
مختصر تعارف:ثمود بھی
عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح علیہ السلام
کی اولاد میں سے تھے اور حجاز و شام کے
درمیان سرزمینِ حِجر میں رہتے تھے، حضرت
صالح علیہ السلام کے والد کا نام عبید اللہ بن آسف بن ماسح بن عبید حاذر ابنِ ثمود ہے اور اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجا، پتھروں اور پہاڑوں کو کھود کر گھر بنانا اس قوم کی بارز ترین صفات میں شامل تھا۔
قومِ ثمود کی نافرمانیاں:
حضرت صالح علیہ السلام نے جب قومِ ثمود کو خداپاک کا فرمان
سُنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا کہ آپ اس
پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اُونٹنی
نکالئے، جو خُوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ فوراً ہی چٹان پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت اور تندرست
اُونٹنی نکل پڑی، جو گابھن تھی اور اس نے
ایک بچہ جنا، اس بستی میں ایک ہی
تالاب تھا، جس میں پہاڑوں کے چشموں سے پانی گر کر جمع ہوتا
تھا۔
حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا" اے لوگو! دیکھو یہ
معجزے کی اونٹنی ہے، ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی پی ڈالے گی اور ایک
روز تم لوگ پینا "، قوم نے اس کو مان
لیا، چند دن تو قوم نے تکلیف کو برداشت کیا، مگر پھر ان
لوگوں نے یہ طے کیا کہ اُونٹنی کو قتل کر
ڈالیں۔
قدار بن سلف:اس قوم میں قدار بن سلف جو سُرخ رنگ کا بھوری
آنکھوں والا پستہ قد آدمی تھا اور ایک زنا
کار عورت کا لڑکا تھا، ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو
گیا، حضرت صالح علیہ السلام منع ہی کرتے رہے، لیکن قدار بن سلف نے پہلے اُونٹنی کے چاروں پاؤں کاٹ ڈالے، پھر اس کو
ذبح کیا اور اِنتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا۔
زلزلہ کا عذاب:قومِ ثمود کی اِس سرکشی پر عذابِ خُداوندی
کا ظہور اس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی، پھر شدید زلزلہ
آیا، جس سے پوری آبادی چکنا چور ہو گئی،
تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہو گئیں اور قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں
کے بل اوندھا گر کر مر گیا۔
حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی زلزلوں کے
جھٹکوں سے تباہ و برباد ہو کر اینٹ پتھروں کا ڈھیر بن گئی اور پوری قوم ہلاک ہو
گئی تو آپ کو بڑا صدمہ ہوا اور آپ کو قوم اور ان کی بستی کے ویرانوں سے اس قدر نفرت ہوگئی کہ آپ نے
ان لوگوں کی طرف سے مُنہ پھیر لیا۔
اس واقعے کا ذکر اللہ پاک نے قرآن پاک کی سورۃ الاعراف میں
فرمایا ہے۔

حضرت صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجے
گئے، آپ نے جب قومِ ثمود کو خدا پاک کا فرمان سُنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش
قوم نے آپ سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اُونٹنی
نکالئے، جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و
نقائص سے پاک ہو ، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ
فوراً ہی پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت و تندرست اور خُوب
بلند قامت اُونٹنی نکل پڑی، جو گابھن تھی
اور نکل کر اس نے ایک بچہ بھی جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چرتی پھرتی
رہی۔
اس بستی میں ایک
ہی تالاب تھا، جس میں پہاڑوں کے چشموں سے
پانی گر کر جمع ہوتا تھا، آپ نے فرمایا:
کہ اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اُونٹنی ہے، ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی یہ پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ
پینا، قوم نے اس کو مان لیا، پھر آپ نے
قومِ ثمود کے سامنے یہ تقریر فرمائی: کہ
ترجمہ کنزالایمان:"اے میری قوم اللہ کو پُوجو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک
تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے روشن دلیل آئی ہے، یہ اللہ کا ناقہ ہے، تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اُسے برائی
سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آئے گا۔"(پ8، الاعراف:73)
چند دن تو قومِ ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن
اُن کا پانی نہیں ملتا تھا، کیونکہ اس دن
تالاب کا سارا پانی اُونٹنی پی جاتی تھی، اس لئے ان لوگوں نے طے کر لیا کہ اس اُونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔
چنانچہ قوم میں قدار بن سالف جو سُرخ رنگ کا بھوری آنکھوں
والا اور پستہ قد آدمی تھا اور ایک زنا
کار عورت کا لڑکا تھا، ساری قوم کے حکم سے
اس اُونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا، حضرت صالح علیہ السلام منع کرتے
رہے، لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو
اُونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا، پھر
اس کو ذبح کردیا اور اِنتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ
گفتگو کرنے لگا، چنانچہ خداوند قدوس کا
ارشاد ہے کہ
ترجمہ کنزالایمان:"پس ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اےصالح!ہم پر لے آؤ
جس کا تم وعدہ دے رہے ہو، اگر تم رسول
ہو۔"(پ8، الاعراف: 77)
زلزلہ کا عذاب:
قومِ ثمود کی اس سرکشی پہ عذابِ خُداوندی کا ظُہور اس طرح
ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی، پھر شدید زلزلہ آیا، جس سے پوری آبادی اَتھل پَتھل ہو کر چکنا چور
ہو گئی، تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس
ہو گئیں اور قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا، قرآن مجید نے فرمایا کہ
ترجمہ کنزالایمان:"تو اُنہیں زلزلہ نے آلیا تو صبح
کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے ۔"(پ8، الاعراف:78)
حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی زلزلوں کے
جھٹکوں سے تباہ و برباد ہو کر اینٹ پتھروں کا ڈھیر بن گئی اور پوری قوم ہلاک ہوگئی
تو آپ کو بڑا صدمہ اور قلق ہوا اور آپ کو قومِ ثمود اور ان کی بستی کے ویرانوں سے
اس قدر نفرت ہوگئی کہ آپ نے اُن لوگوں کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اُس بستی کو
چھوڑ کر دوسری جگہ تشریف لے گئے اور چلتے وقت مُردہ لاشوں سے یہ فرما کر روانہ
ہوگئے کہ
ترجمہ کنزالایمان:"اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں
اپنے ربّ کی رسالت پہنچا دی اور تمہارا بھلا چاہا، مگر تم خیر خوا ہوں کے غرضی (پسند کرنے والے) ہی نہیں۔"(پ8، الاعراف:79)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قومِ ثمود کی پوری بستی بربادو
ویران ہوکر کھنڈر بن گئی اور پوری قوم فنا
کے گھاٹ اُتر گئی، کہ آج ان کی نسل کا
کوئی انسان روئے زمین پر باقی نہیں رہ گیا۔(تفسیر الصاوی، ج2، ص688، پ8، الاعراف:77۔83 تا 79ملخصاً)

اللہ پاک نے ہر قوم کی ہدایت کے لئے اپنے نبیوں اور رسولوں
کو مبعوث فرمایا، قومِ ثمود کی ہدایت کے
لئے اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، آپ نے جب قومِ ثمود کو خدا کا فرمان سنا کر
ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے
ایک گابھن اُونٹنی نکالئے، جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ فوراً ہی پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت خوبصورت و
تندرست اور خوب بلند قامت اونٹنی نکل پڑی، جو گابھن تھی اور نکل کر اس نے ایک بچہ جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چرتی پھرتی رہی۔
اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا، آپ نے فرمایا: اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اونٹنی ہے، ایک روز تمہارے تالاب کا سارا
پانی یہ پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ پینا، قوم نے اس کو مان لیا، پھر آپ نے
قوم، ثمود کے سامنے تقریر فرمائی کہ
ترجمہ کنزالایمان:"اے میری قوم!اللہ کو پوجو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے روشن
دلیل آئی، یہ اللہ کا ناقہ ہے، تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی
زمین میں کھائے اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آلے گا۔"(پ8،اعراف: 73)
چند دن تو قوم نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن ان کو پانی نہیں ملتا تھا، کیونکہ اسے
دن تالاب کا سارا پانی اونٹنی پی جاتی
تھی، اس لئے ان لوگوں نے طے کرلیا کہ اس اونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔
چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالف جو سرخ
رنگ کا بھوری آنکھوں والا اور پستہ قد آدمی تھا اور ایک زنا کار عورت کا لڑکا
تھا، ساری قوم کے حکم سے اس اُونٹنی کو
قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا، حضرت صالح
علیہ السلام انہیں منع ہی کرتے رہے، لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا، پھر اس کو ذبح کردیا اور انتہائی سرکشی کے ساتھ
حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا، چنانچہ خداوند قدوس کا
ارشاد ہے کہ
ترجمہ کنزالایمان:پس ناقہ کی کونچیں کاٹ دیں اور اپنے ربّ
کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح! ہم پر لے آؤ، جس کا تم وعدہ دے رہے ہو، اگر تم رسول
ہو۔"(پ8،اعراف: 77)
عذاب:
قومِ ثمود کی اس سرکشی پر عذابِ خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی
خوفناک آواز آئی، پھر شدید زلزلہ
آیا، جس سے پوری آبادی اتھل پتھل ہو کر چکنا چور ہو گئی، تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہوگئیں اور قومِ ثمود کا ایک
ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر
گیا، قرآن مجید نے فرمایا کہ
ترجمہ کنزالایمان:"تو انہیں زلزلہ نے آ لیا تو صبح کو
اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے۔ (پ8،اعراف: 78)
قومِ ثمود کی نافرمانیاں از
بنت نیاز احمدعطاریہ مدنیہ،( جامعۃالمدینہ للبنات رحمت کالونی، رحیم یارخان)

اللہ ربّ العزت نے اپنے برگزیدہ بندے حضرت صالح علی نبینا
وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو قومِ ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجا تھا، ثمود عرب
کا ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح علیہ السلام
کی اولاد میں تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمینِ حجر میں رہتے تھے، حضرت صالح علیہ الصلوۃ و السلام کے والد کا نام
عبید بن آسف بن ماسح بن عبید بن حاذر ابنِ
ثمود ہے، قومِ ثمود، قومِ عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح علیہ
السلام حضرت ہود علیہ السلام کے بعد ہیں۔(روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ، جلد 3، صفحہ 190۔189)
قومِ ثمود سنگ تراشی کے فن میں یدِ طولیٰ رکھتی تھی، انہوں نے پہاڑوں کی چٹانوں کو کھود کر اور کاٹ
کر اپنے لئے رہائش گاہیں تعمیر کر رکھی تھیں، ان کی پائیداری اور پختگی پر بڑا ناز تھا، انہیں یقین تھا کہ کوئی زلزلہ، کوئی سیلاب، کوئی جھگڑ ان کو ہلا
نہیں سکتی۔(ضیاء القرآن، صفحہ 577، تحت الآیۃ:9 ، سورہ فجر)
لیکن ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر ربّ پاکٰ کا ایسا
غضب ناک عذاب نازل ہوا کہ ان کا سارا فخر و غرور خاک میں مل گیا اور جن گھروں کے
پختگی اور مضبوطی پر ناز کرتے تھے، انہیں
گھروں میں اوندھے منہ ہلاک ہوگئے۔
قومِ ثمود کی نافرمانیاں:
ہوا یوں کہ جب حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے
فرمایا:اے میری قوم! تم اللہ پاک کو ایک
مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو، اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں، صرف وہی عبادت کا مستحق ہے، جبکہ تمہارے یہ بت
عبادت کے لائق ہی نہیں، پھر اللہ پاک کی
وحدانیت اور اس کی کمالِ قدرت پر دلائل دیتے ہوئے فرمایا: کہ معبود وہی ہے، جس نے تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو زمین
سے پیدا کیا، پھر تمہیں زمین میں بسایا
اور زمین کو تم سے آباد کیا، تو اللہ پاک
سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو، پھر
شرک سے کنارہ کشی کرکے اُسی کی طرف رُجوع
کرو، بے شک میرا ربّ پاک ایمان والوں کے
قریب ہے اور ان کی سننے والا ہے۔(تفسیر صراط
الجنان، سورہ ھود، تحت الآیۃ:61)
تو قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت کا انکار
کر دیا، قرآن پاک میں ہے:
اَلَاۤ
اِنَّ ثَمُوْدَاۡ كَفَرُوْا رَبَّهُمْ١ؕ اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَؒ۶۸
ترجمہ کنزالایمان:"سن لو بے شک ثمود اپنے ربّ سے منکر
ہوئے ارے لعنت ہو ثمود پر۔"(پ12، ہود،:68)
پھر قومِ ثمود کے مطالبے پر حضرت صالح علیہ السلام کو
نشانی کے طورپر اُونٹنی دی، تو قوم نے
ماننے کی بجائے اُونٹنی پر ہی ظلم کیا اور اسے قتل کر دیا، چنانچہ قومِ ثمود کے سردار جندہ بن عمرو نے
حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کیا:اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں
فلاں صفات کی اُونٹنی ظاہر کریں، اگر ہم
نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے۔"
حضرت صالح علیہ السلام نے ایمان کا وعدہ لے کر ربّ پاک سے
دعا کی، سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی
شکل و صورت کی پوری جوان اُونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر کے بچہ
جنا، یہ معجزہ دیکھ کر جندہ تو اپنے خاص
لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا، جبکہ باقی
لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔(تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ:73۔79)
پھر قومِ ثمود نے اپنی سرکشی سے اپنے رسول حضرت صالح علیہ
السلام کو اس وقت جھٹلایا، جب ان کا سب سے
بڑا بدبخت آدمی قدار بن سالف ان سب کی مرضی سے اُونٹنی کی کونچیں(رگیں) کاٹنے کے
لئے اُٹھ کھڑا ہوا، تو اللہ پاک کے رسول حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا:
تم اللہ پاک کی اُونٹنی کے درپے ہونے سے بچو اور جو دن اس کے لئے پانی پینے کا
مقرر ہے، اس دن پا نی نہ لو تا کہ تم پر عذاب نہ آئے تو انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو
جھٹلایا، پھر اونٹنی کی کونچیں کاٹ
دیں، تو ان پر ان کے ربّ پاک نے ان کے اس گناہ کے سبب تباہی ڈال کر اور ان کی
بستی کو برابر کر کے سب کو ہلاک کر دیا اور ان میں سے کوئی باقی نہ بچا۔(تفسیر خازن، الشمس، تحت الآیۃ11 تا 15، ج4، صفحہ 382۔383)
منقول ہے کہ ان لوگوں نے چہارشنبہ(بدھ کے دن) ناقہ(اونٹنی)
کی کونچیں کاٹی تھیں، تو حضرت صالح علیہ
السلام نے فرمایا: کہ تم اس کے بعد تین روز زندہ رہو گے، پہلے روز تمہارے سب کے چہرے زرد ہو جائیں
گے، دوسرے روز سُرخ، تیسرے روز سیاہ، چوتھے روز عذاب آئے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یکشنبہ(یعنی اتوار) کو
دوپہر کے قریب آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی، جس سے ان لوگوں کے دل پھٹ گئے اور سب ہلاک ہوگئے۔(تفسیر خزائن العرفان، الاعراف، تحت
الآ یۃ:79)

حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجے
گئے۔ آپ نے جب قوم ثمود کو خدا (پاک)کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش
قوم نے آپ سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اونٹنی نکالیے
جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو۔ چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف
اشارہ فرمایا تو وہ فوراً ہی پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت و تندرست
اور خوب بلند قامت اونٹنی نکل پڑی جو گابھن تھی اور نکل کر اس نے ایک بچہ بھی جنا
اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چرتی پھرتی رہی۔
اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ اے لوگو!
دیکھو یہ معجزہ کی اونٹنی ہے۔ ایک روز تالاب کا سارا پانی یہ پیئے گی اور ایک روز
تم لوگ پینا۔ قوم نے اس کو مان لیا پھر آپ نے قوم ثمود کے سامنے یہ تقریر فرمائی
کہ:۔
ترجمۂ کنزالایمان:۔اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ
اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور
اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آئے گا۔ (پ8، اعراف:73)
چند دن تو قوم ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا (پھر)ان
لوگوں نے طے کرلیا کہ اس اونٹنی کو قتل کرڈالیں۔
چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالف ساری قوم کے حکم سے اس
اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ حضرت صالح علیہ السلام منع ہی کرتے رہے،
لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا۔ پھر اس کو ذبح
کردیا اور انتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے
لگا۔ چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ کنزالایمان:۔ پس ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں اور اپنے رب
کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم
رسول ہو۔ (پ8، اعراف:77)
قوم ثمود کی اس سرکشی پر عذابِ خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا
کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی۔ پھر شدید زلزلہ آیا جس سے پوری
آبادی چکنا چور ہو گئی۔ تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہو گئیں اور قوم ثمود کا
ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا۔ قرآن مجید نے فرمایا کہ:۔
ترجمہ کنزالایمان:۔ تو انہیں زلزلہ نے آلیا تو صبح کو اپنے
گھروں میں اوندھے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیرا۔(پ8،اعراف:78-79)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قوم ثمود کی پوری بستی برباد و ویران
ہو کر کھنڈر بن گئی اور پوری قوم فنا کے گھاٹ اتر گئی کہ آج اُن کی نسل کا کوئی
انسان روئے زمین پر باقی نہیں رہ گیا۔(تفسیر
الصاوی،ج۲،ص۶۸۸، پ۸، الاعراف: ۷۳۔۷۷تا ۷۹ ملخصاً)

مخصوص جانور کو مخصوص وقت میں اللہ پاک کا قُرب حاصل کرنے
کے لیے ذبح کرنے کو قربانی کہتے ہیں،
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سُنت ہے، جو اِس اُمت کے لئے بھی باقی رکھی گئی ہے، حکمِ شریعت پر عمل کرتے ہوئے قربانی کرنے کے
جہاں کے جہاں اُخروی فوائد ہیں، وہیں
دُنیا میں بھی اس کے بہت سے فائدے ہیں۔
1۔روزگار کے مواقع:
قربانی کے لئے بہت سے لوگ اپنے گھروں، باڑوں یا کیٹل فارمز میں جانور پالتے ہیں، ان کی دیکھ
بھال کے لئے ملازمین رکھے جاتے ہیں، پھر
ان کو مویشی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے گاڑیاں وغیرہ کرائے پر لی جاتی ہیں، اس سے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ہے، اسی طرح
منڈیوں میں جانوروں کے چارے اور مالکوں کے کھانے پینے کے لئے اسٹال لگائے جاتے ہیں، اس پر روزگار ہوتا ہے، اگر جانور بیمار ہو جائیں تو ویٹرنری ڈ اکٹر کو
بلوایا جاتا ہے، عید کے دن ہزاروں قصاب جانور ذبح کرتے ہیں، گوشت بناتے ہیں، الغرض مویشی منڈی کے لئے جانور پالنے سے قربانی
کرنے تک بے شمار روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں۔
2۔ ملکی خزانے کو فائدہ:
جانور کو لے جانے والی گاڑیاں مختلف مقامات پر ٹول ٹیکس
ادا کرتی ہیں اور پھر مویشی منڈی میں بھی
جگہ کے حساب سے کرایہ دیا جاتا ہے، جس سے
ملکی خزانے کو فائدہ ہوتا ہے۔
3۔ملکی معیشت کو فائدہ:
قربانی کی کھالوں سے مختلف چیزیں بنائی جاتی ہیں اور
انہیں دوسرے ملکوں میں برآمد(export) بھی کیا جاتا ہے، جس سے ملک کو قیمتی زرِّمبادلہ حاصل ہوتا
ہے، الغرض جانور کے پیدا ہونے سے قربان ہونے تک قربانی کی
سُنت کی برکت سے لاکھوں لاکھ افراد کے لئے
روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور مُلکی معیشت کو بھی بےپناہ فائدہ ہوتا ہے۔
4۔غریبوں کا فائدہ:
ہمارے ملک میں غربت کا ایسا حال بھی ہے کہ جہاں سارا سال
گوشت نہیں پکتا، قربانی کرنے کے بعد کئی
خوش نصیب لوگ اپنے رشتے داروں، دوستوں اور
غریبوں مسکینوں کو بھی گوشت پہنچاتے ہیں، جس کی بدولت ان کے گھر میں بھی گوشت پکتا ہے۔
5۔دینی مدارس کا فائدہ:
خوش نصیب مسلمان اپنی قربانی کی کھالیں دعوتِ اسلامی کو نیز عاشقانِ رسول کے دیگر
مدارس و جامعات کو دیتے ہیں، جنہیں بیچ کر
کئی مہینے کے اخراجات جمع ہو جاتے ہیں، یوں قربانی کی سُنت پر عمل کرنا علمِ
دین کی اشاعت میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔
اگر ہمیں دنیوی فوائد معلوم نہ بھی ہوں تو اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ
علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ہمیں قربانی کرنی چاہئے، حدیث پاک ہے:"جس نے خوش دلی سے طالبِ ثواب
ہوکر قربانی کی، تو وہ قربانی اس کے جہنم
کی آگ سے حجاب (یعنی روک) ہو جائے گی۔"(معجم کبیر، 3/384، حدیث 2736)

قربانی ہر صاحبِ اِستطاعت مسلمان مرد و عورت پر شرائط پائے
جانے کی صورت میں واجب ہوتی ہے، بلاشبہ یہ
ایک دینی فریضہ اور یادگارِ اَسلاف ہے، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ بے شمار دُنیاوی فوائد بھی رکھتی ہے، ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
· معاشی فوائد:قربانی سے پہلے جانوروں کو قربانی کے لئے تیار
کرنے، اس سلسلے میں چارے کی فراہمی کے لئے
کھیتی باڑی، قربانی کے بعد کھالوں کی
پروسیسنگ کے سلسلے میں ورکرز اور چمڑے کا کام کرنے والوں کو روزگار مہیّا ہوتا
ہے، جو معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا
کرتے ہیں۔
· طبی فوائد:قربانی کے جانوروں کی جو شرائط شریعتِ مطہرہ نے
مقرر فرمائی ہیں، ان کے مطابق قربانی کرنے سے حاصل ہونے والا گوشت صحت کے لئے
انتہائی مفید ہوتا ہے۔
· سماجی فوائد:قربانی کے گوشت کی تقسیم سے لوگوں میں محبت کی
فضا قائم ہوتی اور سماجی فاصلے کم ہوتے ہیں۔
· صنعتی ترقی:قربانی کرنے سے چمڑے اور اس سے مُنسلک صنعتوں
کو ترقی حاصل ہوتی ہے، ملک میں روزگار کے
مواقع میں اِضافہ ہوتا ہے، جو معیشت کی
ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔
· غریبوں کی دلجوئی:قربانی کرنے سے گوشت ان لوگوں تک بھی
پہنچتا ہے، جو سارا سال گوشت نہیں کھا سکتے، اس طرح ان کی دلجوئی اور خیر خواہی کا بھی
ذریعہ قربانی بنتی ہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنی رضا کے لئے خوش دلی سے قربانی کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور اس کے دینی اور دنیاوی منافع عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وسلم

قرآن کریم میں اِرشادِ باری ہے:فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔
ترجمہ کنزالعرفان:"تو تم اپنے ربّ کے لئے نماز پڑھو
اور قربانی کرو۔"(پ30،سورہ کوثر،آیت:2)
یقیناً اللہ کے ہر
حکم میں بنی نوع انسان کے لئے کثیر دینی و دنیاوی فوائد ہیں، خواہ انسان کی عقل میں آئیں یا نہ آئیں، اِسی طرح قربانی کے بھی دینی فضائل و ثواب کے
ساتھ ساتھ بے شمار دنیاوی فائدے ہیں:
1۔روزگار کے مواقع:
قر بانی کے جانوروں کو بیچنے والوں، ان کی دیکھ بھال کرنے
والوں، کنٹینر، سوزوکی، ٹرک والوں، چارہ، جھول وغیرہ بیچنے والوں، جانوروں کی حفاظت کے لئے چوکیدار وں، ویٹرنری
ڈاکٹروں، قصائیوں، قیمہ وغیرہ بنانے
والوں، ہوٹلز میں قربانی کے گوشت سے مختلف
ڈشیں بنانے والوں سمیت لاکھوں لاکھ لوگوں کو اس سنتِ ابراہیمی کی برکت سے روزگار
میسر آتا ہے۔
2۔ گوشت کی فراہمی:
قربانی کی بدولت لوگوں کو تازہ اور غذائیت سے بھرپور گوشت
مہیا ہوتا ہے، اس کے علاوہ سفید پوش اور
متوسط طبقے کو فراوانی کے ساتھ گوشت حاصل ہوتا ہے، نیز بہت سے لوگ غریبوں میں گوشت تقسیم کرتے
ہیں، جس کی وجہ سے ایسے غریب لوگوں کے
گھروں میں بھی گوشت پکتا ہے، جو سارا سال
گوشت خریدنے کی اِستطاعت نہیں رکھتے۔
3۔باہمی اُخوّت و بھائی چارہ:
قربانی کے موقع پر مسلمانوں میں باہمی اُلفت و محبت اور
اُخوت و بھائی چارے کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے، کہیں دوست اَحباب اور عزیز رشتہ دار مل کر اِجتماعی قربانی کا اہتمام کرتے
ہیں تو کہیں مل جل کر جانوروں کی دیکھ بھال کرتے نظر آتے ہیں، اسی طرح عیدالاضحیٰ کے دن ایک دوسرے کو گوشت
ہدیہ کیا جاتا ہے، دعوت پارٹیز کا سلسلہ ہوتا ہے۔(البتہ یہ بات پیشِ
نظر رہے کہ مذکورہ اُموربلکہ تمام ہی
معاملات میں شریعت کی پاسداری اور گناہوں سے بچنا لازم ہے۔)
4۔مساجد و مدارس کو فوائد:
قربانی کی کھالیں بیشتر مسلمان دعوتِ اسلامی اور دیگر
عاشقانِ رسول کی مساجد اور مدارس میں دیتے ہیں، انہیں بیچ کر حاصل ہونے والی رقم سے جہاں دین کے کاموں میں معاونت ہوتی
ہے، وہیں دینے والے کو بھی ثوابِ جاریہ
حاصل ہوتا ہے۔
5۔ملکی معیشت کو فائدہ:
قربانی کی کھالوں سے مختلف چیزیں بنائی جاتی ہیں اور انہیں
دوسرے ملکوں میں برآمد بھی کیا جاتا ہے، جس سے ملک کو قیمتی زرِّمبادلہ حاصل ہوتا ہے، اس کے علاوہ قربانی کے جانوروں کی آلائشوں کو
کھاد وغیرہ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے، مزید یہ کہ جانور لے جانے والی گاڑیاں مختلف مقامات پر ٹول ٹیکس ادا کرتی
ہیں اور پھر مویشی منڈی میں بھی جگہ کے حساب سے کرایہ جاتا ہے، جس سے ملکی خزانے کو فائدہ ہوتا ہے۔
لہذا خوش دلی کے ساتھ اللہ پاک کی راہ میں عمدہ جانور
قربان کیجئے اور اس کے دنیاوی اور اُخروی فائدے حاصل کیجئے۔اللہ کریم ہر عاشقِ
رسول مسلمان کی قربانی قبول فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

10 ذی الحجہ وہ تاریخی مبارک عظیمُ الشان قربانی کا دن ہے، جب اُمتِ مسلمہ کے مورثِ اعلیٰ سیّدنا ابراہیم
علیہ السلام نے بڑھاپے میں عطا ہوئے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکمِ
الہی کی خاطر قربان کرنے کا ایسا قدم
اُٹھایا کہ آج بھی اس منشائے خداوندی کی تعمیل پر چشمِ فلک حیران ہے، جبکہ دوسری طرف فرمانبرداری و جاں نثاری کے
پیکر آپ علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے رضامندی کا ثبوت دیتے
ہوئے اپنی گردن اللہ کریم کے حضور پیش کر کے قربانی کے تصور کو ہمیشہ کے لئے اَمر
کرنے کا ایسا مظاہرہ کیا کہ خود
"رِضا" بھی ورطۂ حیرت میں مبتلا ہوگئی۔
ان دونوں کی فرمانبرداری اور قربانی کو اسی وقت ربّ نے
شرفِ قبولیت بخشا اور آپ کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سلامتی کا پروانہ
عطا کرکے آپ علیہ السلام کی جگہ ایک دُنبہ بھیج دیا، جسے ربّ نے ذبحِ عظیم قرار دیا ہے، چنانچہ
ارشادِباری ہے:
وَفَدَیْنٰہ
ُبِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔ ترجمہ کنز الایمان:"
اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے صدقہ میں دے کر اسے بچالیا۔"(پ30، الصٰفٰت: 107)
قربانی کی تاریخی اہمیت پر یہ آیت دلالت کرتی ہے، ارشادِ ربّانی ہے:
ترجمہ کنز
الایمان:" اور ہر امت کے لیے ہم نے
ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں اس کے دئیے ہوئے بے زبان چوپایوں
پر۔"(پ17، الحج: 34)
یہ آیتِ مبارکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو
دوام بخشنے پر دلالت کرتی ہے کہ سابقہ تمام اُمتوں پر قربانی فرض تھی، قربانی کے دینی فوائد تو بے شمار ہیں، یہ دینی فوائد کے ساتھ ساتھ دُنیاوی فوائد سے
بھی خالی نہیں، کیوں کہ اسلام کا کوئی بھی فعل یا عمل دینی و دنیاوی فوائد سے خالی نہیں
ہے۔
1۔قربانی میں اُخوت اور بھائی چارگی:قربانی ہمیں اُخوت اور
بھائی چارگی کا پیغام دیتی ہے، قربانی ایک
دوست کو دوسرے دوست سے، ایک رشتہ دار کو دوسرے رشتہ دار سے، ایک امیر کو ایک غریب سے ملانے کا سبب ہے، کیونکہ بعض مصروفیات کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے
سے مل نہیں پاتے۔
2۔فضائی ماحول کو خوشگوار بنانا:قربانی کا ایک فائدہ یہ
بھی ہے کہ قربانی کے ذریعے فضائی آلودگی اور پلوشن(pollution) میں کمی واقع
ہوتی ہے، اگر قربانی میں جانور ذبح نہ ہوں
اور تمام جانور موجود ہوں تو گوبراور لید میں اضافہ ہوگا، جس سے فضائی ماحول بھی متاثر ہوگا اور سانس لینے میں بھی دقّت آئے گی۔
3۔ معیشت کی بحالی: قربانی جہاں قربِ خُدا حاصل کرنے اور
بھوکوں کا پیٹ بھرنے کا سبب ہے، وہیں
قربانی کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ معاشی بحران سے نکالنے کا ایک سبب بھی ہے، قربانی سے ہزاروں کاروبار میں ترقی ہوتی
ہے، قربانی کے جانور کے چمڑے سے ہزاروں
چیزیں بنائی جاتی ہیں، جس سے معیشت کو
ترقی ملتی ہے، مارکیٹ میں خرید و فروخت
میں اضافہ ہوتا ہے، جو معیشت کی بحالی کا
سبب ہوتا ہے۔
4۔غریبوں کا فائدہ: ہمارے معاشرے میں غریب طبقہ بھی موجود
ہے، جن کو نہ جانے کب گوشت کھانا نصیب ہوتا ہو، قربانی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے
کہ قربانی کرنے کے بعد بہت سے خوش نصیب لوگ اپنے رشتے داروں، غریبوں اور مسکینوں کو گوشت پہنچاتے ہیں، جس سے
وہ لوگ خوش ہوتے ہیں اور اُن کے گھر میں بھی گوشت پکتا ہے۔
5۔دینی مدارس کا فائدہ:بہت سے خوش نصیب لوگ اپنے قربانی کے
جانور کی کھال دعوتِ اسلامی کو دیتے ہیں، جنہیں بیچ کر مدارس و جامعات اور مزید دیگر دعوتِ اسلامی کے شعبوں کے لئے
اخراجات اکٹھے کئے جاتے ہیں، یوں دین کا کام بھی چلتا رہتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی فوائد ہیں، اِسلام کا کوئی فعل عبث اور بیکار نہیں
ہے، صرف سمجھنے کی ضرورت ہے، اللہ پاک ہم سب کو قربانی کی اہمیت و افادیت سے
آگاہ فرمائے اور خوش دلی کے ساتھ قربانی کا شوق و جذبہ عطا فرمائے۔آمین
قربانی کے5 دُنیاوی فوائداز بنت شاہنواز عطاریہ (گلشن
کالونی، واہ کینٹ)

ہر بالغ،
مقیم، مسلمان مرد و عورت، مالکِ نصاب پر قربانی واجب ہے۔(عالمگیری، جلد
5، صفحہ 292، ابلق گھوڑے سوار، صفحہ6)
حضور جانِ جاناں
صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"جس شخص میں قربانی کرنے کی و سعت
ہو، پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری
عیدگاہ کے قریب نہ آئے ۔"(ابنِ
ماجہ، جلد 3، صفحہ 529، حدیث3123، ابلق گھوڑے سوار، صفحہ 3)
جو بھی چیز میرے ربّ کریم نے مسلمانوں پر فرض و واجب کی
ہے، اُس میں بے شمار دینی و دنیوی فائدے
ہیں، جیسے نماز ہی لے لیجئے کہ اس کا ثواب
بے شمار اور دُنیاوی فائدوں میں سے ایک یہ
ہے کہ اس سے جسم کی ورزش ہوتی، سجدے سے سر
درد اور کینسر سے نجات وغیرہ وغیرہ، غرضیکہ میرے ربّ کریم کا ہر قول و فعل حکمت بھرا ہے، اِنہی فرائض و واجبات میں سے ایک قربانی کرنا
بھی ہے اس کے بے شمار دینی فوائد ہیں، جیسے قربانی کرنے والے کو جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملتی
ہے، اِسی طرح اِس کے دُنیاوی فائدے بھی
ہیں، ہم یہاں چند ذکر کئے دیتے ہیں۔
1۔غریبوں کی اِمداد:
کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو پورا سال گوشت کھانے کی طاقت نہیں رکھتے، لیکن قربانی کے دنوں میں بفضل اللہ گوشت ایسے
لوگوں تک بھی پہنچتا ہے، اِس طرح قربانی
غریبوں کی امداد کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
2۔دینی اداروں کی اِمداد:
قربانی کی کھالیں دینی اداروں کے لئے چندے کا ایک نہایت
اَہم ذریعہ ہوتی ہیں، سال میں ایک بہت بڑی رقم قربانی کی کھالوں سے دینی اداروں کو
پہنچتی ہے، اِس طرح قربانی دینی اداروں کی
امداد کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
3۔ذریعۂ روزگار:
قصاب پورا سال ہی ذبح کرنے کا کام کرتے رہتے ہیں، مگر قربانی کے دنوں میں کام بڑھ جاتا ہے، اِس طرح اِن دنوں میں اُجرت بھی زیادہ ہوتی ہے، ہاں!یہ اُن کے لئے ہے، جو ماہر قصاب ہوں نہ کہ وہ جو صرف اِن دنوں میں قصاب بن جاتے
ہیں۔
اِسی طرح جانور فروخت کرنے والوں اور ٹرانسپورٹ والوں کے
لئے بھی اِن دنوں میں اُجرت زیادہ ہو جاتی ہے۔
4۔مال میں زیادتی:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو مال اللہ کریم کی راہ میں
دیا جائے، وہ کم نہیں ہوتا، بلکہ اِس میں برکت ہوتی ہے اور وہ بڑھتا ہے اور
پاک ہوتا ہے۔
5۔مسلم اِتحاد کا ذریعہ:
یہ ایک ایسی عبادت
ہے کہ جو پورا سال نہیں، بلکہ مخصوص دنوں
میں ہوتی ہے، اِس طرح اجتماعی قربانیوں میں بھی مسلمان شریک ہوتے ہیں اور یہ
ایک مسلم اِتحاد کا ذریعہ ہے، اور جب ایک
خاص عبادت مخصوص وقت میں ادا کی جاتی ہے، تو اس سے کافروں پر مسلمانوں کا رُعب بھی بڑھتا ہے۔اللہ پاک ہمیں اخلاص کے
ساتھ قربانی کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

حدیث مبارکہ:
آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اِرشاد فرمایا:"قربانی
کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے۔"(ترمذی، جلد
3، صفحہ 162، حدیث مبارکہ1498)
حدیث مبارکہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسولِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کہ بقرعید کی 10 تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ کے
نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن
قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا، نیز
فرمایا:کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ پاک کے نزدیک شرفِ قبولیت حاصل
کرلیتا ہے، لہٰذا تم خُوش دلی کے ساتھ قربانی
کیا کرو۔"( ترمذی شریف)
چنانچہ قربانی کے جانور کا پہلا قطرہ گرتے ہی قربانی کرنے
والے کی مغفرت ہوجاتی ہے۔
قربانی پر مال خرچ کرنا افضل ہے:
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو
عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"عید کے دن قربانی کا جانور خریدنے
کے لئے پیسے خرچ کرنا، اللہ پاک کے یہاں
اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔"(طبرانی)
حدیث مبارکہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو
روپیہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا
گیا، اُس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں۔"(المعجم الکبیر)
حدیثِ مبارکہ:
فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم: "قربانی کے دن آدمی
کا کوئی عمل خون بہانے سے زیادہ افضل نہیں، مگر جب کہ وہ عمل صلہ رحمی کرنا ہو۔"(المعجم الکبیر، حدیث نمبر 10948،
ج11، ص 27)

مخصوص جانور کو مخصوص وقت میں اللہ پاک کا قُرب حاصل کرنے
کے لئے ذبح کرنے کو قربانی کہتے ہیں،
قربانی قدیم عبادت ہے، تمام
امتوں میں ہمیشہ سے رائج رہی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا:"اور ہر
اُمت کے لئے ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی، تاکہ وہ اس بات پر اللہ کا نام یاد کریں کہ اس نے انہیں بے زبان چوپایوں سے
رزق دیا۔"
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، یہ اس اُمت کے لئے بھی باقی رکھی گئی ہے، قرآن کریم میں اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی
اللہ علیہ وسلم کو قربانی کرنے کا حکم دیا ہے، حکمِ شریعت پر عمل کرتے ہوئے جہاں اُخروی فوائد ہیں، وہاں دنیا میں بھی اس کے بہت سے فوائد ہیں:
1۔مویشی منڈیوں میں بھیجنے کے لئے بہت سے لوگ اپنے
گھروں، باڑوں یا کیٹل فارم میں جانور پالتے ہیں، جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے کثیر افراد کو
ملازم رکھا جاتا ہے، جن کا روزگار قربانی
کی سُنت کی برکت سے چلتا ہے۔
2۔جانوروں کو مویشی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے مختلف
گاڑیاں، کنٹینرز کرائے پر لئے جاتے ہیں، جن سے ہزاروں
افراد روزی کماتے ہیں، جانور لے جانے والی گاڑیاں مختلف مقامات پر ٹول
ٹیکس ادا کرتی ہیں اور پھر مویشی منڈی میں
بھی جگہ کے حساب سے کرایہ دیا جاتا ہے، جس
سے ملکی خزانے کو فائدہ ہوتا ہے۔
3۔قربانی کی کھالوں سے مختلف چیزیں بنائی جاتی ہیں اور
انہیں دوسرے ملکوں میں برآمد بھی کیا جاتا ہے، جس سے ملک کو قیمتی زرِّمبادلہ حاصل ہوتا ہے الغرض جانور کے پیدا ہونے سے لے کر قربان ہونے تک قربانی
کی سُنت کی برکت سے لاکھوں لاکھ افراد کے
لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور ملکی معیشت کو بھی بے پناہ فائدہ ہوتا ہے۔
4۔قربانی کرنے کے بعد کئی خوش نصیب لوگ اپنے رشتے
داروں، دوستوں اور غریبوں، مسکینوں کو بھی گوشت پہنچاتے ہیں، جس کی بدولت ان کے گھر میں بھی گوشت پکتا ہے۔
5۔خوش نصیب مسلمان اپنی قربانی کی کھالیں دعوتِ اسلامی کو
نیز عاشقانِ رسول کے دیگر مدارس و جامعات کو دیتے ہیں، جنہیں بیچ کر کئی مہینے کے اخراجات جمع ہو جاتے
ہیں، یوں قربانی کی سُنت پر عمل کرنا علمِ دین کی اشاعت میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔