مختصر تعارف:ثمود بھی
عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح علیہ السلام
کی اولاد میں سے تھے اور حجاز و شام کے
درمیان سرزمینِ حِجر میں رہتے تھے، حضرت
صالح علیہ السلام کے والد کا نام عبید اللہ بن آسف بن ماسح بن عبید حاذر ابنِ ثمود ہے اور اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجا، پتھروں اور پہاڑوں کو کھود کر گھر بنانا اس قوم کی بارز ترین صفات میں شامل تھا۔
قومِ ثمود کی نافرمانیاں:
حضرت صالح علیہ السلام نے جب قومِ ثمود کو خداپاک کا فرمان
سُنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا کہ آپ اس
پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اُونٹنی
نکالئے، جو خُوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ فوراً ہی چٹان پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت اور تندرست
اُونٹنی نکل پڑی، جو گابھن تھی اور اس نے
ایک بچہ جنا، اس بستی میں ایک ہی
تالاب تھا، جس میں پہاڑوں کے چشموں سے پانی گر کر جمع ہوتا
تھا۔
حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا" اے لوگو! دیکھو یہ
معجزے کی اونٹنی ہے، ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی پی ڈالے گی اور ایک
روز تم لوگ پینا "، قوم نے اس کو مان
لیا، چند دن تو قوم نے تکلیف کو برداشت کیا، مگر پھر ان
لوگوں نے یہ طے کیا کہ اُونٹنی کو قتل کر
ڈالیں۔
قدار بن سلف:اس قوم میں قدار بن سلف جو سُرخ رنگ کا بھوری
آنکھوں والا پستہ قد آدمی تھا اور ایک زنا
کار عورت کا لڑکا تھا، ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو
گیا، حضرت صالح علیہ السلام منع ہی کرتے رہے، لیکن قدار بن سلف نے پہلے اُونٹنی کے چاروں پاؤں کاٹ ڈالے، پھر اس کو
ذبح کیا اور اِنتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا۔
زلزلہ کا عذاب:قومِ ثمود کی اِس سرکشی پر عذابِ خُداوندی
کا ظہور اس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی، پھر شدید زلزلہ
آیا، جس سے پوری آبادی چکنا چور ہو گئی،
تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہو گئیں اور قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں
کے بل اوندھا گر کر مر گیا۔
حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی زلزلوں کے
جھٹکوں سے تباہ و برباد ہو کر اینٹ پتھروں کا ڈھیر بن گئی اور پوری قوم ہلاک ہو
گئی تو آپ کو بڑا صدمہ ہوا اور آپ کو قوم اور ان کی بستی کے ویرانوں سے اس قدر نفرت ہوگئی کہ آپ نے
ان لوگوں کی طرف سے مُنہ پھیر لیا۔
اس واقعے کا ذکر اللہ پاک نے قرآن پاک کی سورۃ الاعراف میں
فرمایا ہے۔