اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس دنیا میں بے شمار مخلوقات کو پیدا
فرمایا ہے، کوئی حیوان کی شکل میں ہے، کوئی جنات کی شکل میں ہے تو کوئی انسان کی
شکل میں ہے، بیشک ان تمام مخلوق میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا لیکن انسان خطا
کا پتلا ہے، کہیں نہ کہیں انسان خطا کر بیٹھتا ہے مگر اس خطا پر شرمندہ ہونا اور اس
سے توبہ کرنے میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے اور اسی استغفار کرنے میں رب کی رضا
ہے، اسی سے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ
جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا
اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجَمۂ کنزُ
الایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں
اور پھراللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ
قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5، النسآء: 64)
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کے بندہ گناہ کرنے کے بعد استغفار
کرے تو اللہ اسے بخش دے گا۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ
یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ
فَضْلٍ فَضْلَهٗؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر
اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا برتنا(فائدہ) دے گا ایک ٹھہرائے وعدہ تک اور ہر
فضیلت والے کواس کا فضل پہنچائے گا۔(پ11، ھود:3)
آیات مبارکہ کے بعداحادیث شریف میں کئی جگہ استغفار کی فضیلت
کو بیان کیا گیا ہے ایک حدیث مبارکہ بیان کرتے ہے: عَنْ اَبِي
سَعِيْدِنِ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم قَالَ کَانَ فِي بَنِي اِسْرَائِيْلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً
وَتِسْعِيْنَ اِنْسَانًا ثُمَّ خَرَجَ یَسْأَلُ فَأَتَی رَاھِبًا فَسَأَلَهُ
فَقَالَ لَهُ ھَلْ مِنْ تَوْبَةٍ قَالَ لَا فَقَتَلَهُ فَجَعَلَ یَسْأَلُ فَقَالَ
لَهُ رَجُلٌ ائْتِ قَرْیَةَ کَذَا وَکَذَا فَاَدْرَکَهُ الْمَوْتُ فَنَاءَ
بِصَدْرِهِ نَحْوَہا فَاخْتَصَمَتْ فِيْهِ مَلَائِکَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِکَةُ
الْعَذَابِ فَاَوْحَی اللهُ اِلَی ھَذِهِ اَنْ تَقَرَّبِي وَاَوْحَی اللهُ اِلَی
ھِذِهِ اَنْ تَبَاعَدِي وَقَالَ قِيْسُوْا مَا بَيْنَہما فَوُجِدَ اِلَی ھَذِهِ اَقْرَبَ
بِشِبْرٍ فَغُفِرَلَهُ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ اخرجه البخاري
حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: بنی اسرائیل میں سے ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کیے تھے اور پھر مسئلہ
پوچھنے نکلا تھا (کہ اس کی توبہ قبول ہو سکتی یا نہیں)۔ وہ ایک راہب کے پاس آیا
اور اس سے پوچھا: کیا (اس گناہ سے) توبہ کی کوئی صورت ممکن ہے؟ راہب نے جواب دیا:
نہیں۔ اس نے اس راہب کو بھی قتل کر دیا۔ پھر اس نے ایک اور شخص سے پوچھا تو اس نے
بتایا کہ تم فلاں بستی (میں جہاں نیک لوگ رہتے ہیں) جاؤ (ان کے ساتھ مل کر توبہ
کرو۔) وہ اس بستی کی طرف روانہ ہوا لیکن ابھی نصف راستے میں بھی نہیں پہنچا تھا کہ
اس کی موت واقع ہو گئی۔رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہونے لگا کہ کون اس کی
روح لے جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو حکم دیا کہ اس کی لاش کے قریب ہو جائے
اور دوسری بستی کو حکم دیا کہ اس کی لاش سے دور ہو جائے۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں
سے فرمایا: اب دونوں کا فاصلہ دیکھو جس طرف کا فاصلہ کم ہو اسے اس بستی کے رہنے
والوں کے حساب میں ڈال دو۔ اور جب فاصلہ ناپا گیا تو اس بستی کو (جہاں وہ توبہ
کرنے جا رہا تھا) ایک بالشت لاش سے زیادہ قریب پایا اور اس کی مغفرت کر دی گئی۔ یہ
حدیث متفق علیہ ہے۔
ان آیات و حدیث سے معلوم ہوا کے بندہ کتنے ہی گناہ کیوں نہ
کرلے اگر اپنے رب سے توبہ واستغفار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے گا اور
اسے بخش دے گا۔