محمد
وقاص دلاور مدنی(مدرس جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
یاد رہے زندگی میں الله پاک نے انسان کو کئی طرح کی نعمتوں
سے نوازا ہے اب چاہے وہ انعام ظاہری ہو یا باطنی، اور باطنی انعام و نعمتوں کا مل جانا
ظاہری نعمتوں کے مقابلے میں کئی درجہ بہترین ثابت ہوتا ہے جیسے عبادت نماز وغیرہ میں
خشوع و خضوع یعنی دل کا لگنا، دل کا حسد،تکبر،بغض جیسی گندی بیماریوں سے پاک و صاف
ہونا، ان نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت توفیق کا ملنا بھی ہے، اب چاہے صدقہ کرنے کی
ہو، نوافل پڑھنے کی ہو یا علم دین حاصل کرنے کی ہو بالعموم عام حالت میں،بالخصوص
گناہ کرنے کے بعد توبہ کرکے الله پاک سے مغفرت طلب کرنے کی ہو لہٰذا اسی مناسبت سے
کچھ استغفار یعنی مغفرت و بخشش طلب کرنے کے فضائل و فوائد بیان کئے جاتے ہیں:
کئی مصیبتوں کا حل:حضرت سیّدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے خُشک سالی
کی شکایت کی، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اِستغفار کرنے کا حکم دیا، دوسرا شخص آیا،
اس نے تنگ دستی کی شکایت کی تو اسے بھی یہی حکم فرمایا، پھر تیسرا شخص آیا، اُس نے
اولاد نہ ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا، پھر چوتھا شخص آیا، اس نے اپنی
زمین کی پیداوار کم ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا۔حضرت رَبیع بن صَبِیح
رحمۃ اللہ علیہ وہاں حاضر تھے انہوں نے عرض کی: آپ کے پاس چند لوگ آئے اور انہوں
نے مختلف حاجتیں پیش کیں، آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ اِستغفار کرو؟ تو آپ رحمۃ
اللہ علیہ نے ان کے سامنے یہ آیات پڑھیں(جن میں اِستغفار کو بارش، مال، اولاد اور
باغات کے عطا ہونے کا سبب فرمایا گیا ہے):
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ
مِّدْرَارًاۙ(۱۱) وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ
جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا
معاف فرمانے والا ہے۔تم پر شرّاٹے کا مینہ(موسلا دھار بارش) بھیجے گا۔اور مال اور
بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں
بنائے گا۔(خازن، نوح، ج4، ص335، تحت الآیۃ:10تا12)
اِستغفار کے 4فوائد:
(1)اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔(پ2، البقرۃ:
222)
(2)جو اِستغفار کو
لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے
روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(ابو داؤد،ج2،ص122، حدیث:1518)
(3)اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔(مجمع البحرین،ج
4،ص272، حدیث:4739)
(4)جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم
لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلادیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ
پاؤں)کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔یہاں تک کہ
قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی
گواہ نہ ہوگا۔(الترغیب والترھیب،ج4،ص48، رقم:17)
حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ
توبہ کرلے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔(لیکن)
اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے
(پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہی وہ رَان (زنگ) ہے جس کا ذکر اللہ
تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرمایا ہے: كَلَّا بَلْٚ-
رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۱۴)ترجمہ
کنزالایمان: کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے ان کی کمائیوں نے۔ (اخرجہ
الترمذی فی السنن، کتاب: تفسیر القرآن، باب: ومن سورۃ ویل للمطففین، 5/434، الرقم:
3334، وابن ماجہ فی السنن، کتاب: الزھد، باب: ذکر الذنوب، 2/1418، الرقم: 4244،
والنسائی فی السنن الکبری، 6/110، الرقم: 10251، 11658، وفی عمل الیوم واللیلۃ،
1/317، الرقم: 418، والحاکم فی المستدرک، 2/562، الرقم: 3908۔)
الله پاک ہمیں ہر وقت استغفار و بخشش طلب کرتے رہنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم