خرم
شہزاد (درجۂ ثالثہ جامعۃالمدینہ فیضان غوث اعظم ساندہ لاہور، پاکستان)
اِسْتِغْفار کے معنی خداوند متعال(یعنی اللہ پاک)سے مغفرت
طلب کرنے کے ہیں۔جو زبانی طور پر استغفراللہ کہنے کے ذریعے بھی انجام دیا جا سکتا
ہے۔قرآن کریم اور احادیث میں استغفار کرنے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ قرآن مجید کی تقریباً 30 آیات میں انبیاکے
استغفار کا بیان ملتا ہے۔اللہ پاک کے عذاب سے نجات، گناہوں کی مغفرت اور رزق و
روزی میں وسعت استغفار کے آثار میں شمار کیا جاتا ہے۔
توبہ اور استغفار
میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں
پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر نا توبہ ہے۔ روایت ہے حضرت عائشہ سے
کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یوں عرض کرتے تھے الٰہی مجھے ان لوگوں
میں سے بنا جو نیکیاں کریں اور خوش ہوجائیں اور گناہ کریں تو معافی مانگ لیں۔(مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ، جلد:3،حدیث نمبر:2357)
سبحان الله! کیسی
پیاری دعا ہے یعنی مجھے اس جماعت سے بنا جو اپنی نیکی پر فخر نہیں کرتے بلکہ توفیق
خیر ملنے پر تیرا شکر کرتے ہیں اور گناہوں پر لاپرواہی نہیں کرتے بلکہ اس دھبہ کو
فورًا توبہ کے پانی سے دھو ڈالتے ہیں۔رب تعالیٰ حضور کے صدقہ سے یہ صفتیں ہم کو بھی
نصیب کرے آمین!
فرمانِ مصطفےٰ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: وَاللہ اِنِّی لَاَسْتَغْفِرُ اللہ وَاَتُوبُ
اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّۃً (مشکاۃ المصابیح،ج1،ص434،حدیث:2323)
ترجمہ: خدا کی قسم! میں دن میں ستر (70) سے زیادہ مرتبہ اللہ سے اِستغفار کرتا ہوں
اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔
پیارے اسلامی
بھائیو! اللہ کریم کے سارے ہی انبیائے کرام علیہمُ السَّلام معصوم ہیں، وہ گناہوں
سے پاک ہیں اور رسولِ اکرم جنابِ محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو
سب انبیاء و رُسُل کے سردار ہیں۔علمائے کرام و محدثینِ عظام نے حضور نبیِّ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِستغفار کرنے (یعنی مغفرت مانگنے) کی مختلف
حکمتیں بیان فرمائی ہیں چنانچہ
نبیِّ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےاِستِغفَار کرنے کی حکمتیں:
علّامہ بدرُالدّین
عَیْنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرماتے ہیں: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
بطورِ عاجزی یا تعلیمِ اُمّت کیلئے اِستِغفَار کرتے تھے۔ (عمدۃ القاری،ج 15،ص413،
تحت الحدیث:6307ملخصاً)
حکیمُ الاُمّت
مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں: توبہ و استغفار روزے نماز کی طرح
عبادت بھی ہے اسی لئے حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس پر عمل کرتے تھے
ورنہ حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں
آتا۔ (مراٰۃ المناجیح،ج3،ص353ملخصاً)
اللہ کریم کے سب
سے مقبول ترین بندے یعنی دونوں جہاں کے سلطان محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم تو گناہوں سے پاک ہونے کے باوجو ہماری تعلیم کے لئے اِستغفار کریں اور ایک
ہم ہیں کہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہونے کے باوجود اِستغفار کی کمی رکھیں، ہمیں چاہئے
کہ اللہ کی بارگاہ میں خوب خوب توبہ واستغفار کرتے رہیں۔
ہمیں استغفار کی
تعلیم وہ سلطان دو جہاں ارشاد فرما رہے ہے ہیں جن کے وسیلے
سے اللہ پاک گناہ گاروں کو بخششیں عطا فرماتا ہے قرآن کریم میں رب العزت کا ارشاد
ہے:
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ
الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب
تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو
ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5، النسآء: 64)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بندوں کو حکم ہے کہ ان (یعنی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔اللہ تو ہر جگہ سنتا
ہے، اس کا علم،اس کا سَمع (یعنی سننا)، اس کا شُہود (یعنی دیکھنا) سب جگہ ایک سا
ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔
(تفسیر صراط الجنان)
حضور کے عالَم حیات ظاہری میں حضور
(یعنی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہونا) ظاہر تھا، اب
حضورِمزار پُر انوار ہے اور جہاں یہ بھی مُیَسَّر نہ ہو تو دل سے حضور پُر نور کی
طرف توجہ،حضور سے تَوَسُّل، فریاد، اِستِغاثہ، طلبِ شفاعت (کی جائے) کہ حضورِ اقدس
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اب بھی ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں۔
مولانا علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ شرح
شفا شریف میں فرماتے ہیں رُوْحُ النَّبِیِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حَاضِرَۃٌ
فِیْ بُیُوْتِ اَھْلِ الْاِسْلَامِ ترجمہ: نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر
مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں۔ (فتاوی رضویہ، 15/954)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی
رحمۃ اللہ علیہ حدائق بخشش میں فرماتے ہیں :
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا
استغفار پر احادیث مبارکہ:
وَعَنْ ثَوْبَانَ
رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ:
«اللہمَّ أَنْتَ
السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجلَالِ وَالْإِكْرَامِ»
روایت ہے حضرت
ثوبان رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب
اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفار پڑھتے اور کہتے الٰہی تو سلام ہے تجھ
سے سلامتی ہے تو برکت والا ہے اے جلالت اور بزرگی والے (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح جلد:2،حدیث نمبر:961)
روایت ہے حضرت
عبداللہ ابن بسر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کے
لئے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے (مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح جلد:3،حدیث نمبر:2356)
اس حدیث پاک کی
شرح میں ہے یعنی اس نے مقبول استغفار بہت کئے ہوں جو اس کے نامہ اعمال میں لکھے
جاچکے ہوں اسی لئے یہاں بہت استغفار کرنے کا ذکر نہ فرمایا بلکہ نامہ اعمال میں
پانے کا ذکر کیا۔مقبول استغفار وہ ہے جو دل کے درد، آنکھوں کے آنسو اور اخلاص سے کی
جائے صرف اخلاص بھی کافی ہے۔
اِسْتِغْفار کرنے
کے بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد و فضائل ہیں جن میں سے چند درج ذیل میں تحریر
ہیں:
حضرت عبداللہ بن
عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم
اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم
وگمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، 4/257، الحدیث: 3819)
سبحان اللہ اس حدیث
مبارکہ میں استغفار کے 2 فائدے حاصل ہوئے :(1)اس استغفار کی بر کت سے اللہ رنج و
الم دور فرماتا ہے(2)استغفار کرنے والے کے رزق میں برکت و وسعت عطا فرماتا ہے۔
اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (پ2، البقرۃ:
222)
اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔ (مجمع البحرین،ج
4،ص272، حدیث:4739)
جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے
والے فرشتوں کو اس کے گناہ بُھلا دیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ
پاؤں)کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔یہاں تک کہ
قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی
گواہ نہ ہوگا۔ (الترغیب والترھیب،ج4،ص48، رقم:17)
سبحان اللہ اِن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رب تعالیٰ کی
رحمت کتنی وسیع ہے لہذا ہر شخص کو چاہیے کہ اللہ پاک سے رحمت کی اُمید رکھتے ہوئے
اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے توبہ و استغفار کرے، بروز قیامت حضور اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت نصیب ہوگی۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ
واٰلہٖ وَسَلَّمَ