صراط الجنان میں ہے جو گناہ ہو چکے ان سےمعافی مانگنا استغفار کہلاتا ہے۔ گناہوں سے توبہ کرنا پرہیزگاروں کا وصف ہے۔ احادیث مبارکہ میں استغفار کے کثیر فضائل و فوائد بیان ہوئے چند پیش خدمت ہیں:

1 ) بہترین دعا استغفار ہے۔

2) جو استغفار کو اپنے پر لازم کر لے تو اللہ پاک اس کے لیے ہر تنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات دے گا اور وہاں سے روزی دے گا جہاں سے گمان بھی نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

اِستغفار کرنے والے کو رب تعالیٰ یہ تمام نعمتیں غیبی خزانہ سے عطا کرتا ہے۔ مرآة المناجیح میں ہے کہ استغفار کے کلمات روزانہ زبان سے ادا کرے چاہے گناہ کرے یا نہ کرے۔ (مراة المناجیح،3/562)

نوٹ: بہتر یہ ہے کہ نماز فجر کے وقت سنت فجر کے بعد فرض سے پہلے ستر بار استغفار کرے کہ یہ وقت استغفار کے لئے بہت موزوں ہے اور بہت مجرب عمل ہے۔ جیساکہ رب تعالیٰ فرماتا ہے: وبالاسحار ھم يستغفرون (مراة المناجیح،3/562)

3 )اس کے لیے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔ یعنی اس نے مقبول استغفار بہت کئے ہوں مقبول استغفار وہ ہیں جو دل کے درد اور آنکھوں کے آنسو اور اخلاص سے کیے جائیں۔

4 ) دل بھی لوہوں کی مانند زنگ آلود ہو جاتے ہیں ان کی جلا استغفار ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)جیسے لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے اسی طرح گناہ کرتے کرتے دل بھی آہستہ آہستہ سیاہ اور پھر آخرکار زنگ آلود ہو جاتا ہے اور استغفار کرنے سے یہ زنگ دور ہوتا اور گناہوں کی آلودگی سے پاک ہوتا ہے۔

5) زمین میں دو امن نامے ہیں: میں امن ہوں اور اِستغفار امن ہے۔ مجھے تو اٹھا لیا جائے گا۔ لیکن استغفار والا امن باقی رہ جائے گا۔ پس تم پر ہر نئے وقوعہ اور ہر گناہ کے وقت استغفار لازم ہے۔

در حقیقت یہ حدیث آیت ذیل کی تفسیر ہے: ترجمہ: جب تک آپ ان میں موجود ہیں اللہ ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا اور جب تک وہ اپنے گناہوں پر استغفار کرتے رہیں گے تب بھی اللہ ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا۔ کیونکہ حضور ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں نیز آپ کی ہی بدولت ہم گناہ گار عذاب سے بچے ہوئے ہیں۔ علامہ علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت سے ثابت ہوا کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے(خازن، 2/193، تحت الآیۃ: 33)

اللہ رب العزت ہمیں ہر وقت توبہ واستغفار کرتے رہنے کی توفیق دے۔