اولاد کی تربیت والدین کی سب سے اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ بچوں کو درست راہ پر گامزن کرنے کے لیے محبت، حکمت، اور صبر کے ساتھ ایک متوازن رویہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ یہاں اولاد کو سدھارنے کے چند مفید طریقے دیے گئے ہیں:

1۔ محبت اور توجہ دیں: بچوں کے لیے والدین کی محبت اور توجہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ان کے جذبات کو سمجھیں اور انہیں اپنی اہمیت کا احساس دلائیں۔ محبت سے بات کریں اور ان کے مسائل سننے کے لیے وقت نکالیں۔

2۔ مثالی کردار پیش کریں: بچے وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ اچھے اخلاق اپنائیں، تو خود بھی مثالی کردار کا مظاہرہ کریں۔ سچ بولیں، وعدے نبھائیں، اور اچھے رویے کا مظاہرہ کریں۔

3۔ مثبت بات چیت کریں: ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کی بجائے بچوں سے محبت بھرے اور مثبت انداز میں بات کریں۔ اگر وہ کوئی غلطی کریں تو تحمل کے ساتھ انہیں سمجھائیں اور ان کی رہنمائی کریں۔

4۔ صحیح عادات سکھائیں: بچوں کو نماز، قرآن، اور اچھے اخلاق کی عادت ڈالیں۔ وقت پر کام کرنا، صفائی رکھنا، اور دوسروں کی مدد کرنا ان کی شخصیت کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

5۔ حوصلہ افزائی کریں: بچوں کی کامیابیوں کو سراہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر وہ ناکام ہوں تو ان کا ساتھ دیں اور دوبارہ کوشش کرنے کا درس دیں۔

6۔ دوست بنیں: بچوں کے ساتھ ایک دوستانہ تعلق قائم کریں تاکہ وہ اپنے مسائل اور خیالات آپ سے بلا جھجک شیئر کرسکیں۔ اس سے آپ انہیں بہتر سمجھ سکیں گے۔

7۔ دعاؤں کا سہارا لیں: اولاد کی کامیابی اور اصلاح کے لیے دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی اور مدد طلب کریں، کیونکہ دعا والدین کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

اولاد کو سدھارنا ایک مسلسل عمل ہے اگر والدین صحیح رہنمائی اور عملی نمونہ پیش کریں تو بچے خود بخود ایک بہترین شخصیت کے مالک بن سکتے ہیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے۔ آمین

بچوں کی تعلیم کے لیے کئی خاص طریقے ہیں جو ان کی سیکھنے کی صلاحیتوں اور دلچسپیوں کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہاں کچھ اہم طریقے دیئے گئے ہیں:

1۔ تفریحی سیکھنے کا طریقہ: بچوں کے لیے سیکھنے کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے گیمز، کہانیاں، اور تخلیقی سرگرمیاں شامل کی جا سکتی ہیں۔ اس سے بچوں کی توجہ برقرار رہتی ہے اور وہ بہتر طریقے سے سیکھتے ہیں۔

2۔ عملی تجربات: بچوں کو عملی تجربات فراہم کرنا، جیسے کہ سائنس کے تجربات یا کھانا پکانے کے طریقے، ان کی سیکھنے کی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی سیکھنے کی معلومات کو عملی زندگی میں استعمال کر سکتے ہیں۔

3۔ مشترکہ سیکھنا: گروپ میں سیکھنے سے بچے ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور اپنی سماجی مہارتوں کو بہتر بناتے ہیں۔ یہ انہیں اپنی رائے کا اظہار کرنے اور دوسروں کی رائے کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

4۔ مثبت حوصلہ افزائی: بچوں کی کامیابیوں پر تعریف اور حوصلہ افزائی انہیں مزید سیکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ یہ انہیں خود اعتمادی فراہم کرتی ہے اور سیکھنے کے عمل میں دلچسپی بڑھاتی ہے۔

5۔ وقت کی منصوبہ بندی: بچوں کے لیے ایک منظم شیڈول بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل اور آرام کا وقت بھی رکھ سکیں۔

اولاد کو نماز کی طرف لانے کے لیے آپ درج ذیل طریقے اپنا سکتے ہیں:

1۔ مثال بنیں: سب سے پہلے، خود نماز قائم کریں۔ جب اولاد آپ کو نماز پڑھتے دیکھے گی تو ان کی دلچسپی بڑھے گی۔

2۔ محبت سے بات کریں: اولاد سے محبت اور احترام کے ساتھ بات کریں۔ انہیں نماز کے فوائد، جیسے کہ روحانی سکون، اللہ کی رضا، اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے بارے میں بتائیں۔

3۔ آہستہ آہستہ شروع کریں: اگر اولاد نماز نہیں پڑھتے تو انہیں آہستہ آہستہ نماز کی عادت ڈالنے کی کوشش کریں۔ مثلاً، انہیں فجر کی نماز کے لیے اٹھانے کی کوشش کریں۔

4۔ نماز کی اہمیت سمجھائیں: اولاد کو یہ سمجھائیں کہ نماز روزمرہ زندگی کا ایک اہم حصہ ہے اور یہ اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے۔

5۔ نماز کے اوقات بتائیں: انہیں نماز کے اوقات بتائیں اور ان کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے کی کوشش کریں۔

6۔ دعاؤں کا سہارا لیں: اللہ سے دعا کریں کہ وہ اولاد کے دل میں نماز کی محبت ڈالے اور انہیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

7۔ اجتماعی نماز کا اہتمام: اگر ممکن ہو تو خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ مل کر باجماعت نماز پڑھنے کا اہتمام کریں۔

یاد رکھیں کہ صبر اور محبت سے کام لینا بہت ضروری ہے۔ اللہ آپ کی کوششوں کو قبول فرمائے۔

اولاد اللہ پاک کی طرف سے بہت ہی انمول تحفہ اور نعمتوں میں سے ایک عظیم ترین نعمت ہے۔ بڑھاپے میں ہمارا سہارا ہے۔ اولاد ہی وہ نعمت ہے جس کی وجہ ہمارے نام و نسل باقی رہتی ہے۔ ہماری موت کے بعد ہمیں ایصال ثواب کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ہر انسان کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ ہماری اولاد نیک ہو، فرماں بردار ہو جو دنیا میں بھی ہماری راحت و سکوں کا باعث بنے اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنے۔

اولاد کو نیک بنانے میں والدین کا بہت دخل ہوتا ہے۔ جو کوئی اولاد کی تربیت اچھی کرے اسکو اسکا صلہ ضرور ملتا ہے۔ اور جو کوئی تھوڑی سی کوتاہی کر دے اس کے لیے وہ اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔ تو اس کے لیے والدین کو چاہئے کہ اولاد کی تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق کریں۔ یہ والدین کی اول ذمہ داری ہے اس بارے میں معمولی سی کوتاہی بھی نہیں کرنی چاہئے۔ کیوں کہ اسکا نقصان یہ ہوتا کہ اولاد بگڑ جاتی ہے جیسا کہ آج کل ایک وافر تعداد ہے جو اس چیز کا رونا روتے نظر آتے ہیں جیسے کہ بات نہیں مانتیں، گالیاں دیتے، بد تمیز ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کاش! کہ والدین اولاد کی تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق کریں۔

اولاد کی تربیت کیسے کی جائے؟ اس کے بہترین اصول ہمیں قرآن پاک میں ملتے ہیں۔ مثلا نیک اعمال کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے، اور ایسے ہی گناہگاروں کو گناہ کرنے پر جہنم کی وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ اولاد کی اچھی تربیت کرنے کی فضیلت کے متعلق حدیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے۔

فرمان مصطفٰی ﷺ ہے: ایک آدمی کا اپنی اولاد کو اچھا ادب سکھانا ایک صاع خیرات کرنے سے بہتر ہے۔ (ترمذی، 3/328،حدیث: 1958)

بچوں کی اخلاقی تربیت کس طرح کی جا سکتی ہے اس کے متعلق چند طریقے ملاحظہ کیجئے، جن پر عمل کر کے آپ اپنے بچوں کے اخلاق کو بہتر بنا سکتے ہیں:

اپنی سوچ بدلئے: والدین کی جو یہ سوچ ہے کہ بچے بڑے ہو کر سمجھ جائیں گے اور خاص دھیان نہیں دیتے بلکہ بعض حرکتوں پر تو ہنس دیا جاتا اور خوشی خوشی رشتہ داروں کو بھی بتایا جاتا ہے کہ ہمارا بچہ یہ سب کر رہا ہو اور اسکو ان سب باتوں اگرچہ وہ غلط ہی ہوں پیار ملتا ہے جو کہ بچے بگڑنے کا سبب ہے ایسے تو بچوں کی عادت پختہ ہو جائے گی لہذا بچپن سے ہی انکی اخلاقی تربیت کی جائے۔

پلاننگ کریں: ہر ضروری کام کو مکمل کرنے کے لیے پلاننگ بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے بغیر کام صحیح طریقے سے مکمل نہیں ہو سکتا۔ پلاننگ اس چیز کی کرنی ہے کہ کاموں سے بچنا ہوگا اور کون کون سے امور اختیار کرنے ہوں گے وغیرہ۔

اپنے طور طریقے میں تبدیلی لائیں: یہ حقیقت ہے کہ بچہ قول سے کم اور عمل سے زیادہ سیکھتا ہے، اپنے والدین اور قریب موجود دیگر افراد کو جو کچھ کرتے دیکھتا ہے وہی کرتا ہے۔ لہذا جیسے والدین چاہتے ہیں کہ انکا بچہ اچھے کام کریں ویسے ہی والدین کو چاہئے کہ خود بھی اس طرح کا عمل ہی کریں۔

بچوں کو سمجھائیے: بچے نا سمجھ ہوتے ہیں اس لیے کوئی بھی ایسا کام کر دیتے ہیں جو اخلاقیات کے خلاف ہوتے ہیں لیکن چونکہ بچوں کی حرکتیں سب کو بہت اچھی لگتی ہیں اور ان سے بچوں پر مزید پیار آتا ہے اور بچوں کو بار بار وہی کام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اور وہی کام جب بڑا ہو کر کرے تو سب اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں لہذا والدین کو چاہئے کہ شروع ہی سے بچوں کو ایسی حرکت پر پیار سے سمجھا دینا چاہئے۔

اولاد کے لیے دعا: اولاد کے لیے عملی اقدامات بھی کرنے چاہئیں، حدیث پاک میں ہے کہ تین دعائیں ایسی ہیں جن کے مقبول ہونے میں کوئی شک نہیں:1۔مظلوم کی دعا 2۔مسافر کی دعا اور3۔ والد کی دعا اولاد کے لیے۔ (ترمذی،3 / 362،حدیث:1912)

محترم والدین! مذکورہ طریقے اپنا کر آپ اپنی اولاد کو سدھار سکتے ہیں اللہ کریم والدین کو اولاد کی تربیت قرآن و سنت کر مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اولاد کی تربیت والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ بچے قوم کا مستقبل اور والدین کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ بچوں کو ایک نیک، مہذب اور کامیاب انسان بنانے کے لیے درج ذیل طریقے اپنائے جا سکتے ہیں:

1۔ اچھی مثال قائم کریں: بچے عموماً والدین اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی نقل کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود ان اصولوں پر عمل کریں جو وہ اپنی اولاد میں دیکھنا چاہتے ہیں، جیسے دیانت داری، وقت کی پابندی، اور دوسروں کا احترام۔

2۔ محبت اور شفقت سے پیش آئیں: بچوں کے ساتھ محبت بھرے رویے سے پیش آئیں تاکہ وہ آپ پر اعتماد کریں۔ سختی اور چیخنے چلانے سے بچے بغاوت کی طرف جا سکتے ہیں جبکہ شفقت اور نرمی انہیں مثبت سمت میں لے جاتی ہے۔

3۔ اخلاقی تربیت: بچوں کو اچھے برے کی تمیز سکھائیں اور انہیں اخلاقی اقدار جیسے سچ بولنا، امانت داری، بڑوں کا ادب اور دوسروں کی مدد کرنا سکھائیں۔ دینی تعلیم کی بنیاد ڈالنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اللہ کا خوف اور محبت دل میں رکھیں۔

4۔ مثبت گفتگو کریں: بچوں کو حوصلہ افزائی دینے والے جملے کہیں اور ان کی چھوٹی کامیابیوں پر تعریف کریں۔ حوصلہ افزائی انہیں خود اعتمادی دیتی ہے اور وہ بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

5۔ وقت دینا: بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزاریں۔ ان کی بات سنیں، ان کے مسائل کو سمجھیں اور انہیں رہنمائی فراہم کریں۔ والدین کی توجہ بچوں کو غیر اخلاقی سرگرمیوں سے دور رکھتی ہے۔

6۔ تعلیم کی اہمیت: بچوں کو تعلیم کی اہمیت بتائیں اور انہیں علم حاصل کرنے کے لیے شوق دلائیں۔ اسکول کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف مہارتیں سکھائیں جو زندگی میں کام آئیں۔

7۔ غلطیوں پر مناسب رویہ اپنائیں: بچوں کی غلطیوں پر سخت ردعمل دینے کے بجائے سمجھداری اور صبر سے انہیں درست کریں۔ غلطی کی نشاندہی کریں مگر ساتھ ہی اصلاح کا طریقہ بھی بتائیں تاکہ وہ بہتر ہو سکیں۔

8۔ نظم و ضبط سکھائیں: بچوں کو وقت کا پابند بنائیں اور انہیں ذمہ داری کا احساس دلائیں۔ نظم و ضبط انہیں زندگی میں کامیاب انسان بننے میں مدد دیتا ہے۔

9۔ دوستی کا رشتہ قائم کریں: بچوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھیں کہ وہ آپ سے اپنے مسائل اور راز بلا جھجھک شیئر کر سکیں۔ والدین کی حیثیت سے ساتھ ساتھ ان کے دوست بھی بنیں۔

10۔ ٹیکنالوجی کا استعمال معتدل کریں: بچوں کے موبائل، انٹرنیٹ اور دیگر ٹیکنالوجی کے استعمال پر نظر رکھیں اور انہیں مثبت سرگرمیوں جیسے کھیل، کتابیں پڑھنا اور تخلیقی کاموں کی طرف راغب کریں۔

11۔ دعا اور تربیت میں استقامت: اولاد کی اصلاح کے لیے والدین کو دعا کا سہارا لینا چاہیے۔ اللہ سے ہدایت اور نیک اولاد کی دعا کرنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔

اولاد کو سدھارنے کا عمل وقت اور محنت طلب ہے۔ والدین کو مستقل مزاجی اور حکمت سے بچوں کی تربیت کرنی چاہیے تاکہ وہ معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ بچوں کی صحیح تربیت نہ صرف والدین کی کامیابی ہے بلکہ یہ پوری قوم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ علم سیکھنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اولاد کو سدھارنے کے کئی طریقے ہیں جو والدین کو مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ یہاں کچھ اہم نکات دیئے جا رہے ہیں:

1۔ مثالی رویہ: بچوں کے سامنے خود ایک مثالی رویہ پیش کریں۔ اگر آپ اچھے اخلاق، ایمانداری اور محنت کی مثال قائم کریں گے تو بچے بھی آپ کی پیروی کریں گے۔

2۔ محبت اور توجہ: بچوں کو محبت اور توجہ دیں۔ ان کے ساتھ وقت گزاریں، ان کی باتیں سنیں اور ان کی ضروریات کو سمجھیں۔ یہ انہیں احساس دلائے گا کہ آپ ان کی فکر کرتے ہیں۔

3۔ تعلیم کی اہمیت: بچوں کو تعلیم کی اہمیت سمجھائیں۔ انہیں کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیں اور ان کی تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی لیں۔

4۔ حدود کا تعین: بچوں کے لیے واضح حدود مقرر کریں۔ انہیں بتائیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، اور ان حدود کی پاسداری کریں۔

5۔ مثبت حوصلہ افزائی: جب بچے اچھا کام کریں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کی کامیابیوں پر تعریف کریں تاکہ وہ مزید محنت کرنے کی خواہش رکھیں۔

6۔ مشکلات کا سامنا: اگر بچے کسی مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں تو انہیں سمجھائیں کہ مشکلات کا سامنا کرنے سے ہی انسان مضبوط ہوتا ہے۔ ان کی مدد کریں کہ وہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

7۔ دوستانہ ماحول: گھر میں دوستانہ اور خوشگوار ماحول بنائیں۔ بچوں کو محسوس ہونا چاہیے کہ وہ گھر میں محفوظ ہیں اور ان کی رائے اہم ہے۔

اولاد کو برے کاموں سے روکنے کے لئے کچھ طریقے ہیں جو آپ آزما سکتے ہیں:

1۔ بات چیت کریں: سب سے پہلے، اس کے ساتھ کھل کر بات کریں۔ اسے بتائیں کہ آپ کو اس کے برے کاموں کے بارے میں کیا تشویش ہے اور کیوں آپ چاہتے ہیں کہ وہ انہیں نہ کرے۔

2۔ مثبت متبادل پیش کریں: اس کو بتائیں کہ وہ اپنے وقت اور توانائی کو کس طرح بہتر طریقے سے استعمال کر سکتا ہے۔ مثلاً، اگر وہ خطرناک کام کر رہا ہے تو اسے کوئی محفوظ اور مفید سرگرمی تجویز کریں۔

3۔ نمونہ بنیں: خود بھی اچھے کام کریں اور اس کے سامنے ایک مثال قائم کریں۔ اگر وہ آپ کی مثبت تبدیلیوں کو دیکھے گا تو شاید وہ بھی متاثر ہو۔

4۔ حمایت فراہم کریں: اگر وہ کسی مشکل میں ہے تو اس کی مدد کریں۔ کبھی کبھار لوگ برے کاموں کی طرف اس لیے جاتے ہیں کیونکہ انہیں حمایت یا رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

5۔ سرگرمیوں میں شامل کریں: اسے ایسی سرگرمیوں میں شامل کریں جو مثبت ہوں، جیسے کھیل، مطالعہ، یا فنون لطیفہ۔ اس سے اس کا دھیان برے کاموں سے ہٹ سکتا ہے۔

اولاد انسان کی زندگی کا سرمایہ ہوتی ہے اولاد کو سدھارنے کے لیے بہت سے اصولوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

1۔ حسن اخلاق: والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو ہر ایک سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کی ترغیب دیں کہ اس میں بہت سی دینی اخروی سعادت پوشیدہ ہیں جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا: حسن اخلاق گناہوں کو اس طرح پگھلا دیتا ہے جس طرح دھوپ برف کو پگھلا دیتی ہے۔ (شعب الایمان، 6/247، حدیث: 8036)

2۔ پاکیزگی: والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو صاف ستھرا رہنے کی تاکید کریں حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک ہے پاکیزگی پسند فرماتا ہے ستھرا ہے ستھرا پن پسند فرماتا ہے۔ (ترمذی، 4/365، حدیث: 2808)

3۔توکل: اپنی اولاد کا توکل کے لیے ذہن بنائیں کہ ہماری نظر اسباب پر نہیں خالق اسباب یعنی اللہ پر ہونی چاہیے رب تعالیٰ چاہے گا تو یہ روٹی ہماری بھوک مٹائے گی وہ چاہے گا تو یہ دوا ہمارے مرض کو دور کرے گی۔

4۔صبر: اپنی اولاد کا ذہن بنائیے کہ جب بھی کوئی صدمہ پہنچے تو بلا ضرورت شرعی کسی کے سامنے بیان نہ کیجیے اور صبر کیجیے اور صبر کا ثواب کمائیے حضور ﷺ نے فرمایا: جس بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ اس پر صبر کرے اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ فرمائے گا۔ (ترمذی، 4/145، حدیث: 2332)

5۔وقت کی اہمیت: اپنی اولاد کو وقت کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے ان کا ذہن بنائیے کہ وقت ضائع کرنا عقل مندوں کا شیوا نہیں۔

حضرت داؤد طائی کے بارے میں منقول ہے کہ آپ روٹی پانی میں بھگو کر کھا لیتے تھے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں جتنا وقت لقمے بنانے میں صرف ہوتا ہے اتنی دیر میں قرآن کریم کی 50 آیتیں پڑھ لیتا ہوں۔ (تذکرۃ الاولیاء، 1/201)

اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے اصول ہیں جس سے اولاد کی تربیت میں سدھار پیدا ہو سکتا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اولاد کی ایسی تربیت کریں جس سے اولاد کبھی بھی برے راستے پر نہ چلے۔

اولاد اللہ کریم کی طرف سے والدین کے لیے ایک نعمت ہے اور اس کی قدر ہر کوئی نہیں کرتا حقیقی والدین وہی ہیں جو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں بچپن سے ہی ان کی ہر لحاظ سے شریعت کے مطابق تربیت کریں کیونکہ اولاد وہی کرتی ہے جو اپنے بڑوں کو کرتے دیکھتی ہے اور اگر اولاد بگڑ جائے یا وہ برے افعال میں مبتلا ہوجائے تو پھر ان کو سدھارنا انتہائی مشکل کام ہے اس لیے ہر آن اولاد پر نظر رکھیں وہ کن کاموں میں آج کل مصروف ہے اگر برے کاموں میں مبتلا ہے تو فورا ان کو ان کاموں سے روکا جائے اور اچھے کاموں کی ترغیب دلائی جائے آئیے ذیل میں چند اولاد کو سدھارنے کے طریقے بتائیں جائیں گے ملاحظہ کیجیے۔

(1)تین باتیں سکھاؤ: آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کو تین(3)چیزیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبّت، اہل بیت کی محبّت اور قرآن پاک پڑھنا۔ (الصواعق المحرقہ، ص 172)

(2) تربیت کرنے میں سختی نہ کریں: بعض والدین اپنی اولاد کی تربیت تو کرتے ہیں ہر لمحہ اپنی اولاد کی تربیت تو کرتے ہیں لیکن اتنا سخت رویے اور انداز کے ساتھ کہ بچہ سدھرنے کی بجائے اور بگڑ جاتا ہے تو یاد رکھیں جو کام نرمی سے ہوتا ہے وہ گرمی سے نہیں ہوتا تو ہر آن ہر لمحہ نرمی والا انداز ہونا چاہئے اس سے آپ کی اولاد پر اچھا اثر پڑے گا۔

(3)دیکھ کر سیکھنا: یاد رکھیں اولاد جو دیکھے گی وہی کرے گی لہذا والدین کو چاہئے کہ وہ خود نیک کام کریں نماز اور تمام احکام شرعیہ اچھے انداز میں پورے کریں ان شاء اللہ الکریم اس کی برکت سے ان کی اولاد میں بھی مثبت اثر پڑے گا اور ان کا نیک کاموں میں دل بھی لگے گا۔

(4)نظر رکھیں:والدین کو چاہیے وہ اپنی اولاد پر نظر رکھیں کہ معاذ اللہ ان کی اولاد کہیں برے کاموں یا بری صحبتوں میں تو نہیں پڑ گئی اگر والدین اپنی اولاد پر نظر رکھیں گے تو اولاد کو بھی ڈر ہو گا جس کی وجہ سے برے کاموں سے بچ جائے گی۔

(5) بلا وجہ جھڑکنے سے بچیں: بعض اوقات والدین اپنی کسی پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں ایسے میں اگر اولاد ان سے کچھ جائز خواہش کرے تو والدین بغیر کسی وجہ سے جھڑک دیتے ہیں جس کا اولاد پر برا اثر پڑتا ہے اولاد والدین سے متنفر ہو جاتی ہے اور پھر باغی ہو جاتی ہے کسی کی بات نہیں سنتی لہذا والدین کو اگر کوئی پریشانی ہو تو کوشش کریں اس کا اظہار اگر اولاد پر کرنا تو اس کے لیے جھڑکنے کی بجائے نرم انداز سے بتائیں تاکہ اولاد بری سوچ سے بچے اور متنفر نہ ہو۔

وظیفہ کیجئے: نافرمان بچے کو فرماں بردار کرنے کے لئے روحانی علاج پیش خدمت ہے: جو شخص یا شہید 21 بار صبح سورج نکلنے سے پہلے نافرمان بچے ىا بچى کى پىشانى پر ہاتھ رکھ کر آسمان کى طرف منہ کرکے پڑھے ان شآء اللہ اس کا وہ بچہ ىا بچى نىک بنے۔ یہ وظیفہ اس طرح نہیں پڑھنا کہ بچے کو بولیں: ادھر آ! تو بہت شیطانی کرتا ہے، میں وظیفہ پڑھتا ہوں، تو صحیح ہوجائے گا۔اس طرح اور زىادہ بگاڑ پىدا ہوجائے گا۔ وظیفہ اس طرح پڑھیں کہ بچے کو پتا نہ چلے۔ بچے کو جھوٹ بھی نہیں بولنا اور حکمت عملی سے کام لے کر یہ وظیفہ پڑھنا ہے۔ شہید اللہ پاک کا نام ہے، ان شاء اللہ آپ کو اس کی برکتیں حاصل ہوں گی۔

یاد رکھیں کہ بچوں کی تربیت وقت، محبت اور مستقل محنت کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر آپ ان اصولوں پر عمل کریں گے تو ان شاء اللہ آپ کی اولاد ایک بہترین شخصیت کی حامل ہوگی۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں ہر کام شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور ہماری ہمارے والدین پیرومرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین

بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر انہیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی۔بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ اور قوم وجود میں آتی ہے، اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔ بچپن کی تربیت نقش کالحجر ہوتی ہے، بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبلوغت کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوں گے، جنہوں نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔نیز! اولاد کی اچھی اور دینی تربیت دنیا میں والدین کے لیے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہے، جب کہ نافرمان وبے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کے لیے وبال جان ہو گی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے

گی۔

اولاد کو ﷲ ربّ العزت نے دنیاوی زندگی میں رونق سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ رونق اسی وقت ہے جب والدین کی جانب سے اپنی ذمے داری کو پورا کرتے ہوئے بچوں کی صحیح نشو و نما، دینی و اخلاقی تربیت کی جائے اور بچپن ہی سے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔

لہذا والدین کو اپنی اولاد کے حوالے سے بہت محتاط اور ذمہ دار ہونا چاہیے ان کو وقت دینا چاہیے اور اچھی عادات اپنانے کا ذہن بنانا چاہیے اور بری عادات سے بچنے کی تلقین کرنی چاہیے۔

ذیل میں اولاد کو سدھارنے کی چند ہدایات پیش کی جاتی ہیں ان کو اپنانے سے ان شاءاللہ بہتر نتائج اخذ ہوں گے۔

1۔ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال: سوشل میڈیا دو دھاری تلوار ہے یعنی اس کے فوائد بہت ہیں تونقصانات بھی بہت۔ بات کریں فوائد کی تو دور حاضرمیں سوشل میڈیا سیکھنے کا آسان ترین، سستا ترین اور سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ ہر شعبے کی معلومات ہمارے ایک کلک کے فاصلے پر دستیاب ہیں۔ تاہم اس کا حد سے زیادہ یا بے مقصد استعمال نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ جسم و ذہن پر بھی خطرناک اثرات ڈالتا ہے۔ اس ضمن میں والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ایسی ذہنی تربیت کریں کہ وہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں اور اس کے منفی اثرات سے بچیں۔

2۔اصول بنائیں: ماؤں کوچاہئے کہ اپنے گھرکے کچھ مخصوص اصول بنائیں جس پر تمام لوگوں کو عمل کرناضروری ہو، اور ماؤں کو چاہئے کہ ان اصولوں پر سختی سے عمل پیرا رہیں۔ اپنی سہولت یا بچوں کی ضد کی وجہ سے ان اصولوں میں پھیربدل نہ کریں ورنہ بچہ آپ کی باتوں کو اہمیت نہیں دے گا اور ہمیشہ ان اصولوں سے انحراف کی کوشش کرے گا۔

3۔ مقصددیجئے: بچوں کی ضداور غلط حرکتیں کرنے کی عادت اگر بڑھتی جارہی ہے تو آپ کو انہیں اپنے پاس بٹھا کر سمجھانا چاہئے کہ غلط طریقے سے برتاؤ کرنے کے برے نتائج ہوسکتے ہیں۔ انہیں آپ مقصد دیجئے کہ آپ کو اچھا اور کامیاب انسان بنناہے تو آپ کو اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی۔

یہ بات تو طے ہے کہ بچے اپنے بڑوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ اس لئے مائیں بچوں کے سامنے اچھی عادات کا مظاہرہ کریں، تاکہ بچے بھی ایسی ہی عادات اپنائیں۔

4۔ بہتر ماحول دیجئے: بچے وہ نہیں کرتے جو انہیں کہا جاتا ہے، بلکہ وہ کرتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس لئے ماؤں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو بہترماحول دیں۔ اگرمائیں خود گھر کے بزرگوں یا لوگوں پرغصہ کررہی ہو یاچلارہی ہو توبچہ بھی یہی سیکھے گا۔ ایسے میں ماؤں کو چاہئے کہ گھر کا ماحول اور بچوں کی تربیت اس طرح کرے کہ بچہ سمجھ جائے کہ بڑوں کی باتوں کو مانناضروری ہوتاہے۔

آخر میں رب کریم سے دعا ہے کہ سب کی اولادوں کو نیک اور والدین کا فرمانبردار بنائے اور بے اولادوں کو نیک صالح اولاد عافیت کے ساتھ عطا فرمائے۔

بگڑی اولاد کو اگر پیار و محبت سے سمجھایا جائے ان کی طرف توجہ کی جائے تو یقینا وہ اپنے والدین کے فرمانبردار بن جائیں گے لیکن ہمارے معاشرے میں بچہ ابھی چھوٹا ہے کہہ کر لاپرواہی کی جاتی ہے اور پھر جب وہ بگڑ جائے تو پیار سے سمجھانے کی بجائے اسے ہر بات پر ڈانٹا جاتا ہے جس سے وہ ضدی ہو جاتا ہے اور اکثر ہمارے زیادہ پیار اور محبت کی وجہ سے بچہ ہر بات پر ضد کرتا ہے ہر بچہ ضد کرتا ہے ایسا نہیں کہ بچے کا ضد کرنا غلط ہے لیکن بات بات پر اور حد سے زیادہ ضد کرنا غلط ہے اور اس کا اثر بچے کے مستقبل پڑھتا ہے اس لیے ماؤں کو درج ذیل باتوں پر عمل کرتے ہوئے بچوں کی تربیت کرنی چاہیے ماں کو چاہیے کہ بچے کی بات بغور سنے اور اگر اس کی بات میں اچھائی ہے تو اس بار اس کی حوصلہ افزائی کرے۔

اگر بات میں کوئی برا رد عمل ہے تو اس کی قرآن و حدیث کے ذریعے درستگی کرے بچوں کی پیش کردہ رائے سے ناگواری کا اظہار نہ کریں جب اپ بچوں کے کسی چیز پر ناگواری کا اظہار کرتے ہیں تو وہ بغاوت کرنے لگتے ہیں بچوں کو کسی چیز پر مجبور کرنے کی بجائے انہیں قرآن حدیث کے ذریعے سمجھایا جائے اور سنت رسول پر عمل کرنے کی ترغیب دلائی جائے بچے کے تربیت کے معاملے میں حدیث پیش کی جاتی ہے حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے والدین سے نیک برتاؤ کرو یہ تو تمہارے بیٹے تمہارے ساتھ حسن سلوک سے پیش ائیں گے اور تم پاک دامنی احتیار کرو گے تو تمہاری عورتیں بھی پاک دامنی اختیار کریں گے اولاد کے نیک ہونے کا ایک سبب والد کا کسی نیک عورت سے شادی کرنا ہے نبی کریم ﷺ نےآدمی کو دیندار عورت سے شادی کرنے کی ترغیب دلائی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اس کے خاندان کی وجہ سے اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے چنانچہ تو دین دار عورت سے شادی کر کے کامیابی حاصل کر اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں یعنی آخر میں تجھے ندامت ہوگی۔ (بخاری، 3/429، حدیث: 5090)

اولاد کے بگڑنے میں سب سے اہم کردار ماں باپ کا ہوتا ہے۔ جب ماں نے بچے کو کسی غلط کام سے روکنا نہیں تو بچے نے کس طرح سیدھا ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اور بگڑے گا۔ جب والدین کا مقصد حیات حصول دولت عیش و آرام بن جائے تو وہ اولاد کی ترتیب کیا کرئے گے اور پھر جب اولاد کی طرف سے ایسا بگڑا پن دیکھتے ہیں تو ہر ایک سے اسکے بگڑنے کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایسے والدین کو غور کرنا چاہئے کہ اولاد کو اس حال تک پہنچانے میں ان کا کتنا ہاتھ ہے کیونکہ انہوں نے اپنے بچے کو ABC تو سکھا یا مگر قرآن پڑھنا نہ سکھایا مغربی تہذیب کے طور طریقے بتائے مگر سنتیں نہ سکھائیں، انہیں جنرل سائیں وغیرہ کا بتایا مگر ان کو فرض علوم نہ سکھائے اسکے دل میں مال کی محبت ڈالی مگر عشق رسول ﷺ کی شمع نہ روشن کی اسے دنیاوی ناکامیوں کے بارے میں بتایا مگر یہ نہ بتایا کہ اگر آخرت میں ناکام ہو گئے تو کیا ہوگا اس کی ناکامی کا خوف نہ دلایا تو ایسی صورت میں جب بچے کو کچھ سیکھانا ہی نہیں اسکی دین کی طرف رہنمائی ہی نہیں کرنی تو اسطرح اولادنے تو بگڑنا ہی ہے۔

اس لیے اپنی اولاد کو سیدھے راستے پر چلائیے ان کو دین کی طرف راغب کرے انہیں قرآن سیکھنے کے لیے بھیجے۔ ان کو حضور ﷺ کی سنتوں کے بارے میں بتائے ایسے میں ہمارا شعبہ دعوت اسلامی ہمیں بہت سی آسائش فراہم کر رہا ہے۔ بہت سے بچے قرآن کی تعلیم حاصل کر ر ہے ہیں اور طرح طرح کے کورس کر رہے ہیں اور اپنے ماں باپ کا نام روشن کر رہے ہیں اور سیدھے راستے پر چل رہے ہیں۔ ماشاء اللہ

اللہ پاک سبکی اولاد کو فرمانبردار بنائے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین

اولاد کو سدھارنے کے بہت سے روحانی علاج بھی ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔ نافرمان اولاد کو فرمانبردار بنانے کے لئے تاحصول مراد نماز فجر کے بعد آسمان کی طرف رخ کر کے کا يا شہيد 21 بار پڑھیں ( اول و آخر ایک بار درود پاک)۔

2۔ ہر نماز کے بعد ذیل میں دی ہوئی دعا اول و آخر درود شریف کے ساتھ ایک بار پڑھ لیں۔ انشاء اللہ عزوجل بال بچے سنتوں کے پابندیں گے۔ اور گھر میں مدنی ماحول قائم ہوگا:

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴) (پ 9، الفرقان: 74)


والدین کی ذمہ داریوں میں سے سب سے اہم ذمہ داری اولاد کی اچھی تربیت کرنا ہے ان کو اچھے برے کام کی تمیز سکھانا ہے تاکہ گھر اور معاشرہ پرامن ہو سکے اور بچوں کو بھی صحیح غلط کی تمیز آ سکے۔ اولاد کو سدھارنےکے چند اسباب بیان کیے گئے ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی بہترین تربیت کی جا سکتی ہے اس میں سب سے پہلا

اخلاق و کردار: بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے یعنی اس کی ماں ہوتی ہے اور پھر باقی گھر والے ہوتے ہیں بچہ جو اپنی ماں یا اپنے گھر والوں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے وہی طریقہ اپناتا ہے تو بہتر ہے کہ بچوں کی ماں اپنے اخلاق کو کردار مثبت رکھے تاکہ اولاد کے لیے اخلاق اور کردار بھی بہتر ہو سکے۔

مثبت گفتگو: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے اپنے بزرگوں کی عزت کریں اپنے بزرگوں سے کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرے ان کا ادب و احترام کرے تاکہ ان کی اولاد بھی اپنے بڑوں کی عزت کرے اور ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش ائے۔

محبت اور توجہ: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ محبت سے پیش آئے ان کی ہر بات کو اہمیت دے اور توجہ سے سنیں تاکہ بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہو اور والدین کو ان کی تربیت کرنے میں آسانی ہوگی۔

تعلیم و تربیت: والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینی چاہیے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی علوم پر بھی توجہ دینی چاہیے بالخصوص فرائض علوم پر تاکہ بچوں میں دنیا کے ساتھ آخرت کی فکر کرنے کی کہ بھی کڑھن پیدا ہو۔

حوصلہ افزائی کرنا: والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کہ اچھے کاموں پر ان کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ ان میں کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور اپنے کام کو خوش اسلوبی سے انجام دے۔

دوست بنائیں: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ گل مل کر رہے ہیں اور اپنے بچوں کو اپنا دوست بنائیں تاکہ ان کے بچے ان کے ساتھ کوئی بھی بات کرنے میں جھجک محسوس نہ کریں۔

ایکٹیوٹیز: والدین کو چاہیے کہ اپنے اولاد کی ایکٹیوٹیز پر نظر رکھے وہ کب کیا کرتے ہیں یہ کیا کرنا چاہتے ہیں ان کی ایکٹیویٹیز کیا ہے۔

مثالی کردار: والدین کو چاہیے کہ مثالی کردار کے لیے اپنے بچوں کو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی زندگی کی مثال دے کر ان کی زندگیوں کو بھی بہتر بنایا جائے۔

اور اپنی اولاد کے لیے دعا کریں کہ اللہ پاک آپ کی اولاد کو نیک صالح اور والدین کا فرمانبردار بنائے۔


بچے معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں اگر یہی بگڑ جائیں تو معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ فتنہ و فسادات عام ہو جاتے ہیں۔ بچوں میں ضد اور غلط حرکتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے اگر یہ بڑھ جائے تو انہیں شفقت کے ساتھ سمجھانا چاہیے ورنہ غلط طریقے سے برتاؤ کرنے کے برے نتائج ہوسکتے ہیں۔

تربیت میں تدریجی انداز اختیار کرنا چاہیے، چنانچہ غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے: 1:سمجھانا۔2:ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔3:مارکے علاوہ کوئی سزا دینا۔4:مارنا۔5: قطع تعلق کرنا۔ یعنی غلطی ہوجانے پر بچوں کی تربیت حکمت کے ساتھ کی جائے، اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحۃً برائی کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات بٹھائیں کہ اگر دوبارہ ایسا کیا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اسے غلطی کا احساس دلایاجائے۔ بچہ کی پیارومحبت سے تربیت واصلاح کا ایک واقعہ حضرت عمر بن ابی سلمہ سے منقول ہے،

فرماتے ہیں کہ میں بچپن میں رسول اللہ ﷺ کی زیرتربیت اور زیرکفالت بچہ تھا، میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے لڑکے! اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھاؤ۔ (بخاری، 3/521، حدیث: 5376) اگر نصیحت اور آرام سے سمجھانے کے بعد بھی بچہ غلطی کرے تو اسے تنہائی میں ڈانٹا جائے اور اس کام کی برائی بتائی جائے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا کہا جائے۔

ہمارے پیارے آقاﷺ ہر کام میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اس لیے بچوں کی تربیت کے معاملے میں حضور پاک ﷺ کا انداز تربیت پیش نظر ہونا چاہیے۔

رسول پاک ﷺ کی شفقت کو دیکھا جائے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے دس سال رسول پاک ﷺ کی خدمت میں گزارے لیکن کبھی بھی انہیں ڈانٹا نہیں گیاجس کی گواہی حضرت انس رضی اللہ عنہ خود دیتے ہیں۔ (مسلم، ص 972، حدیث 2309)

نبی کریم ﷺ اچھی باتو ں کی تر غیب دلاتے،ایک بار حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے میرے بیٹے! اگر تم سے ہوسکے تو صبح و شام ایسے رہو کہ تمہارے دل میں کسی کی طرف سے کینہ نہ ہو، اے میرے بیٹے! یہ میری سنّت ہے اور جس نے میری سنّت سےمحبّت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنّت میں ہوگا۔

اگر اولاد میں گستاخی اور نافرمانی کا رویہ دیکھیں تو فوری اللہ سے رجوع کریں اور یہ عمل شروع کردیں۔بعد از نماز عشا اول آخر اسم ربی یا نافع اکتالیس سو بار اکیس دن تک پڑھیں اور اللہ کے حضور اسکے راہ راست پر آنے کی دعا کریں،انشا ء اللہ بگڑے ہوئے بچوں کی اصلاح ہوگی۔

تربیت کی دو قسمیں: تربیت دو قسم کی ہوتی ہے: 1:ظاہری تربیت،2:باطنی تربیت۔ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش وغیرہ کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔اور باطنی تربیت سے مراد ان کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔ اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔

ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور ان کی ضروریات کی کفالت پر انہیں ابھارتے ہیں۔ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔

اللہ پاک ہمیں اچھے انداز میں اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین