محمد مجاہد رضا قادری (درجۂ ثالثہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
قرآن پاک میں
اللہ عَزَّ وَ جَلَّ نے عدل و انصاف کے قیام پر بہت زور دیا ہے چونکہ انسان طبعی
طور پر مل جل کر رہنے کی طرف مائل ہوتا ہے اور جب مختلف طبیعتوں اور مختلف ذہنوں
کے لوگ ایک جگہ رہنے لگیں تو انفرادی مفاد کے حصول کے لیے باہمی تصادم کا اندیشہ
رہتا ہے ، اِس اندیشے کو دور کرنے کے لیے ضروری تھا کہ کچھ ایسے قوانین وضع کیے
جائیں جو انسانی زندگی کو متوازن صورت حال پر رکھ سکیں اور پھر اُن قوانین پر عمل
درآمد کے لیے ضروری تھا کہ حکمرانی کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جائے جو اسلام
کی نشر و اشاعت ، حاکمین کے حقوق اور وہ رعایا کے مابین عدل و انصاف کو قائم رکھ
سکیں۔ آئیے ھم بھی چند حاکم کے حقوق ملاحظہ کرتے ہیں ۔
1۔اطاعت
کرنا: حضرت
سیدنا ابو ہریرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ، رَءُوفٌ
رحیم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے فرمایا: "جس نے
میری اطاعت کی اس نے اللہ عَزَّوَجَل کی اطاعت کی ، جس نے میری نافرمانی کی اس نے
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی
اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی" (بخاری، کتاب الجهاد
والسیر، باب يقاتل من وراء الامام ويتقى بہ 2/،297 حدیث: 2957)
2۔توھین
نہ کرنا: حضرت
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی کریم
صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے سلطان کی
اہانت کی، اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے ذلیل کرے گا۔“ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ماجاء في
الخلفاء، 4/ 96 ، حدیث : 2231)
3
بخاری، کتاب
الايمان باب اتباع الجنائز من الايمان 1 /29
اللہ پاک ہمیں
ان حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
ابو ثوبان عبدالرحمٰن عطّاری (درجۂ سابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان
مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ، پاکستان)
کسی بھی معاشرے میں
زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے،
شہری زندگی ہو یا دیہاتی، بغیر حاکم و امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام دُرست نہیں رہ
سکتا اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک
کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی
معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی
ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے، اس لئے اس امر کی
معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔ اسی کے پیش نظر رعایا
پر حاکم کے چند حقوق ذکر کئے جارہے ہیں ملاحظہ کیجئے:اللہ پاک نے اپنی کتاب قراٰنِ
کریم میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-﴾ترجمۂ کنزُ الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کااور ان کا جو تم میں حکومت والے
ہیں۔(پ5، النسآء: 59)
اس آیت سے ثابت ہوا
کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق
کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔(صراط الجنان، 2/230)
حاکمِ اسلام کے 5 حقوق:
(1)اطاعت کرنا: حاکمِ اسلام کی
اطاعت و فرمانبرداری ہر فردِ بشر پر واجب ہے بشرطیکہ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہو۔
جیسا کہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے
امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری
نافرمانی کی۔(بخاری،2/297، حدیث: 2957)
(2،
3)اچھائی پر شکر اور بُرائی پر صبرکرنا: رسولِ اكرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:حاکمِ اسلام زمین پر اللہ کا سایہ ہے اور
جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکر لازم ہے اور اگر
بُرا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔(شعب
الایمان،6/15،حدیث:7369)
(4)ان کی عزت
کرنا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا فرمان ہے:
سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت
اور سایہ ہوں گے۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،1/187)
(5)خیر خواہی:حاکمِ اسلام کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے
تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے، انہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو صحیح، سچے
اور اچھے انداز میں مشورہ دیا جائے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ
وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر
اور اچھی نصیحت سے۔(پ14، النحل:125)
اللہ پاک ہمیں ان حقوق پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
عبدالکریم آصف (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ کنز
الایمان مزنگ لاہور ، پاکستان)
اِسلام تکریم
اِنسانیت کا دین ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو نہ صرف اَمن و آشتی، تحمل و برداشت
اور بقاء باہمی کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے مکتب و مشرب کا احترام بھی
سکھاتا ہے۔ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ بلا تفریقِ رنگ و نسل تمام انسانوں کے ناحق
قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔
اسلام میں کسی
انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے
بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔
…حضرت براء بن
عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک
دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب
الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3 / 261، الحدیث: 2619)
…حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کسی مومن کوقتل کرنے میں
اگر زمین وآسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے ۔
(ترمذی، کتاب الدیات، باب الحکم فی الدماء، 3 / 100، الحدیث: 1403)
؛روایت ہے
حضرت ابو سعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
راوی فرمایا اگر زمین و آسمان والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائیں ، تو اللہ
تعالی انہیں آگ میں اوندھا ڈال دے ۔ اور فرمایا یہ حدیث غریب ہے۔
شرح حدیث:
ے آسمان والوں
سے مراد ان انسانوں کی روحیں ہیں جو یہاں فوت ہو چکے یا جو ابھی دنیا میں آئی
نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ قتل ایسا جرم ہے کہ ایک قتل کی وجہ سے بہت کو عذاب ہو سکتا ہے۔
دعا ہے اللہ
عزوجل ہمیں کسی کو ناحق تکلیف دینے سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
زین العابدین ( جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
کسی مسلمان کو
جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت مذمت
بیان کی گئی ہے ان میں سے 5 احادیث درج ذیل ہیں۔
(1)سب
سے بڑا گناہ : حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
سوال کیا کونسا گناہ سب سے بڑا ہے؟ ارشاد فرمایا یہ کہ تو اللہ عزوجل کے ساتھ کسی
کو شریک کرے حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا میں نے عرض کی پھر اس کے بعد کونسا گناہ
؟ ارشاد فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو اس لیے قتل کر ڈالے کے وہ تیرے ساتھ کھاے گی
میں نے عرض کی پھر کونسا ؟ یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرے۔ ( بخاری
کتاب الادب، باب قتل الولد خشيته ان يأكل معہ
ج 4 ص 100
حدیث 2001 )
(2)ظلماً
قتل کی سزاء: حضرت
عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا جسے بھی ظالما قتل کیا جاتا ہے تو حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے
پہلے بیٹے کے حصے میں بھی اس کا خون ہوتا ہے کیونکہ سب سے پہلے قتل کو اس نے ایجاد
کیا (فیضان رياض الصالحین جلد 2 حدیث نمبر 172)
(3)
جنت کی خوشبو سے دوری کا سبب : حضرت عبداللہ ابن عمر و رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو کسی عہد و پیمان والے کو
قتل کر دے۔ وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے
محسوس کی جاتی ہے ۔ مرأة المناجيح شرح مشکوه المصالح مجلد 5 حدیث نمبر3452
(4)دنیا
کا مٹ جانا آسان ہے :حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ دنیا کا مٹ جانا الله کے ہاں
آسان ہے مسلمان آدمی کے قتل سے۔ ( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 5
حدیث3462)
(5)ناحق
قتل کرنے والے خسارہ کا شکار: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل
پر جمع ہو جائیں تو الله تعالی سب کو جنم میں اوندھے منہ ڈال دے) معجم صغیر، باب
العین من اسمه علی ، ص 205 جز اول )
اللہ تعالٰی
سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی فرمانبرداری والے کام کرنے اور نافرمانی والے کاموں سے
بیچنے کی توفیق عطا فرمائے بالخصوص قتل ناحق سے بچنے کی توفیق دے
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
عبدالحنان (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ گلزار
حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
دین اسلام کی
نظر میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی قدر بہت زیادہ ہے اور اگر وہ انسان مسلمان ہو
تو اس کی قدر و منزلت اسلام کی نظر میں زیادہ بڑھ جاتی ہے اسی لئے دین اسلام نے وہ
تمام افعال جو ایک انسان کی حرمت کو ضائع کرے اسلام نے ان تمام افعال سے انسان کو
بچنے کا حکم دیا ہے تاکہ ایک انسان کی عزت و حرمت ضائع نہ ہو۔
انسان کی حرمت
کو ضائع کرنے میں سب سے بڑا کردار ناحق کسی کو قتل کرنا ہے وہ دینِ اسلام جو حیوانات
و نباتات کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے تو وہ دینِ اسلام ایک جان کو ناحق
قتل کرنے کا حکم کیسے دے سکتا ہے۔ ایک انسان کی عزت و حرمت کا اندازہ اس حدیث سے
لگایا جا سکتا ہے۔
حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کا طواف فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے تو
کتنا پاکیزہ ہے اور تیری خوشبو کس قدر پاکیزہ ہے تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت
کتنی عظیم ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
جان ہے مومن کی حرمت اس کے مال و جان کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے عظیم تر
ہے اور ہمیں مومن کے ساتھ اچھا گمان رکھنا چاہیے۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب حرمة
دم المؤمن وماله، ج2، ص1297، الحدیث3932، مکتبہ دار إحياء الكتب العربية)
دین اسلام میں
ایک انسان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے اور اکثر احادیث میں قتل ناحق کی شدید
مذمت بیان کی گئی ہے۔
قارئین کرام
چند احادیث قتل ناحق کی مذمت پر ملاحظہ کرتے ہیں۔
کبیرہ
گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ۔ حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک
کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (البخاری، کتاب الدیات، باب قول اللّٰہ تعالیٰ:
(ومن احیاھا) ج6، ص2519، الحدیث6477، مکتبہ دار ابن کثیر ، دار الیمامه)
قاتل
و مقتول دونوں جہنمی۔
حضرت ابو بکرہ
رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔
راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس
لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مُصِر تھا۔( البخاری، کتاب الایمان، باب وان
طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، ج1، ص20، الحدیث31، مکتبہ دار ابن کثیر ،
دار الیمامه)
قتل پر مدد
کرنے والا اللّٰہ کی رحمت سے مایوس۔
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا
ہو گا یہ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل
مسلم ظلمًا، ج2، ص874، الحدیث 2620 مکتبہ دار إحياء الكتب العربية
قیامت کے دن
گردن کی رگوں سے خون جاری۔
حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا قیامت کے دن مقتول قاتل کو لے کر اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی اور
سر اس کے ہاتھ میں ہوں گے اور گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ عرض کرے گا: اے
میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، حتّٰی کہ قاتل کو عرش کے قریب کھڑا کردے گا۔ (سنن
ترمزی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ النساء، ج5، ص122، الحدیث، 3029 مکتبہ دار
الغرب الاسلامی بیروت)
دنیا
کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا۔ حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللّٰہ عنہ
اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ پاک کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے
زیادہ بڑا ہے۔ ( سنن نسائی، کتاب التحریم الدم، باب تعظیم الدم، ج7، ص83،
الحدیث3990، مکتبہ المطبوعات الاسلامیہ بحَلَب)
قارئین کرام
چند احادیث قتل ناحق کی مذمت پر ملاحظہ کی افسوس کہ آج کل قتل ناحق بڑا معمولی
کام ہوگیا ہے اور اس کو گناہ سمجھا ہی نہیں جارہا چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار
دینا، غنڈہ گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی وغیرہ عام ہیں۔
مسلمانوں کا
خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ ہمیں ان احادیث کریمہ سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے۔
اللہ پاک ہمیں
ایک دوسرے کی عزت و حرمت کا خیال رکھنے اور تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتے رہنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
ابو کلیم عبد الرحیم عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
دین اسلام ایک
مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں دنیاۓ زندگی کے تمام معاملات کی
رہنمائی اور پاسداری کی گئی ہے حتیٰ کہ کسی کو ناحق قتل کرنے کی بھی مذمت اور
وعیدیں بیان کی گئی ہیں
چنانچہ اللہ
تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خلِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ
وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لهُ عَذَابًا عَظِيمًا (پ4,النساء
93) ترجمہ کنز الایمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ
جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس
کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔
کسی مسلمان کو
جان بوجھ کر قتل کر نا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت
مذمت بیان کی گئی ہے ، ان میں سے 4 احادیث درج ذیل ہیں:
(1)بڑا کبیرہ گناہ : حضرت انس
رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے: تاجدار رسالت صَلَّى اللهُ تَعَالَى
عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان
کو ( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الديات، باب قول الله تعالى: ومن
احياها,358/4 الحديث: 6871)
(2)
قیامت کے دن کا خسارہ : کسی مسلمان کو نا حق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے
خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے،
نبی کریم صلَّی اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”اگر
زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے
منہ جہنم میں ڈال دے۔ ( معجم صغير، باب العين، من اسمه على، ص 205 ، الجزء الاول)
(3)
دونوں ہی جہنمی : حضرت
ابو بکرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے مروی ہے ، رسولِ اکرم صَلَّى اللهُ
تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں
سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض
کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل
کرنے پر مُصر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنين اقتتلوا - -
- الخ، 1 / 23 ، الحديث : 31)
(4)
رحمت الٰہی سے محروم: حضرت ابو ہریرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے
روایت ہے ، حضور پر نور صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے
دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان
لکھا ہو گا ” یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الديات، باب
التغليظ في قتل مسلم ظلما ، 3 / 262، الحديث : 2620)
افسوس کہ آج
کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ
گردی، دہشت گردی، ڈکیتی ، خاندانی لڑائی، تعصب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا
خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا
کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔
اللّٰہ پاک
ہمیں قتل ناحق جیسے کبیرہ گناہوں اور دیگر گناہوں سے محفوظ فرمائے آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
کسی مسلمان کو
جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت
مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 4احادیث درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت انس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی
جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن
احیاہا، 1 / 358، الحدیث:871)
(2)…کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ
رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی
مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال
دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)
(3)…حضرت ابو
بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں
تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:
مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے
پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،
1 / 23، الحدیث: 31)
(4)…حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر
ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں
آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 /262، الحدیث: 26220)
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا
ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی
لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا
ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا
ہے۔
مسلمان
کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب
کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی
سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز
تک جہنم میں رہے گا۔ آیت میں ’’خَالِدًا ‘‘کا لفظ ہے اس کا ایک معنیٰ ہمیشہ ہوتا
ہے اور دوسرا معنیٰ عرصہ دراز ہوتا ہے یہاں دوسرے معنیٰ میں مذکور ہے۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد معین عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ شاہ
عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
میرے پیارے
اور میٹھے اسلامی بھائیوں جیسا کہ آپ سب حضرات جانتے ہیں کہ اس دور میں بے
شمارفتنے اور فساد پھیلے ہوۓ ہیں جن میں سے ایک ناحق قتل
بھی ہے جو اس وقت بہت زیادہ پھیل رہا ہے گلی گلی محلہ محلہ اس برے فساد کا شکار ہے
جس کی وجہ سے نا حق قتل پہ قتل ہو رے ہیں جو کہ ہماری دنیاوآخرت کے لۓ
نہایت نقصان کا باعث ہے ۔
اللہ پاک ہمیں
اس برے فتنے و فساد سے محفوظ فرماۓ(آمین)!
میرے میٹھے
اور پیارے اسلامی بھائیوں احادیث طیبہ طاہرہ میں اس کی بے شمار جگہ پر مذمت فرمائ
ہے ۔ چنانچہ چند احادیث ناحق قتل کی مذمت میں درج ذیل ہیں؛
1-وَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ
بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ؛اَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْ
الدِّمَاءِ0 روایت ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کے قیامت کے دن
سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ (مشکوۃ المصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر308
حدیث نمبر 3298)یعنی قیامت کے دن معاملات میں سب سے پہلے خون نہ حق کا فیصلہ ہوگا
بعد میں کچھ اور۔
2۔وَعَنِ الْمِقْدَادِبْنِ الْاَسْوَدِ اَنَّہُ قَالَ:یَا
رَسُوْلَ اللّٰہِ اَرَاَیْتَ اِنِّ لَقِیْتُ رَجُلًامِنَ
الْکُفَّارِفَاقْتَتَلْنَا فَضَرَبَ اِحْدَی یَدَیَّ بِالسَّیْفِ فقطعھما ثُمَّ
لَاذَ مِنِّی بِشَجَرَۃِ فَقَالَ:اَسْلَمْتُ لِلّٰہِ وَفِی رِوَایَۃٍ: فَلَمَّااَھْوَیْتُ
لِاَقْتُلَہُ قَالَ:لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اَاَقْتُلُہُ بَعْدَ اَنْ
قَالَھَا؟قَالَ(لَا تَقْتُلْہُ)فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّہُ قَطَعَ
اِحْدَی یَدَیَّ فَقَالَ:رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(لَا
تَقْتُلْہُ فَاِنْ قَتَلْتَہُ فَاِنَّہُ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ اَنْ تَقْتُلَہُ
وَاِنَّکَ بِمَنْزِلَتَہُ قَبْلَ اَنْ یَقُوْلَ کَلِمَتَہُ الَّتِی قَالَ
روایت ہے حضرت
مقداد ابن اسود سےانہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم
فرمائیے اگر میں کسی کافر ادمی سے ملوں پھر ہم جنگ کریں تو وہ میرے ایک ہاتھ پر
تلوار مار کر اسے کاٹ دےپھر وہ مجھ سے کسی درخت کی پناہ لے لے پھر کہے کہ میں اللہ
کے لیے اسلام لے ایا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب میں نے اسے قتل کرنا چاہا تو
وہ بولا لا الہ الا اللہ تو اس کے کہنے کے بعد میں اسے قتل کر دوں? فرمایا قتل نہ
کرو پس وہ بولے یا رسول اللہ اس نے میرا ایک ہاتھ کاٹ دیا ہےتو رسول اللہ صلی اللہ
تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا .مت قتل کرواگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ تمہارے
درجے میں ہوگا جو قتل کرنے سے پہلے تمہارا تھا اور تم اس کے درجے میں ہو جو اس کے
کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا۔(مشکاۃالمصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر308،حدیث نمبر3299)
3۔وَعَنْ ابْنِِ عُمَرَ
قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَنْ یَزَالَ
الْمُوْمِنُ فِیْ فُسْحَۃٍ مِنْ دِیْنِہِ مَا لَمْ یُصِبْ دَمًا حَرَامًا) ابن
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایاکہ مسلمان اپنے دین کی وسعت میں رہتا ہے جب تک کہ حرام خون نہ کرے۔ (مشکاۃالمصابیح،جلد
دوم،صفحہ نمبر 308،حدیث نمبر3297)
یعنی مسلمان
ادمی کیسا ہی گنہگار ہو مگر وہ اسلام کی گنجائش رحمت الہی کی وسعت میں رہتا ہے
اللہ سے نا امید نہیں ہوتا مگر قاتل ظالم اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں رہتا کل
قیامت میں اس طرح ائے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا (آیس من رحمۃ اللہ )حدیث
شریف میں ہے کہ جو قتل مومن میں ادھی بات سے بھی مدد کرے وہ بھی رب تعالی کی رحمت
سے مایوس ہے بعض نے فرمایا کہ ظالم قاتل کو دنیا میں نیک اعمال کی توفیق نہیں
ملتی۔
4۔وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ
قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ اَعَانَ عَلَی
قَتْلِ مُوْمِنٍ شَطْرَ کَلِمَۃٍ لَقِیَ اللّٰہَ مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ
آیسُ مِنْ رَحْمَۃِ
اللّٰہِ)0
حضرت ابو
ھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو کوئ مسلمان کے
قتل میں آدھی بات سے بھی مدد کی تو وہ اللہ پاک سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی
دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ اللہ کی رحمت سے نا امید۔(مشکاۃالمصابیح،جلد
دوم، صفحہ نمبر311،حدیث نمبر 3328)
5۔وَ عَنْ اَبِی سَعِیْدٍ
وَ اَبِی ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ
:(لَوْاَنَّ اَھْلَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ الشْتَرَکُوْا فِی دَمِ مُوْمِنٍ
لَاَکَبَّھُمُ اللّٰہُ فِی النَّارِ
حضرت ابو سعید
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا اگر زمین و اسمان والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالی
انہیں آگ میں اوندھا ڈال دے۔(مشکاۃالمصابیح ،جلد دوم،صفحہ نمبر309/310،حدیث
نمبر3311)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
حافظ محمد انس عطّاری (درجہ اولیٰ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار
لاہور، پاکستان)
اسلام ایک امن
و امان اور محبت پھیلانے والا دین ہے۔ اسلام ہمیں نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں سے
بھی محبت کرنے کا درس دیتا ہے۔ فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "مومن
وہ ہے جس سے لوگوں کی مال اور لوگوں کی جانیں محفوظ رہیں"۔
یہ مومن کی
پہچان ہے کہ وہ کسی کے آبرو میں دخل اندازی نہیں کرتا، کسی کے اموال نہیں لوٹتا،
لوگوں کی زندگی کے ساتھ نہیں کھیلتا، کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ قتلِ ناحق بھی ظلم ہے
اور کبیرہ گناہ ہے۔ اسلام تو جانوروں کو مارنے سے بھی روکتا ہے، تو انسان کو قتلِ
ناحق کا کیسے حکم دے سکتا ہے۔ ہمیں قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں بھی مذمت ملتی ہے
اور احادیثِ مبارکہ میں بھی قتلِ ناحق کی مذمت ملتی ہے۔
قارئین کرام چند احادیث قتلِ ناحق کی مذمت میں
درج ذیل ہیں۔
1-
بڑا گناہ "حضرت
انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے
ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے"۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ
تعالی، ومن احیاھا، 4/ 358، الحدیث: 6871) (صراط الجنان جلد 4، سورۃ النساء، آیت
93، ص99)
2-
اوندھے منہ جہنم میں ڈالا جانا : حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے ارشاد فرمایا: "اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں
تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے"۔ (معجم صغیر، باب العین،
من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول۔ صراط الجنان جلد 4، سورۃ النساء، آیت 93، ص99)
3-
قاتل اور مقتول دونوں جہنمی: حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے ارشاد فرمایا: "جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول
دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے
گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا"۔ (بخاری،
کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31۔ صراط
الجنان جلد 4، سورۃ النساء، آیت 93، ص99)
4-
قاتل اللّٰہ عزوجل کی رحمت سے محروم : حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: "جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی
بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس
کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس
ہے"۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262،
الحدیث: 2620۔ (صراط الجنان جلد 4، سورۃ النساء، آیت 93، ص99)
5-
دین کی وسعت میں رہنا: حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُمَاسے مروی ہےکہ سرکارِ نامدار ، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : "مومن ہمیشہ اپنے دِین کی وُسعت
اور کشادگی میں رہتا ہے جب تک کہ وہ ناحق قتل نہ کرے".(بخاری، کتاب الدیات،
باب قول اللہ: ومن یقتل مؤمنا۔۔۔الخ، 4/ 356، حدیث:6862۔ 76 کبیرہ گناہ، ص23)
ناحق قتل کرنے
تک دِین میں وُسعت:عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْغَنِی فرماتے ہیں : "اِس کےدو معنی ہیں : (1) جب کوئی شخص کسی جان کو ناحق
قتل کردےتو جان بوجھ کر قتل کرنےکی وعید کے سبب اُس کا دِین اُس پر تنگ ہوجاتا ہے
، قتل سے قبل اُس کا دِین اُس پر وسیع ہوتاہے۔ (2) ناحق قتل کرنےوالا شخص اپنے اس
گناہ کی وجہ سے تنگی میں رہتا ہے ، ناحق قتل کرنے سےقبل وہ وُسعت میں ہوتا
ہے".
دِین میں
کشادگی سے مراد :عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی
مذکورہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : جب تک بندہ ناحق خون نہ بہائے وہ اپنے دِین
کی وُسعت میں ہوتا ہے اور اسے اپنے ربّ سے رحمت کی امید ہوتی ہے۔
قارئین کرام
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتلِ ناحق کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی کس قدر
بڑی سزا ہے۔ ناحق قتل کرنے والا اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔ جب
بندہ ناحق قتل ، شراب وغیرہ گناہوں میں پڑتا ہے تو شیطان اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا
ہے اور پھر اسے ہر شر کی طرف لے جاتا ہے اور ہر بھلائی سے پھیر دیتا ہے۔
قارئین کرام
آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ جس کو دل کرتا ہے قتل کردیتا ہے، کہیں سیاسی
وجوہات سے، تو کہیں علاقائی اور صوبائی تَعَصُّب کی وجہ سے، یونہی کہیں زبان کے
نام پر ان میں سے کوئی بھی صورت جائز نہیں ہے۔ قتل کی اجازت صرف مخصوص صورتوں میں حاکمِ
اسلام کو ہے اور کسی کو نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی صحبت اچھی رکھیں، بُرے دوستوں
کی صحبت سے بچے، اور لوگوں کو قتلِ ناحق کی وعید سنائے۔
اللہ تعالی
ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
صبیح اسد جوہری عطاری ( جامعۃ المدینہ شاہ عالم
مارکیٹ لاہور، پاکستان)
اے عاشقان
رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل از زمانہ
،زمانہ جاہلیت تھا چاروں طرف جہالت پھیلی ہوئی تھی پورے معاشرے میں جنگل کا قانون
تھا یعنی کسی کی جان و مال و خاندان اور عزت کی حفاظت نہ تھی ۔اس معاشرے میں دو
لوگوں کے درمیان ہونے والی چھوٹی سے لڑائی کا انجام بسا اوقات کئی قبیلوں میں جنگ
کی صورت میں نظر آتا ہے اور بدلے اور لڑائی میں سینکڑوں لوگ ناحق قتل ہو جاتے تھے
پھر آقا رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے وہی بدمعاش معاشرہ امن کا گہوارہ بن
گیا اور اس نے دوسرے انسانوں کی عزت و مال و جان کی حفاظت کو اپنے اوپر لازم کر
لیا
قتل ناحق کی آسان تعریف: جس شخص کو
اسلام نے شرعاً کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے سے منع کیا ہو خواہ وہ مسلمان ہو یا
کافر اس کو قتل کرنا قتل ناحق کہلاتا ہے ۔
چار یاران نبی
علیہ السلام کی نسبت سے قتل ناحق احادیث کی مذمت میں 4 احادیث پاک ملاحظہ ہوں
(1) حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ ۔
(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4/ 358، الحدیث 6871)
اس حدیث پاک
سے واضح ہو جاتا ہے کہ کسی کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے لہذا ہمیں خود
کو اور دوسروں کو اس کبیرہ گناہ سے بچانے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے ۔
(2) حضرت ابو
بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی
مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم
صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205، الجزء الاول)
اس حدیث پاک
سے معلوم ہوا کہ دنیا میں لوگوں کو ناحق قتل کرنے والے کل بروز قیامت خسارے میں
ہوں گے لہذا ہم سب پر لازم ہے کہ ہم غصے اور لڑائی جھگڑوں سے دور رہیں تاکہ اس
مہلک اور خطرناک گناہ قتلِ ناحق سے بچ سکیں
(3) حضرت ابو
بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں
تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:
مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے
پرمُصِر تھا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،
1 / 23، الحدیث: 31)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو اس حدیث پاک میں ہمارے لیے نصیحت حاصل کرنے کے بے شمار مدنی پھول
ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ناحق قتل کرنے والے جہنم کےحقدار ہیں
(4)حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر
ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں
آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
رحمت سے مایوس ہے۔ ‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 /
262، الحدیث: 2620)
اے عاشقان
رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذکر کردہ حدیث پاک سے ہمیں درس عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ
کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے میں مدد کرنے والوں کی دونوں آنکھوں کے درمیان قیامت
میں لکھا جائے گا کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے ۔پیارے پیارے اسلامی بھائیو کتنا
ہی بد بخت ہے وہ مسلمان جو اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے اور جس کی پیشانی پر لکھ
دیا جائے کہ یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے اس کا کل بروز قیامت کیا حال ہو گا اللہ
کی پناہ۔
میرے پیارے
اور محترم اسلامی بھائیو گزشتہ ذکر کردہ احادیث پاک سے یہ بات آپ پر شیشے کی طرح
صاف ہو گئی ہو گی کہ کسی کو ناحق قتل کرنا کس قدر اخلاقی اور شرعی طور پر برا کام
ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔آج کل ہمارے معاشرے میں معمولی سی لڑائی ،گالی گلوچ اور فقط
طعنے بازی سے چلتے چلتے بات قتل و غارت تک جا پہنچتی ہے آئیے اہتمام میں آپ کے
ساتھ قتل ناحق کے ارتکاب کا شرعی حکم بھی عرض کرتا چلوں
اگر مسلمانو ں
کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ
جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ
گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا
اللہ کریم کی
بارگاہ اقدس میں دعا ہے کہ حضور سیدی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں قتل و
غارت سے کوسوں دور رہنے کی توفیق عنایت فرمائے اور دعوت اسلامی کے دینی ماحول اور
ولی کامل مرشدی و سیدی امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی
صحبت بابرکت نصیب فرمائے آمین ثم آمین بجاہ خاتم النبیین الامین صلی اللہ علیہ
وسلم ۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد مبشر رضا قادری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ
شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے اسلامی
بھائیوں ناحق قتل کرنا ایک بہت بڑا جرم ہے کہ حدیث مبارکہ میں اس کی بہت ساری مذمت
کی گئی ہے ہم اس مضمون میں ناحق قتل کے متعلق کچھ احادیث مبارکہ نقل کرتے ہیں۔چنانچہ
1۔۔وَ عَنْ اَبِی سَعِیْدٍ وَ
اَبِی ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ
:(لَوْاَنَّ اَھْلَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ الشْتَرَکُوْا فِی دَمِ مُوْمِنٍ
لَاَکَبَّھُمُ اللّٰہُ فِی النَّارِ حضرت ابو سعید اور ابوہریرہ رضی اللہ
عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر زمین و اسمان
والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالی انہیں آگ میں اوندھا ڈال
دے۔ (مشکاۃالمصابیح ،جلد دوم،صفحہ نمبر309/310،حدیث نمبر3311)
2۔۔۔وَعَنْ ابْنِِ عُمَرَ
قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛(لَنْ یَزَالَ
الْمُوْمِنُ فِیْ فُسْحَۃٍ مِنْ دِیْنِہِ مَا لَمْ یُصِبْ دَمًا حَرَامًا
ابن عمر رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ
مسلمان اپنے دین کی وسعت میں رہتا ہے جب تک کہ حرام خون نہ کرے۔ (مشکاۃالمصابیح،جلد
دوم،صفحہ نمبر 308،حدیث نمبر3297)
یعنی مسلمان
ادمی کیسا ہی گنہگار ہو مگر وہ اسلام کی گنجائش رحمت الہی کی وسعت میں رہتا ہے
اللہ سے نا امید نہیں ہوتا مگر قاتل ظالم اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں رہتا کل
قیامت میں اس طرح ائے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا (آیس من رحمۃ اللہ )حدیث
شریف میں ہے کہ جو قتل مومن میں ادھی بات سے بھی مدد کرے وہ بھی رب تعالی کی رحمت
سے مایوس ہے بعض نے فرمایا کہ ظالم قاتل کو دنیا میں نیک اعمال کی توفیق نہیں
ملتی۔
3۔۔وَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ
بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ؛اَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْ
الدِّمَاءِ0 روایت ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کے قیامت کے دن
سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ (مشکوۃ المصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر308
حدیث نمبر 3298)
4۔وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ
قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ اَعَانَ
عَلَی قَتْلِ مُوْمِنٍ شَطْرَ کَلِمَۃٍ لَقِیَ اللّٰہَ مَکْتُوْبٌ بَیْنَ
عَیْنَیْہِ آیسُ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ
حضرت ابو
ھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو کوئ مسلمان کے
قتل میں آدھی بات سے بھی مدد کی تو وہ اللہ پاک سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی
دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ اللہ کی رحمت سے نا امید۔
(مشکاۃالمصابیح،جلد
دوم، صفحہ نمبر311،حدیث نمبر 3328)
5۔۔ وَعَنِ الْمِقْدَادِبْنِ
الْاَسْوَدِ اَنَّہُ قَالَ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَرَاَیْتَ اِنِّ لَقِیْتُ
رَجُلًامِنَ الْکُفَّارِفَاقْتَتَلْنَا فَضَرَبَ اِحْدَی یَدَیَّ بِالسَّیْفِ
فقطعھما ثُمَّ لَاذَ مِنِّی بِشَجَرَۃِ فَقَالَ:اَسْلَمْتُ لِلّٰہِ وَفِی
رِوَایَۃٍ: فَلَمَّااَھْوَیْتُ لِاَقْتُلَہُ قَالَ:لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
اَاَقْتُلُہُ بَعْدَ اَنْ قَالَھَا؟قَالَ(لَا تَقْتُلْہُ)فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ
اللّٰہِ اِنَّہُ قَطَعَ اِحْدَی یَدَیَّ فَقَالَ:رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(لَا تَقْتُلْہُ فَاِنْ قَتَلْتَہُ فَاِنَّہُ بِمَنْزِلَتِکَ
قَبْلَ اَنْ تَقْتُلَہُ وَاِنَّکَ بِمَنْزِلَتَہُ قَبْلَ اَنْ یَقُوْلَ کَلِمَتَہُ
الَّتِی قَالَ
روایت ہے حضرت
مقداد ابن اسود سےانہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم
فرمائیے اگر میں کسی کافر ادمی سے ملوں پھر ہم جنگ کریں تو وہ میرے ایک ہاتھ پر
تلوار مار کر اسے کاٹ دےپھر وہ مجھ سے کسی درخت کی پناہ لے لے پھر کہے کہ میں اللہ
کے لیے اسلام لے ایا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب میں نے اسے قتل کرنا چاہا تو
وہ بولا لا
الہ الا اللہ تو
اس کے کہنے کے بعد میں اسے قتل کر دوں? فرمایا قتل نہ کرو پس وہ بولے یا رسول اللہ
اس نے میرا ایک ہاتھ کاٹ دیا ہےتو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا
.مت قتل کرواگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ تمہارے درجے میں ہوگا جو قتل کرنے سے
پہلے تمہارا تھا اور تم اس کے درجے میں ہو جو اس کے کلمہ پڑھنے سے پہلے
تھا۔(مشکاۃالمصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر308،حدیث نمبر3299)
پیارے اسلامی
بھائیوں درج ذیل احادیث مبارکہ میں ناحق قتل کے متعلق سنا کہ ناحق قتل کتنا برا
جرم ہے اللہ پاک تمام مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ناحق قتل سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
فہد ریاض عطاری (درجۂ خامسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ
فیضانِ مدینہ قادرپوراں ملتان ، پاکستان)
اِسلام تکریم
اِنسانیت کا دین ہے، یہ اپنے ماننے والوں کو نہ صرف امن و امان، تحمل و برداشت کی
تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے مال و جان کی حفاظت کا حکم بھی دیتا ہے، دین
اسلام میں انسانی جان کو ہمیشہ عزت و حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی مسلمان
کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے ، اس پر قرآن وحدیث میں سخت
وعیدیں وارد ہوئی ہیں
(1)مالک
کائنات عزوجل کا فرمان ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ
وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(نساء:93) ترجمۂ کنز
العرفان اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ
دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے
بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
(2)
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے : مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ
اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ
اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (مائدہ:32 ) ترجمہ
کنزالعرفان : جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی
شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک جان کو
(قتل سے بچا کر) زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔
یہ آیتِ مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح
کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان
کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل
تعلیمات کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما
دھبا لگاتے ہیں۔
قتل
ناحق کی مذمت پر (5) فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیں:
(1)…حضرت انس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو(
ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 /
358، الحدیث: 6871)
(2)…کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ
رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی
مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال
دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)
(3)…حضرت ابو
بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں
تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:
مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے
پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،
1 / 23، الحدیث: 31)
(4)…حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر
ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں
آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 /
262، الحدیث: 2620)
(5)... حضرت
براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے
نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔(ابن ماجہ،
کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3 / 261، الحدیث: 2619)
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا
ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی
لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا
ہے، جس کا دل کرتا ہے وہ بندوق اٹھاتا ہے اور جس کو دل کرتا ہے قتل کردیتا ہے،
کہیں سیاسی وجوہات سے، تو کہیں علاقائی اور صوبائی تَعَصُّب کی وجہ سے، یونہی کہیں
زبان کے نام پر تو کہیں فرقہ بندی کے نام پر۔
اللہ پاک ایسے
لوگوں کو ہدایت نصیب فرماۓ اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ
الْاَمِیْن صلی اللہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔