محمد احمد عطاری (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق
اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

شرعی اور اخلاقی ہر لحاظ سے بیویوں کے حقوق بھی بہت زیادہ
اہمیت کے حامل ہیں دین اسلام نے جس طرح شوہر کے حقوق ادا کرنے پر زور دیا اسی طرح
بیوی کے حقوق کی بھی اہمیت بیان فرمائی جیسے کہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا:وَ لَهُنَّ مِثْلُ
الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے
موافق۔(پ2، البقرۃ:228) چنانچہ آپ بھی بیوی کے چند حقوق پڑھیے اور علم و عمل میں
اضافہ کیجیئے۔
1 ۔اچھی عادات کو تلاش کرنا: رسول اﷲصلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان مرد عورت مومنہ کو مبغوض نہ رکھے اگر اسکی ایک
عادت بُری معلوم ہوتی ہے دوسری پسند ہوگی ( صحیح مسلم الحدیث ٦٣۔ (١٤٧٩)، ص ٧٧٥)
یعنی تمام عادتیں خراب نہیں ہوں گی جب کہ اچھی بری ہر قسم
کی باتیں ہوں گی تو مرد کو یہ نہ چاہیے کہ خراب ہی عادت کو دیکھتا رہے بلکہ بری
عادت سے چشم پوشی کرے اور اچھی عادت کی طرف نظر کرے۔
2 ۔حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا: حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش
آئیں۔ ( سنن ابن ماجہ الحدیث: ١٩٧٨، ج٢، ص٤٧٨)
3 اپنی بیوی کو نہ مارنا: صحیحین میں عبدﷲ بن رمعہ
رضی ﷲ عنہ سے مروی، رسول ﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی شخص اپنی
عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دوسرے وقت اس سے مجامعت کرے گا ( صحیح
البخاری ، الحدیث: ٥٢٠٤، ج 3 ص ٤٦٥)
یعنی زوجیت کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ ہر ایک کو دوسرے کی
حاجت اور باہم ایسے مراسم کہ ان کا چھوڑنا دشوار لہذا جو ان باتوں کا خیال کرے گا
مارنے کا ہر گز قصد نہ کرے گا۔
4۔ نان
و نفقہ ادا کرنا: بیوی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کو نان و نفقہ (یعنی خرچ) ادا کیا جائے جیسا
کہ بہار شریعت میں اگر یہ اندیشہ ہے کہ نکاح کر یگا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا
ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کر سکے گا تو (نکاح کرنا) مکروہ ہے اور ان باتوں کا
یقین ہو تو نکاح کرنا حرام مگر نکاح بہر حال ہو جائے گا۔ (بہارِ شریعت، حصہ ہفتم، 5/2)
5 ۔نیک کاموں کا حکم دینا: صحابہ کرام عَلَيْهِمُ
الرِّضوَان نے رسول ﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی:یا رسول ﷲصلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ سرکار
مدینہ فیض گنجینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم اپنے اہل و
عیال کو ان کاموں کا حکم دو جو ﷲ عزَّوجَلَّ کو پسند ہیں اور ان کاموں سے روکو جو
ربّ تعالیٰ کو نا پسند ہیں۔(درمنثور، ب ٢٨، التحر یم،تحت الآیت:٦، ٨ ٢٢٥ ملتقطاً
)
اﷲ تعالیٰ ہمیں ہر مسلمان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!
محمد حدير فرجاد (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو
عطّار ملير كراچی، پاکستان)

الله تبارک وتعالیٰ نے تخليق آدم علیہ السلام فرمائى پھر
جب الله پاک نے آپ کو جنت ميں رہنے کا حكم ديا تو آپ جنت ميں تنہائى كى وجہ سے کچھ
ملول ہوئے تو الله پاک نے آپ پر نیند کا غلبہ فرمايا اور آپ گہری نیند سوگئے تو
نیند ہی کی حالت میں بائيں(الٹى) پسلی سے الله پاک نے حضرت حوا رضى الله عنہا كو
پیدا فرمايا!
جب نيند سے بیدار ہوئے تو یہ دیکھ کر حيران ره گئے کہ ایک
نہایت ہی خوبصورت اور حسين و جميل عورت آپ کے پاس بیٹھی ہوئى ہے آپ نے ان سے
فرمايا كہ تم کون ہو؟ اور کس لیے آئى ہو؟ تو حضرت حوا رضى الله عنہا نے جواب ديا
كہ میں آپ کی بیوی ہوں اور الله پاک نے مجھے اس لیے پیدا فرمايا ہے تاکہ آپ کو مجھ
سے اُنس اور سكون قلب(دل) حاصل ہو اور مجھے آپ سے اُنسيت اور تسكين(سكون) ملے اور
ہم دونوں ایک دوسرے سے مل کر خوش رہیں اور پیار و محبت كے ساتھ زندگی بسر کریں اور
الله پاک کی نعمتوں کا شکر ادا كرتے رہیں(عجائب القرآن وغرائب القرآن)اور یہی سے
میاں بیوی کے مقدس رشتے کی ابتداء ہوئى اور الله پاک اس مقدس رشتہ کا قرآن پاک میں
اس طرح ذكر فرمايا ہے:
هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ(بیویاں)تمہاری لباس ہیں اور تم ان
کے لباس۔(پ2، البقرۃ:187)
سبحان الله! كيا خوبصورت انداز ميں رب تعالى نے میاں بیوی
کے مقدس رشتہ کو کیسے خوبصورت انداز ميں بيان فرمايا ہے اور جس طرح الله اور اس كے
رسول نے دوسرے رشتوں کے حقوق بيان فرمائيں ہیں اسی طرح بیوی پر شوہر کے حقوق اور
شوہر پر بیوی کے حقوق بهى بيان فرمائے ہیں چنانچہ چند حقوق ملاحظہ فرمائیں:
نان نفقہ: حضرت حكيم بن معاویہ قشیری رضى
الله عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے عرض كيا يارسول
الله! ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟ فرمايا جب تم كهاؤ تو اسے کھلاؤ
اور جب تم پہنو تو اسے پہناؤ اور اس کے منہ پر نہ مارو، اور اسے برا نہ کہو اور
اسے نہ چھوڑو مگر گھر میں۔(سنن ابی داؤد ،كتاب النكاح، ج2)
حسن سلوک: حضرت ابو هريرة رضى الله عنہ نے
کہا کہ حضور عليہ السلام نے فرمايا مسلمانوں ميں كامل الايمان وه شخص ہے جو اپنے
اخلاق ميں سب سے اچھا ہو اور تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں
کے ليے سب سے بہتر ہوں۔(سنن الترمذى ،كتاب الرضاع، ج2) شوہر پر سب سے بڑی ذمہ داری
ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے اس کی عزت كرے اور ایسا کام کرے جو دلوں میں محبت
پیدا کرے ۔
حفاظت كرنا: بيوى كى ہر اس چیز سے حفاظت كرنا
جو اس كى عزت كو نقصان پہنچائے ۔
مسائل ضروريہ: شوہر پر لازمی ہے کہ وہ اپنی بیوی
کو طہارت کے ضرورى مسائل سكهائے اگر شوہر اتنا زیادہ علم نہ رکھتا ہو تو اس کو کسی
ادارہ یا کسی عالمہ سے اپنے ضرورت کے مسائل سيكهنے کی اجازت اور اس پر زور دے ۔
عیب تلاش نہ کرے: شوہر پر ضرورى ہے کہ اپنی بیوی کے
عیبوں کو تلاش نہ کرے اگر کوئى عيب ظاہر بھی ہو جائے تو اس کو چھپائے اور اس پر اس
کی اصلاح كرے کہ حديث پاک میں ہے حضور عليہ السلام نے فرمايا كوئى مومن مرد كسى
مومنہ عورت سے بغض نہ رکھے کیونکہ اگر عورت کی کوئى كوئى عادت برى معلوم ہوتی تو
اس کی کوئى عادت پسندیدہ بھی ہوگی۔(مشکوة المصابيح، ج2، ص280)
والدین سے ملاقات: شوہر پر واجب ہے کہ ہفتہ میں ایک
بار والدین سے ملاقات کی اجازت دے اس کو اس سے نہ روکا جائے ۔
طعنہ نہ مارے: شوہر پر لازمی ہے کہ عورت پر کسی
بھی وجہ یا بات کو لے کر طعنہ نہ مارے بدقسمتى كے ساتھ آج كل ہر گھر میں شوہر بيوى
كو طعنہ دے رہا ہوتا ہے کہ تیرے ماں باپ نے شادی پر کیا دیا تیرے خاندان والے ایسے
ہیں تو نے ایسا کیا تھا وغيره وغيره العياذ بالله
الله كريم سے دعا ہے کہ ہر کسى كو سب كے حقوق ادا كرنے کی
توفيق عطا فرمائے الله كريم سے دعا ہے ہمارے معاشرے کے ہر گھر کو امن و سکون کا
گہوارہ بنادے اور ہمارے معاشرے سے طلاق كا نام و نشان تک مت جائے آمين!

اسلام،
اعتدال کا دین ہے، عدل و انصاف اور حقوق کی مساوانہ تقسیم اس کا خاص وصف ہے۔ زوجین
کے حقوق میں بھی اس دین متین نے اعتدال کی راہ کو اختیار کیا ہے اور اس خاص وصف کے
سبب یہ دین دنیا کے تمام تر دیگر ادیان سے ممتاز ہے۔میاں بیوی کے حقوق سے مرادوہ
ذمہ داریاں ہیں، جومرد و زن پر ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے بعد شرعی و اخلاقی طور پر عائد
ہوتی ہیں۔ جس طرح اسلام نے مرد کے حقوق بیان کیے ہیں، اسی طرح عورتوں کے حقوق کا
تعین بھی فرمایا ہے۔ جن میں سے کچھ تومالی حقوق ہیں جن میں مہر،نان و نفقہ، اوررہائش شامل
ہے۔اورکچھ غیر مالی حقوق ہیں جن میں بیویوں کے درمیان عدل انصاف کرنا، اچھے
اوراحسن انداز میں بود باش اورمعاشرت کرنا، بیوی کوتکلیف نہ دینا شامل ہیں۔ان کو
ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
مالی حقوق:
1۔مہر: مہر وہ مال ہے جو بیوی کااپنے خاوند پر حق ہے، اوریہ بیوی کا خاوند پر اللہ
تعالیٰ کی طرف سے واجب کردہ حق ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمۂ کنز
الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو۔(پ4، النسآء:4) ایک اور مقام پر فرمایا: ترجمۂ کنز الایمان: تو
جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر ا نہیں دو اور قرار داد (طے
شدہ)کے بعد اگر تمہارے آپس میں کچھ رضامندی ہوجائے تو اُس میں گناہ نہیں ۔(پ5،
النسآء:24)
اسی
طرح حدیث مبارکہ میں بھی مہر کے متعلق بیان ہوا:
حضرت ابن عباس سے مروی ہے
کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت علی سے فرمایا: اس کو کوئی چیز دو ۔
تو انہوں نے عرض کیا:میرے پاس کچھ نہیں ہے،تب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: وہ تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے؟ (سنن ابوداؤد،حدیث نمبر:2125)
2۔ نان ونفقہ: نفقہ
کے لغوی معنی خرچ کے ہیں۔ اِس سے مراد وہ شے ہے جو انسان اپنے اہل و عیال پر خرچ
کرتا ہے یعنی اخراجاتِ اولاد یا بیوی کا خرچ وغیرہ۔ اِصطلاحاً نفقہ سے مراد عورت
کے روزمرہ کے اخراجات ہیں جن میں خوراک، لباس اور سکونت شامل ہیں جو مرد کی
استطاعت کے مطابق اس کے ذمہ ہوتے ہیں۔ علما کا اس پر اجماع ہے کہ بیویوں کا خاوند پر نان ونفقہ واجب ہے۔
نان ونفقہ کا مقصد: بیوی کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا، پینا، رہائش وغیرہ
یہ سب کچھ خاوند کے ذمہ ہے اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو اوروہ غنی بھی ہوتوپھر
بھی خاوند کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہے۔اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد
فرمایا:
ترجمۂ کنز الایمان: اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا
پہننا ہے حسب دستور۔(پ2، البقرۃ:233)
اورایک
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح فرمایا:ترجمۂ کنز الایمان: مقدور
والا اپنے مقدور کے قابل نفقہ دے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا وہ اس میں سے
نفقہ دے جو اسے اللہ نے دیا۔(پ28، الطلاق:7) اسی طرح حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوا:
جناب حکیم بن معاویہ قشیری
اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم: ہم پر بیوی کے کیا حقوق ہیں؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:جب تُو کھائے تو اسے کھلائے، جب تُو پہنے تو اسے پہنائے، یا یوں فرمایا جب
کما کر لائے (تو اسے پہنائے)اورچہرے پر نہ مار، اسے برا نہ بول اور اس سے جدا نہ
ہو مگر گھر میں
3۔سکنٰی یعنی رہائش: یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اس کے لیے اپنی
وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش تیار کرے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں
کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر۔(پ28، الطلاق:6) شوہر کے لیے لازم ہے کہ وہ بیوی کی
رہائش کے لیے کم از کم ایسا انتظام ضرور کرے جہاں اس کی بیوی بے خوف ہو کر رہ سکے
اور اگراُس کی بیوی علیحدہ رہائش کا مطالبہ کرے اور شوہر اس کی طاقت رکھتا ہو تو
اُسے علیحدہ رہائش کا انتظام کرنا چاہیے۔
غیرمالی حقوق:
1:بیویوں کے درمیان عدل وانصاف: بیوی کا اپنے خاوند پر حق ہے کہ اگر اس کی اور بھی بیویاں
ہوں تووہ ان کے درمیان رات گزارنے، نان ونفقہ اورسکنیٰ وغیرہ اور دیگر تمام
معاملات میں عدل و انصاف کرے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرو گے تو نکاح میں لاؤ جو
عورتیں تمہیں خوش آئیں دو 2دو 2 اور تین3 تین3 اور چار 4چار4 پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی
کرو۔(پ4، النسآء:3)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اگرچہ مرد کو ایک سے زائد
بیویاں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ان کے درمیان عدل و
انصاف کرے، اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہے تو پھر اس کو ایک ہی بیوی رکھنی چاہیے جو
کہ آج کل ہمارے معاشرے میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ایک سے زائد بیویاں تو رکھ
لیتے ہیں لیکن وہ ان کے درمیان انصاف نہیں کر پاتے۔
2:حسن معاشرت: حُسنِ معاشرت سے مراد یہ ہے کہ انسان جس سے ملے اور جس سے میل جول رکھے ان
سے اچھے اخلاق سے پیش آئے،خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی
کا برتاؤ کرے، اوراپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جواس کےلیے محبت والفت
کا باعث ہوں۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )
اورایک دوسرے
مقام پر کچھ اس طرح فرمايا: ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق
ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے
ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کی کہ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے جب
(اپنی بیوی میں) کوئی (پسند نہ آنے والا) معاملہ دیکھے تو اچھی طرح سے بات کہے یا
خاموش رہے۔ اور عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو کیونکہ عورت پسلی سے
پیدا کی گئی ہے۔ اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر والے حصے میں ہے۔ اگر
تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی
رہے گی، عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو ۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر:
1468)
اب ہم چندایک
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اپنی بیویوں کےساتھ حسن معاشرت کے
نمونے پیش کرتے ہیں:
عروہ بن زبیر سے روایت کیا، انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے
ہیں اور حبشی اپنے چھوٹے نیزوں کے ساتھ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی مسجد میں کھیل (مشقیں کر) رہے ہیں۔ اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے
اپنی چادر سے چھپائے ہوئے ہیں تاکہ میں ان کے کرتب دیکھ سکوں، پھر آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری خاطر کھڑے رہے حتیٰ کہ میں ہی ہوں جو واپس پلٹی۔(صحیح
مسلم،حدیث نمبر: 892)
ہمیں بھی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
مبارک سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے اور
جو حقوق ان کے ہمارے ذمہ ہیں ا نہیں اچھی طرح سے ادا کرنا چاہیے،اللہ پاک کی
بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا
فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
سید زید رفیق بخاری عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدينہ
فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)

اللہ پاک کے اخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: النکاح من سنتی نکاح میری سنت ہے! نکاح
اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: هُنَّ
لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ-ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ(بیویاں)تمہاری لباس ہیں اور تم ان
کے لباس۔(پ2، البقرۃ:187)
اس سے نکاح کے رشتے کی اہمیت کا
اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ یہ مقدس رشتہ دو انسانوں کے درمیان
قائم ہوتا ہے، اسی لیے دینِ اسلام نے اس رشتے کی حفاظت کے پیشِ نظر بیوی پر شوہر
کے اور شوہر پر بیوی کے حقوق کو لازم کیا،ہمارا مقصد یہاں شوہر پر جو بیوی کے حقوق
ہیں ان کو بیان کرنا ہے۔
یاد رہے! بیوی کے حقوق کا تعلق
حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد کی شریعت مطہرہ میں جو اہمیت ہے وہ محتاج بیان
نہیں ۔بیوی کے اپنے خاوند پر کچھ تو مالی حقوق ہیں اور کچھ معاشرتی، جیسے مہر،
نفقہ، رہائش دینا، اچھے انداز کے ساتھ رہنا، بیوی کو تکلیف نہ دینا وغیرہ، ہم
دونوں کو اختصار سے بیان کرتے ہیں۔
بیوی کا مہر شوہر پر ضروری ہے: اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: وَ
اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ- ترجمۂ کنز
الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو۔(پ4، النسآء:4)
معلوم ہوا شوہر پر لازم ہے کہ
بیوی کو اس کا مہر دے، بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ لاکھ دو لاکھ مہر فقط لکھوا لیتے
ہیں اور دیتے نہیں بلکہ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ بیوی معاف کر دے! یہ گناہ کا
کام ہے، مرد مہر اتنا لکھوائے جتنا دے سکتا ہو، اور لڑکی والوں کو بھی اس کا خیال
رکھنا چاہیے کہ اتنا ہی مہر رکھوائیں کہ شوہر بیچارا ادا کر سکے، شریعت نے اس شادی
کو پسند فرمایا جو آسان ہو۔ اللہ پاک ہمیں حقوق کی ادائیگی اور ایک دوسرے کے لیے
آسانی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مرد پر نان و نفقہ واجب ہے: مرد حضرات پر مہر کے
علاوہ نفقہ بھی واجب ہے، صاحب بہار شریعت، صدر الشریعہ، بدر الطریقہ، حضرت علامہ
مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ القوی بہار شریعت کی جلد 2، حصہ الف، صفحہ
نمبر 260 پر فرماتے ہیں: نفقہ سے مراد کھانا، کپڑا، رہنے کا مکان ہے اور نفقہ واجب
ہونے کے تین سبب ہیں زوجیت، نسب، ملک۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: لِیُنْفِقْ
ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖؕ-وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ
مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُؕ-لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ
اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠(7) ترجمۂ
کنز الایمان: مقدور والا اپنے مقدور کے قابل نفقہ دے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا
گیا وہ اس میں سے نفقہ دے جو اسے اللہ نے دیا اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتا مگر
اسی قابل جتنا اسے دیا ہے قریب ہے کہ اللہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا۔(پ28،
الطلاق:7)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مرد اپنی
طاقت کے مطابق خوش دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی زوجہ کو خرچہ وغیرہ دے اور
تنگی کا خوف نہ کرے اگر کوئی پریشانی ہے بھی تو یہ وقتی ہے کیونکہ ہر دشواری کے
بعد اللہ آسانی فرمائے گا۔
بیوی کی رہائش کا ذمہ شوہر پر ہے: اسی طرح بیوی کو رہائش
دینا بھی شوہر پر لازم ہے اوربیوی کے حقوق میں شامل ہے چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید
فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ
وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں
کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر اور ا نہیں ضرر نہ دو کہ ان پر تنگی
کرو۔ (پ28، الطلاق:6)
لہذا پتہ چلا کہ مہر نفقہ رہائش
یہ وہ عورت کے حقوق ہیں جو شوہر پر لازم ہے لہذا شوہر ان کو صدقِ دل سے اللہ کی
رضا کے لیے ادا کرے اور اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ
فرمان بھی یاد رکھیں: مسلمان جو کچھ اپنے اہل پر خرچ کرے اور نیت ثواب کی ہو تو یہ
اس کے لیے صدقہ ہے۔ (صحیح بخاری،باب النفقات،باب فضل النفقہ علی الاھل ۔۔
۔الخ،حدیث: 5351)
یہ کچھ عورت کے وہ حقوق تھے جن کا
تعلق مال سے تھا اب آئیے اختصار کے ساتھ غیر مالی حقوق کا بھی تذکرہ کرتے ہیں:
عورت کی غلطیوں کے ساتھ اسے قبول کرو: رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، ہر گز تمہارے لیے
سیدھی نہیں ہوگی، اگر تم اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو! تو اسی حالت میں فائدہ
حاصل کرو، اگر سیدھا کرنے جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے، اور اس کا توڑنا طلاق
ہے۔(مشکاۃ،حدیث3239)
اس سے معلوم ہوا کہ عورت کا ٹیڑھا
ہونا اس کی فطرت سے ہے، وہ مکمل سیدھی ہوجائے ایسا نہیں ہو سکتا، اس لیے مرد حضرات
کو تحمل و بردباری کے ساتھ درگزر سے کام لیتے ہوئے عورت کی غلطیوں کے ساتھ ہی
زندگی گزارنی ہے۔
شوہر کے لیے نفیس تعلیم: رسول کریم روؤف رحیم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی مؤمن کسی مؤمنہ بیوی کو دشمن نہ جانے اگر اس
کی کسی عادت سے ناراض ہو تو دوسری خصلت سے راضی ہوگا۔(مشکاۃ،حدیث،3240)
سبحان اللہ! کتنی پیاری اور نفیس
تعلیم ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کو بے عیب بیوی ملنا ناممکن ہے، اسے چاہیے کہ
اس کی برائیاں نظر انداز کرے اور اچھائیوں پر نظر رکھے اور اپنی بیوی سے محبت کرے
اسے دشمن ہر گز نا جانے۔ اللہ پاک ہمیں اپنی رضا کے لیے ایک دوسرے کے حقوق ادا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ۔
محمد لیاقت علی قادری رضوی (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃُ
المدینہ فیضان مدینہ گجرات، پاکستان)

الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور ایک
کامل مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا نہیں بلکہ احکامات الٰہیہ کا
پابند ہوتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات کا نہیں بلکہ دین اسلام کے اصول و قوانین کا تابع
ہوتا ہے۔تو اسلام نے جس طرح مردوں میں شوہر کو منفرد مقام عطا کیا اسی طرح عورتوں
میں بیوی کو انفرادی شان وعظمت عطا کی۔ اسلام نے جس طرح شوہر کے کچھ حقوق بیان کئے
اسی طرح بیوی کے بھی کچھ حقوق بیان کئے۔جن کو ادا کرناشوہر پر لازم ہے۔
بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ شوہر
بیوی کیساتھ خوش اخلاقی،نرمی اور محبت و شفقت کیساتھ زندگی بسر کرے۔ چنانچہ اللہ
پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )
اور نبی مکرم نور مجسم شفیع معظم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی بیویوں کے حقوق بیان فرمائے۔ چند احادیثِ
مبارکہ درج ذیل ہیں:
1۔ کامل ترین مؤمن: وَعَنْ
أَبِي هُرَيرَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخِيَارُكُمْ
خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےفرماتے ہیں رسول اﷲ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا مؤمنوں میں سے کامل تر مؤمن اچھے اخلاق والا
ہے۔ اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں سے بہترین ہو۔ (مرآۃ المناجیح:
جلد،5:حدیث نمبر:3264)
2۔کامل مؤمن کون؟: حسن اخلاق کے پیکر محبوب رب اکبر
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: أَكْمَل الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا،أَحْسَنَهُمْ خُلُقًا،
وَأَلْطَفَهُمْ بِأَهْلِهِ یعنی مؤمنین میں سے سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے
اخلاق زیادہ اچھے ہوں،اور وہ اپنے گھر والوں(بیوی،پچوں) پر زیادہ مہربان ہو۔ ایک
روایت میں ہے: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کیساتھ سب سے زیادہ
بھلائی کرنے والا ہے۔اور میں اپنی ازواج کیساتھ سب سے زیادہ بھلائی کرنے والا ہوں۔
(احیاء العلوم مترجم:جلد،2:ص،253: مطبوعہ مکتبہ المدینہ)
3۔ ہم پر بیوی کے حقوق: وَعَن
حَكِيم بْنِ مُعَاوِيَةَ الْقُشَيْرِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ
اللہ! مَا حَقُّ زَوْجَةٍ أَحَدِنَا عَلَيْهِ؟ قَالَ: أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ،
وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكتَسَيْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ،
وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ ترجمہ: حضرت حکیم ابن معاویہ قشیری سے روایت ہے وہ اپنے
والد سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یارسولﷲ ہم میں سے کسی کی بیوی
کا حق اس پر کیا ہے؟ فرمایا جب تم کھاؤ اسے کھلاؤ اورجب تم پہنو اسے پہناؤ۔اور اس
کے منہ پر نہ مارو اور اسے برا نہ کہو اور اسے نہ چھوڑو مگر گھر میں۔ (مشکاۃ: جلد،
2: حدیث، 3258:ص:26)
4۔ دشمن نہ جانو: وَعَنْ
أَبِي هُرَيرَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا
يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ ترجمہ: حضرت ابو ھریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں۔ رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔کوئی
مؤمن کسی مؤمنہ بیوی کو دشمن نہ جانے اگر اس کی کسی عادت سے ناراض ہو تو دوسری
خصلت سے راضی ہوگا۔
شرح حدیث: مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار
خان نعیمی گجراتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سبحان اﷲ! کیسی نفیس تعلیم،مقصد یہ
ہے کہ بے عیب بیوی ملنا ناممکن ہے،لہذا اگر بیوی میں دو ایک برائیاں بھی ہوں تو
اسے برداشت کرو کہ کچھ خوبیاں بھی پاؤ گے۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ جو شخص بے عیب
ساتھی کی تلاش میں رہے گا وہ دنیا میں اکیلا ہی رہ جائے گا،ہم خود ہزار ہا برائیوں
کا چشمہ ہیں،ہر دوست عزیز کی برائیوں سے درگزر کرو،اچھائیوں پر نظر رکھو،ہاں اصلاح
کی کوشش کرو،بے عیب تو رسولﷲ ہیں۔ ( مرآۃ المناجیح جلد،5: حدیث نمبر:3240 )
5۔بیوی کے شوہر پر حقوق صراط الجنان کی روشنی
میں: 01۔
خرچہ دینا ۔ 02۔ رہائش مہیا کرنا ۔ 03۔ اچھے طریقے سے گزارہ کرنا ۔ 04۔ اسکی طرف
سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگر چہ یہ عورت کا حق نہیں ۔ 05۔ جب تک شریعت
منع نہ کرے ہر جائز بات میں اسکی دلجوئی کرنا۔ 06۔ نیک باتوں،حیا اور پردے کی
تعلیم دیتے رہنا ۔ 07۔ ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا۔(صراط الجنان:
جلد،1:ص 348)
6۔بہترین شوہر: بہترین شوہر وہ ہے 01۔جو
اپنی بیوی کیساتھ نرمی اور حسن سلوک کیساتھ پیش آئے۔ 02۔جو اپنی بیوی کے حقوق ادا
کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔ 03۔جو اپنی بیوی کا اس طرح ہو کر رہے کہ کسی
اجنبی عورت پر نگاہ نہ ڈالے۔ 04۔جو اپنی بیوی کو اپنے عیش وآرام میں برابر کا شریک
سمجھے۔ 05۔جو اپنی کی خوبیوں پر نظر رکھے اور معمولی غلطیوں کو نظر انداز کرے۔
06۔جو اپنی بیوی کو دینداری کی تاکید کرتا رہے اور شریعت پر چلائے۔ 07۔جو اپنی
بیوی کو پردے میں رکھ کر اسکی عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ 08۔جو اپنی بیوی پر ظلم
اور کسی قسم کی بے جا زیادتی نہ کرے۔ 09۔جو اپنی بیوی کی تند مزاجی اور بد اخلاقی
پر صبر کرے۔ 10۔جو اپنی بیوی کو ہر طرح کی ذلت و رسوائی سے بچا کر رکھے۔ 11۔جو
اپنی بیوی کے اخراجات میں بخل اور کنجوسی نہ کرے۔ 12۔جو اپنی بیوی کی
مصیبتوں،بیماریوں اور رنج و غم میں دلجوئی اور وفا داری کا ثبوت دے۔ 13۔جو اپنی
بیوی پر ایسا کنٹرول رکھے کہ وہ کسی برائی کی طرف رخ بھی نہ کرے ۔ (ماخوذ:جنتی
زیور: ص،84/85: مکتبہ المدینہ)
ضمیر احمد رضا عطاری (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ
فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)

کہا جاتا ہے کہ میاں اور بیوی
زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں اگر گاڑی کا ایک پہیہ بھی صحیح طرح کام نہ کرے
تو گاڑی نہیں چلتی یوں ہی ازدواجی زندگی میں خوشحالی فقط اسی صورت میں ممکن ہے جب
میاں اور بیوی دونوں ہی اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن سر انجام دیں وگرنہ
زندگی کی گاڑی کا چلنا مشکل ہی نہیں بلکہ بسا اوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔
اسلام چونکہ فقط ایک مذہب ہی نہیں
بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات بھی ہے۔ اس لیے اسلام میں جہاں ایک بچے کی پیدائش سے لے
کر موت تک زندگی گزارنے کے تمام اصول و ضوابط بالتفصیل بیان کر دیے گئے وہیں
ازدواجی زندگی کو خوبصورتی کے ساتھ گزارنے کے لئے میاں بیوی کے حقوق و فرائض بھی
بیان کیے گئے تاکہ یہ مقدس رشتہ خوبصورتی کے ساتھ نبھایا جا سکے ۔ اسلام میں خاوند
پر بیوی کے درج ذیل حقوق کو بیان کیا گیا ہے:
حق مہر: بیوی کے حقوق میں سب سے پہلا حق
مہر ہے۔ یعنی جیسے ہی ایک عورت رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتی ہے اسے مہر کا حق حاصل
ہو جاتا ہے۔اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اٰتُوا النِّسَآءَ
صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ-فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا
فَكُلُوْهُ هَنِیْٓــٴًـا مَّرِیْٓــٴًـا(4) ترجمۂ کنز
الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو پھر اگر وہ اپنے دل کی خوشی سے مہر
میں سے تمہیں کچھ دے دیں تو اسے کھاؤ رچتا پچتا (خوش گوار اور مزےسے)۔ (پ4،
النسآء:4)
اس آیت کریمہ میں شوہروں کو حکم
دیا گیا کہ وہ بیویوں کو ان کا مہر خوشی سے دیں۔ البتہ بعد ادائیگی اگر بیوی اپنی
خوشی سے بطور تحفہ شوہر کو مہر کا کچھ حصہ یا مکمل مہر دے دیتی ہے تو اسے لینے میں
کوئی حرج نہیں لیکن اسے مہر معاف کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ مہر بیوی
کا حق ہے لہذا اگر اس کے والد یا ولی نے بوقت نکاح مہر لے لیا ہو وہ تو بیوی کے
حوالے کر دیا جائے۔
نان و نفقہ: دوسرا حق نان و نفقہ ہے،شوہر پر
لازم ہے کہ وہ بیوی کی تمام ضروریات زندگی کو پورا کرے۔ اس کے لیے کھانے پینے لباس
اور دیگر تمام اخراجات کا بندوبست کرے۔ خطبہ حجۃ الوداع جو کہ انسانی حقوق کا
عالمی منشور ہے اس میں نبی کریم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
بیویوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم
ان کے لباس اور طعام میں اچھا سلوک کرو ۔(ترمذی حدیث 1163)
حتی کہ طلاق کے بعد بھی ایامِ عدت
میں نفقہ خاوند ہی کے ذمے ہے اللہ کریم نے قرآن عظیم میں ارشاد فرمایا: وَ
لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِؕ-حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ(241) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور طلاق والیوں کے لیے بھی مناسب طور
پر نان و نفقہ ہے یہ واجب ہے پرہیزگاروں۔(پ2،
البقرۃ:241)
سکنی:بیوی کا تیسرا حق سکنی یعنی رہائش ہے۔ شوہر پر واجب
ہے کہ وہ اپنی استطاعت اور قدرت کے مطابق بیوی کے لیے مناسب رہائش کا بندوبست کرے۔
نفقہ کی طرح سکنی بھی ایسا حق ہے جو دورانِ عدت بھی شوہر کے ذمے ہے ، فرمان باری
تعالیٰ ہے اَسْكِنُوْهُنَّ
مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو
وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر۔ (پ28، الطلاق:6)
عدل و انصاف: شوہر پر لازم ہے کہ وہ لباس،
رہائش اور نفقہ وغیرہ میں عدل و انصاف سے کام لے اور اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں
تو ان تمام چیزوں میں مساوات کا دامن تھامے رکھے۔ بیویوں کے ساتھ عدل و انصاف کی
اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کریم نے ایک سے زائد
شادیوں کی اجازت کو اس بات پر موقوف رکھا کہ ان کے ما بین عدل و انصاف کیا
جائے۔چنانچہ ارشاد فرمایا:
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا
مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ(3) ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی
کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔ (پ4، النسآء:
3)
اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط
الجنان میں لکھا ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے، اس میں نئی، پرانی،
کنواری یا دوسرے کی مُطَلَّقہ، بیوہ سب برابر ہیں۔ یہ عدل لباس میں، کھانے پینے میں،
رہنے کی جگہ میں اوررات کوساتھ رہنے میں لازم ہے۔ ان امور میں سب کے ساتھ یکساں
سلوک ہو۔
حسن سلوک: شوہر پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ
بیوی سے حسن سلوک سے پیش آئے۔ اس کی جائز خواہشات کو حتی الامکان پورا کرنے کی
کوشش کرے اسلام نے عورت کے ساتھ حسن سلوک کو جا بجا بیان فرمایاہے چنانچہ قرآن
مجید میں ارشاد ہوتا ہے : وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے
اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )
قرآنِ مجید کے علاوہ کئی احادیث
کریمہ بھی عورتوں سے حسن سلوک پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک
کی تلقین کرتے ہوئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:تم
میں بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہو اور میں اپنے گھروالوں کے
لئے تم سب سے اچھا ہوں۔(ترمذی،کتاب المناقب،باب فضل ازواج النبی،5/475حدیث:3921)
ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ تم سب
میں بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں اور بچیوں کے ساتھ اچھا ہو۔(شعب الایمان،باب فی
حقوق الاولاد والاہلین،6/415، حدیث:8720) ان روایات سے یہ بات روز روشن کی
طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلام نے عورت کے ساتھ حسن سلوک کی کتنی تلقین کی ہے۔
ایذا رسانی سے بچنا: اسلام میں ایذا رسانی منع ہے،کسی
بھی مسلمان کو بلا وجہ تکلیف پہنچانے کی شدید مذمت کی گئی ہےچنانچہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ
الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ترجمہ: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے
مسلمان محفوظ رہیں۔ (صحیح بخاری جلد اول: كتاب الإيمان: حدیث 10)
یعنی حقیقی معنوں میں مسلمان
کہلانے کے لائق وہی شخص ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ وہ
نہ تو زبان سے غیبت، چغلی، گالی گلوچ اور طعن و تشنیع کے ذریعے کسی مسلمان کو
تکلیف پہنچائے اور نہ ہی ہاتھ کے ذریعے کسی کو ایذا دے۔
اس روایت میں ایک عام مسلمان کو
ایذا دینے سے بھی کتنی سختی سے منع کیا گیا ہے تو زوجہ جو کہ دوسروں کی بنسبت حسن
سلوک کی زیادہ حقدار ہوتی ہے۔ اسے کیونکر تکلیف دی جا سکتی ہے۔ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الا
واستوصوا بالنساء خيرا، فإنما هن عوان عندكم ترجمہ: سنو! عورتوں کے ساتھ خیر
خواہی کرو ۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔(ترمذی، حدیث 1163)
الغرض اسلام نے بیوی کے حقوق
تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں اور زمانہ جاہلیت میں عورت سے کی جانے والی بد سلوکی
کی تمام رسومات کو دفن کر دیا ہے اور عورت کو معاشرے میں ایک بلند مقام عطا کیا
ہے۔ اگر شوہر اور بیوی دونوں ہی فقط اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے
کے حقوق ادا کرنے والے بن جائیں تو واقعی گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ اللہ پاک
ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
صفی الرحمٰن عطّاری (درجۂ خامسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان
مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)

میاں بیوی کا باہمی تعلق دنیا میں
ایک لائق مثال تعلق ہے۔کیونکہ نکاح ہوتے ہی نام و جان سے ناآشنا دو انسانوں کے
درمیان انسیت و محبت کے ساتھ ساتھ ایک گہرا تعلق بھی قائم ہوجاتا ہے۔
تو اس صورتحال میں زوجین کے
درمیان اس تعلق کا برقرار رہنا اللہ پاک کی ایک بہت بڑی نعمت ہے چنانچہ اس تعلق کے
قیام اور اپنے گھر کو امن اور خوشیوں کا گہوارہ بنانے میں شوہر کا کردار بہت ہی
اہم ہے۔ کہ اپنے گھر بار بہن بھائیوں، اور ماں باپ کو خیر آباد کہہ کر آنے والی اس
خدا کی بندی کا اگر وہ خیال نہیں رکھے گا اور اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نہیں
نبھائے گا اور اس کے حقوق پورے نہیں کرے گا تو اس کے گھر میں خوشیوں کے پھول کیسے
کھلیں گے؟ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کے متعلق اللہ پاک قرآن مجید
میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-فَاِنْ
كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ
فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا(19)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا
برتاؤ کرو پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو
اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھے۔(پ4، النسآء: 19 )
اسی طرح ایک اور مقام میں فرمایا:
وَ
لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا
بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)
یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کو ادا
کرنا واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔(خزائن العرفان،
پ2،
البقرہ، تحت الآیۃ: 228)
امام ابو عبد الله محمد من احمد بن ابو بکر
قرطبی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: حقوق زوجیت میں سے عورتوں کے حقوق مردوں پر اسی
طرح واجب ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر واجب ہیں اس لئے حضرت ابن عباس رضی
اللہ عنہ نے فرمایا: بلاشبہ میں اپنی بیوی کے لئے زینت اختیار کرتا ہوں جس طرح وہ
میرے لئے بناؤ سنگھار کرتی ہے اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں وہ تمام حقوق اچھی
طرح حاصل کروں جو میرے اُس پر ہیں اور وہ بھی اپنے حقوق حاصل کرے جو اس کے مجھ پر
ہیں۔ کیونکہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ
لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ علیہنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ (اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے
جیسا ان پر ہے شرع کے موافق)
اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی
کہ بیویوں کے ساتھ اچھی صحبت اور بہترین سلوک خاوندوں پر اسی طرح لازم ہے جس طرح
ہے بیویوں پر ہر اُس (جائز) کام میں خاوندوں کی اطاعت واجب ہے جس کا وہ ا نہیں حکم
دیں۔(تفسیر قرطبی، پ2، البقرہ، تحت الآیۃ:228)
احادیث میں بھی بیویوں کے حقوق
بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند احادیث ملاحظہ ہوں:۔
یاد مدینہ کے آٹھ حروف کی نسبت سے بیوی کے حقوق
کے متعلق آٹھ فرامین مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(1) لا يفرك
مؤمنٌ مؤينةً ان کرہ منها خِلُقا رضی منها آخر یعنی کوئی مسلمان مرد (شوہر) کسی مسلمان عورت
(بیوی) سے نفرت نہ کرے اگر اس کی ایک عادت نا پسند ہے تو دوسری پسند ہو گی۔(مسلم،
کتاب الرضاع، باب الوصیة بالنساء،ص،775، حدیث: 1469)
(2) خَيْرُ
كُمْ خيْرُ كُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُ کم لاھلی ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ شخص
ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر
ہوں۔(ابن ماجہ ابواب النکاح، باب حسن معاشرة النساء، الحديث478/2 حدیث:1977)
(3)سب سے بدترین انسان وہ ہے جو
اپنے گھر والوں پر تنگی کرے۔عرض کی گئی: وہ کیسے تنگی کرتا ہے؟ ارشاد فرمایا: جب
وہ گھر میں داخل ہوتا ہے تو بیوی ڈر جاتی ہے، بچے بھاگ جاتے اور غلام سہم جاتے ہیں
اور جب وہ گھر سے نکل جائے تو بیوی ہنسنے لگے اوردیگر گھر والے سُکھ کا سانس
لیں۔(معجم اوسط،ج6،ص287،حدیث:7898)
(4)عورتوں کے بارے میں بھلائی کی
وصیت قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیرھی اوپر
والی پسلی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دو گے اور اگر اسے چھوڑ دو تو وہ
ٹیڑھی ہی رہے گی پس تم عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔ (بخاری،کتاب
النکاح، باب الوصاة النساء، 457/3،حدیث 5186)
(5)جس نے اپنی بیوی کے برے اخلاق
پر صبر کیا تو اللہ پاک اسے حضرت ایوب علیہ السلام کے مصیبت پر صبر کرنے کی مثل
اجر عطا فرمائے گا اور اگر عورت اپنے شوہر کے برے اخلاق پر صبر کرے تو اللہ پاک
اسے فرعون کی بیوی آسیہ کے ثواب کی مثل اجر عطا فرمائے گا۔ (کتاب الکبائر، الکبیرة
السابعہ والاربعون، ص:602)
(6)ایک دینار وہ ہے جسے تم اللہ
کی راہ میں خرچ کرتے ہو ایک دینار وہ ہے جسے تم غلام پر خرچ کرتے ہو، ایک دینار دو
ہے جسے تم مسکین پر صدقہ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ
کرتے ہو۔ ان میں سب سے زیاد اجرہ اس دینار پر ملے گا جسے تم اپنے اہل و عیال پر
خرچ کرتے ہو۔(مسلم، کتاب الزکاة، باب فضل النفقة علی العیال ۔۔ ۔۔ الخ، ص،499 حدیث: 995)
(7)حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے کہ تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سب
سے پہلے جو چیز انسان کے ترازوئے اعمال میں رکھی جائے گی وہ انسان کا وہ خرچ ہو گا
جو اس نے اپنے گھر والوں پر کیا ہو گا۔(معجم الاوسط، 328/4،حدیث: 6135)
(8)جب تم خود کھاؤ تو بیوی کو بھی
کھلاؤ اورجب خود پہنو تو اسے بھی پہنا ؤ اور چہرے پر مت مارو اور اسے بُرے الفاظ
نہ کہو اور اس سے (وقتی)قطع تعلق کرنا ہو تو گھر میں کرو۔(ابو داؤد،ج2،ص356،
حدیث:2142)
اللہ عَزَّ وَجَلَّ مسلمانوں کے
تمام گھروں کو امن و سکون کا گہوارہ بنائے اور ہمیں باکردار مسلمان بننے کی توفیق
عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد انس زبیر عطّاری
(درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)

اللہ پاک کے اخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمان ہے: النکاح من سنتی نکاح میری سنت ہے! ۔اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: هُنَّ
لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ(بیویاں)تمہاری
لباس ہیں اور تم ان کے لباس۔(پ2، البقرۃ:187)
اس سے نکاح کے رشتے کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ
بات بھی ظاھر ہے کہ یہ مقدس رشتہ دو انسانوں کے درمیان قائم ہوتا ہے، اسی لیے دینِ
اسلام نے اس رشتے کی حفاظت کے پیشِ نظر بیوی پر شوہر کے اور شوہر پر بیوی کے حقوق
کو لازم کیا،ہمارا مقصد یہاں شوہر پر جو بیوی کے حقوق ہیں ان کو بیان کرنا ہے۔
یاد رہے بیوی کے حقوق کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق
العباد کی شریعت مطہرہ میں جو اہمیت ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔ بیوی کے اپنے خاوند
پر کچھ تو مالی حقوق ہیں اور کچھ معاشرتی، جیسے مہر ، نفقہ، رہائش دینا، اچھے
انداز کے ساتھ رہنا، بیوی کو تکلیف نہ دینا وغیرہ، ہم دونوں کو اختصار سے بیان
کرتے ہیں:
عورت کی غلطیوں کے ساتھ اسے قبول کرو: رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، ہر گز تمہارے لیے
سیدھی نہیں ہوگی، اگر تم اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو! تو اسی حالت میں فائدہ
حاصل کرو، اگر سیدھا کرنے جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے، اور اس کا توڑنا طلاق
ہے۔(مشکاۃ،حدیث:3239)
اس سے معلوم ہوا کہ عورت کا ٹیڑھا ہونا اس کی فطرت سے ہے،
وہ مکمل سیدھی ہوجائے ، ایسا نہیں ہو سکتا، اس لیے مرد حضرات کو تحمل و بردباری کے
ساتھ درگزر سے کام لیتے ہوئے عورت کی غلطیوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے۔
شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں :
(1) خرچہ دینا، (2) رہائش مہیا کرنا، (3) اچھے طریقے سے
گزارہ کرنا، (4) نیک باتوں، حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا (5) ان کی خلاف ورزی
کرنے پر سختی سے منع کرنا، (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی
دلجوئی کرنا، (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق
نہیں ۔
سبحان اللہ! کتنی پیاری اور نفیس تعلیم ہے، اس کا مطلب یہ
ہوا کہ مرد کو بے عیب بیوی ملنا ناممکن ہے، اسے چاہیے کہ اس کی برائیاں نظر انداز
کرے اور اچھائیوں پر نظر رکھے اور اپنی بیوی سے محبت کرے اسے دشمن ہر گز نا جانے۔
اللہ پاک ہمیں
اپنی رضا کے لیے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ
خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد معین عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃالمدینہ فیضان مشتاق شاہ
عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)

شوہر کے بیوی پر بہت سے حقوق ہیں لیکن اسی طرح بیوی کے
شوہر پر حقوق ہوتے ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ
لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز
الایمان:اور
عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)
یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے
اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق پورے کرنا لازم ہے۔آیت کی مناسبت سے یہاں ہم
بیوی کے چند حقوق بیان کرتے ہیں۔چنانچہ شوہر پر بیوی کے چند حقوق درج ذیل ہیں:
(1)مہر:یہ خاص بیوی کا حق ہے اب یہ شوہر پر ہے کہ وہ جتنا
آسانی سے ادا کرسکتا ہے اتنا مہر ادا کرے چنانچہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ سب سے بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جو مشقت کے اعتبار سے
سب سے زیادہ آسان ہو۔(2/268مشکاۃ، کتاب النکاح، ط: قدیمی)
(2)خرچہ دینا: اب اس میں کھانے پینے کی اشیاء
فراہم کرنا وغیرہ اور کپڑے وغیرہ مہیا کرنا اور ان کی رہائش کا انتظام کرنا اور
اگر کوئی بیماری لاحق ہو تو اس کی دوا وغیرہ کا انتظام کرنا ۔
(3)نیک باتوں،حیا اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا:
یعنی ان کو
باحیاء بنانا اور ان کو پردہ دار لباس پہننے کی تلقین کرنا نیز غیر محرم وغیرہ سے
پردے کا سختی سے پابند بنانا۔اس کا بہترین طریقہ اور حل مدنی چینل ہے کہ یہ ایسی
ہی پیاری اور اسلامی تعلیمات سکھاتا ہے۔
(4)جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس
کی دلجوئی کرنا:یعنی کھانا اچھا بنا ہو یا مناسب ہو تو اس کی تعریف کرنا دلجوئی کے طور پر
اور ویسے بھی دلجوئی کا حکم رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دیا ہے۔
اور دلجوئی سنت بھی ہے۔اور اسی طرح اگر اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر
کرنا اگرچہ یہ اس کا حق نہیں ہے۔
تنویر احمد عطاری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق
اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے مردوں اور عورتوں کو
جنسی بے راہ روی اور وسوسہ شیطانی سے بچانے نیز نسل انسانی کی بقاءبڑھوتری اور
قلبی سکون کی فراہمی کے لیے ا نہیں جس خوبصورت رشتے کی لڑی میں پر ویا ہے وہ رشتہ
ازدواج کہلاتا ہے یہ رشتہ جتنا اہم ہے اُتنا ہی ناز ک بھی ہے۔ کیونکہ ایک دوسرے کی
خلاف مزاج باتیں برداشت نہ کرنے درگزر سے کام نہ لینے اور ایک دوسرے کی اچھائیوں
کو انظر انداز کرکے صرف کمزوریوں پر نظر رکھنے کی عادت زندگی میں زہر کھول دیتی ہے
جس کے نتیجے میں گھر جنگ کا میدان بن جاتا ہے اس وجہ سے شوہر کو چاہئے کہ وہ درگز
اور برد باری، تحمل مزاجی اور وسیع ظرفی جیسی خوبیوں کا پیکر ہونا چاہیے ۔
اگر شوہر اپنی
بیوی کی اچھائیوں اور اس کے احسانات ہی نظر رکھے اور معمولی غلطیوں میں اس سے
درگزر کرے۔ گھر کو امن اور خوشیوں کا گہوارہ بنانے میں شوہر کا کردار بہت ہی اہم
ہے وہ اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نہیں نبھائے گا اور بیوی کے حقوق پورے نہیں
کرے گا تو اس کے گھر میں خوشیوں کے پھول کیسے کھلیں گے؟ اللہ پاک نے بیویوں کے
حقوق سے متعلق قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ
الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق
ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)
یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادا واجب ہے اسی
طرح شوہروں پر بیویوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔ امام ابو عبد الله بن محمد بن
احمد بن ابو بکر قرطبی علیہ رحمۃ اللہ القوی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: حقوق زوجیت
میں سے عورتوں کے حقوق مردوں پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر
واجب ہے۔ شوہر پر بیوی کے حقوق ملاحظہ فرمایئے:
1۔ حسن
اخلاق سے پیش آئے: فرمان مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: خیر کم
لاھلہ واناخیر کم لاھلی ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور
میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔
2۔ بیوی پر جتنا خرج اتنا ہی بڑا اجر:حضرت سیدنا سعد بن ابی
وقاص رضی الله عنہ سےمروی ہے کہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اللہ پاک کی رضا کے لیے تم جتنا بھی خرچ کرتے ہو اس کا اجر دیا جائے گا حتی کہ جو
لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو اس کا بھی اجر ملے گا۔
3۔ نیک کاموں کا حکم دینا: جب نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان
عرض گزار ہوئے۔ یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم اپنے اہل و عیال کو
آتش جہنم سے کسی طرح بچا سکتے ہیں ؟ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا، تم اپنے اہل و عیال کو ان کاموں کا حکم دو جو اللہ کو پسند ہیں اور
ان کاموں سے روکو جو رب تعالیٰ کونا پسند ہے (در منثور پ 28 اتحریم، تحت الآیہ
225/86۔) ایک اور روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا۔ تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی ماتحت افراد کے بارے میں
پوچھا جائے گا ۔
بادشاہ نگران ہے اس سے اُس کی رعایا کے بارے میں پوچھا
جائے گا۔ آدمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل و عیال کے بارے میں
پوچھا جائے گا عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں
پوچھا جائے گا۔
4۔
پردے کا حکم دینا۔
فرمان مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: تین شخص ہیں جن پر اللہ عزوجل نے جنت حرام فرمادی ہے ایک تو وہ شخص جو
شراب کا عادی ہو، دوسرا وہ شخص جو اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرے اور تیسراوہ دیوث
(یعنی بے حیاہو) کہ جو اپنے گھر والوں میں بے غیرتی کے کاموں کو برقرار رکھے۔(مسند
امام احمد 35/1/2 حدیث 5372)
5۔
ایذا نہ دینا: رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی
شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دن کے آخر میں اس سے محبت کرے
گا یا صحبت کرے گا۔
6۔ گھر میں بچے کی طرح اور قوم میں مرد بن کر
رہو: خلیفہ
دوم امیر المومنین حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ے سخت مزاج ہونے کے
باوجود فرما یا: آدمی کو اپنے گھر میں بچےکی طرح رہنا چاہئے اور جب اس سے دینی
امور میں سے کوئی چیز طلب کی جائے جو اس کے پاس ہو تو اسے مرد پایا جائے حضرت
سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عقل مند کو چاہئے کہ گھر میں بچے کی طرح اور
لوگوں میں مردوں کی طرح رہے۔
مذکورہ بالا روایات کی روشنی میں اس بات کا بخوبی اندازہ
لگایا۔ جاسکتا ہے کہ شریعت نے مرد کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ سنگ دلی اور بے حسی
والا رویہ اپنانے سے منع کیا ہے مرد کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے لیے ایسا درخت ثابت
ہو جس کے سائے میں اسے ہر طرح کا سکون میسر آئے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ
بیوی کے شرعی حقوق احسن طریقے سے ادا کر ہے۔
محمد لیاقت علی قادری رضوی (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃُ
المدینہ فیضان مدینہ گجرات، پاکستان)

الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور ایک کامل مسلمان کی شان یہ ہے
کہ وہ اپنی خواہشات کا نہیں بلکہ احکامات الٰہیہ کا پابند ہوتا ہے۔ وہ اپنی
خواہشات کا نہیں بلکہ دین اسلام کے اصول و قوانین کا تابع ہوتا ہے۔تو اسلام نے جس
طرح مردوں میں شوہر کو منفرد مقام عطا کیا اسی طرح عورتوں میں بیوی کو انفرادی شان
وعظمت عطا کی۔اسلام نے جس طرح شوہر کے کچھ حقوق بیان کئے اسی طرح بیوی کے بھی کچھ
حقوق بیان کئے۔جن کو ادا کرناشوہر پر لازم ہے۔بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ شوہر بیوی
کیساتھ خوش اخلاقی،نرمی اور محبت و شفقت کیساتھ زندگی بسر کرے۔
چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَ
عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا
برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 ) اور نبی مکرم نور
مجسم شفیع معظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی بیویوں کے حقوق بیان
فرمائے۔چند احادیثِ مبارکہ درج ذیل ہیں۔
1 کامل
ترین مؤمن: وَعَنْ أَبِي هُرَيرَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى
اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ
خُلُقًا، وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سےروایت ہےفرماتے ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مؤمنوں میں سے
کامل تر مؤمن اچھے اخلاق والا ہے۔ اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں سے
بہترین ہو۔ (مرآۃ المناجیح: جلد،5:حدیث نمبر:3264)
2کامل مؤمن کون؟: حسن اخلاق کے پیکر محبوب رب اکبر
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: أَكْمَل
الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا،أَحْسَنَهُمْ خُلُقًا، وَأَلْطَفَهُمْ بِأَهْلِهِ یعنی مؤمنین میں سے سب
سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں اور وہ اپنے گھر والوں
(بیوی، پچوں) پر زیادہ مہربان ہو۔
ایک روایت میں ہے:
تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کیساتھ سب سے زیادہ بھلائی کرنے والا
ہے۔اور میں اپنی ازواج کیساتھ سب سے زیادہ بھلائی کرنے والا ہوں۔ (احیاء العلوم
مترجم:جلد،2:ص،253: مطبوعہ مکتبہ المدینہ)
3۔
بیوی کے حقوق: وَعَن حَكِيم بْنِ مُعَاوِيَةَ الْقُشَيْرِيِّ عَنْ
أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللہ! مَا حَقُّ زَوْجَةٍ أَحَدِنَا عَلَيْهِ؟
قَالَ: أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكتَسَيْتَ، وَلَا
تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ ترجمہ: حضرت حکیم ابن
معاویہ قشیری سے روایت ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں میں نے عرض
کیا یارسولﷲ ہم میں سے کسی کی بیوی کا حق اس پر کیا ہے فرمایا جب تم کھاؤ اسے
کھلاؤ اورجب تم پہنو اسے پہناؤ۔اور اس کے منہ پر نہ مارو۔اور اسے برا نہ کہو۔اور
اسے نہ چھوڑو مگر گھر میں۔ (مشکاۃ: جلد، 2: حدیث، 3258:ص:26 )
4۔ دشمن نہ جانو: وَعَنْ
أَبِي هُرَيرَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا
يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ ترجمہ: حضرت ابو ھریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں۔ رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔کوئی
مؤمن کسی مؤمنہ بیوی کو دشمن نہ جانے اگر اس کی کسی عادت سے ناراض ہو تو دوسری
خصلت سے راضی ہوگا۔
مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: سبحان اﷲ! کیسی نفیس تعلیم،مقصد یہ ہے کہ بے عیب بیوی ملنا
ناممکن ہے،لہذا اگر بیوی میں دو ایک برائیاں بھی ہوں تو اسے برداشت کرو کہ کچھ
خوبیاں بھی پاؤ گے۔ یہاں مرقات نے فرمایا کہ جو شخص بے عیب ساتھی کی تلاش میں رہے
گا وہ دنیا میں اکیلا ہی رہ جائے گا،ہم خود ہزار ہا برائیوں کا چشمہ ہیں،ہر دوست
عزیز کی برائیوں سے درگزر کرو،اچھائیوں پر نظر رکھو،ہاں اصلاح کی کوشش کرو،بے عیب
تو رسولﷲ ہیں۔( مرآۃ المناجیح جلد،5: حدیث نمبر:3240 )
5۔بیوی کے شوہر پر حقوق صراط الجنان کی روشنی
میں: 01۔
خرچہ دینا ۔ 02۔ رہائش مہیا کرنا ۔ 03۔ اچھے طریقے سے گزارہ کرنا ۔ 04۔ اسکی طرف
سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگر چہ یہ عورت کا حق نہیں ۔ 05۔ جب تک شریعت
منع نہ کرے ہر جائز بات میں اسکی دلجوئی کرنا۔ 06۔ نیک باتوں،حیا اور پردے کی
تعلیم دیتے رہنا ۔ 07۔ ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا۔(صراط الجنان:
جلد،1:ص 348)
6۔بہترین شوہر: بہترین شوہر وہ ہے: 01۔جو اپنی
بیوی کیساتھ نرمی اور حسن سلوک کیساتھ پیش آئے۔ 02۔جو اپنی بیوی کے حقوق ادا کرنے
میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔ 03۔جو اپنی بیوی کا اس طرح ہو کر رہے کہ کسی اجنبی
عورت پر نگاہ نہ ڈالے۔ 04۔جو اپنی بیوی کو اپنے عیش وآرام میں برابر کا شریک
سمجھے۔ 05۔جو اپنی بیوی کی خوبیوں پر نظر رکھے اور معمولی غلطیوں کو نظر انداز
کرے۔ 06۔جو اپنی بیوی کو دینداری کی تاکید کرتا رہے اور شریعت پر چلائے۔ 07۔جو
اپنی بیوی کو پردے میں رکھ کر اسکی عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ 08۔جو اپنی بیوی پر
ظلم اور کسی قسم کی بے جا زیادتی نہ کرے۔ 09۔جو اپنی بیوی کی تند مزاجی اور بد
اخلاقی پر صبر کرے۔ 10۔جو اپنی بیوی کو ہر طرح کی ذلت و رسوائی سے بچا کر رکھے۔
11۔جو اپنی بیوی کے اخراجات میں بخل اور کنجوسی نہ کرے۔ 12۔جو اپنی بیوی کی
مصیبتوں،بیماریوں اور رنج و غم میں دلجوئی اور وفا داری کا ثبوت دے۔ 13۔جو اپنی
بیوی پر ایسا کنٹرول رکھے کہ وہ کسی برائی کی طرف رخ بھی نہ کرے ۔ (ماخوذ:جنتی
زیور: ص،84/85: مکتبہ المدینہ)
اللہ پاک ہمیں شریعت کے احکام پڑھ کر سمجھ کر اور اس پر
عمل پہرہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح
کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا
ذمہ دار نہیں۔
محمد فہیم عزیز (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ
مدینہ ملتان، پاکستان)

قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ
بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 ) رسول
کریم حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان مبارک ہے: میں تمہیں
تمہاری عورتوں کے بارے میں تاکید کرتا ہوں۔ اپنی عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شریعت میں ہر شخص کو اس بات پر
متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے حقوق کے مطالبے پر زور نہیں دیا گیا
ہے۔ آج کی دنیا حقوق کے مطالبے کی دنیا ہے ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے اور اپنے حق
کا مطالبہ کر رہا ہے ہڑتال کر رہا ہے، تحریکیں چلا رہا ہے، مظاہرے کر رہا ہے گویا
کہ اپنا حق مانگنے اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے کے لیے دنیا بھر کی کوششیں کی جا
رہی ہیں لیکن آج ادائیگی فرض کے لیے کوئی انجمن موجود نہیں ہے کسی بھی شخص کو اس
بات کی فکر نہیں ہے کہ جو فرائض میرے ذمہ عائد ہیں وہ ادا کر رہا ہوں یا نہیں ۔
لیکن اللہ اور رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر
شخص اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ کرے اگر ہر شخص اپنے فرائض ادا کرنے لگے تو
سب کے حقوق ادا ہو جائیں گے شوہر اگر اپنے فرائض ادا کرے تو بیوی کے حقوق ادا
ہوگئے بیوی اپنے فرائض ادا کرے تو شوہر کا حق ادا ہوگیا۔ شریعت کا اصل مطالبہ یہی
ہے کہ تم اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرو بہر حال اسلام نے ہر شخص کے حقوق کی
مقدار رکھی ہے ۔
اسلام میں بیوی کے حقوق کے درمیان بخل، کینہ، غیر اخلاقی
برتاؤ، تنازع زوجین، ناچاقی، نفرت اور ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی
پیش کرتا ہے۔ اگر اسلام عورت کے ساتھ شادی کرنے کا حکم دیتا ہے تو ساتھ ہی عورت کے
حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے شادی کا حکم دیتا ہے۔
معاشرے میں عورت کا کردار اور حقوق عورت کو ایک بلند مرتبہ
انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ اس کے حقوق کیا ہیں؟ اور
اسلام کے قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے عورت کی آزادی کیا ہے؟عورت کو اس حیثیت کے
طور پر دیکھا جائے جو بلند اور کامیاب، ذی شعور انسانوں کی پرورش کر کے معاشرے کی
فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہوگا کہ
عورت کے حقوق کیا ہیں؟؟ اور اس کی آزادی کیسی ہونی چاہئے۔
عورت کو خاندان اور کنبے کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے
دیکھا جانا چاہئے، ویسے کنبہ،خاندان مرد اور عورت سے تشکیل پاتا ہے اور دونو ں ہی
اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں، لیکن گھر کی فضا
کی تکمیل، اور طمانیت، اور آشیانے کا چین و سکون، عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر
موقوف ہے۔ مذکورہ چیزوں کو مدنظر رکھ کہ عورت کو دیکھا جائے تو تب معلوم ہوگا کہ
وہ کس طرح کمال، صبر، بہادری کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟
یوں تو اگر بیان کرنے لگ جائیں تو شاید کئی دن اور راتیں
گزر جائیں جیسے :
بیوی کے حقوق:
اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اور اس میں بیوی اور شوہر
کے حقوق متعین کرتا ہے ۔
حق عربی زبان کا لفظ ہے اس کا معنی جماعت کا واجب حصہ
ہونااس کی جمع حقوق ہے۔ عورت چار بنیادی حیثیتوں میں ہماری سامنے آتی
ہے،ماں،بہن،بیوی،اور بیٹی۔ اسلام نے عورت کو ہر روپ میں عزت و احترام کے قابل
ٹھرایا۔
اسلام نے ہر انسان پر دوسرے انسان کے جو حقوق متعین فرمائے
ہیں ا نہیں چار قسموں میں بیان کیا جاسکتا ہے ذاتی، معاشرتی، معاشی،اور قلبی حقوق۔
شوہر پر بیوی کے لئے اسلام مندرجہ ذیل چیزیں لازم فرماتا
ہے :
مالی حقوق:مہر۔رہائش۔نفقہ۔
مہر:ایک اسلامی اصطلاح ہے جو شادی کے وقت مرد کی طرف سے
عورت کے لیے مخصوص کی جاتی ہے۔ مہر شادی کا ایک لازمی جزو ہے۔ حق مہر ادا نہ کرنے
کی نیت سے نکاح کرنے پر حدیث میں سخت وعید ہے کہ ایسے مرد و عورت قیامت کے روز
زانی و زانیہ اُٹھیں گے۔ یہ عورت کو بطور اکرام اور واجب حق کے دی جاتی ہے۔ اگر
مہر کی مقدار کو نکاح کے عقد میں متعین نہیں کی گیا تو بھی مہر مثل یعنی عورت کی
خاندانی مہر واجب ہوگی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ-فَاِنْ
طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْٓــٴًـا
مَّرِیْٓــٴًـا(4) ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو پھر
اگر وہ اپنے دل کی خوشی سے مہر میں سے تمہیں کچھ دے دیں تو اسے کھاؤ رچتا پچتا
(خوش گوار اور مزےسے)۔ (پ4، النسآء:4)
نفقہ: یعنی بیوی کے اخراجات: جیسے اللہ تعالیٰ کا
فرمان ہے: لِیُنْفِقْ
ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖؕ-وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ
مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُؕ-لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ
اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠(7)
ترجَمۂ کنزُالایمان:مقدور والا
اپنے مقدور کے قابل نفقہ دے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا وہ اس میں سے نفقہ دے
جو اسے اللہ نے دیا اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتا مگر اسی قابل جتنا اسے دیا ہے
قریب ہے کہ اللہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا۔(پ28، الطلاق:7)
علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے اخراجات ان کے
شوہروں پر واجب ہیں جب تک بیویاں ان کے حق میں ہیں، اگر بیوی شوہر سے جدا ہو جائے
تو شوہر پر نفقہ ضروری نہیں ہوگا۔ نفقہ کی حکمت یہ ہے کہ بیوی، نکاح کے عقد کے
ذریعہ شوہر کی ملکیت اور اختیار میں ہو جاتی ہے، حتی کہ بیوی کا کمانے کی غرض سے
شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نکلنا بھی درست نہیں ہے۔ لہذا شوہر پر اس کی استطاعت
کے مطابق بیوی کے اخراجات واجب ہیں ا گرچہ بیوی بذات خود دولت مند ہو۔
رہائش:یہ بھی بہت اہم حق ہے۔ یعنی شوہر پر اپنی استطاعت
اور قدرت کے اعتبار سے رہائش کا انتظام کرنا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ
ترجَمۂ
کنزُالایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر۔(پ28،
الطلاق:6)
اسی سلسلے میں ارشاد نبوی ہے: انْ
تُطْعِمَہَا اذَا طَعِمْتَ، وَتَکْسُوَہَا اذَا اِکتَسَیْتَ، وَلاَ تَضْرِبِ
الْوَجْہَ، وَلاَ تُقْبِّحَ، وَلَا تَہْجُرْ إلَّا فِي الْبَیْتِ ترجمہ: تم پر بیوی کا حق
یہ ہے کہ جب کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب پہنو تو اسے بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو،
اسے بد دعا نہ دو، ناراض ہوکر گھر سے باہر نہ نکالو۔
غیر مالی حقوق : عدل و انصاف۔ حسن سلوک۔ایذا رسانی
سے بچنا۔
عدل و انصاف: جیسے اللہ تعالیٰ کا ہر چیز میں
عدل و انصاف کا حکم ہے فرمان باری تعالیٰ ہے: قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ
بِالْقِسْطِ ترجمہ کنزالایمان:تم فرماؤمیرے رب نے عدل کا حکم دیا ہے۔(پ8، الاعراف:29)
شوہر پر اپنی بیویوں کے درمیان نفقہ، رہائش اور لباس وغیرہ
میں انصاف کرنا ضروری ہے۔
حسن سلوک:بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اس
کے حقوق کو ادا کرنا اور اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا، شوہر پر ضروری ہے۔
اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تعلیم اور تاکید کی ہے۔ سورہ نساء میں
تفصیل سے حسن سلوک اور رعایت کا بیان ہے۔
اسی طرح صحابی عمرو بن اخوص سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے
موقع پر رسول اللہ نے حمد وثنا کے بعد وعظ فرمایا اس میں فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ
ضرور حسن سلوک کا معاملہ کیا کرو، کیونکہ وہ تمھارے مقابلہ میں کمزور ہیں، تمھیں
کوئی حق نہیں کہ ان کے ساتھ سختی کرو سوائے اس کے کہ وہ کھل کر فحش کام کریں، اگر
وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کے بستر کو الگ کر دو، اور ان پر ظلم نہ کرتے ہوئے کچھ
مارو۔ اور اگر وہ تمھاری فرمانبرداری کرتی ہیں تو تمھیں ان پر سختی کرنے کا کوئی
حق نہیں ہے۔
ایذا رسانی سے بچنا:یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے،
اسلام نے دوسروں کو ایذا رسانی سے منع کیا ہے، تو بیوی پر ایذا رسانی بدرجہ اولی
حرام ہے۔ عبادہ بن صامت نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فیصلہ فرمایا کہ نقصان اٹھانا
اور پہنچانا دونوں منع ہے۔ جیسے تفسیر صراط الجنان میں ہے:
شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں: (1) خرچہ دینا، (2)
رہائش مہیا کرنا، (3) اچھے طریقے سے گزارہ کرنا، (4) نیک باتوں، حیاء اور پردے کی
تعلیم دیتے رہنا، (5) ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، (6) جب تک شریعت
منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا، (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی
تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق نہیں ۔
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح
کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا
ذمہ دار نہیں۔