18 اپریل 2024 ء کو دعوتِ اسلامی کے شعبہ  رابطہ برائے شخصیات کے صوبائی ذمہ دار محمد لیاقت عطاری نے فیصل آباد میں کئی اہم شخصیات ٭آر پی او فیصل آباد ڈی آئی جی ڈاکٹر عابد خان ٭ریجنل آفیسر سپیشل برانچ ایس پی مہر محمد سعید ٭ڈسٹرکٹ آفیسر سپیشل برانچ ڈی ایس پی جاوید اقبال ٭ایم پی اے میاں اجمل آصف ٭صدر ڈسٹرکٹ بار کونسل فیصل آباد میاں انوار الحق اور ٭پی ایس او ٹو آر پی او محمد شبیر سے ملاقات کی ۔

دوران ملاقات کئی امور پر تبادلۂ خیال ہوا ۔ صوبائی ذمہ دار محمد لیاقت عطاری نے ان شخصیات کو دعوتِ اسلامی کی دینی اور فلاحی خدمات کا تعارف کروایا اور دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں تعاون کرنے کی درخواست کی۔ شخصیات نے دعوت اسلامی کی خدمات کو سراہا اور ممکنہ تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ (رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات عطاری مجلس کراچی) 


عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام 25 اپریل 2024ء بعد نماز مغرب دنیابھر میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا جائیگا جن میں اراکینِ شوریٰ و مبلغین دعوتِ اسلامی سنتوں بھرے بیانات فرمائیں گے۔ ہفتہ وار اجتماع میں تلاوت کلامِ پاک، نعت شریف، بیان، ذکر و اذکار اور رقت انگیز دعا کا سلسلہ ہوتا ہے جس میں ہزاروں عاشقانِ رسول شریک ہوکر اپنی اصلاح کرتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمد قاسم عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی سے مدنی چینل پر براہِ راست سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

اس کے علاوہ غوثیہ مسجد بلدیہ ٹاؤن کراچی میں رکنِ شوریٰ مولانا حاجی عبد الحبیب عطاری، جامع مسجد نورانی نشتر اسکوائر ماڈل ٹاؤن ملیر میں رکن شوریٰ حاجی محمد امین عطاری، مدنی مرکز فیضان مدینہ گوجرانوالہ میں رکن شوریٰ حاجی محمد اظہر عطاری، فیضان اسلام مسجد خیابان سحر فیز 7 ڈیفنس کراچی میں رکن شوریٰ حاجی محمد علی عطاری،کلثوم مسجد شاہ فیصل کالونی نمبر 03 میں رکنِ شوریٰ حاجی فضیل عطاری، میانوالی میں رکن شوریٰ مولانا حاجی ابو ماجد محمد شاہد عطاری مدنی اور مدنی مرکز فیضان مدینہ حیدر آباد لطیف آباد میں نگران مجلس شعبہ پروفیشنلز فورم محمد ثوبان عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

تمام عاشقانِ رسول سے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔


اٹلی، یورپ کے شہر مولینیلا (Molinella) میں موجود دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ایصالِ ثواب اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبہ جات کے عاشقانِ رسول سمیت ذمہ دار اسلامی بھائیوں کی شرکت ہوئی۔

اجتماع کے آغاز میں تلاوتِ قراٰن و نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و سلم پڑھی گئی جبکہ مبلغِ دعوتِ اسلامی نے سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے شرکائے اجتماع کو اپنے مرحومین کے لئے زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب کرنے کا ذہن دیا۔

آخر میں مرحومین کے لئے دعا و فاتحہ خوانی کا سلسلہ ہوا اور مبلغِ دعوتِ اسلامی نے حاضرین سمیت دیگر عاشقانِ رسول کے مرحومین کے لئے دعائے مغفرت کروائی۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


ساؤتھ کوریا کے شہر  تھیگو میں قائم عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں عاشقانِ رسول کے مرحومین کے لئے ایصالِ ثواب اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں بزنس کمیونٹی سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

تلاوت و نعت کے بعد مبلغِ دعوتِ اسلامی نے سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے حاضرین کی مختلف امور پر تربیت کی جبکہ وہاں موجود اسلامی بھائیوں سمیت دیگر عاشقانِ رسول کے مرحومین کے لئے دعا و فاتحہ خوانی کا بھی سلسلہ ہوا۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


ماپوتو شہر، موزمبیق میں قائم دعوتِ اسلامی کے جامعۃ المدینہ فیضانِ صحابہ و اہلِ بیت میں شعبہ مدنی کورسز کے تحت 12 دینی کام کورس اور معلم کورس منعقد ہوا جس میں طلبۂ کرام نے شرکت کی۔

مقامی مبلغینِ دعوتِ اسلامی سمیت بذریعہ ویڈیو لنک ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے کورس میں شریک طلبۂ کرام کو کورس کروایا اور انہیں 12 دینی کاموں کے حوالے سے مختلف امور پر رہنمائی کی۔

اس دوران مبلغینِ دعوتِ اسلامی نے تمام طلبۂ کرام کو احسن انداز میں 12 دینی کام کرنے اور دیگر مختلف کورسز میں داخلہ لینے کا ذہن دیا جس پر طلبۂ کرام نے مدنی چینل کو اپنے تأثرات بھی دیئے۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

دعوتِ اسلامی  کے پروفیشنلز ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے 30 اپریل 2024ء بروز منگل رات 9:30 بجے ایک آن لائن ٹریننگ سیشن ہونے جارہا ہے جس کا عنوان اپنی صلاحیتوں کو اسلام کے لئے کیسے استعمال کریں؟“ ہوگا۔

اس سیشن میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی وقار المدینہ عطاری آئی ٹی پروفیشنلز،انجینئر،فنا نس ،ای ۔کامرس اسپیشلسٹ اور فری لانسر کے طور پر کام کرنے والے عاشقانِ رسول کی تربیت فرمائیں گے۔مذکورہ شعبہ جات سے وابستہ افراد کو خصوصیت کے ساتھ سیشن جوائن کرنے کی درخواست ہے۔(رپورٹ :رمضان رضا عطاری)


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں ! دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنےاور رعایا کو حکمرانوں کے حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے حاکم کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں حکمرانوں کی بات سننا اور بقدر استطاعت اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے : اللہ تعالی نے حکمرانوں کی اطاعت فرماں برداری کا جو حکم ارشاد فرمایا اُسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت واضح کر کے لوگوں تک پہنچا دیا اللہ عز و جل ہمیں نیک اور اچھے پرہیز گار حکمران نصیب فرمائے اور جائز امور کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

(1) اطاعت کرنا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ۔

صراط الجنان میں اس کی تفسیر میں لکھا ہے اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے۔ جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو اُن کی اطاعت نہیں کی جائے گی: آیت میں " أولي الأمر" کی اطاعت کا حکم ہے اس میں امام، امیر، بادشاہ حاکم سب داخل ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان، پارہ 5، ص 230)

(2) ناپسند یدہ بات پر صبر کرنا : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جسے اپنے حاکم سے کوئی ناپسندیدہ شے پہنچے تو اُس کو چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ جو سلطان سے ایک بالشت بھی دور نکلا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ ( ریاض الصالحین جلد 5 ، ص 657)

(3)اہانت نہ کرنا : حضرت سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : " جس نے سلطان کی اہانت کی، اللہ عزوجل اُسے ذلیل کرے گا" ۔ ( ترمذی شریف، حدیث 2231)

(4) بات سننا :حضرت ام الحصین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پر ناقص الاعضاء غلام حاکم بنا دیا جائے جو تم کو اللہ کی کتاب سے چلائے اُس کی سنو اور اطاعت کرو. (مرآۃ المناجح , جلد 5 ص 382)

(5) حکم ماننا: حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر مسلمان پر حاکم کا حکم سننا اور اُس کی اطاعت کرنا لازم ہے چاہے وہ حکم اس کو پسند ہو یا نہ ہو سوائے گناہ کے حکم کے کہ جب گناہ کا حکم دیا جائے تو اُسے نہ سننا لازم ہے اور نہ ہی اُس کی اطاعت کرنا لازم ہے. (مسلم ، کتاب الامارة،حدیث 4763)

اللہ عزوجل ہمیں حاکم کا حکم ماننے اور اس کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


معاشرے کا حکومتی نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے دین اسلام حکمرانوں کو دعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور حکمرانوں کا حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے جیسے حکمرانوں پر دعایا کی دیکھ بال لازم ہے ویسے ہی دعایا پر بھی اپنے حکام کی اطاعت و فرمانبرداری لازم ہے اور حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں کیونکہ حکمرانوں کی مخالفت سے اسلام کی اجتماعیت کو نقصان پہنچتا ہے افتراق و انتشار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جبکہ شریعت اسلامیہ کو مسلمانوں کا متحد رہنا پسند ہے ہاں اگر کوئی امیر یا حاکم شریعت اسلامیہ کے خلاف کوئی حکم دے تو اس معاملے میں اسکی اطاعت واجب نہیں بلکہ ناجائز و گناہ ہے۔ آئیے اب ہم حاکم کے حقوق سنتے ہیں؟

(1) حاکم کی اطاعت کرنا: علامہ ابو عبد الله محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حاکم اگر کسی جائز کام کا حکم دے تو اسکی اطاعت کرنا واجب ہے اور اگر نا جائز کام کا حکم دے تو ہرگز اسکی اطاعت نہ کی جائے پھر اگر وہ ناجائز کام کفر ہو تو مسلمانوں پر اس حاکم کو معزول کرنا واجب ہے۔ (ریاض الصالحین جلد 5 ص634)

(2)ظالم حکمران کے خلاف بغاوت نہ کرنا: حضرت سیدنا علامہ عبد الرحمن ابن جوزی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں حکمران اگرچہ ظالم ہوں مگر پھر بھی ان کے خلاف بغاوت کی ممانعت ہے کیونکہ بغاوت ایک ایسا فتنہ ہے جو جان و مال اور عزت کو ہلاک کر دیتا ہے حاکم کے خلاف بغاوت کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے محل بنوایا اور شہر کو تباہ کر دیا۔ (ریاض الصالحین جلد 5 ص 642)

(3) حاکم سے جھگڑا نہ کرنا : علامہ ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا اگر کوئی حاکم سے جھگڑے تو اسکی گردن اڑا دو۔ (یہ خطاب حکمرانی میں جھگڑنے والے اور اس کی بیعت لینے والے دونوں کو شامل ہے (مرقاة المفاتيح ، كتاب الامارة والقضاء، الفصل الاول 260/7 حدیث3679)

(4)حکمرانوں کے عیب ظاھر نہ کرنا: حضرت سیدنا زید رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں جب اپنے حقوق کے بارے میں دعا کرو تو اپنی آواز پست رکھو کیونکہ بلند آواز سے دعا کرنے میں ظالم حکمرانوں کے عیوب لوگوں پر ظاھر ہوں گے جو ان کے لیے بے عزتی کا سبب بنیں گے اور حکمران اسے اپنے لیے گالی سمجھیں گے اور یہ موجب فتنہ وفساد ہے۔ (ریاض الصالحین جلد 5 ص 653)

(5)سلطان کی توھین نہ کرنا : حضرت سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے سلطان کی اھانت کی اللہ اسے ذلیل کرے گا (ریاض الصالحین جلد 5 ص 659)

پیارے پیارے بھائیو ان تمام اقوال اور احادیث سے معلوم ہوا کہ دعایا کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے حکمران کی اطاعت کرنی چاہیے ہاں اگر وہ برائ کا حکم دے تو اطاعت واجب نہیں بلکہ نا جائز اور گناہ ہے اسکی اصلاح کے لیے اللہ سے دعا کرنی چاہیے اور اپنی اصلاح کی طرف بھی بھر پور توجہ دینی چاہیے کیونکہ رعایا کے برے اعمال کے سبب ہی برے حکمران مسلط کیے جاتے ہیں لوگ حکمرانوں کو تو برا بھلا کہتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے اگر دعایا سدھر جائے تو حکمران بھی سدھر جائے گے اللہ تعالٰی ہمیں حکمرانوں سے محفوظ فرمائے اور نیک حکمران عطا فرمائے ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


دین اسلام میں عادل حاکم و پابند شرح حاکم کا بہت مقام و مرتبہ بیان کیا گیا ہے. اچھے حاکم کو رحمت الہی قرار دیا گیا ہے حکمرانوں کی اطاعت کو اللہ عزوجل کی اطاعت اور ان کی نافرمانی کو اللہ عزوبل کی نافرمانی قرار دیا گیا ہے لیکن ان کی اطاعت صرف ان کاموں میں کی جائے گی جو خلاف شرع نہ ہو۔ عدل کرنے والا حاکم قیامت کے دن عرش کے سائے میں ہو گا جس دن اور کوئی سایہ نہ ہوگا ۔ ان کے اوصاف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں آئیے ان میں سے چند کا مطالعہ کرتے ہیں:

(1)جھگڑا نہ کرنا:حاکم کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے لیے جائز احکامات کو مانا جائے اور جھگڑے سے بچا جائے حاکم سے جھگڑا کرنے کی مذمت میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:فَإِنْ جَاءَ اخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنْقَ الْأَخَرِ. اگر کوئی حاکم سے جھگڑے تو اس کی گردن اڑا دو. (مسلم، کتاب الامارة، باب الامر بالوفاء ببيعة الخلفاء الاول فالاول ، ص 790 ، حدیث : 4776)

(2)حکم کی بجا اوری:روایا کو چاہیے کہ حاکم کے حقوق ادا کرے اور اس کے حکم کی اطاعت کرے اگر شریعت کے موافق ہے حاکم چاہے رعایہ کے حقوق ادا کرتا ہو یا نہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے ایسے حاکم کے بارے میں پوچھا گیا جو رعایہ کے حقوق ادا نہ کرتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ. بے شک ان پر وہ لازم ہے جس کے وہ پابند کیے گئے ہیں اور تم پر وہ لازم ہے جس کے تم پابند کیے گئے ہو۔ (مسلم، كتاب الامارة، باب في طاعة الامراء وان منعوا الحقوق، ص 792 ، حدیث: 4782)

(3)صبر کرنا:رعایہ کو چاہیے کہ اگر حاکم کی طرف سے کوئی بات بری لگے تو اس پر صبر کریں کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا جس سے اپنے حاکم سے کوئی ناپسندیدہ شے پہنچے اسے چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ جو سلطان سے ایک بالشت بھی دور نکلا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم : سترون بعدی امورا تنكرونها ، 429/4، حدیث: 7053)

(4)اکرام کرنا:حاکم اسلام کی عزت و احترام کرنا ضروری ہے اس کی توہین نہ کی جائے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حاکم کی عزت نہ کرنے کے حوالے سے فرمایا:مَنْ آهَانَ السُّلْطَانَ أَهَانَهُ اللهُ . جس نے سلطان کی اہانت, کی اللہ عزوجل اسے ذلیل کرے گا. اس حدیث مبارکہ کی شرح میں ہے کہ شریعت و سنت کے پابند حاکم سے کوئی افضل نہیں, ہو سکتا اس کی دعا رد نہیں کی جاتی, بروز قیامت اسے قرب خداوندی نصیب ہوگا۔ (فیضان ریاض الصالحین، جلد 5،باب 80/حکمرانوں کی اطاعت کا بیان،حدیث 673،ص659)

(5)اطاعت کرنا : حاکم اسلام کی اطاعت کرنا ضروری ہے جس طرح کہ قران پاک میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ. ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت کے تحت علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں اس ایت مبارکہ سے ثابت ہوا جب بادشاہ و حکمران قران و سنت کی پیروی کریں تو رعایا پر ان کی تابعداری واجب ہے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہیے کہ حکام اسلامی کی اطاعت اور ان کے بنائے ہوئے قانون جو شریعت کے موافق ہوں ان کی اطاعت کریں تاکہ ہمارا معاشرہ پرامن مثالی اور خوشگوار بن سکے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حاکم اسلام کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک نے اس زمین پر بعض پر بعض کو حا کم اور بعض کو بعض کی رعایا بنایا ہے۔ لیکن دونوں طرح کے لوگوں کے ایک دوسرے پر حقوق بھی مقرر فرمائے ہیں۔اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ، ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني ( صحيح البخاري : 7137 ، الأنعام / صحيح مسلم : 1835 ، الإمارة )

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی ، اور جس نے امیر و حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر و حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔

کسی بھی معاشرہ میں زندگی کےمعاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئےایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے ، شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا ، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے ، اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہیکہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں ۔

سننا اور ماننا : جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے ، اسکی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد پرواجب ہے ، بشرطیکہ وہ حاکم جائز اور استطاعت کی حدود میں ہے : ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو اور انکی جو امیر و حاکم ہیں ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : مسلمان مرد پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننا فرض ہے (ہر کام میں ) خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا نا پسند ، مگر یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دیا جائے ، پس جب اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر اس کا سننا اور ماننا فرض نہیں ہے ۔

خیر خواہی اور نصیحت : انکے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے ، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے ، انہیں صحیح اور سچا مشورہ دیا جائے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دین خیرخواہی کا نام ہے ، پوچھا گیا کس کی خیرخواہی ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی ، اللہ کے رسول کی ، اللہ کے کتاب کی ، مسلمانوں کے حاکموں کی اور عام مسلمانوں کی۔ ( صحیح مسلم ، بروایت تمیم داری )

انکے ساتھ تعاون : اس معنی میں کہ انکے جو حقوق واجبات اپنے اوپر ہیں انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں اور اگر اپنے کچھ حقوق یا مال ہو رہے ہوں تو انکی وجہ سے اپنا دست تعاون نہ کھینچیں ۔ ایک بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہوجائیں کہ وہ ہم سے اپنا حق تو مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دیں تو ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولا جواب سے خاموش رہے لیکن دوبارہ یا سہ بارہ سوال پر آپ نے فرمایا : تم انکی بات سنو اور مانو ، انکی جو ذمہ داری ہے وہ ان پر ہے اور جو تمہاری ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے ۔ ( صحیح مسلم : 1846 ، بروایت وائل بن حجر )

عدم بغاوت اور انکے لئے دعا : اگر حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے ، بلکہ حتی الامکان اسکے اصلاح کی کوشش کی جائے اور انکے اصلاح و حق پر ثبات کیلئے دعا کی جائے ۔

فرمان نبوی : تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تم انکے لئے دعا کرتے ہو ، اور تمہارے حاکموں میں سے میرے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھتے رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں ، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم ایسے حاکموں کو تلوار لیکر انکے خلاف علم بغاوت نہ بلند کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں ، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں (ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا ) اور جب تم اپنے حاکموں سے کوئی ایسی شے دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو ان کے عمل کو برا سمجھ مگر انکی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا ۔( مسلم : 1855 ، بروایت عوف بن مالک )

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی بھی معاشرہ میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے ۔شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیںرہ سکتا ۔ ا ور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن وامان اس وقت تک قائم نہیں کر سکتا جب تک اسے رعایاکا تعاون حاصل ننہ ہو اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم ومحکوم اپنے فرائض و واجبات اور حقوق کوپہچا نہیں

رعایا پر سختی نہ کرنا : مسلمانوں کا جو حاکم ان پر بلا وجو سختی کرے تو اللہ کے جانب سے اس پر سختی کی جاتی ہے۔ حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایا پر سخت نہ کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو اپنے کچھ کاموں کے لیے ولی و نگران بنا کر بھیجتے تو اس سے فرماتے خوشخبری دو متنفر نہ کرو اور آسانی کرو ۔(مسلم، کتاب الجھا دو اسیر، باب فی الامر با تیسیر و ترک 1 تنفیر ص 739 ، حدیث : 4525)

رعایا کی خبر گیری : جو حکمران اپنے عیش ممیں مگن ہوں. اور رعایا کی حاجات وضورت کی پروانہ کریں تو بروز قیامت ایسے حکمرانوں کی پکڑ ہوگی ۔ حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایا کی خبر گیری ان کی حاجات کوپورا کرے چنانچہ حضرت سیدنا ابو مریم آزدی نےامیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ میں نے رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جسے اللہ مسلمانوں کے کسی معاملہ کا والی و حاکم بنائے پھر وہ ان کی حاجات وضرورت اور محتاجی سے چھپتا پھر ے تو بروز قیامت اللہ کو اس کی ضرورت و حاجت اور محتاجی وفقر سے کچھ سروکار نہ ہوگا۔ (ابوداؤد اور کتاب الخراج --- الخ ، باب فيما يلزم الامام من امر الرعية - - الخ ، 3 / 188 ، حدیث 2948 بتغیر)

رعایا کو دھوکا نہ دینا ، حکمرانی بہت بڑی آزمائش ہے اگر حکمرانی کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے تو یہ وبال جان ہے۔ حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایا کو دھوکا نہ دے چنانچہ سیدنا ابو یعلی معقل بن یسار سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا. جب الله اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو. تو الله اس پرجنت حرام فرما دے گا۔ ( بخاری ، کتاب الاحکام ، باب من استرعى رعية فلم ينصح ، 7150 :456/4، حدیث)

عدم بغاوت اور انکے لیے دعا: اگر اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سےبغاوت جائز نہیں۔ حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایا سے اخلاق سے پیش آئے ان کے لئے سلامتی کی دعا مانگے حضرت سید ناعوف بن مالک فرماتے ہیں میں نے حضور صلی الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا. ۔ تمہارے اچھے حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں تم ان کے لئے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تمہارے برے حکمران وہ ہیں جن سے تم بعض رکھتے ہو اور وہ تم سے بعض رکھتے ہیں تم ان پر لعنت بھجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھجتے ہیں ۔حضرت سیدنا عوف بن مالک کہتے ہیں ہم نے عرض کی یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیا ہم ان سے علیحدہ نہ ہوجائیں ؟اپ نے ف رخ مایا ۔ نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں ۔نہیں جب تک وہ تم میں نمازقائم کریں۔ ( مسلم ، کتاب الامارة ، باب خيار الائمة وشرارهم ص795 ، حدیث : 4805 )

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں امیر کو چاہیے کہ اپنی رعایا کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرے مسلمان پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننافرض ہے۔ حاکم اپنی رعایاکے ساتھ حسن اخلاق سےپیش آئے ان کے درمیان انصاف قائم کرے ۔ اپنی رعایا کی اصلاح کی کوشش کرے

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


معاشرے میں زندگی کے معاملات کو احسن طریقے سے چلانے کے لئے حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہوتا ہے جو اپنے فہم و فراست اور سمجھ بوجھ سے ایک عادلانہ نظام قائم کر سکے اور معاشرے میں امن و امان سلامت رہے لہذا جس طرح حاکم کی ذمہ داریاں و فرائض ہوتے ہیں اسی طرح رعایا پر حاکم کے حقوق ہوتے ہیں جن کو ادا کرنا واجب ہے ۔ حاکم کے چار حقوق ہیں۔

1 حاکم کی بات ماننا: جو شخص حاکم بن گیا ہو تو اب اسکے ماتحتوں پر لازم ہے کہ اسکی بات سنیں اور اس پر عمل بجا لائیں جب تک کہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشادفرماتاہے: "یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ" ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں ۔ (پارہ 4,سورۃ النساء59)

بخاری شریف میں ہے کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری، کتاب الجہادوالسیر، باب یقاتل من وراءالامام ویتقی بہ،2 /297، الحدیث: 2957)

اس حدیث پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ یہاں امیر کی اطاعت سے مراد جائز احکام میں اسکی اطاعت کرنا ہے. (مراۃ المناجیح,جلد5,کتاب الامارۃ والقضاء,ص359,حدیث3491,حسن پبلیشرز, اردوبازارلاہور)

2 خیر خواہی اورنصیحت: انکےساتھ خیر خواہی کا معاملہ کریں اگر انکے کسی فعل میں کوئی خامی نظر آئے تو ان کو احسن طریقے سے آگاہ کریں اور انکو درست مشورہ دیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پرکچھ حکام ہوں گے جن کے کچھ کام تم پسند کروگے کچھ ناپسند کروگے تو جو انکار کرے تو وہ بری ہوگیا اور جو ناپسند کرے وہ سلامت رہا" (مراۃ المناجیح, جلد5,کتاب الامارۃ والقضاء,ص364,حدیث3501,حسن پبلیشرز, اردوبازارلاہور) یعنی ایسےبادشاہوں کےبرے اعمال کو زبان سےبراکہہ دینےوالاپختہ مسلمان ہےاوران کےاعمال کوصرف دل سے برا سمجھنے والا زبان سے خاموش رہنے والا پہلے کی طرح پختہ تو نہ ہوگا مگر گناہ سے بچ جائےگا۔

3 تعاون کرنا: انکے جو حقوق ہیں انکی ادائیگی کرکے انکے ساتھ تعاون کریں حاکم کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے بچیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو اوراطاعت کرو اگرچہ حبشی غلام حاکم بنادیاجائے جس کاسرکشمش کی طرح ہو. (مراۃ المناجیح, جلد5,ص360,حدیث3493,حسن پبلیشرز, اردوبازارلاہور)

مسلمانوں پر لازم ہے کہ انکے حقوق کی ادائیگی کاخیال رکھیں جب تک حاکم اللہ کی نافرمانی کاحکم نہ دےبہت سی احادیث میں حاکم کی اطاعت کرنےکی تاکیدآئی ہےاسی طرح مشکوۃ شریف کی ایک اور روایت پیش خدمت ہےکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہےکہ"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان آدمی پرلازم ہے. (مراۃ المناجیح, جلد5,ص360,حدیث3494,حسن پبلیشرز, اردوبازارلاہور)

یعنی سلطان اسلام کاجائزحکم تمہاری طبیعت کےخلاف ہویاموافق قبول کرولیکن اگروہ خلاف شرع حکم دےتواس کی فرمانبرداری نہ کی جائےاوراس بناپربغاوت بھی نہ کی جائے۔

4 عدمِ بغاوت اور حاکم کے لئے دعا: حاکم اگر اسلام سے باغی نہ ہو تو اسکی بغاوت جائز نہیں اگر کوئی خلافِ شرع بات دیکھے تو حاکم کی اصلاح کریں ناکہ اس کی بغاوت پہ جمع ہوجائیں بلکہ اصلاح کریں اور حق و انصاف پر قائم رہنے کی دعا کریں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے فرماتے ہیں"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے حاکم سے ناپسندیدہ چیز دیکھے تو صبر کرے کیونکہ نہیں ہے کوئی جو جماعت سے بالشت بھرالگ رہے پھر مرجائے مگر وہ جاہلیت کی موت مرے گا.

اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں یعنی اگر حاکم یا سلطان میں کوئی شرعی یا طبعی یا اخلاقی نقص دیکھے تو صرف اس وجہ سے اس پر خروج نہ کرے اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرے.(مراۃ المناجیح, جلد5,کتاب الامارۃ والقضاء, ص362,حدیث3497,حسن پبلیشرز,اردوبازارلاہور)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔