قومِ ثمود کی نافرمانیاں از
بنت نیاز احمدعطاریہ مدنیہ،( جامعۃالمدینہ للبنات رحمت کالونی، رحیم یارخان)
اللہ ربّ العزت نے اپنے برگزیدہ بندے حضرت صالح علی نبینا
وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو قومِ ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجا تھا، ثمود عرب
کا ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح علیہ السلام
کی اولاد میں تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمینِ حجر میں رہتے تھے، حضرت صالح علیہ الصلوۃ و السلام کے والد کا نام
عبید بن آسف بن ماسح بن عبید بن حاذر ابنِ
ثمود ہے، قومِ ثمود، قومِ عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح علیہ
السلام حضرت ہود علیہ السلام کے بعد ہیں۔(روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ، جلد 3، صفحہ 190۔189)
قومِ ثمود سنگ تراشی کے فن میں یدِ طولیٰ رکھتی تھی، انہوں نے پہاڑوں کی چٹانوں کو کھود کر اور کاٹ
کر اپنے لئے رہائش گاہیں تعمیر کر رکھی تھیں، ان کی پائیداری اور پختگی پر بڑا ناز تھا، انہیں یقین تھا کہ کوئی زلزلہ، کوئی سیلاب، کوئی جھگڑ ان کو ہلا
نہیں سکتی۔(ضیاء القرآن، صفحہ 577، تحت الآیۃ:9 ، سورہ فجر)
لیکن ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر ربّ پاکٰ کا ایسا
غضب ناک عذاب نازل ہوا کہ ان کا سارا فخر و غرور خاک میں مل گیا اور جن گھروں کے
پختگی اور مضبوطی پر ناز کرتے تھے، انہیں
گھروں میں اوندھے منہ ہلاک ہوگئے۔
قومِ ثمود کی نافرمانیاں:
ہوا یوں کہ جب حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے
فرمایا:اے میری قوم! تم اللہ پاک کو ایک
مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو، اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں، صرف وہی عبادت کا مستحق ہے، جبکہ تمہارے یہ بت
عبادت کے لائق ہی نہیں، پھر اللہ پاک کی
وحدانیت اور اس کی کمالِ قدرت پر دلائل دیتے ہوئے فرمایا: کہ معبود وہی ہے، جس نے تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو زمین
سے پیدا کیا، پھر تمہیں زمین میں بسایا
اور زمین کو تم سے آباد کیا، تو اللہ پاک
سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو، پھر
شرک سے کنارہ کشی کرکے اُسی کی طرف رُجوع
کرو، بے شک میرا ربّ پاک ایمان والوں کے
قریب ہے اور ان کی سننے والا ہے۔(تفسیر صراط
الجنان، سورہ ھود، تحت الآیۃ:61)
تو قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت کا انکار
کر دیا، قرآن پاک میں ہے:
اَلَاۤ
اِنَّ ثَمُوْدَاۡ كَفَرُوْا رَبَّهُمْ١ؕ اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَؒ۶۸
ترجمہ کنزالایمان:"سن لو بے شک ثمود اپنے ربّ سے منکر
ہوئے ارے لعنت ہو ثمود پر۔"(پ12، ہود،:68)
پھر قومِ ثمود کے مطالبے پر حضرت صالح علیہ السلام کو
نشانی کے طورپر اُونٹنی دی، تو قوم نے
ماننے کی بجائے اُونٹنی پر ہی ظلم کیا اور اسے قتل کر دیا، چنانچہ قومِ ثمود کے سردار جندہ بن عمرو نے
حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کیا:اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں
فلاں صفات کی اُونٹنی ظاہر کریں، اگر ہم
نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے۔"
حضرت صالح علیہ السلام نے ایمان کا وعدہ لے کر ربّ پاک سے
دعا کی، سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی
شکل و صورت کی پوری جوان اُونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر کے بچہ
جنا، یہ معجزہ دیکھ کر جندہ تو اپنے خاص
لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا، جبکہ باقی
لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔(تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ:73۔79)
پھر قومِ ثمود نے اپنی سرکشی سے اپنے رسول حضرت صالح علیہ
السلام کو اس وقت جھٹلایا، جب ان کا سب سے
بڑا بدبخت آدمی قدار بن سالف ان سب کی مرضی سے اُونٹنی کی کونچیں(رگیں) کاٹنے کے
لئے اُٹھ کھڑا ہوا، تو اللہ پاک کے رسول حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا:
تم اللہ پاک کی اُونٹنی کے درپے ہونے سے بچو اور جو دن اس کے لئے پانی پینے کا
مقرر ہے، اس دن پا نی نہ لو تا کہ تم پر عذاب نہ آئے تو انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو
جھٹلایا، پھر اونٹنی کی کونچیں کاٹ
دیں، تو ان پر ان کے ربّ پاک نے ان کے اس گناہ کے سبب تباہی ڈال کر اور ان کی
بستی کو برابر کر کے سب کو ہلاک کر دیا اور ان میں سے کوئی باقی نہ بچا۔(تفسیر خازن، الشمس، تحت الآیۃ11 تا 15، ج4، صفحہ 382۔383)
منقول ہے کہ ان لوگوں نے چہارشنبہ(بدھ کے دن) ناقہ(اونٹنی)
کی کونچیں کاٹی تھیں، تو حضرت صالح علیہ
السلام نے فرمایا: کہ تم اس کے بعد تین روز زندہ رہو گے، پہلے روز تمہارے سب کے چہرے زرد ہو جائیں
گے، دوسرے روز سُرخ، تیسرے روز سیاہ، چوتھے روز عذاب آئے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یکشنبہ(یعنی اتوار) کو
دوپہر کے قریب آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی، جس سے ان لوگوں کے دل پھٹ گئے اور سب ہلاک ہوگئے۔(تفسیر خزائن العرفان، الاعراف، تحت
الآ یۃ:79)