محمد عارش
رضا قادری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادہوکی لاہور،پاکستان)
جہاں انسان اچھے اعمال کرتا ہے وہیں انسان سے غلطیاں اورگناہ
بھی ہوتےہیں۔ ان میں سے کچھ اسے گناہ ہوتے ہیں جو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔تو انسان
کو چاہیے کہ وقتا فوقتا استغفار یعنی توبہ کرتے رہنا چاہئے تاکہ وہ نیکیوں کی طرف
رغبت رکھے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ
مَتَابًا(۷۱) ترجمہ کنز الایمان: اور جو توبہ کرے اور اچھا کام کرے تو وہ اللہ کی طرف
رجوع لایا جیسی چاہیے تھی (پ19، الفرقان: 71)
اس آیت مبارکہ میں بھی توبہ کی ترغیب دی گئی ہے اور توبہ
کے بارے میں احادیث ملاحظہ فرمائے۔
حدیث(1):حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب مومن گناہ کا ارتکاب کرتا
ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرلے اور بخشش طلب کرلے
تو دل میں چمک اور جلا پیدا ہوجاتی ہے۔(مسند امام احمد، 3/154، حدیث7957)
معلوم ہوا کہ دل گناہوں کی وجہ سے سیاہ ہوجاتا ہےاور توبہ
کرنے سے چمک اٹھتا ہے۔
حدیث(2): حضور علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا فرمان عالیشان ہے:
بیشک اللہ پاک رات کے وقت اپنا دست قدرت پھیلائے رکھتا ہےتاکہ دن کو گناہ کرنے
والا توبہ کرلے اور دن کےوقت دست قدرت پھیلائے رکھتا ہے تاکہ رات کو گناہ کرنے
والا توبہ کر لےیہاں تک کے سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔(مسلم، کتاب التوبۃ، ص 1156،حديث6989)
حدیث (3):حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: جنت کے8 دروازے ہیں، 7 بند ہیں اور ایک دروازہ توبہ کے لیے کھلا ہوا ہے یہاں
تک کہ سورج اس کی طرف سے طلوع ہو۔(معجم كبير،ج10،ص 206، حديث 10479)
توبہ کو جنت کا دروازہ قرار دیا گیا ہے گویا کہ یہ جنت کا
دروازہ ہے تو پھر توبہ کرنے والے کا دل کیوں نہ اجلا اجلا ہو اور عبادت میں دل کیوں
نہ لگے۔جب بندہ توبہ کرلے تو عبادت میں دل لگ جاتا ہے۔
حدیث (4):پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمان مغفرت نشان ہے:انسان کے لیے سعادت ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اللہ عزوجل
توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔(مستدرک، ج3،ص34، حدیث 7676)
گناہوں پر توبہ یعنی استغفار کرنے والے کو سعادت مند کہا گیا
ہےلہٰذا ہمیں استغفار کی کثرت کرنی چاہیے۔
حدیث (5):حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
ارشاد گرامی ہے:تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہے جو توبہ کرنے
والا ہے۔(جامع ترمذی، ص341، حدیث 2499)
قارئین کرام! معلوم ہوا کہ تمام بنی آدم ہی خطا کار ہیں لیکن
جو توبہ کرلے وہ اُن سب سےبہتر ہے۔ضروری نہیں کہ ہم صرف اسی وقت تو بہ واستغفار کریں
جب ہمیں اپنے گناہ کا پتا چلے بلکہ ہر وقت توبہ کرتی رہنی چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں
عبادت کی لذت و سرور عطا فرمائے اور اللہ پاک ہم سب کو سچی توبہ کی توفیق عطا
فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم