بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر انہیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی۔بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ اور قوم وجود میں آتی ہے، اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔ بچپن کی تربیت نقش کالحجر ہوتی ہے، بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبلوغت کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوں گے، جنہوں نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔نیز! اولاد کی اچھی اور دینی تربیت دنیا میں والدین کے لیے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہے، جب کہ نافرمان وبے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کے لیے وبال جان ہو گی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے

گی۔

اولاد کو ﷲ ربّ العزت نے دنیاوی زندگی میں رونق سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ رونق اسی وقت ہے جب والدین کی جانب سے اپنی ذمے داری کو پورا کرتے ہوئے بچوں کی صحیح نشو و نما، دینی و اخلاقی تربیت کی جائے اور بچپن ہی سے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔

لہذا والدین کو اپنی اولاد کے حوالے سے بہت محتاط اور ذمہ دار ہونا چاہیے ان کو وقت دینا چاہیے اور اچھی عادات اپنانے کا ذہن بنانا چاہیے اور بری عادات سے بچنے کی تلقین کرنی چاہیے۔

ذیل میں اولاد کو سدھارنے کی چند ہدایات پیش کی جاتی ہیں ان کو اپنانے سے ان شاءاللہ بہتر نتائج اخذ ہوں گے۔

1۔ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال: سوشل میڈیا دو دھاری تلوار ہے یعنی اس کے فوائد بہت ہیں تونقصانات بھی بہت۔ بات کریں فوائد کی تو دور حاضرمیں سوشل میڈیا سیکھنے کا آسان ترین، سستا ترین اور سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ ہر شعبے کی معلومات ہمارے ایک کلک کے فاصلے پر دستیاب ہیں۔ تاہم اس کا حد سے زیادہ یا بے مقصد استعمال نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ جسم و ذہن پر بھی خطرناک اثرات ڈالتا ہے۔ اس ضمن میں والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ایسی ذہنی تربیت کریں کہ وہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں اور اس کے منفی اثرات سے بچیں۔

2۔اصول بنائیں: ماؤں کوچاہئے کہ اپنے گھرکے کچھ مخصوص اصول بنائیں جس پر تمام لوگوں کو عمل کرناضروری ہو، اور ماؤں کو چاہئے کہ ان اصولوں پر سختی سے عمل پیرا رہیں۔ اپنی سہولت یا بچوں کی ضد کی وجہ سے ان اصولوں میں پھیربدل نہ کریں ورنہ بچہ آپ کی باتوں کو اہمیت نہیں دے گا اور ہمیشہ ان اصولوں سے انحراف کی کوشش کرے گا۔

3۔ مقصددیجئے: بچوں کی ضداور غلط حرکتیں کرنے کی عادت اگر بڑھتی جارہی ہے تو آپ کو انہیں اپنے پاس بٹھا کر سمجھانا چاہئے کہ غلط طریقے سے برتاؤ کرنے کے برے نتائج ہوسکتے ہیں۔ انہیں آپ مقصد دیجئے کہ آپ کو اچھا اور کامیاب انسان بنناہے تو آپ کو اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی۔

یہ بات تو طے ہے کہ بچے اپنے بڑوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ اس لئے مائیں بچوں کے سامنے اچھی عادات کا مظاہرہ کریں، تاکہ بچے بھی ایسی ہی عادات اپنائیں۔

4۔ بہتر ماحول دیجئے: بچے وہ نہیں کرتے جو انہیں کہا جاتا ہے، بلکہ وہ کرتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس لئے ماؤں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو بہترماحول دیں۔ اگرمائیں خود گھر کے بزرگوں یا لوگوں پرغصہ کررہی ہو یاچلارہی ہو توبچہ بھی یہی سیکھے گا۔ ایسے میں ماؤں کو چاہئے کہ گھر کا ماحول اور بچوں کی تربیت اس طرح کرے کہ بچہ سمجھ جائے کہ بڑوں کی باتوں کو مانناضروری ہوتاہے۔

آخر میں رب کریم سے دعا ہے کہ سب کی اولادوں کو نیک اور والدین کا فرمانبردار بنائے اور بے اولادوں کو نیک صالح اولاد عافیت کے ساتھ عطا فرمائے۔