قرآن مجید میں اولاد کی تربیت کے لیے کچھ احکامات اور طریقے بیان کیے گئے ہیں:

حدیث کے چند احکامات ہیں جو اولاد کی تربیت کے لیے ہدایت فراہم کرتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے اولاد کی تربیت کے لیے کچھ احکامات اور طریقے بیان فرمائے ہیں:

1۔ اپنی اولاد کو اچھے راستے پر چلاؤ، اور انہیں برے کاموں سے روکو۔

2۔ بچوں کی تربیت کرو، اور انہیں اچھےراستے پر چلاؤ۔

3۔ بچوں کو نماز کی تربیت دو جب وہ سات سال کے ہوں۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 495)

4۔ بچوں کو محبت کرو، اور انہیں اچھے راستے پر چلاؤ۔

5۔ اپنی اولاد کو شکر گزار بناؤ، اور انہیں اللہ کا فرمان مانیں۔

6۔ بچوں کو صبر اور حوصلہ افزائی کی تربیت دو۔

7۔ بچوں کو حلم اور عفو کی تربیت دو۔

8۔ اپنی اولاد کو اچھےراستے پر چلاؤ، تاکہ وہ اچھے انسان بن جائیں۔

9۔ بچوں کو اچھی صحبت میں رکھو، اور برے لوگوں سے انہیں دور رکھو۔

10۔ اپنی اولاد کی تربیت میں سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں اللہ کا فرمان ماننا سکھاؤ۔

یہ نبی کریم ﷺ کے کچھ فرمان ہیں جو اولاد کی تربیت کے لیے ہدایت فراہم کرتے ہیں۔

اولاد کی تربیت میں والدین کی کردار اہم ہے یہاں کچھ طریقے ہیں جو آپ اپنے بچوں کو سدھارنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں:

1۔ مثال قائم کریں: بچوں کو اپنے والدین کی مثال پر چلنا پسند ہوتا ہے۔ لہذا آپ کو اپنے بچوں کے سامنے اچھا مثال قائم کرنا چاہیے۔

2۔ ہمدردی اور سمجھ: بچوں کو سمجھنے اور ان کی feelings کو تسلی دینے کی کوشش کریں۔

3۔ سخت اور نرم دونوں رویے: بچوں کو سمجھانے کے لیے سخت اور نرم دونوں رویے اپنائیں۔

4۔ اعتماد اور حوصلہ افزائی: بچوں کے اندر اعتماد اور حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ زندگی کی تلخیوں کا سامنا کر سکیں۔

یہاں کچھ طریقے ہیں جو آپ اپنے بچوں کو سدھارنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں: مثال قائم کریں، محبت اور سمجھ، سخت اور نرم دونوں رویے، اعتماد اور حوصلہ افزائی، وقت دینا، حدود اور قواعد، تعلیم اور تربیت، خوشی اور تفریح، دعا اور روحانی تربیت، ان کی بات سنو۔

 آج کے دور میں بہت سے والدین اپنی اولاد کے بگڑتے ہوئے رویوں سے بہت پریشان ہیں لہذا اولاد کو سدھارنے اور انہیں راہ راست پر لانے کے بہت سے طریقے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

اسلامی تربیت: اولاد کی اسلامی تربیت کی جائے ہر معاملے میں انہیں پیار و محبت سے سمجھایا جائے کیونکہ جو کام نرمی سے ہو سکتا ہو اسے گرمی سے مت کیا جائے اس طرح اولاد مزید بگڑ سکتی ہے اسکے علاوہ بڑوں کا ادب سکھایا جائے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا سکھایا جائے

دوستانہ ماحول: گھر میں دوستانہ اور خوشگوار ماحول بنائیں۔ بچوں کو محسوس ہونا چاہیے کہ وہ گھر میں محفوظ ہیں اور ان کی رائے اہم ہے۔

مشکلات کا سامنا: اگر بچے کسی مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں تو انہیں سمجھائیں کہ مشکلات کا سامنا کرنے سے ہی انسان مضبوط ہوتا ہے۔ ان کی مدد کریں کہ وہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

مساوی رویہ: اگر دو یا تین بچے ہوں تو کسی کے ساتھ زیادہ پیار اورکسی کے ساتھ کم ایسا رویہ نہ رکھا جائے بلکہ سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے اس طرح انکے درمیان پیار و محبت بڑھے گا۔

تعلیم کی اہمیت:بچوں کو تعلیم کی اہمیت سمجھائیں۔ انہیں کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیں اور ان کی تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی لیں۔

حدود کا تعین: بچوں کے لیے واضح حدود مقرر کریں۔ انہیں بتائیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، اور ان حدود کی پاسداری کریں۔

رول ماڈل بنیں: والدین کو چاہیے کہ وہ خود اچھے کام کریں اور اپنے بچوں کے لیے بہترین رول ماڈل بنیں کیوں کہ عموما اولاد وہی کرتی ہے جو وہ اپنے والدین کو کرتے دیکھتی ہے اس لیے والدین نمازوں کی پابندی کریں اور اپنے رویے درست رکھیں۔

اچھے انداز میں سمجھانا: اگر بچے کوئی غلطی کریں تو انہیں پیار سے سمجھایا جائے نا کہ ڈانٹ ڈپٹ اور غصے سے اگر پیار سے سمجھائیں گے تو بچہ سمجھے گا بھی اور اپنی غلطی جا اعتراف بھی کرے گا اور آئندہ ایسا نا کرنے کا عہد بھی کرے گا۔

محبت اور توجہ: بچوں کو محبت اور توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ یہ ان کی خود اعتمادی کو بڑھاتا ہے اور انہیں محفوظ محسوس کراتا ہے۔ جب بچے محسوس کرتے ہیں کہ ان کے والدین ان کی پرواہ کرتے ہیں، تو وہ بہتر رویے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

قواعد و ضوابط: بچوں کے لیے واضح قواعد و ضوابط بنائیں اور ان پر عمل درآمد کروائیں۔ یہ ان کو سکھاتا ہے کہ کس طرح صحیح اور غلط میں فرق کرنا ہے۔

سماجی مہارتیں: بچوں کو دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی تربیت دیں۔ انہیں سکھائیں کہ کس طرح دوستانہ رویہ اپنایا جائے، دوسروں کا احترام کیا جائے، اور مسائل کو حل کیا جائے۔

مثبت حوصلہ افزائی: بچوں کی اچھی عادات اور کارکردگی کی تعریف کریں۔ جب وہ کچھ اچھا کرتے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہ ان کے اعتماد کو بڑھاتا ہے اور انہیں بہتر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

وقت گزارنا: اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، چاہے وہ کھیلنے کا وقت ہو یا کوئی مشترکہ سرگرمی۔ اس سے آپ کے درمیان رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور بچے خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

اللہ سے دعا ہے سب کی اولادوں کو نیک سیرت بنائے اور انہیں اپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین

بگڑی اولاد کو اگر پیار و محبت سے سمجھایا جائے انکی طرف توجہ دی جائے تو یقیناً وہ اپنے والدین کی تابعدار بن جائے گی لیکن ہمارے معاشرے میں بچپن میں چھوٹا ہے چھوٹا ہے کہہ کر اسکی طرف سے لاپرواہی کی جاتی ہے اور پھر جب وہ بگڑ جائے تو پیار سے سمجھانے کی بجائے اسے ہر بات پر ڈانٹا جاتا ہے جس سے وہ ضدی ہوجاتا ہے۔

اس بات کو حلیۃ الاولیاء میں وارد شدہ اس حکایت سے سمجھنے کی کوشش کیجئے چنانچہ حضرت مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفّار فرماتے ہیں: منقول ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عالم صاحب گھر میں اجتماع کر کے اس میں بیان فرمایا کرتے تھے، ایک دن ان کے جوان لڑکے نے ایک خوبصورت لڑکی کی طرف آنکھ سے اشارہ کیا، جو کہ ان عالم صاحب نے دیکھ لیا اور کہا: اے بیٹے صبر کر۔ یہ کہتے ہی عالم صاحب اپنے منچ سے منہ کے بل گر پڑے یہاں تک کہ ان کی ہڈّیوں کے بعض جوڑ ٹوٹ گئے، ان کی بیوی کاحمل ساقط ہو گیا اور ان کے لڑکے جنگ میں مارے گئے۔ اللہ نے اس وقت کے نبی کو وحی فرمائی کہ فلاں عالم کو خبر کردو کہ میں اس کی نسل سے کبھی صدّیق پیدا نہیں کروں گا، کیا میرے لیے صرف اتنا ہی ناراض ہونا تھا کہ وہ بیٹے کو کہہ دی اے بیٹے صبر کر؟ (حلیۃ الاولیاء، 2/422، رقم: 2823)

مطلب یہ کہ اپنے بیٹے پر سختی کیوں نہیں کی اور اسے اس بری حرکت سے اچّھی طرح باز کیوں نہ رکھا؟اس روایت میں صدّیق کا ذکر ہے، اولیا ئے کرام کی سب سے افضل قسم صدیق کہلاتی ہے۔ الحمد للہ ہمارے غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم صدّیق تھے۔

جو والدین بچپن سے ہی اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیتے ہیں وہ اسکا پھل بھی پاتے ہیں۔

پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کو تین(3) چیزیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبّت، اہلِ بیت کی محبّت اور قرآن پاک پڑھنا۔ (الصواعق المحرقہ، ص 172)

صدرالشّریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: سب سے مقدّم یہ ہے کہ بچّوں کو قرآ ن مجید پڑھائیں اور دین کی ضروری باتیں سکھائی جائیں، روزہ و نماز و طہارت اوربیع واجارہ (یعنی خریدو فروخت اور اجرت وغیرہ کے لین دین) و دیگر معاملات کے مسائل جن کی روز مرّہ حاجت پڑتی ہے اور ناواقفی سے خلاف شرع عمل کرنے کے جرم میں مبتلا ہوتے ہیں ا ن کی تعلیم ہو۔ اگر دیکھیں کہ بچّے کوعلم کی طرف رجحان ہے اور سمجھ دار ہے تو علم دین کی خدمت سے بڑھ کر کیا کام ہے اور اگر استطاعت نہ ہو تو تصحیح و تعلیم عقائد اور ضروری مسائل کی تعلیم کے بعد جس جائز کام میں لگائیں اختیار ہے۔ (بہار شریعت، 2/256)

لڑکی کو بھی عقائد و ضروری مسائل سکھانے کے بعد کسی عورت سے سلائی اور نقش و نگار وغیرہ ایسے کام سکھائیں جن کی عورتوں کو اکثر ضرورت پڑتی ہے اور کھانا پکانے اور دیگر امور خانہ داری میں اسکو سلیقے ہونے کی کوشش کریں کہ سلیقے والی عورت جس خوبی سے زندگی بسر کرسکتی ہے بدسلیقہ نہیں کرسکتی۔ (ردّ المحتار، 5/279)

بہار شریعت جلد3 صفحہ68 پر ہے: امام ابو منصور ما تریدی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مؤمن پر اپنی اولاد کو جود(یعنی سخاوت) و احسان کی تعلیم ویسی ہی واجب ہے جس طرح توحید و ایمان کی تعلیم واجب ہے کیونکہ جود و احسان سے دنیا کی محبّت دور ہوتی ہے اورمحبّت دنیا ہی ہر گناہ کی جڑ ہے۔

والدین اپنی تمام اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کریں۔ انکی جائز خواہشات کو قبول کریں۔ ان پر بے جا غصہ کرنے کی بجائے ہر بات کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کریں۔ ان کو دوسروں کے سامنے ذلیل نہ کریں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق انکی پرورش کریں۔ اسکے علاوہ ہر طرح سے انہیں بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ ہر کام میں انکا حوصلہ ابھاریں۔


اولاد کی تربیت اور سدھار ایک اہم ذمہ داری ہے۔ والدین کی محبت، رہنمائی اور کردار بچوں کے رویے پر گہرے اثرات ڈالتی ہیں۔ ذیل میں اولاد کو سدھارنے کے مؤثر طریقے درج ہیں:

1۔ محبت اور شفقت کا اظہار کریں۔ اولاد کے ساتھ محبت بھرا رویہ اختیار کریں تاکہ وہ آپ سے کھل کر بات کر سکیں۔

2۔ اچھی مثال قائم کریں۔ والدین کا کردار اور عمل بچوں کے لیے سب سے بڑا سبق ہے، اس لیے خود اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔

3۔ دعا کریں۔ اولاد کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، کیونکہ دلوں کا بدلنا اسی کے ہاتھ میں ہے۔

4۔ تعلیم کو اہمیت دیں۔ دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم پر زور دیں تاکہ بچے متوازن شخصیت کے مالک بن سکیں۔

5۔ اچھی صحبت کا اہتمام کریں۔ بچوں کے دوستوں اور ماحول پر نظر رکھیں تاکہ وہ غلط صحبت سے بچ سکیں۔

6۔ عمر کے مطابق تربیت کریں۔ ہر بچے کی عمر، سمجھ، اور ضروریات کے مطابق تربیت کا طریقہ اپنائیں۔

7۔ ذمہ داری سکھائیں۔ بچوں کو چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں دیں تاکہ ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو۔

8۔ وقت دیں۔ اولاد کے ساتھ وقت گزاریں، ان کی باتیں سنیں اور ان کی دلچسپیوں میں شامل ہوں۔

9۔ نرمی اور سختی میں توازن رکھیں۔ زیادہ سختی بچوں کو باغی بنا سکتی ہے، جبکہ ضرورت سے زیادہ نرمی انہیں لاپرواہ کر سکتی ہے۔

10۔ سزا اور انعام کا اصول اپنائیں۔ اچھے کاموں پر انعام دیں اور غلطیوں پر مناسب انداز میں سمجھائیں۔

11۔ اخلاقی تربیت دیں۔ بچوں کو سچائی، ایمانداری، صبر، اور احسان جیسی صفات اپنانے کی ترغیب دیں۔

12۔ موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال محدود کریں۔ بچوں کے لیے موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے اصول بنائیں اور اس پر عمل کروائیں۔

13۔ مثبت گفتگو کریں۔ اولاد سے ہمیشہ مثبت اور حوصلہ افزا گفتگو کریں تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو۔

14۔ غلطیوں پر فوری ردعمل نہ دیں۔ اگر بچہ کوئی غلطی کرے تو فوری غصے کا اظہار نہ کریں بلکہ مناسب وقت پر اسے سمجھائیں۔

15۔ عبادت کی عادت ڈالیں۔ بچوں کو نماز، قرآن کی تلاوت، اور دعا کی اہمیت سکھائیں اور ان کے ساتھ عبادت کریں۔

16۔ صبر کا مظاہرہ کریں۔ بچوں کی تربیت میں صبر کریں، کیونکہ اصلاح کا عمل وقت لیتا ہے۔

17۔ روایات اور اقدار سے روشناس کرائیں۔ بچوں کو اپنی تہذیب، دین، اور خاندان کی اقدار سے آگاہ کریں۔

18۔ حوصلہ افزائی کریں۔ بچوں کے اچھے کاموں کو سراہیں تاکہ ان میں مزید بہتر کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔

19۔ غلط صحبت سے بچائیں۔ اولاد کو برے دوستوں اور بری عادات سے دور رکھنے کے لیے ان پر نظر رکھیں۔

20۔ خود اعتمادی پیدا کریں۔ بچوں کو اپنے فیصلے کرنے کی صلاحیت دیں تاکہ وہ خودمختار اور مضبوط شخصیت بن سکیں۔

ان نکات پر عمل کرکے والدین اپنی اولاد کی اصلاح اور بہترین تربیت کر سکتے ہیں، جو انہیں دنیا اور آخرت میں کامیاب بنائے گی۔

والدین کے رتبے پر فائز ہونے والے ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تعلیم وتربیت کریں جس کے لیے وہ اپنی محنت صرف کرتے ہیں اور انکی خواہش ہوتی ہے کہ ہماری اولاد نیک اچھی کامیاب بنے۔

اولاد کو سدھارنے اور اچھی تربیت کرنے کے لیے انہیں ترغیب دلانے یا صرف نصیحت کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اولاد کے لیے ہمیں پہلے اپنے اندر عملی تبدیلی لانی ہوگی جیسے کہ تجربہ شدہ بات ہے کہ اکثر والدین جو کہتے ہیں بچہ وہ نہیں کرتا بلکہ جو والدین کرتے ہیں وہ دیکھ کر عمل کرتا ہے۔بڑے کتاب پکڑیں گے تو یقینا بچہ بھی کتاب پکڑے گا۔ آئیے اس حوالے سے کچھ مشوروں کا مطالعہ کرتے ہیں۔

اپنی اولاد کی اصلاح کیجیے: اگر بچہ آگ کی طرف بڑھ رہا ہو تو والدین جب تک دوڑ کر آپنے بچے کو پکڑ نہ لیں انہیں چین نہیں آتا۔مگر افسوس یہی اولاد اگر رب کریم کی نافرمانی میں لگ جائے جہنم کی آگ کی طرف بڑھنے لگے تو والدین توجہ ہی نہیں دیتے۔ بچہ اسکول سے چھٹی کر لے تو اسے اچھا خاصا ڈانٹا جاتا ہے لیکن نماز فجر کے لیے سرزنش نہیں کی جاتی۔ (تربیت اولاد، ص 170)

اولاد کو سدرھانے کے لیے انکی اصلاح کا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ ان کی اصلاح بھی ہوجائے اور وہ والدین سے باغی بھی نہ ہوں،بچوں کے جذبات بہت نازک ہوتے ہیں ان کو ابھی تجربات حاصل نہیں ہوتے۔

مومنوں کی امی جان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: نرمی جس چیز میں ہوتی ہے اسے زنیت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی چھین لی جاتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے۔ (تربیت اولاد، ص 171)

بچوں کو دھمکیاں نہ دیں اور نہ ہی غصے میں سزا دیں۔بچے کی غلطی پر مختلف القابات مثلاً چور مکار جھوٹا وغیرہ ہر گز نہ کہیں کہ بچہ یہ سن سن کر ہی یہ نہ سوچے کہ میں کیوں نہ ایسا بن جاؤں تو اسکا بہت منفی اثر پڑے گا لہذا یہ سخت غلطی نہ کریں۔

اگر بچہ بار بار ایک ہی غلطی کو دہراتا ہے تو حکمت سے سمجھایا جائے پھر بھی باز نہ آئے تو ہلکی سزا دینے میں حرج نہیں۔

دین کی جانب مائل کریں: والدین کو چاہیے کہ بچوں کو دین کی جانب مائل کریں تبھی وہ سیدھی راہ پر رہیں گے۔

اس کے لیے والدین مستقل مزاجی اپنائیں، نماز کی معلومات فراہم کرنے کے ساتھ نماز کے لیے چستی کا اظہار کریں گھر میں سنتوں کا ماحول رکھیں نیک لوگوں کے واقعات سنائے تاکہ بچپن سے ہی انکے ذہن میں عبادت گزار اسلاف کے عمل سے ذوق عبادت پیدا ہو۔ نیز تفریح کے لیے دینی سرگرمیاں رکھیں انہیں ڈرائنگ میں مسجد کتاب تسبیح وغیرہ کی تصاویر بنانا سکھائیں،اچھے کاموں پر ہمیشہ انکی حوصلہ افزائی کریں، خاص طور پر بچوں کے دوستوں پر نظر رکھیں کہ صحبت اپنا کافی اثر چھوڑتی ہے۔ گھر میں بچوں کی اصلاح کا سب سے بہترین ذریعہ مدنی چینل اور اس پر لگنے والے کڈز پروگرامز بھی ہیں اس کے علاوہ دینی محافل اجتماعات میں بچوں کو ساتھ لے کر جائیں تا کہ وہ دینی تقربیات کو دیکھیں اور اس کو قبول کریں اور انکی مثبت تربیت ہو۔

آخر میں اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں ہماری اولاد کو نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے اپنی نافرمانی سے سدا کے لیے محفوظ رکھے آمین۔

1۔ مثالی کردار بنیں: بچوں کی سب سے بڑی درسگاہ والدین ہیں۔ جب آپ اچھے اخلاق، ایمانداری، اور محنت کو اہمیت دیں گے، تو بچے خود بخود آپ سے سیکھیں گے۔

2۔ محبت اور توجہ دیں: بچوں کو محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور اس کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں، تو وہ آپ سے قریب ہوں گے اور آپ کی باتوں پر زیادہ توجہ دیں گے۔

3۔ حدود اور اصول مقرر کریں: بچوں کے لئے واضح حدود اور اصول بنانا ضروری ہے تاکہ انہیں یہ سمجھ آئے کہ کون سے سلوک درست ہیں اور کون سے غلط۔

4۔ مثبت حوصلہ افزائی: جب بچہ اچھا کام کرے، تو اس کی تعریف کریں۔ اس سے بچے کی خود اعتمادی بڑھتی ہے اور وہ مزید بہتر کوشش کرتا ہے۔

5۔ سزا اور انعام کا توازن: غلط کام پر مناسب سزا اور اچھے کام پر انعام دینا ضروری ہے۔ اس سے بچے میں مثبت تبدیلی آتی ہے اور وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔

6۔ ان کے ساتھ بات چیت کریں: بچوں کے ساتھ کھل کر بات کریں، ان کی مشکلات اور خیالات کو سمجھیں۔ اس سے آپ ان کی ذہنی حالت اور ضرورتوں کو بہتر سمجھ سکیں گے۔

7۔ تعلیمی اور اخلاقی تربیت: صرف تعلیمی ترقی نہیں بلکہ اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیں۔ بچوں کو ایمانداری، درگزر، اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک سکھائیں۔

8۔ معمولات کا تعین کریں: ایک نظم و ضبط والا دن بچوں کو بہتر سلیقے سے زندگی گزارنے میں مدد دیتا ہے۔ بچوں کو وقت کی پابندی سکھائیں اور انہیں ذمہ داری کا احساس دلائیں۔

9۔ فالتو وقت کی نگرانی: بچوں کو فالتو وقت میں ایسی سرگرمیوں میں مشغول رکھیں جو ان کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی نشوونما کے لئے مفید ہوں۔

10۔ صبر اور تحمل: اولاد کو سدھارنے میں وقت لگتا ہے، اس لئے صبر سے کام لیں اور تحمل کے ساتھ بچوں کی تربیت کریں۔

اولاد کی تربیت اور سدھار کے لیے قرآن اور حدیث میں بہت سی ہدایات دی گئی ہیں۔ ان ہدایات کو اپنانے سے بچوں کی اچھی تربیت ممکن ہے۔ یہاں کچھ اہم نکات پیش کی جا رہی ہیں جو قرآن اور حدیث کی روشنی میں اولاد کو سدھارنے کے طریقے ہیں:

1۔ محبت اور شفقت: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ محبت، شفقت اور ہمدردی کا سلوک کرنے کی ہدایت دی ہے۔ قرآن میں ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، الاسراء: 23) ترجمہ: اور تیرے رب نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں ڈانٹنا، بلکہ ان کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرنا۔

اس آیت سے واضح ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ محبت اور نرم سلوک سے پیش آنا چاہیے، خاص طور پر جب وہ بڑھاپے کی حالت میں ہوں۔

2۔ تعلیم و تربیت: اولاد کی بہترین تربیت میں تعلیمی اور اخلاقی دونوں پہلو شامل ہیں۔ حدیث میں بھی بچوں کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے: تم میں سے ہر شخص راع ہے اور ہر شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)

اس حدیث میں والدین کو اپنی اولاد کی تربیت اور ان کے اخلاق و کردار کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

3۔ سزا اور انعام: والدین کو اپنی اولاد کی تربیت میں توازن پیدا کرنا چاہیے، یعنی اچھے کاموں پر انعام اور غلط کاموں پر مناسب سزا دینی چاہیے۔ یہ دونوں طریقے بچوں کی تربیت کے لیے ضروری ہیں: جس شخص نے اپنے بچوں کو اچھی تربیت دی اور انہیں ادب سکھایا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بچوں کو اچھے اخلاق سکھانا اور ان کی تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے، اور یہ عمل بچے کے لیے دنیا و آخرت میں فائدہ مند ہو گا۔

4۔ صبر اور تحمل: اولاد کی تربیت میں صبر بہت ضروری ہے، کیونکہ بچوں کی تربیت ایک مسلسل عمل ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں میں صبر کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳) (پ 2، البقرة: 153) ترجمہ: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد لو، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

اس آیت میں صبر کا ذکر ہے جو والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت میں صبر سے کام لیں، کیونکہ تربیت کا عمل فوری نہیں ہوتا۔

5۔ دعاؤں کا اثر: والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے دعائیں کریں۔ قرآن و حدیث میں والدین کی دعاؤں کا بہت اثر بتایا گیا ہے: جب والدین اپنی اولاد کے لیے دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔

اس سے واضح ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کے لیے دعا کرنی چاہیے، تاکہ اللہ ان کی ہدایت اور کامیابی کے لئے مدد فراہم کرے۔

6۔ پیدائش سے قبل اچھی منصوبہ بندی: اولاد کی تربیت صرف ان کے پیدا ہونے کے بعد ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی شروع ہو جاتی ہے، جیسے کہ نیک زوجہ کا انتخاب اور والدین کا کردار: تمہاری دنیا میں بہترین چیز تمہاری نیک بیوی ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 3643)

اس حدیث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اچھا خاندان اور نیک بیوی بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

نیک اولاد اللہ پاک کا عظیم انعام ہے۔اولاد صالح کے لئے اللہ کے پیارے نبی حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی دعامانگی۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) (پ 3، اٰل عمران: 38) ترجمہ کنز الایمان: اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بیشک تو ہی ہے دعا سننے والا۔

اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنے والی نسلوں کو نیک بنانے کی یوں دعا مانگی: رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ﳓ (پ 13، ابراہیم:40) اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا۔

سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین کاموں کے کہ ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔ (مسلم، ص 886، حدیث: 1631)

بچے اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی امیدوں کا محور ہوتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کا مفید فرد بنانے کے لئے ان کی بہترین تربیت بےحد ضروری ہے۔ یہی بچے کل بڑے ہوکر والدین، تاجر اور استاذ وغیرہ بنیں گے اوراس معاشرے کی باگ ڈور سنبھالیں گے، اگر یہ اپنی ذمہ داریاں شریعت کے مطابق بطریق احسن ادا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن جائے گا۔

بچوں کی تربیت کے انداز کو بہتر بنایا جائے: عموماً لوگ یہ بے احتیاطی کرتے ہیں کہ بچے کے سامنے لوگوں کو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ شیطانی بہت کرتا ہے، یا ہر وقت شیطانی کرتا رہتا ہے۔ امام صاحب کو کہتے ہیں کہ مولانا! یہ بہت شیطانی کرتا ہے، کوئی ایسا دم کردو کہ یہ صحیح ہوجائے۔ اس طرح بچّے کی شىطانى مىں اضافہ ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ آپ بچّے کو سب کے سامنے جھاڑنے کے بجائے شفقت اور پیار دینا شروع کریں، نیز اپنا انداز تبدیل کریں، اللہ کرے گا کہ آپ خود بہتری نوٹ کریں گے۔

بچّے کے سامنے کسی کو دعا کےلئے بھی نہ بولیں، کیونکہ اس طرح بچّہ باغی ہوجائے گا کہ میرا باپ مجھے سب کے سامنے ذلیل کرتا ہے۔ یہ بات اگر بچّے کے دماغ میں بیٹھ گئی تو پھر بہت مشکل ہوجائے گی۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

ڈوب سکتی ہی نہیں موجوں کی طغیانی میں جس کی کشتی ہو محمد کی نگہبانی میں

بچوں کی اصلاح کرنے کا درست انداز: امیر اہل سنّت نے فرمایا: ایک واقعہ (نگران شوریٰ) حاجی عمران کے سامنے بھی ہوا تھا۔ ایک اچھا خاصا تعلیم یافتہ شخص اپنے 15 یا 16 سال کے جوان بیٹے کے ساتھ آیا اور مجھے کہا کہ مىں اس کو آپ کے پاس لایا ہوں، اس کو صحیح کردو۔ مىں نے اس کو سمجھاىا کہ یہ جوان خون ہے، آپ نے یہ بات کہہ کر اسے بھڑکا دیا ہے، اب یہ کىسے صحىح ہوگا! بلکہ اب یہ اور نہیں سنبھلے گا کہ میرے باپ نے میرے پیر کے سامنے مجھے رسوا کیا ہے، اب میں نہیں چھوڑوں گا۔ حکمت مؤمن کا گم شدہ خزانہ ہے۔ کسی سے دعا کروانے میں حرج نہیں، لیکن یہ بات تنہائی میں بولیں، یا خاموشی سے لکھ کر دے دیں، ىہ حکمت عملى ہے۔

بچے کو دوسروں کے سامنے ذلیل کرنا بہت نامناسب اور بے حد خطرناک ہے، اس طرح بچے کے دل میں زہر بیٹھ سکتا ہے۔ گھر میں جب بچے کو سمجھاتے ہوں گے تو اس کے بہن بھائی بھی سنتے ہوں گے اور بعد میں وہ باپ کے انداز کا پریکٹیکل بھی کرتے ہوں گے۔

بچوں کی تربیت کے حوالے سے چند مفید اور اہم باتیں:

(1)بچوں کو دودھ پلانے اور کھانا کھلانے کا بھی وقت مقرر کرلیں ورنہ بچوں کاہاضمہ خراب اور معدہ کمزور ہو جاتا ہے،نتیجۃً بچہ بیمار ہوجاتا ہے۔

(2)بچوں کو صاف ستھرا ضرور رکھیں مگر بہت زیادہ بناؤ سنگھار مت کریں کہ اس سے نظر لگ جانے کا خطرہ ہے۔بلکہ ہوسکے تو قرآن پاک یہ آیت کریمہ کوئی بھی درست مخارج والا یاد کرکے بچوں پر دم کرتے رہا کریں: وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌۘ(۵۱) وَ مَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۠(۵۲) (پ 29، القلم: 51، 52) ترجمہ کنز الایمان: اور ضرور کافر تو ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا اپنی بدنظرلگا کرتمہیں گرادیں گےجب قرآن سنتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ضرور عقل سے دور ہیں اور وہ تو نہیں مگر نصیحت سارے جہان کے لیے۔

ان شاء اللہ نظر بد سے محفوظ رہیں گے۔بڑوں پر بھی دم کیا جاسکتا ہے۔

(3)بچے کو ہر وقت گود میں لئے رہنا یا اٹھائے پھرنا مناسب نہیں کہ بچے کمزور ہوجاتے اور دیر میں چلتے ہیں بلکہ پالنے یا جھولے وغیرہ میں سلائے رکھیں اور جب وہ بیٹھنے کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کو بٹھانے کی کوشش کریں۔ یوہیں چلانے کی بھی کوشش ہو۔

(4)بچے ٹافیاں، گولیاں، چاکلیٹ،گولاگنڈا اور دیگر رنگ برنگی میٹھی چیزیں کھانے بلکہ بوتل COLD DRINK کے بھی شوقین ہوتے ہیں ان سے دانتوں، گلے،سینے، معدے اور آنتوں وغیرہ کو سخت نقصان پہنچنے کا خطرہ رہتا ہے۔شروع سے ہی یہ چیزیں بچوں کو نظر نہ آئیں۔ اگر بچے ضد کریں آج ان کا رونا برداشت کرلیں ورنہ بچے کے ساتھ کہیں آپ کو بھی رونا پڑسکتا ہے۔

(5) بچوں کو زیادہ اور ہر وقت کھاتے پیتے رہنے سےنفرت دلاتے رہیں کہ یہ موٹاپے بلکہ بہت سی بیماریوں سے بچانے کےلیے ضروری ہے۔

(6)بچوں کی ہر ضد پوری مت کریں کہ اس سے بچوں کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ ضدی ہو جاتے ہیں اور یہ عادت عمر بھر نقصان دیتی ہے۔

(7)بچوں کے ہاتھ سے اس کے بھائی بہنوں، دوسرے بچوں کو تحفے یا مسجد کے چندہ میں،مدنی عطیات مہم (telethon) کے موقع وغیرہ پر،صدقہ وغیرہ دلوایاکریں تاکہ سخاوت کی عادت ہو اور خود غرضی یا کنجوسی کی عادت سے حفاظت میں رہے۔

(8) چیخ کر بولنے یا جواب دينے سے ہمیشہ بچوں کو روکیں۔ ورنہ یہ عادت پڑجائے گی جو بڑے ہو کر بھی نہ جائے گی۔

(9)بات بات پر منہ پھلانے، غصہ کرنے، لڑنے جھگڑنے، چغلی کھانے، گالی بکنے جیسی عادات سے بچپن سے ہی ان کو روکا جائے کہ ان عادات کا پڑجانا عمر بھر کے لئے رسوائی کا سامان ہے۔

(10)اگر بچہ کہیں سے کسی کی کوئی چیز اٹھالائے اگر چہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔ اس پر سب گھر والے ایسی ناراضی کا اظہار کریں کہ بچہ عمر بھر چوری سے توبہ کرلے۔

(11) بچے، بچیوں کے تمام کام سب کے سامنے ہوں، کوئی کام چھپ چھپا کر کریں نظر رکھیں بلکہ روکیں کہ اچھی عادت نہیں۔

(12)بچوں کو پیارے آقا ﷺ،صحابہ کرام علیہم الرضوان غوث پاک،دیگر بزرگان دین رحمہم اللہ المبین اور نیک لوگوں کے مستند سچے واقعات سنائیں۔ مگر خبردار خبردار عشق مجازی کے قصے کہانیاں بچوں کے کان میں بھی نہ پڑیں۔ نہ ہی ایسی کتابیں بچوں کے ہاتھوں میں دیں جن سے اخلاق خراب ہوں۔

(13)لڑکوں اور لڑکیوں کو ضرور کوئی ایسا ہنر سکھا دیں جس سے ضرورت کے وقت وہ کچھ کما کر بسر اوقات کر سکیں۔مثلا لڑکیوں کوسلائی آتی ہو۔

(14)بچوں کو بچپن ہی سے اس بات کی عادت ڈالیں کہ وہ اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کریں اور اپنے سامان کو خود سنبھال کر رکھیں۔

(15)بچوں اور بچیوں کو کھانے پہننے اور لوگوں سے ملنے ملانے اور محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ بھی سکھائیں۔

اولاد ایک عظیم نعمت قرار دی گئی ہے تمام بچوں کی سوچ سمجھنے کی صلاحیت کام کرنے کے انداز مختلف ہوتے ہیں بچے کے چھوٹے ہوتے ہی اسے جیسی تربیت دی جاے بچہ اسی طرح کام کو انجام دیتا ہے بچوں کی تربیت میں والدین، اساتذہ اور معاشرے کا گہرا تعلق ہے بعض بچے آرام سے بات کو سمجھ لیتے ہیں اور بعض پر محنت کرنی پڑتی ہے لیکن اولاد کو سمجھانے میں نرمی رکھی جائے اگر نہ سمجھ سکے تو سخت لہجہ بھی اپنایا جا سکتا ہے کیونکہ والدین اپنی اولاد کے لیے ہمیشہ اچھا ہی سوچتے ہیں اور ہمارے دین اسلام میں بھی بچوں سے پیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ہمارے آقا ﷺ بھی بچوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔

اولاد ہی نہیں بلکہ تمام بچوں کےلئے ایک منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اولاد کی بہتر رہنمائی کی جا سکتی ہے: بچوں کو محبت اور توجہ دینا، ان کی تعلیم اور تربیت کا خاص خیال رکھنا، اولاد کو اخلاقیات اور مذہبی تعلیم سکھائے، ان کو سماجی اور ثقافتی تعلیم دیں، انہیں کھیل کود اور سیر وتفریح کے مواقع فراہم کریں، فلموں ڈراموں کی جگہ مدنی چینل دکھائے، انبیاء کرام کے متعلق واقعات سنائیں، بچوں کے ساتھ ایسا رویہ اپنائے کہ بچے اپنے والدین سے ہر بات بآسانی کر سکیں، سب کے سامنے بچوں کو نہ جھاڑا جائے کہ بچہ احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے، ہر چھوٹے کام پر بھی بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ بچے مزید آگے بڑھ سکیں۔

اور اللہ سے بھی اولاد کے نیک ہونے کے دعا کرتے رہیں تاکہ تمام اولاد اپنے والدین کے لیے نجات بخشش کا ذریعہ بنے اور اپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بن سکیں۔ آمین

بچے اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی امیدوں کا محور ہوتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کا مفید فرد بنانے کے لیے ان کا بہترین تربیت بے حد ضروری ہے۔ یہی بچے کل بڑے ہو کر والدین، تاجر اور استاذ وغیرہ بنیں گے اس لیے ہمیں ان کی تربیت اچھی کرنی چاہیے۔ نیک اولاد اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے۔

یقینا وہی اولاد اخروی طور پر نفع بخش ثابت ہوگی جو نیک و صالح ہو اور یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اولاد کو نیک یابد بنانے میں والدین کی تربیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں اخلاقی قدروں کی پامالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ نیکیاں کرنا بے حد دشوار ہے اور ارتکاب گناہ بہت آسان۔ اس کا ایک سبب والدین کا اپنی اولاد کی مدنی تربیت سے غافل ہونا بھی ہے۔ ایسے والدین کو غور کرنا چاہیے کہ اولاد کو اس حال تک پہنچانے میں ان کا اپنا ہاتھ ہے کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کو ABC تو سکھایا مگر قرآن پڑھنا نہ سکھایا، مغربی تہذیب کے طور طریقے تو سمجھائے مگر رسول عربی ﷺ کی سنتیں نہ سکھائیں۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے اولاد کی تربیت صرف ماں یا محض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔

تربیت کرنے والوں کے قول و فعل میں پایا جانے والا تضاد بھی بچے کے دین کے لئے بےحد باعث تشویش ہوگا کہ ایک کام یہ خود تو کرتے ہیں مثلا جھوٹ بولتے ہیں مگر مجھے منع کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنے بڑوں کی نصیحت اس کے دل میں گھر نہ کر سکے گی۔ الغرض تربیت اولاد کے لیے والدین کا اپنا کردار بھی مثالی ہونی چاہیے۔

یوں تو انسان کی پوری زندگی ہی قرآن وسنت کے مطابق ہونی چاہیے مگر چند امور ہیں جن کا اولاد کے وجود میں آنے سے پہلے لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے کیونکہ اولاد کی صالحیت (پرہیز گاری) بھی ان سے وابستہ ہے:1۔ نیک عورت کا انتخاب 2۔ اچھی قوم میں نکاح 3۔ نکاح کے لیے اچھی اچھی نیتیں کرنا 4۔ منگنی اور شادی کے موقع پر نا جائز رسومات سے بچا۔مناسب وقت ساتھ گزرنا

بچے اپنی حیثیت اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اس ضرورت کی تکمیل کی خاطر باپ کا بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ضروری ہے۔ اسے چاہیے کہ بچوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے وقت گزارے مثلاً بچوں کو سیرو تفریح کے لیے کہیں کے جانا، ان کی ساتھ کھیلنا کودنا، بچوں کو خوش کردینے والی من پسند اشیاء انہیں دینا بشرط یہ کے حد سے تجاوز نہ ہوں۔ یہ وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے والد بچوں کو اپنے ساتھ مانوس کر سکتا ہے، بچوں کو صرف یہ شعور ہو جائے کے باپ کو ان سے پیار ہے۔ یہی احسان ان کی بہترین نشونما کے لیے کافی ہے۔ جس سے ان کی بےشمار پوشیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا موقع مل سکتا ہے۔

ماں باپ کی اصل طاقت ان کی نیک اولاد ہے۔

ماں باپ کمزور،بیمار اور بوڑھے تب ہوتے ہیں جب انکی اپنی اولاد ہے ان کو پریشان رکھتی ہے۔ ماں باپ کی عزت کرو،ان کی ضروریات کا خیال رکھو تاکہ آپکی اولاد آپ کی عزت کرے کیوں کہ جو آپ کریں گے وہ ہی آپ کے ساتھ ہو گا۔

اولاد اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ مگر اس کے ساتھ والدین پر ڈالی گئی ایک عظیم ذمہ داری بھی ہے۔

اولاد کے لیے پہلی درسگاہ اس کے والدین خصوصاً (ماں) ہے۔ والدین بچوں کے قریب شعور ہوتے ہی ان کو آداب زندگی سکھانے کی کوشش کے ساتھ عملاً خود بھی ان کے لیے مثالی بنیں تاکہ وہ معاشرے میں بھی بہتر اور فعّال افراد بن کر ابھریں۔ اولاد کو سدھارنے کے متعلق چند نکات پیش کیے جاتے ہیں ملاحظہ کیجئے:

1)بچوں کو دینی تعلیم سے مربوط کرنا: تعلیم کا مقصد بچے میں شعور و احساس پیدا کرنا اور اسے مہذب بنانا ہوتا ہے لہٰذا اس کے لیے اسے بہتر دینی تعلیم سے مربوط رکھا جائے یوں وہ اپنے مقصد حیات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی پر نافذ کرے گا جو کہ سب سے پہلی چیز ہے جو اس بچے کے سدھرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

2) بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا: والدین کو چاہیے کہ بچے کوئی بھی اچھا فعل بجا لائیں چاہے وہ بظاہر چھوٹا ہی ہو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اس میں مزید شوق بڑھے اور وہ دلچسپی کے ساتھ نیک اعمال و آداب کی طرف توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہیں عمل میں لائے اور یوں معاشرے کا فعال فرد بننے کے ساتھ ساتھ اچھا انسان بن کر سامنے آئے۔

3) بچوں کی صلاحیتوں کو ابھارنا: والدین کو چاہیے کہ بچوں میں اگر کوئی صلاحیت کی کرن نمودار ہو تو اسے بچوں پر واضح کریں۔ انہیں ایسے کاموں کی اجازت دیں اور ان پر اکسائیں جن سے ان کی مخفی صلاحیتیں کھل کر سامنے آسکیں اور مستقبل میں بھی وہ کامیاب ہو سکیں کیونکہ اس طرح ان میں شوق و ولولہ بڑھے گا اور جذبے و لگن سے وہ جو بھی اچھا کام کریں گے وہ ان کی کامیاب کا ہی ذریعہ بنے گا۔

4) بات بات پر ڈانٹنے سے بچنا: بچوں میں لچکدار رویوں کو پروان چڑھانا چاہیے تاکہ وہ بات کو ماننے کی طرف آئیں بصورت دیگر بچے ضدی ہو جاتے ہیں اور ہر بات نظر انداز کر دیتے ہیں اس کے لیے والدین کو خود بھی بطور نمونہ نرم لہجے و رویے اپنانے ہوں گے تاکہ اس سے بچوں میں بھی سدھرنے کی فضا قائم ہو۔

5) بچوں میں ہمدردی و احساس پیدا کرنا: موجودیت دور میں بچے اپنا وقت سوشل میڈیا پر گزارنے کی وجہ سے قوت برداشت کم رکھتے ہیں۔ اس سے معاشرتی اقدار بھی متاثر ہوتی ہیں لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اپنی مصروفیات کو محدود کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وقت بچوں کو دیں۔ ان میں ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے انہیں فطرت کے قریب کریں۔

اگر ان کا نا مناسب رویہ ہو بھی تو انہیں ڈانٹنے کی بجائے نرمی سے غلطی کا احساس دلائیں تاکہ ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور آہستہ آہستہ اچھے رویے ان کی فطرت بن جائیں اور وہ انسانیت کے لیے ہمدردی و احساس کے جذبے کے عادی ہو جائیں۔

یاد رکھیے کہ بچوں کی بہترین تربیت میں والدین کا سب سے بڑا کردار ہے۔ اس کے لیے بعض اوقات والدین کو خود اپنے اندر کے کچھ نامناسب عادات و اطوار کو چھوڑنا پڑتا ہے لہذا بچوں کی اصلاح کا آغاز اپنی اصلاح سے کیجیے۔

آخر میں اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ ہمیں مہذب دینی علوم سیکھنے اور انہیں اپنی زندگیوں پر نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔تا کہ ہم خود بھی اور اپنی اولاد کو بھی معاشرے کے فعال افراد بنانے میں کامیاب ہو سکیں۔ آمین

اولاد اللہ پاک کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے۔ ہر ایک کو اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے اسکی پرورش اچھی کرنی چاہیے۔ چاہیے کہ انہیں ادب و تعظیم سکھائیں۔ اولاد ہر ایک کو عطا نہیں کی جاتی مگر یقیناً جس کے پاس نہیں ہوتی وہ اس نعمت کو پانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ یقینا ہر والدین کہ خواہش ہوتی ہے انکے کہ بچے اچھے سلیقے، اخلاق اور کامیابی کی راہوں پر چلیں۔

اب یہاں چند اہم نکات بیان کیے جاتے ہیں جنکے ذریعہ والدین اپنی اولاد کو بہتر بنا سکتے ہیں:

محبت و توجہ: سب سے پہلے والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو محبت و توجہ دیں۔ جب بچے اپنے والدین کی محبت اور توجہ محسوس کرتے ہیں تو خود کو محفوظ اور پر اعتماد محسوس کرتے ہیں اور اس سے انکے رویوں میں بہتری آتی ہے۔ والدین کا پیار و محبت اور اپنی اولاد کو توجہ دینا انکے دل و دماغ کو مثبت سمت دے کر منفی سوچ اور رویوں سے بچا لیتا ہے۔

اچھے اخلاق کا نمونہ بننا: والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے سامنے اچھے اخلاق اپنائیں کیونکہ بچے اکثر اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں۔ اس لیے اگر والدین ایماندار، محنتی، صابروشاکر اور معاف کرنے والے ہوئے تو انکی اولاد میں بھی یہ صفات ظاہر ہوں گی۔

مثبت ماحول فراہم کرنا: گھر کا ماحول بچوں کی شخصیت (Personality) پر گہرا اثرڈالتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں محبت بھرا، محفوظ اور تعلیمی ماحول فراہم کریں تاکہ بچے ذہنی سکون اور خوشی کیساتھ اپنے مقاصد پر کام کر سکیں۔

مثبت رویوں کی حوصلہ افزائی: جب بچے اچھا برتاؤ کریں یا مثبت عمل کریں، مثلا نماز پڑھیں، قرآن کی تلاوت کریں یا اچھے نمبروں سے کامیاب ہوں (پوزیشن لینا ضروری نہیں ہوتا عمل ضروری ہے) والدین انکی حوصلہ افزائی کریں۔ اس سے بچے میں اچھے اخلاق و عادات اپنانے کا جذبہ بیدار ہوگا اور انکے اندر مثبت عادات پیدا ہوں گی اور انکی شخصیت میں نکھار آئے گا۔

مناسب سزا اور انعام کا توازن: والدین کو چاہیے کہ جب بچہ کوئی برا کام کرے تو انہیں مناسب سزا دیں۔سزا ایسی ہو کہ بچوں کے کردار میں بہتری آئے نہ کہ ایسی ہو کہ بچوں کے کردار میں بگاڑ پیدا ہو جائے۔اسی طرح جب بچے کچھ اچھا کریں تو والدین کو چاہیے کہ بچوں کو انعام دیں کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ بچے انعام کے لالچ میں کچھ بھی کرتے ہیں۔جب والدین انہیں انکے اچھے کام پر انعام دیں گے تو ان میں اچھا کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا اور وہ اچھے کام کو اپنا شعار بھی بنائیں گے۔

بچوں کے لیے مناسب رول ماڈل (آئیڈیل) کا انتخاب والدین کو چاہیے اپنے بچوں کیلیے بہتر رول ماڈل کا انتخاب کریں تاکہ انکے نقش قدم پر چل کر بچے اپنی زندگی کو بہتر سے بہترین بنا سکیں اور ترقیاں و کامیابیاں و کامرانیاں انکا مقدر ہو۔ رول ماڈل کا انتخاب بہت ہی اہم معاملہ ہے رول ماڈل کا انتخاب بچے خود بھی کر سکتے لیکن اچھے رول ماڈل کا انتخاب کروانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ رول ماڈل کے انتخاب کیلیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اولیائے کرام، صحابہ کرام کے، بچیوں کو صحابیات و صالحات کے واقعات سنائیں تاکہ ہر بچہ اپنے رول ماڈل کا انتخاب کر سکیں۔ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے اپنا رول ماڈل اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کو بنایا ہے

خود اعتمادی کی تعمیر: والدین کو چاہیے کہ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ والدین اپنے بچوں کے سامنے انکی صلاحیتوں کے بارے میں گفتگو کریں تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو۔والدین اپنے بچوں کو انکے چھوٹے چھوٹے فیصلے خود کرنے دیں کہ جب بچے خود فیصلہ کرتے ہیں تو ان میں احساس ذمہ داری اور خود اعتمادی پیدا ہوگی پھر بچوں میں بڑے بڑے فیصلے کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو گی۔ جب بچے اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہیں تو اپنی زندگی میں چیلنجز کا بہتر طریقے سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔

بچوں کی تربیت میں صرف انفرادی مشق اور سلیقے کا ہی نہیں بلکہ ان کے ذہنی،جذباتی اور اخلاقی پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے۔یہ ایک ایسا عمل ہے جو والدین کے مسلسل عزم و ہمت، محنت اور محبت کا تقاضا کرتا ہے۔

صحیح تربیت اور تعلیم کی اہمیت: علم ایک ایسی چیز ہے جس کو حاصل کرنے کی ترغیب قرآن پاک اور حدیث مبارکہ میں بھی دی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید کے پارہ 23 سورۃ الزمر آیت نمبر 9میں ارشاد فرماتا ہے: هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ- ترجمہ کنز الایمان: کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان۔

تعلیم کی بنیاد مضبوطی سے رکھی جانی چاہیے لیکن تعلیم صرف اسکول کی کتب تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔والدین کو چاہیے کہ اپنے پچوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالیں کہ تعلیم نہ صرف امتحانات میں کامیابی کیلیے ضروری ہے بلکہ یہ انسان کی شخصیت کی نشونما کیلیے بھی بہت اہم ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو انکی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق سبق دیں، انکی دینی تعلیم میں دلچسپیوں کو سمجھیں اور انہیں مثبت طرز عمل سکھائیں۔

اخلاقی و مذہبی تعلیم: مذہبی تعلیم اور اخلاقی اصول بچوں کی شخصیت کی بنیاد کو مضبوط کرتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو اچھے اخلاق، سچ بولنے، امانت داری اور وفا داری کے اصول سکھائیں۔ اگر بچے اپنے مذہب کی اہمیت کو سمجھیں گے تو ان میں خود اعتمادی، دوسروں کا احترام جیسی بہت سی اچھی چیزیں پیدا ہونگی۔

وقت گزارنا اور بہترین تعلقات قائم کرنا: والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ یہ وقت ان کی دلچسپیوں کو جاننے، انکے مسائل کو سمجھنے اور انکے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کیلئے بہت ضروری ہے۔بچے اگر اپنے والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ہیں تو ان میں اعتماد بڑھتا ہے اور وہ اپنے خیالات و جذبات اور مسائل کو بلا جھجھک اپنے والدین سے بیان کر سکتے ہیں اور یوں بچے جب زیادہ وقت اپنے والدین کے ساتھ گھر میں گزاریں گے تو برے ماحول سے بھی بچ سکتے ہیں۔

اولاد کو سدھارنے کیلیے والدین کو اپنی صلاحیتوں کیساتھ ساتھ اپنے بچوں کے اندر مثبت صفات پیدا کرنے کیلیے محنت کرنی چاہیے۔ یہ محض ایک تربیتی عمل نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل سفر ہے جس میں والدین کا صبر، محنت، رہنمائی اور اخلاقی تعلیم مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر والدین اس عمل میں اپنا صحیح طریقے سے کردار ادا کریں تو انکے بچے نہ صرف اچھے انسان بن سکتے ہیں بلکہ زندگی میں کامیاب اور خوشحال بھی ہو سکتے ہیں۔

اللہ پاک ہر اولاد کو نیک، نمازی، والدین کا فرمانبردار، قرآن و حدیث کی مبارک تعلیمات پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین

اولاد اللہ پاک کی بہت عظیم نعمت ہے بلا شبہ بچے ہمارے ملکوں ملت کا اصل سرمایہ اور مستقبل کے معمار ہوتے ہیں سماج اور معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ میں ان کا اہم رول ہوتا ہے والدین کے لیے وہ اللہ پاک کا انعام اور ایک امانت بھی ہیں جو اللہ پاک نے ان کے سپرد کی ہے اولاد کو زمانے کی گرم سرد دنوں سے بچانا والدین کی ذمہ داری ہے فی زمانہ اولاد کی اچھی تربیت کرنا بہت دشوار ہے اور بگڑتی ہوئی اولاد والدین کی دنیا و اخرت کے لیے رسوائی ہے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔

1۔محبت و شفقت: اولاد کو سدھارنے کے لیے ان کو محبت و شفقت دیں لہذا ضروری ہے کہ بچوں کے ساتھ پیار محبت نرمی سے پیش آئیں ان کے آرام کا خیال رکھیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: نرمی جس چیز میں ہوتی ہے اسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی چھین لی جاتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے۔ (مسلم، ص 1073، حدیث: 6603)

2۔درس شریعت دیں: حضور ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب 10 سال کی ہو جائے تو ان کو مار کر نماز پڑھاؤ اور ان کے بستر الگ کر دو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 495)

3۔اچھی صحبت: والدین مشاہدہ کرتے رہیں کہ ان کا بچہ کس قسم کی صحبت میں رہتا ہے کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو تم میں سے ہر ایک دیکھ لو کہ وہ کس کو دوست بنائے ہوئے ہے۔ (ابو داود، 4/341، حدیث: 4833)

4۔مساوی سلوک: والدین کو چاہیے کہ تمام اولاد میں برابری کا اصول اپنائیں بلاوجہ شاہی کسی بچے کو نظر انداز نہ کریں کہ بچے کے بگڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اللہ پاک پسند فرماتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان برابری کا سلوک کرو حتی کہ بوسہ لینے میں بھی برابری کرو۔ (کنز العمال، 16/185، حدیث: 45342)

5۔اسکرین ٹائم: والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے سدھار کے لیے ان کے اسکرین ٹائم کو کم کیا جائے کہ ضرورت سے زیادہ اسکرین ٹائم بے حیائی لاتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جب تمہیں حیا نہ ہو تو جو چاہو کرو۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484)

جہاں حیا کے خاتمے سے انسان کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے وہاں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں انسان کے افعال اس کے کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں نتیجۃً تباہی اور بربادی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے یوں ایک اولاد بگڑ جاتی ہے اولاد کے سدھار کے لیے بہت ہی اہم چیز اسکرین ٹائم کو کم کرنا ہے تاکہ اس کے ذریعے بچے بے حیائی سے بچیں۔

اللہ پاک ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین