تمام انسانوں میں سے سب افضل و اعلیٰ ذات انبیاء و مرسلین کی ذات ہے ان مبارک ہستیوں کو اللہ پاک نے ہر گناہ سے معصو م رکھا۔اپنے اولیاء کو محفوظ رکھتا ہے ،مان کے علاوہ کوئی بھی انسان چاہے کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو اس سے گناہ کا سرزد ہونا ایک ممکن بات ہے کیونکہ ابن آدم سے غلطی کا صدور اور اس کا گناہ میں پڑنا ایک فطری بات ہے۔جیسا کہ حدیث پاک میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: كلُّ بني آدم خَطَّاءٌ وخيرُ الخَطَّائِينَ التوابون یعنی تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں۔( سنن الترمذی،4/659)

بتقاضائے بشریت بھی انسان سے گناہ سرزد ہو ہی جاتے ہیں، اللہ پاک کی رحمت پر قربان اس نے امت کے سب سے بڑے غمخوار،سرکارِ عالی وقارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے مؤمنین کو استغفار جیسی ایک ایسی عظیم نعمت سے نوازا ہے جس کا کثرت سے ذکر کرنا گناہوں کی معافی کا بہترین سبب ہے۔خود اللہ پاک نے استغفار کرنے کی ترغیب قرآن پاک میں ارشاد فرمائی ہے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ(۹۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بےشک میرا رب مہربان محبت والا ہے۔(پ12، ھود:90)

ایک اور مقام میں فرمایا:وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰) ترجمۂ کنز الایمان: اللہ سے بخشش مانگو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ29، المزمل:20)

ہر مسلمان کو کثرت سے استغفار کرتے رہنا چاہئے کیونکہ دعائے مغفرت نہایت محبوب شے ہے خصوصاً اگر گناہوں سے توبہ کرکے ہو اور نورٌ علیٰ نور یہ کہ بارگاہِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضر ہو کر اپنی بخشش کی دعا کی جائے۔

جس کا طریقہ خود قرآن نے بتایا کہ اگر تم سے کوئی گناہ ہو جائے تو اس کی معافی کے لئے رؤف و رحیم نبی کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اللہ پاک کی بارگاہ میں بخشش کی التجا کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5، النسآء: 64)

اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی استغفار اور اللہ سے بخشش طلب کرنے کی ترغیب کثیر فضائل کے ساتھ ذکر کی گئی ہے، جن میں سے 7 احادیث ذکر کی جاتی ہیں:

(1)جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تواللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، 4/257، حدیث: 3819)

(2)شیطا ن نے کہا: اے میرے رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں، میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، 4/59، حدیث:11244)

(3)اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے انسان! جب تک تومجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے انسان! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں،پھر تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تجھے ا س کے برابر بخش دوں گا۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ، والاستغفار۔۔۔الخ، 5/318، حدیث: 3551)

(4)حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز سے فارغ ہونے کے بعد تین بار اِستغفار کرتے اور فرماتے: اَللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامْ یعنی اے اللہ! تو سلام ہے اور تجھ سے سلامتی ہے اور تو برکت والا ہے (اے) جلالت اور بزرگی والے۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ و بیان صفتہ، ص 297، حدیث: 591)

(5)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: استغفار کا سردار یہ ہے کہ تم کہو: اَللّٰہُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَ اَنَا عَبْدُکَ وَ اَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْ ءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَ اَبُوْ ءُ بِذَنْبِی فَاغْفِرْلِی فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ یعنی الٰہی تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا، میں تیرا بندہ ہوں اور اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے کیے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اقراری ہوں، مجھے بخش دے تیرے سوا گناہ کوئی نہیں بخش سکتا۔ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو یقینِ قلبی کے ساتھ دن میں یہ کہہ لے پھر اسی دن شام سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا اور جو یقینِ دل کے ساتھ رات میں یہ کہہ لے پھر صبح سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا۔ (بخاری، کتاب الدعوات، باب افضل الاستغفار، 4/189، الحدیث: 6306)

(6)جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلادیتا ہے، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں)کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتاہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔(الترغیب والترھیب،ج4،ص48، رقم:17)

(7)اللہ تعالیٰ نے میری اُمّت کے لئے مجھ پر دو امن(والی آیات) اتاری ہیں، ایک: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو۔اور دوسری: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33) جب میں اس دنیا سے پردہ کر لوں گا تو قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑ دوں گا۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانفال، 5/56، حدیث: 3093)

جہاں توبہ و استغفار کے اتنے فضائل ہیں وہیں اس کے بے شمار فوائد بھی ہیں جن میں سے 6یہ ہیں:

(1)توبہ کرنے والوں کواللہ پاک پسند فرماتا ہے۔(پ2، سورۃالبقرۃ: آیت 222)

(2) جس شخص نے استغفار کو لازم کرلیا تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اور ہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔ (سنن النسائی/الیوم واللیلة (456)، سنن ابن ماجہ/الأدب 57، 3819)

(3)استغفار کرنے والا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے عمل کی پیروی کرنے والا ہوتا ہے۔(مشکاۃ المصابیح، ج1، ص434، حدیث:2323)

(4) استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے۔(تفسیرِ صراط الجنان، سورة الانفال ،تحت الآیۃ: 33)

(5)اِستغفار کرنے والے کے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔(مجمع البحرین،ج 4،ص272، حدیث:4739)

(6)حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایک ملازم نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں، مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللہ پاک مجھے اولاد دے۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: استغفار پڑھا کرو۔ اس نے استغفار کی یہاں تک کثرت کی کہ روزانہ سا ت سو مرتبہ اِستغفار پڑھنے لگا، اس کی برکت سے اس شخص کے دس بیٹے ہوئے ، جب یہ بات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے یہ کیوں نہ دریافت کیا کہ یہ عمل آپ رضی اللہ عنہ نے کہاں سے فرمایا۔دوسری مرتبہ جب اس شخص کو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اس نے یہ دریافت کیا۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے حضرت ہود عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا قول نہیں سنا جو اُنہوں نے فرمایا: یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ (اللہ تمہاری قوت کے ساتھ مزید قوت زیادہ کرے گا)اور حضرت نوح عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا یہ ارشاد نہیں سنا: یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ (اللہ مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا) (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: 52، ص502) یعنی کثرتِ رزق اور حصولِ اولاد کے لئے اِستغفار کا بکثرت پڑھنا قرآنی عمل ہے۔ (تفسیرِ صراط الجنان، سورة ہود، تحت الآیۃ: 52)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں گناہوں سے بچتے رہنے اور کثرث سے استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

گناہوں سے توبہ کی توفیق دے دے ہمیں نیک بندہ بنا یاالٰہی (وسائلِ فردوس)