تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہوگا (صحیح بخاری : 2554)

برصغیر کے مشہور عالم، فقہیہ، محدث اور مؤرخ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے سیرت کا مفہوم حسب ذیل لکھا ہے۔وہ احادیث جو آقا کریمؐ کے وجود سے متعلق، ولادت با سعادت سے وصال شریف تک، صحابہ کرام اور اہل بیت اظہار سے متعلق ہوں، ان سب کو اسلامی علوم و فنون کی اصطلاح میں سیرت کہتے ہیں (عجالہ نافعہ، ص 97)۔اسی طرح آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، احوال اور خصائص وشمائل بھی سیرت کا حصہ ہیں۔

بنیادی حقوق انسانی سے مراد وہی حقوق ہیں، جنہیں اسلامی علوم وفنون کی اصطلاح میں حقوق العباد کہا جاتا ہے۔ اسلام میں حقوق العباد کی ادائیگی پر بہت زور دیاگیا ہے اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال و سیرت سے اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ حقوق العباد کی ادائیگی سے معاشرے سنورتے ہیں اور اس میں افراط و تفریط سے انسانی معاشروں میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔

حقوق انسانی کی بہت ساری جہتیں ہیں، جن میں اساتذہ اور طلباء کے حقوق، والدین کے حقوق ، اولاد کے حقوق ،رشتہ داروں کے حقوق، زوجین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، یتیموں کے حقوق، فقراء و مساکین کے حقوق، افسران اور ماتحتوں کے حقوق، غلاموں کے حقوق، حکمرانوں اور رعایا وغیرہ کے حقوق شامل ہیں۔ چونکہ بنیادی انسانی حقوق کا تعلق فردومعاشرہ سے ہے اور معاشرے کے اہم ترین اجزاء دو ہیں،ایک حکمران دوسرے رعایا۔ان دونوں کے حقوق وفرائض کے تعین اور ادائیگی سے ہی معاشروں کا عروج وزوال جڑا ہوتا ہے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان دونوں کے حقوق وفرائض کو قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جنہیں ہم دو حصوں میں بیان کریں گے۔ اس مضمون میں ہم ’’حکمران کے حقوق وفرائض، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ‘‘ بیان کریں گے۔

علامہ شبلی نعمانی نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدمہ میں سیرت نگاری کے جو اصول ذکر کیے ہیں، ان میں پہلا اصول حسب ذیل ہے۔ سب سے پہلے واقعہ کی تلاش قرآن مجید میں، پھر احادیث صحیحہ میں، پھر عام احادیث میں کرنی چاہیے ، اگر نہ ملے تو روایات سیرت کی طرف توجہ کی جائے۔پھر تیسرا اصول بیان کیا کہ ’’سیرت کی روایتیں بااعتبار پایۂ صحت، احادیث کی روایات سے فروتر ہیں، اس لیے بصورت اختلاف احادیث کی روایات کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔(مقدمہ سیرت النبی، ص64) ۔

کسی ملک میں کا نظام چلانے اور اس میں امن وسکون قائم کرنے اور رکھنے کے لیے دوباتیں ضروری ہیں۔(1) حکمران کا عادل ومنصف اور عوام کے دکھ درد کو سمجھنے والا ہونا۔(2) عوام کا اپنے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنا ۔ حکمرانوں کے بارے میں فرمان رسولؐ ہے کہ ’’ سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اُس دن اللہ اپنے (عرش) کا سایہ دیں گے، جس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا،ان میں سے ایک عادل حکمران ہے‘‘۔ (صحیح بخاری:1423)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہوگا اس کی رعیت کا (حاکم سے مراد منتظم اور نگران کار اور محافظ ہے)، پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا اس کی رعیت کاکہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان ومال کی حفاظت کی یا نہیں۔ آدمی حاکم ہے اپنے گھر والوں کا اس سے سوال ہوگا ان کا۔ عورت حاکم ہے اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی۔ اس سے ان کا سوال ہوگااور غلام حاکم ہے اپنے مالک کے مال کا،اس سے اس کا سوال ہوگا‘‘(صحیح بخاری:2554، 5188، 7528)

رعیت کے حقوق میں خیانت کرنے سے مراد ہے کہ حاکم کے لیے اپنی رعیت کے دین اور دنیا دونوں کی اصلاح ضروری ہے، پھر اگر اس نے لوگوں کا دین خراب کیا اور حدود شرعیہ کو ترک کیا، یا ان کی جان و مال پر ناحق زیادتی کی، یا اور قسم کی ناانصافی کی، یا ان کی حق تلفی کی، تو اس نے اپنے فرض منصبی میں خیانت کی، اب وہ جہنمی ہوا۔ اگر اس کام کو حلال جانتا تھا تو ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم ہوا۔( حقو ق انسانیت اسلام کی نظر میں، ص 234)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی بھی معاشرہ میں زندگی کےمعاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے ، شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا ، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو، اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے، اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہی کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔

اس کے پیش نظر اس ماہ میں رعایا پر حاکم کے حقوق و فرائض ذکر کیے جاتے ہیں ملاحظہ ہوں۔

اللہ پاک نے اپنی کتاب میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- النساء: 59) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والوحکم مانو اللہکا اورحکم مانو رسول کااور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔

(1) اطاعت کرنا: جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے ، اسکی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد بشر پر واجب ہے، بشرطیکہ وہ شریعت کے مطابق ہو۔ جیسا کہ حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ پاک کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری، کتاب الجھاد، باب یقاتل من وراء الامام الخ ،2/ 297، حدیث: 2957)

(2,3) اسکی اچھائی پرشکر اور بُرائی پر صبرکرنا:

حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے مکی مدنی سلطان صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: مجھے ایسے سلطان کے بارے میں بتایئے جس کے آگے گردنین جھکی ہوں اور اس کی اطاعت کی جاتی ہوکہ ایسا سلطان کیسا ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ زمین پر اللہ پاک سایہ ہے اور جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکرلازم ہے اور اگر بُرا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔(شعب الایمان،باب فی طاعة اولى الامر،فصل فی فضل الامام العادل،6/15،حدیث:7369)

(4) ان کی عزت کرنا:

حضرت سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے مروی ہے کہ آپ  نےحجاج سے کہاکہ میں نے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کوفرماتےسناکہ سلاطین کی عزت و توقیر کروکیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔( ربیع الابرار،الباب الثانی والثمانون،5/163 )

(5) انکے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے ، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے ، انہیں صحیح اور سچا مشورہ دیا جائے ۔چنانچہ ارشادِ باری ہے : ا ُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ  ترجَمۂ کنزُ الایمان اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے۔ (سورۃ النحل؛125)

اللہ پاک ہمیں جو سیکھا اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


معاشرے کا حکومتی نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے۔ دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور رعایا کو حکمرانوں کا حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے۔ جیسے حکمرانوں پر رعایا کی دیکھ بھال لازم ہے ویسے ہی رعایا پر بھی اپنے حکام کی اطاعت و فرمانبرداری لازم ہے۔حضور نبی رحمت شفیع أُمَّتَ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ” جب اللہ عزوجل کسی قوم کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو حلیم و بردبار لوگوں کو ان کا حاکم ، علما کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے والا اور سنجیوں کو مالدار بنا دیتا ہے اور جب کسی قوم کے ساتھ بُرائی کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کے بے وقوفوں کو ان کاحاکم، جاہلوں کو ان کا قاضی اور ان کے بخیلوں کو مالدار بنادیتا ہے۔

الله عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُواالرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِمِنْكُمْ (النساء:5 (59)

ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔ کہ رسول کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے۔

بخاری و مسلم کی حدیث ہے : سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی نے اس حدیث میں حضور فرماتے ہیں : جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ، اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلم امراء و حکام کی اطاعت واجب ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں توان کی اطاعت نہیں ۔ (کنزالایمان مع تفسیر خزائن العرفان،ص171تا172)

(1)حاکم کا حکم سننا: ترجمہ : حضرت سیدنا ابن عمر رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”ہر مسلمان پر (حاکم کا حکم ) سننا اور اس کی اطاعت کرنا لازم ہے چاہے اس وہ حکم پسند ہو یا نا پسند،سوائے گناہ کے حکم کے کہ جب گناہ کا حکم دیا جائے تو اسے نہ سننا لازم ہے اور نہ ہی اس کی اطاعت کرنا لازم۔( مسلم،کتابالامارۃ،بابوجوب طاعۃالامراء۔۔الخ 879حدیث4863)

(2)حکام کی اطاعت، رب تعالیٰ کی اطاعت: حضور نبی کریم، رَءُوفٌ رَّحیم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ” اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو ان کی مخالفت نہ کرو۔ ان کی اطاعت میں اللہ عَزَّ وَجَل کی اطاعت اور ان کی نافرمانی میں اللہ کا دین کی نافرمانی ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے اس لئے مبعوث فرمایا ہے تاکہ میں لوگوں کو حکمت و بصیرت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اس کے راستے کی طرف بلاؤں۔ لہذا جو میرے اس کام میں میرا جانشین ہوا وہ مجھ سے ہے اور میں اسے ہوں اور جس نے اس معاملے میں میری مخالفت کی وہ ہلاک ہونے والوں میں ہے اور اللہ عزو جل اور اس کے رسول صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالله وَسَلَّم کے ذمہ سے بری ہے اور جو تمہاری حکومت کی کوئی ذمہ داری سنبھالے پھر اس میں میری سنت کے خلاف عمل کرے تو اس پر اللہ ملا جلا اسکے ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ ( كنزالعمال، كتاب الامارة من قسم الاقوال ، اطاعة الامير من الأكمال، 3/ 24 ، حدیث : 14734 ، الجزء السادس )

(3)حاکم کی اطاعت کرنا: حضرت سیدنا انس رَضِيَ اللهُ تَعَالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم زاؤف رحیم صلی اللہ تعالی عَلَيْهِ وَالهِ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”سنو اور اطاعت کرو، اگر چہ تم پر حبشی غلام کو حاکم بنادیا جائے جس کاسر کشمش کی طرح ہو۔“ (بخاری، کتاب الاحکام،  باب السمع والطاعة للامام مالم تكن معصية، 454/4، حدیث: 8142)

حضرت سَیِّدُنا أَبُوهُنَيْدَه وائل بن حجر رضي الله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلمہ بن یزید يُعفى رَضِ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ نے رسولِ کریم صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسلم سے عرض کی: یارسول الله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ الہ وسلم! اگر ہم پر ایسے حکمران مقرر ہو جائیں جو ہم سے اپنے حق کا سوال کریں اور ہمارے حق سے ہمیں منع کریں تو آپ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالهِ وَسَلَّم ہمیں کیا حکم ارشاد فرماتے ہیں؟ یہ سن کر حضور صلی الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَاللهِ وَسَلَّم نے اُن سے اعراض فرمایا۔ انہوں نے پھر سوال کیا تو فرمایا: ”سنو اور اطاعت کرو، بے شک اُن پر وہ لازم ہے جس کے وہ پابند کئے گئے ہیں اور تم پر وہ لازم ہے جس کے تم پابند کئے گئے ہو ۔ “ (مسلم، كتاب الامارة ، باب في طاعة الامراء وان منعوا الحقوق، ص 792، حدیث: 4782۔)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


معاشرہ حکومتی نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے دین اسلام حکمرانوں کو رعایہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور رعایا کو حکمرانوں کا حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے اچھے حق ان کو رحمت الہی قرار دیا گیا ہے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائے مقرر کی ہوئی ہے. ائیے ہاکنگ کے کچھ حقوق پڑھتے ہیں:

(1)حاکم کی اطاعت کا قرانی حکم: اللہ عزوجل قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی اور اطاعت کرو اپنے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اور حکمرانوں کی جو تم میں سے ہوں.(النساء،آیت 59)

علامہ اسماعیل حقی علیہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں اس ایت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جب بادشاہ اور حکمران قران و سنت کی پیروی کریں تو رعایہ پر ان کی تابعداری واجب ہے اگر کتاب و سنت کے خلاف کام کریں تو ان کی اطاعت ہرگز لازم نہیں.

(2) اطاعت امیر کی ترغیب حدیث کی روشنی میں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے میری اطاعت کی اس نے اللہ عزوجل کی اطاعت کی اور جس شخص نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی (ایمان کی شاخیں مترجم،ص 456)

(3) امیر کی عزت و رسوائی کے بارے میں حدیث: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے اللہ کے سلطان کی دنیا میں عزت کی اللہ تعالی اس کو قیامت والے دن عزت دے گا اور جس نے اللہ کی سلطان کی دنیا میں توہین کی اللہ اس کو قیامت کے دن رسوا کرے گا. (ایمان کی شاخیں مترجم،ص 457)

(4) امیر کی اطاعت: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کسی مخلوق کی اطاعت اس وقت واجب نہیں رہتی جب وہ خالق کی نافرمانی کا حکم دے.(ایمان کی شاخیں مترجم،ص 458)

(5) حاکم کی اطاعت لازم ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام کو حاکم بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کی طرح ہو. (صحیح بخاری،کتاب الاحکام،454/4،حدیث 7162)

اللہ عزوجل میں حاکم کی اطاعت کرنے اور اس کا حکم ماننے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


دین اسلام کامل و اکمل اور جامع دین ہے دین اسلام جس طرح محبت الہی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درس دیتا ہے اسی طرح سماجی اور معاشرتی زندگی میں تمام انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی درس دیتا دین اسلام نے جس طرح والدین زوجین اور اساتذہ کے حقوق کو بیان کیا اسی طرح ایک عادل حکمران کے حقوق کی ادائیگی کا بھی حکم دیتا ہے چنانچہ آپ بھی حکمران کے چند حقوق پڑھیے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے۔

(1) تعزیت کرنا: حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کسی غمزدہ شخص سے تعزیت (یعنی اس کی غم خواری) کرے گا اللہ تعالیٰ اسے تقوی کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے عطا پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔۔( المعجم الاوسط رقم 9292 جلد 6 ص 429 )

(2) سلام کرنا: حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تم کو ایسی بات نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو تمہارے درمیان محبت بڑھے اور وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو رواج دو ۔ (مسلم، کتاب الایمان ، رقم 54، ص 47)

(3) اطاعت کرنا: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم پر اپنی تنگدستی اور خوشحالی میں پسند اور نا پسند میں اور تم پر کسی دوسرے کو ترجیح دی جانے کی صورت میں سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے۔" (مسلم کتاب المارہ ،ص788 حدیث 4754)

(4)توہین نہ کرنا: : حضرت سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ نے کو یہ فرماتے ہوئے سنا" جس نے سلطان کی اہانت کی، اللہ عزوجل اسے ذلیل کرے گا۔" ( ترمذی کتاب الفتن،جلد 4،ص 96 ،حدیث 2231)

(5)عزت و توقیر کرنا: فرمان مصطفی جو ہمارے چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت وتو تو قیر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (مسلم شریف)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! روز مرہ کے مختلف معاملات میں جن افراد کے ساتھ بندے کا تعلق ہوتا ہے ان میں سے ایک حاکم بھی ہے. حاکم کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس لیے اسلام میں تفصیل کے ساتھ حاکم کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے حاکم کے ساتھ بھلائی کرے اس کے ناپسندیدہ بات پر صبر کرے اور حاکم کی عزت و ابرو کی حفاظت کرے۔حاکم کے حقوق کے بارے میں پانچ احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے :

(1)حاکم کی اطاعت کرنا: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں سلمہ ابن یزید نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے پوچھا یا نبی اللہ فرمائیے تو اگر ہم پر ایسے حکام قائم ہو جائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمارا حق ہم سے روکیں تو حضور ہمیں کیا حکم دیتے ہیں فرمایا سنو اور اطاعت کرو کیونکہ ان پر وہی ہے جو ان پر ڈالا گیا اور تم پر وہ ہے جو تم پر ڈالا گیا۔(مرآۃ المناجیح،جلد 5،صفحہ 388)

(2) حاکم کی بغاوت نہ کرنا: مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں محض اپنا حق لینے کے لیے بغاوت نہ کرنا بلکہ ان سلاطین کی جائز اطاعت کیے جانا اور رب تعالی سے دعا کرنا کہ خدایا ان کو بھی ہمارے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے. (مرآۃ المناجیح، جلد 5،صفحہ 388)

(3) حاکم کی ناپسندیدہ بات پر صبر کرنا: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے حاکم سے ناپسندیدہ بات سنے تو صبر کرے کیونکہ نہیں ہے کوئی جو جماعت سے بالشت بھر الگ رہے پھر مر جائے مگر وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 5،صفحہ 384)

(4)حاکم کی توہین نہ کرنا: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بولیں چپ رہو میں نے اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو زمین میں اللہ کے بادشاہ کی توہین کرے اللہ اسے ذلیل کرے۔( مرآۃ المناجیح ،جلد 5، صفحہ 401)

(5)حاکم سے غداری نہ کرنا: روایت ہے حضرت ابو سعید سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرمایا ہر بد عہد غدار کا جھنڈا اس کے چوتڑوں کے پاس ہو گا۔ قیامت کے دن اور ایک روایت میں یوں ہے کہ ہر غدار کا جھنڈا قیامت کے دن اس کی غداری کے مطابق اونچا کیا جائے گا ۔۔ ہوشیار رہو کہ عوام کے سلطان کی غداری سے بڑھ کر کوئی غدار (بعہد ) نہیں.( مرآۃ المناجیح ،جلد 5، صفحہ 418)

دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں حاکم کے حقوق ادا کرنے اور اس کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دین اسلام ہمارا پیارا دین ہے۔جو ہر معاملے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔روز مرہ کے مختلف معاملات میں جن افراد کے ساتھ ہمارا تعلق ہوتا ہے ان میں سے ایک حاکم بھی ہے۔اسلام نے ہمیں حاکم کے حقوق بھی ادا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے حاکم کے حقوق کے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

(1) حاکم کا حکم ماننا: حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر مسلمان پر (حاکم کا حکم)سننا اور اس کی اطاعت کرنا لازم ہے.( فیضان ریاض الصالحین،جلد 5، صفحہ 633)

(2) حاکم کی بیعت کرنا:حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچا وہ بروز قیامت اللہ عزوجل سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی ۔(مراۃ المناجیح جلد 5، صفحہ 389)

(3) حاکم کی اطاعت کرنا: حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو ان کی مخالفت نہ کرو ان کی اطاعت میں اللہ عزوجل کی اطاعت اور ان کی نافرمانی میں اللہ عزوجل کی نافرمانی ہے۔(فیضان ریاض الصالحین، جلد 5، صفحہ 635)

(4) حاکم کی توہین نہ کرنا: رحیم کرے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بولے جب چپ رہو میں نے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو زمین میں ایک اللہ کے بادشاہ کی توہین کرے اللہ اسے ذلیل کرے گا.(مرآۃ المناجیح،جلد 5، صفحہ 401)

(5) ناپسندیدہ بات پر صبر کرنا: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جو اپنے حاکم سے ناپسندیدہ بات سنے اس پر صبر کرے کیونکہ نہیں ہے کوئی جو جماعت سے بالشت پر الگ رہے پھر مر جائے مگر وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ (مرآۃ المناجیح،جلد 5،صفحہ 384)

اللہ عزوجل ہمیں حاکم کے حقوق ادا کرنے اور اس کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی بھی معاشرہ میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے ، شہری زندگی ہو یادیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن وامان اس وقت تک قائم نہیں کر سکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو ۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجب حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے

(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی ، اور جس نے امیر و حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر و حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (حوالہ صحیح بخاری حدیث نمبر 7137)

حاکموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان کی اطاعت کرنا ہمارا اہم فریضہ ہے ورنہ معاشرہ بدامنی کا شکار ہو جائے گا پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی فریضے کی ادائیگی کا حکم دیا ہے چنانچہ

2)مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تم انکے لئے دعا کرتے ہو ، اور تمہارے حاکموں میں سے میرے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں ، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم ایسے حاکموں کو تلوار لیکر انکے خلاف علم بغاوت نہ بلند کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں ، جب تک وہ تمہارے در میان نماز قائم کرتے رہیں ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا اور جب تم اپنے حاکموں سے کوئی ایسی شے دیکھو جسے تم نا پسند کرتے ہو تو ان کے عمل کو برا سمجھ مگر انکی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ [ حوالہ صحیح مسلم: حدیث نمبر1855]

حاکم کے ساتھ تعاون کرنا ہر فرد پر لازم ہے کیونکہ حاکم کے ساتھ تعاون کے بغیر ملک میں کبھی بھی امن وامان قائم نہیں کیا جا سکتا حاکم ہمیشہ اپنی رعایا کو خوش دیکھنا چاہتا ہے حاکم قوم اور ملک کی فلاح وبہبود کے لیے دن رات محنت کرتا ہے لیکن آج کے دور کا المیہ لوگ حاکم کی پیروی کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں حالانکہ اسلام ان کی اطاعت کا حکم دیتا ہے

3) حضرت علقمہ بن وائل بن حجر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جو ہمارا حق نہ دیں، لیکن اپنا حق مانگیں (تو ہمارے لیے کیا حکم ۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” تم ان کی بات سننا اور ماننا، ان کے ذمے وہ بوجھ ہے جو انہیں اٹھوایاگیا(یعنی عدل وانصاف۔ (حوالہ ترمذی حدیث نمبر: 2220)

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے حاکم کی اطاعت کریں تاکہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے ہر فرد اطاعت کو اولین ترجیح دے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائےلیکن ہمیں ان حکمرانوں کی اطاعت سے منع کیا گیا جو شریعت کی پاسداری نہیں کرتے

(4)سیدنا ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا، اس کا ایک اقتباس یہ ہے ” آگاہ رہو ! قریب ہے کہ مجھے بلا لیا جائے اور میں اس بلاوے کا جواب دے دوں ۔ میرے بعد مختلف حکمران تمہاری ذمہ داری اٹھائیں گے، وہ جو کچھ کہیں گے اس پر عمل بھی کریں گے، ان کی اطاعت حقیقت میں اطاعت ہے۔ تم لوگ کچھ زمانہ اسی طرح رہو گے ۔ پھر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں گے، جو اپنے کہے پر عمل نہیں کریں گے اور اگر عمل کریں گے تو اسے پہچانتے نہیں ہوں گے۔ جن لوگوں نے ان کی ہمدردی کی، ان کے مشیر مصاحب بنے اور ان کی پشت پناہی کی تو وہ خود بھی ہلاک ہوں گے اور دوسروں کو بھی ہلاک کریں گے۔ (حوالہ المعجم الاوسط، حدیث نمبر 6984)

آ ج کل دنیا میں اکثر مسلمان حکمران شریعت کی اطاعت نہیں کر رہے جس کی وجہ سے مسلمان ذلت ورسوائی کا سامنا کر رہے ہیں اللّٰہ پاک ہمیں نیک حکمران عطا فرمائے ۔ اللّٰہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حاکم کی ضرورت: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا ،اس کے بعد آپ کی اولاد کو ،دنیا کو آخرت کی تیاری کے لیے پیدا فرمایا تاکہ دنیا میں وہ عمل کیا جائے جو سفر آخرت کے لیے زاد راہ بن سکے لہذا اگر لوگ عدل وانصاف کے ساتھ دنیا میں رہتے تو نہ جھگڑوں کی نوبت آتی لیکن انھوں نے اس میں خواہشات کے مطابق عمل کیے جس سے جھگڑوں نے جنم لیا تو حاکم کی ضرورت پیش آئی جو ان کے معاملات کو سنبھالے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ٘-وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ-اِعْدِلُوْا-هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ المائدہ :5 آیت (8) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو تمہارے کامو ں کی خبر ہے۔

حدیث مبارکہ

ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنا ابو سعید حسن بصریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے روایت ہے کہ حضرتِ سَیِّدُنا عائذ بن عَمْرورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُعُبَیْدُاللہ بن زیاد کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا : ’’اے لڑکے! میں نے حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے سناہے کہ : بدترین حاکم وہ ہیں جو ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ لہذا تو اس بات سے بچنا کہ تیرا شمار ان بدترین حاکموں میں ہو۔ ‘‘ابنِ زیاد نے( گستاخانہ لہجے میں)کہا : ’’بیٹھ جاؤ !تم تورسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے صحابہ میں بھوسے کی طرح ہو۔ ‘‘ حضرتِ سَیِّدُنا عائذ بن عَمْرورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : ’’کیارسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اصحاب میں بھی بھوسہ ہے؟ بیشک بھوسہ تو ان کے بعد یا ان کے غیر میں ہوگا۔ ‘‘ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث نمبر:192) حاکم کے حقوق مختلف ہوتے ہیں،جو اس کے عہدے اور ذمہ داری کے متعلق ہوتے ہیں جن میں یہ حقوق شامل ہیں:

(1) قانونی حقوق: حاکم کا قانونی حق اسے اپنے عہدے اور ملک کے قانون کا خیال رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔

(2) ملک کی حفاظت: حاکم کا ایک حق ملک کی حفاظت کرنا بھی ہوتا ہے اور یہ حاکم پر اولین فریضہ ہے ۔

(3) نظامی اور حکومتی امور میں اہتمام: حاکم کو ملک کے نظامی اور حکومتی امور کا اہتمام کرنا ہوتا ہے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور اس میں بہتری آ سکے۔

(4) انسانی حقوق کا احترام: حاکم پر انسانی حقوق کا احترام لازم ہوتا ہے ان حقوق کا اس کی رئایا کو فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔

(5) مساوات اور انصاف: حاکم کو مساوات اور انصاف کا لحاظ رکھنا چاہیے تاکہ ہر شہری کو برابر حقوق ملیں۔

(6) علم اور تعلیم میں حاکم کا کردار: حاکم کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ معاشرتی ترقی کے لئے علم اور تعلیم کے فراہم کرنے میں مدد فراہم کرے کیونکہ علم ہی کسی قوم کی ترقی کا باعث بنتا ہے ۔

(7) شوریٰ کا نظام: اسلامی اور حکومتی نظام کا ایک اہم کردار ہوتا ہے حاکم کو چاہیے کہ شوریٰ (یعنی مشاورت) کے نظام کو ترتیب دے جس کے تحت حاکم عوام کی رائے سنے اور ان سے مشورہ لے ۔

(8) معاشرتی ترقی: معاشرتی ترقی میں حاکم اسلام کا ایک اہم کردار ہوتا ہے حاکم اسلام کو معاشرتی ترقی اور فقر کا مقابلہ کرنے کا ذمہ دار ہونا چاہئے تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے۔

(9) فیصلوں میں حاکم کا کردار: حاکم پر فیصلہ کرنا بھی ان حقوق میں سے ہے حاکم کو چاہیے کہ دونوں اطراف سے سنے بغیر فیصلہ نہ کرے اور اسلام کے مطابق جو حدیں قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہیں ان کے مطابق فیصلہ کرے اور حد لگائے ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


(1) امیر کی اطاعت: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی (صحیح مسلم ص 133 کتاب الامارة حدیث 4748)

(2) گناہوں میں اطاعت ضروری نہیں ۔

حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ہر مسلمان پر (حاکم کا حکم ) سننا اور اس کی اطاعت کرنا لازم ہے چاہے اسے وہ حکم پسند ہو یا ناپسند سوائے گناہ کے حکم کے جب گناہ کا حکم دیا جائے تو اسے نہ سننا لازم ہے اور نہ ہی اس کی اطاعت کرنا لازم (مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الاسراء ص 789 حدیث 4763)

(3) حکمرانوں سے بغاوت :حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئ ہیں کیونکہ حکمرانوں کی مخالفت سےاسلام کی اجتماعیت کو نقصان پہنچتا ہے ۔ افتراق وانتشار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔

(4) قرآنی حکم۔ اے ایمان والوں ! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور حکمرانوں کی جو تم میں سے ہوں ۔ (النساء 59)

علامہ اسماعیل حقی علیہ رحمہ فرماتے ہیں اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جب بادشاہ و حکمران قرآن وسنت کی پیروی کریں تو رعایا پر ان کی تابعداری واجب ہے ۔

(5) حبشی غلام حاکم۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام کو حاکم بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کی طرح ہو ۔ (بخاری کتاب الاحکام 454/4 حدیث 7162)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! ایک مسلمان کے عقیدے میں حاکمیت اعلی صرف اللہ تعالی کی ہے۔ اور تمام نظامِ کائنات صرف اللہ تعالٰی کے حکم کے پابند ہیں ۔ اللہ تعالی نے مخلوق کی ہدایت کے لیے انبیاء و مرسلین کو مبعوث فرمایا. اور بعض انبیاء نے سلطنتیں قائم کیں. جن میں سے بعض سلطنتوں پر انبیاء بذاتِ خود حاکم رہے اور بعض پر امیر مقرر فرمائے. جن کی اطاعت کو قرآن پاک نے ہم پر لازم کیا. ارشادِ باری تعالی ہے :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- ترجمہ کنزالعرفان : اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں ۔ ( سورۃ النساء : 59)

حاکم کی فرمانبرداری لازم ہے.اس کے کچھ حقوق ہیں جو درج ذیل ہیں:

١- حاکم کی ضرورت و اہمیت : پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے معاشرے میں مختلف رنگ ونسل کے افراد پائے جاتے ہیں۔ جن کو آپس میں باہمی تعلقات قائم رکھنے کے لیے ایک سمجھدار اور عاقل شخص کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو انصاف کے تقاضوں کو مکمل طور پر پورا کرے ۔ اسلام کے سب سے پہلے حاکم مطلق رسول الله ( صل اللہ علیہ وسلم) کی ذات ہے. جن کے لیے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے :

وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ- ترجمہ کنزالایمان : اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے۔ ( سورۃ الاحزاب : 36)

عرش تا فرش ہیں جس کے زیر نگیں

اس کی قابر ریاست پی لاکھوں سلام

اور آپ ( صل اللہ علیہ وسلم) کا منصفانہ نظام ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔کیونکہ آپ ( صل اللہ علیہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کا قائم کردہ نظام حکومت ایک منصفات نظام تھا. جس طریقے پر چلنے والا حاکم ہی عوام کی ضرورت ہے۔

٢ - حاکم کی بات سننا اور ماننا : پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اگر حاکم مسلمان ہو اور منصفانہ نظام کے مطابق چلتا ہو تو اس کی بات ماننا اور سننا ہم پر لازم ہے۔ اگر چہ بظاہر وہ ہمیں پسند ہو یا ناپسند ہو مسلمانوں کے حاکمِ مطلق نبی اکرم ( صل اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمان مرد پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننا فرض ہے (ہر کام میں) خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا نا پسند مگر یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دے۔ (بخاری مسلم بروایت عبدالله بن محمد )

یعنی اطاعت اور فرمانبرداری واجب ہے لیکن اگر وہ گناہ کا حکم دیں تو پھر اطاعت نہیں لازم ۔

٣ - حاکم کی خیر خواہی اور نصیحت : حاکم کے ساتھ خیر خواہی اور اچھا معاملہ کیا جائے اگر وہ کسی غلطی پر ہوں تو بجائے یہ کہ ان کے خلاف جایا جائے بلکہ کسی طرح ان تک اس غلط بات کی خبر پہنچائی جائے۔ سلطانِ جہاں ( صل اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دین خیر خواہی کا نام ہے۔ پوچھا گیا کس کی خیر خواہی ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : اللہ کی، الله کے رسول کی، کتاب کی، مسلمانوں کے حاکموں کی، اور عام مسلمانوں کی " (صحیح مسلم ، بروایت تعمیم دادی)

حاکموں کی خیر خواہی عام مسلمانوں کی خیر خواہی کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ ان کے پاس مسلمانوں کی ریاست اور ملک ہوتے ہیں ۔ ان کی غلط بات اسلام کی طرف سے شمار کی جاتی ہے۔

٤ - حاکم کے ساتھ تعاون : پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! حاکموں کے ساتھ تعاون کیا جائے یعنی کہ ان کی ہر جائز بات میں پیروی کی جائے۔ " ایک مرتبہ نبی پاک ( صل اللہ علیہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ اگر ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہو جائیں کہ وہ ہم سے اپنا حق مانگیں لیکن ہمارا حق نہ دیں تو ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ آپ ( صل اللہ علیہ وسلم) خاموش رہے حتی کہ دو یا تین مرتبہ ایسا ہوا پھر نبی اکرم ( صل اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: " تم ان کی بات مانو اور سنو ، ان کی جو ذمہ داری ہے وہ ان پر ہے۔ تمہاری جو ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے.

یہ آج کل کا بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا حل مسلمانوں کے دائمی حاکم نبی اکرم (صل اللہ علیہ وسلم) آج سے 14 سو سال پہلے ہی بتا چکے ہیں ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ حاکم مسلمان ہو۔

الله تعالٰی ہمیں علم دین حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے حکمرانوں کو ہدایت نصیب فرمائے.

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللّٰه عزَّوَجَلَّ نے اپنی کتاب میں یہ علم ارشاد فرمایا ہے : يٰٓاَ يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْكُمْ (پ5، النساء : 59)ترجمه کنز الایمان: "اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں"۔

”حضرت سیدنا جابر بن عبد اللّٰه رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سرور کو نین، شہنشاہ دارین صلى اللّٰه تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلہ وَسَلَّمْ سے اس بات کی گواہی کہ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللّٰه تعالیٰ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمْ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنے، زکوۃ دینے ، (حاکم اسلام کی سننے اور اطاعت کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی)

اللہ تعالٰی ہمیں اپنی زبان نیکی کی دعوت دینے میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین چنانچہ آپ بھی حاکم کے 5 حقوق ملاحظہ کیجئے

1 نیکی کی دعوت: وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیِنْ (پ24 السجدۃ 33) ترجمہ کنزالایمان : ”اور اس سے زیادہ کسی کی بات اچھی جو اللّٰہ کی طرف بلائے اور نیکی کرنے اور کہے میں مسلمان ہوں “

آپ صلی اللّٰه علیہ والہ وسلم نے فرمایا :۔ ”نیکی کی طرف راہنمائی کرنے والا بھی نیکی کرنے والے کی طرح ہے“ (جامع ترمذی، رقم 2679 ج 4، ص 305)

2 سلام کرنا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰه عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ عالم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : ”کیا میں تم کو ایسی بات نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو تمہارے درمیان محبت بڑھے اور وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو رواج دو“ (مسلم کتاب الایمان،رقم 54،ص27)

3 خیر خواہی کرنا: ”حضرت سیدنا کعب الاحبار علیہ رَحْمَةُ اللّٰهِ الغَفَّار سے سلطان کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا سلطان زمین پر اللّٰہ عزوجل کا سایہ ہے جس نے اس کی خیر خواہی کی اس نے راہ ہدایت حاصل کی اور جس نے اسے دھوکا دیا تو وہ راہ سے بھٹک گیا“۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں ص،191 متبوع مکبۃ المدينه)

4 حکمرانی نہ مانگو: حضرت سیدنا عبد الرحمن بن سمرہ رضی الله تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضور اکرم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّى اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اے عبد الرحمن حکمرانی نہ مانگو، اگر تجھے بغیر مانگے عطا کی گئی تو اس پر تیری مدد کی جائے گی اور اگر مانگنے سے عطا کی گئی تو تجھے اس کے سپرد کر دیا جائے گا۔ (بخاری، ایمان کے کفارہ کی کتاب، وقفے سے پہلے اور بعد میں کفارہ کا باب، 4/311، حدیث: 1722)

5 بادشاہ کو گالیاں نہ دوں: حضرت سیِّدُنا مالک بن دینا ر علیہ رحمہ اللہ الغفار فرماتے ہیں کہ میں نے بعض کتابوں میں پڑھا ہے اللّٰه عز وجل فرماتا ہے:-

میں بادشاہوں کا بادشاہ ہوں اور بادشاہوں کی گردنیں میرے ہاتھ میں ہیں جو میری اطاعت کرے گا میں اُس پر اپنی رحمت کروں گا اور جو میری نافرمانی کرے گا میں اُس پر غضب فرماؤں گا لوگو تم بادشاہوں کو اپنی زبان سے گالیاں نہ دو بلکہ اللّٰه عزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں تو بہ کرو اللہ پاک بادشاہ کو تم پر مہربان کرے گا ۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں ص،191 متبوع مکبۃ المدینہ)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔