عمل بہت ہی مجرب ہے۔روزی سے مراد مال،اولاد،عزت سب ہی
ہے۔استغفار کرنے والے کو رب تعالیٰ یہ تمام نعمتیں غیبی خزانہ سے بخشتا ہے،قرآن کریم
فرماتاہے: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ
غَفَّارًاۙ(۱۰) یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ
مِّدْرَارًاۙ(۱۱) وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ
جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا
معاف فرمانے والا ہے۔تم پر شرّاٹے کا مینہ(موسلا دھار بارش) بھیجے گا۔اور مال اور
بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں
بنائے گا۔(پ29، نوح10تا12)
رب تعالیٰ فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) یہ حدیث اس آیت
کی شرح ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابی،ح جلد:3 ، حدیث نمبر:2339)
استغفار عبادت
ہے : مُفتِی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرما تے ہیں:توبہ
و اِستِغفَار، نماز، روزے کی طرح عبادت ہے، اِسی لئے حضور انورصلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم بکثرت توبہ واِستِغفَار کیا کرتے تھے۔ورنہ حضور انورصلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم مَعصُوم ہیں گناہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب بھی نہیں
آتا، صوفیاء فرماتے ہیں کہ ہم لوگ گناہ کرکے توبہ کرتے ہیں اور وہ حضرات عبادت
کرکے توبہ کرتے ہیں۔
زاہِداں اَزْ گناہْ تَوبَہْ کُنَنْدْ عارِفاں اَزْ عبادتْ اِسْتِغْفَار
(یعنی زاہد گناہ کی وجہ سے توبہ کرتے ہیں اور عارف لوگ
عبادت کرکے اِستِغفار کرتے ہیں) یاپھرآپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کایہ عمل
تعلیمِ اُمَّت کے لئے تھا۔(ملخصاََ ازمراٰۃالمناجیح،۳/۳۵۳)
استغفار کی برکت:حضرت امام حسن رضی اللہ
عنہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے
گئے تو آپ رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے
ایک ملازم نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں، مجھے
کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللہ پاک مجھے اولاد دے۔آپ رضی اللہ عنہ نے
فرمایا: استغفار پڑھا کرو۔اس نے استغفار کی یہاں تک کثرت کی کہ روزانہ سا ت
سو مرتبہ اِستغفار پڑھنے لگا، اس کی برکت سے اس شخص کے دس بیٹے ہوئے ، جب یہ
بات حضرت امیر معاویہ رضی اللٍہ عنہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اس شخص سے
فرمایا کہ تو نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے یہ کیوں نہ دریافت کیا
کہ یہ عمل آپ رضی اللہ عنہ نے کہاں سے فرمایا۔دوسری مرتبہ جب اس شخص کو
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اس نے یہ دریافت کیا۔حضرت
امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے حضرت ہود علیہ السّلام کا قول نہیں
سنا جو اُنہوں نے فرمایا یَزِدْكُمْ
قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ (اللہ تمہاری
قوت کے ساتھ مزید قوت زیادہ کرے گا)اور حضرت نوح علیہ السّلام کا یہ ارشاد نہیں
سنا یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ (اللہ مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا)۔ (مدارک، ھود، تحت الآیۃ: ۵۲،
ص۵۰۲)
یعنی کثرتِ رزق اور حصولِ اولاد کے لئے اِستغفار کا بکثرت
پڑھنا قرآنی عمل ہے۔