اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہےاور اس میں بیوی اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے۔ ازدواجی تعلق خدائی منصوبہ اور فطری عمل ہے، ازدواجی تعلقات میں اصل پیار اور محبت ہے جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار ذہنی حالت اور کیفیت کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان،ناچاقی، نفرت اور ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔

حق عربی زبان کا مفرد لفظ ہے، اس کے معنی فرد یا جماعت کا واجب حصہ ہوتا ہے، اس کی جمع حقوق آتی ہے۔

حقوق: ازدواجی زندگی ایک اہم زندگی ہوتی ہے، اس میں زوجین خاندان، گھر اور سماج کے تئیں بے شمار ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان تعلقات خوشگوار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، ان کی علیحدگی سے بے شمار مسائل میدا ہوتے ہیں، خصوصا اولاد پر برا اثر پڑتا ہے۔ پیغمبر اسلام محمد حضرت محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اس پر بہت توجہ دیتے تھے۔ شوہر کے بیوی پرحقوق درج ذیل ہیں:

مالی حقوق: مہر۔ نفقہ۔ رہائش۔

مہر:ایک اسلامی اصطلاح ہے جو شادی کے وقت مرد کی طرف سے عورت کے لیے مخصوص کی جاتی ہے۔ مہر شادی کا ایک لازمی جزو ہے۔ حق مہر ادا نہ کرنے کی نیت سے نکاح کرنے پر حدیث میں سخت وعید ہے ۔یہ عورت کو بطور اکرام اور واجب حق کے دی جاتی ہے۔

نفقہ: بیوی، نکاح یعنی بیوی کے اخراجات۔ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر واجب ہیں جب تک بیویاں ان کے حق میں ہیں اگر بیوی شوہر سے جدا ہو جائے تو شوہر پر نفقہ ضروری نہیں ہوگا۔ نفقہ کی حکمت یہ ہے کے عقد کے ذریعے شوہر کی ملکیت اور اختیار میں ہو جاتی ہے حتی کا کمانے کی غرض سے شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نکلنا بھی درست نہیں ہے۔ لہذا شوہر پر اس کی استطاعت کے مطابق بیوی کے اخراجات واجب ہیں گرچہ بیوی بذات خود دولت مند ہو۔

بیوی اگر شوہر کی اجازت سے کچھ کماتی ہے تو بیوی پر لازم نہیں ہوگا کہ وہ گھر کے اخراجات میں خرچ کرے، البتہ وہ اپنی جانب سے تبرعاً کر سکتی ہے۔

رہائش:یہ بھی بہت اہم حق ہے۔ یعنی شوہر پر اپنی استطاعت اور قدرت کے اعتبار سے رہائش کا انتظام کرنا واجب ہے۔

غیر مالی حقوق:

عدل وانصاف۔ حسن سلوک۔ ایذا رسانی سے بچنا۔

عدل وانصاف:شوہر پر اپنی بیویوں کے درمیان نفقہ، رہائش اور لباس وغیرہ میں انصاف کرنا ضروری ہے۔

حسن سلوک:بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا اس کے حقوق کو ادا کرنا اور اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا شوہر پر ضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تعلیم اور تاکید کی ہے۔ سورہ نسا میں تفصیل سے حسن اور رعایات کا بیان ہے۔

اسی طرح صحابی عمرو بن اخوص سے روایت ہے کہ حجۃالوداع کے موقع پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حمد وثنا کے بعد وعظ فرمایا: اس میں فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ ضرور حسن سلوک کا معاملہ کیا کرو کیونکہ وہ تمہارے مقابلہ میں کمزور ہیں تمھیں کوئی حق نہیں کہ ان کے ساتھ سختی کرو سوائے اس کے کہ وہ کھل کر فحش کام کریں، اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کے بستر کو الگ کر دو اور ان پر ظلم نہ کرتے ہوئے کچھ مارو۔ اور اگر وہ تمھاری فرمانبرداری کرتی ہیں تو تمھیں ان پر سختی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ایذا رسانی سے بچنا:یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، اسلام نے دوسروں کو ایذا رسانی سے منع کیا ہے، تو بیوی پر ایذا رسانی بدرجہ اولی حرام ہے۔ عبادہ صامت نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فیصلہ بن فرمایا کہ نقصان اٹھانا اور پہنچانا دونوں منع ہے۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اس میں بیوی اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے اسلام فطرت پسند دین ہے اور فطرت کو پسند کرتا ہے ازدواجی تعلق بھی ایک فطری عمل ہے ازدواجی تعلق میں اصل پیار اور محبت ہے جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار ذہنی حالت اور کیفیات کا باعث بنتی ہے ازواجی زندگی ایک اہم زندگی ہوتی ہے اس میں زوجین پر بے شمار ذمہ داریاں عائد ہوتیں ہیں ۔ اسلام میں بیوی کے کیا حقوق ہے ان میں کچھ پیش خدمت ہے :

1:مہر : اللہ پاک نے قرآن مجید برھان رشید میں فرمایا : وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو۔(پ4، النسآء:4)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں کو ان کے مہر خوشی سے ادا کریں پھر اگر ان کی بیویاں خوش دلی سے اپنے مہر سے انہیں کچھ تحفے کے طور پر دے تو وہ اسے پاکیزہ اور خوشگوار سمجھ کر کھائیں اس میں ان کا کوئی دنیوی یا اخروی نقصان نہیں ہے ۔(پارہ ٤ سورت، النسا6 ،آیت ٤، صراط الجنان، جلد ٢/١٦٤)

2: نفقہ: یعنی بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر لازم ہیں جب تک وہ ان کے پاس ہیں نفقہ کی حکمت یہ ہے کہ بیوی نکاح کے عقد کے ذریعے شوہر کی ملکیت و اختیار میں آجاتی ہے حتی کہ بیوی کا کمانے کی غرض سے شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نکلنا درست نہیں ہے کیونکہ نفقہ شوہر پر لازم ہے اگرچہ بیوی مالدار ہو ، حتی کہ نفقہ ایام عدت میں بھی شوہر پر لازم ہے ۔ اللہ پاک نے قران مجید میں ارشاد فرمایا:وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِؕ-حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ(241) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور طلاق والیوں کے لیے بھی مناسب طور پر نان و نفقہ ہے یہ واجب ہے پرہیزگاروں۔(پ2، البقرۃ:241)

3: سکنٰی یعنی رہائش: یہ بھی ایک اہم حق ہے مرد پر اپنی استطاعت کے مطابق واجب ہے حتی کہ اگر بالفرض طلاق واقع ہو جاتی ہے عدت میں بھی رہائش کا انتظام مرد پر لازم ہے ۔ قرآن مجید اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر۔(پ28، الطلاق:6)

4:عدل و انصاف : شوہر پر اپنی بیویوں کے درمیان نفقہ رہائش اور لباس میں انصاف کرنا لازم ہے ایک سے زائد نکاح کی اجازت بھی اسی صورت ہے جب وہ عدل کر سکے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی (نکاح)کرو۔(پ4، النسآء: 3)

5: حسن سلوک: بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا اس کے حقوق ادا کرنا اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا شوہر پر ضروری ہے ۔ حضرت عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں وہ تمہارے پاس مقید ہے تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، اگر وہ ایسا کریں تو ا نہیں بستروں میں علیحدہ چھوڑو (اگر نہ مانیں) تو ہلکی مار مارو پس اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ تمہارے عورتوں پر اور عورتوں کے تمہارے ذمہ کچھ حقوق ہیں۔ تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو تمہارے ناپسندہ لوگوں سے پامال نہ کرائیں اور ایسے لوگوں کو تمہارے گھروں میں نہ آنے دیں جنہيں تم ناپسند کرتے ہو۔ تمہارے ذمے ان کا حق یہ ہے کہ ان سے بھلائی کرو عمدہ لباس اور اچھی غذا دو۔ (ترمذی، کتاب الرضاع، ٣٨٧/٢ الحدیث ١١٦٦)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں عورتوں کے بارے بھلائی کی وصیت کرتا ہوں تم میری وصیت کو قبول کروں وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور پسلیوں میں زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے اگر تو ایسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اگر ویسی ہی رہنے دے تو ٹیڑھی باقی رہے گی۔( بخاری، کتاب النکاح، ٣٨٧/٢ الحدیث ١١٦٤)

محترم قارئين اسلام نے ہی عورت کو عزت دی ہے اور اسلام نے ہی عورت کو حقوق دیئے ہیں اللہ کریم مرد و عورت دونوں کو اپنے اپنے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اور محترم اسلامی بھائیو! بیوی اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔دینِ اسلام میں بیوی کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور بیوی کے حقوق کا بہت خاص خیال رکھا گیا ہے۔بہر حال شرعی اور اخلاقی ہر لحاظ سے بیویوں کے حقوق بھی بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور شوہر کو ان کا خیال رکھنا چاہیئے علاوہ ازیں بیوی کے جائز مطالبات کو پورا کرنے اور جائز خواہشات پر پورا اترنے کی بھی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیئے۔جس طرح شوہر یہ چاہتا ہے کہ اسکی بیوی اس کیلئے بن سنور کر رہے اسی طرح شوہر کو بھی بیوی کی فطری چاہت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسکی دلجوئی کیلئے لباس وغیرہ کی صفائی ستھرائی کی طرف خاص توجہ کرنی چاہیئے خواہ بیوی زبان سے اس بات کا اظہار کرے یا نہ کرے۔

فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ تم اپنے کپڑوں کو دھوؤ اور اپنے بالوں کی اصلاح کرو اور مسواک کر کے زینت اور پاکی حاصل کرو کیونکہ بنی اسرائیل ان چیزوں کا اہتمام نہیں کرتے تھے اسی لئے ان کی عورتوں نے بدکاری کی۔

معلوم ہوا کہ شوہر کو صفائی ستھرائی اور طہارت کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیئے اور حتی الامکان اپنی بیوی کی توقعات پر پورا اترنے اور اس سے حُسنِ سلوک روا رکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے تاکہ زندگی کی گاڑی شاہراہِ حیات پر کامیابی سے گامزن رہے۔ آئیے بیویوں کے حق میں شوہروں کو نصیحت کے مدنی پھولوں پر مشتمل 5 فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجئے :

(1) تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سے بہتر ہوں (ابنِ ماجہ،ابواب النکاح، باب حسن معاشرت النساء 478/2 حدیث 1977)

(2) کوئی مسلمان مرد (شوہر) کسی مسلمان عورت (بیوی) سے نفرت نہ کرے اگر اسکی ایک عادت ناپسند ہے تو دوسری پسند ہوگی۔(مسلم، کتاب الرضاع،باب الوصیت بالنساء،صفحہ 775،حدیث 1469)

(3) تم میں سے کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے،پھر دن کے آخر میں اس سے صحبت کرے گا۔ (بخاری،کتاب النکاح،حدیث 5204)

(4) عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی پسلی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دو گے اور اگر اسے چھوڑ دو تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی پس تم عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔(بخاری،کتاب النکاح،باب الوصاۃ بالنساء،457/3،حدیث5186)

(5) عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے وہ تمہارے لئے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اس کے ٹیڑھے پن کے باوجود اس سے فائدہ اٹھا لو اور اگر اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے اور اس کا توڑنا طلاق ہے۔ (مسلم،کتاب الرضاع،باب الوصیۃ بالنساء،صفحہ775،حدیث 1468)

دعا ہے اللہ پاک ہمیں بیویوں کے حقوق ادا کرنے اور ان سے حسنِ سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

نکاح کا ایک مقصد اچھے خاندان کی بنیاد رکھنا بھی ہوتا ہے، جس کے لیے شوہر کا کردار بڑا اہم ہے ۔ شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کی ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے مطابق انتظام کرے کہ یہ اللہ کی بندی اپنے ماں باپ، بھائی، بہن اور تمام عزیز و اقارب سے جدا ہو کر صرف میری ہو کر رہ گئی ہے۔ اور میری زندگی کے دکھ سکھ میں برابر کی شریک بن گئی ہے اس لیے اس کی زندگی کی تمام ضروریات کا انتظام کرنا میرا فرض ہے۔

جو مرد اپنی بے پرواہی سے اپنی بیویوں کے نان و نفقہ اور اخراجات زندگی کا انتظام نہیں کرتے وہ بہت بڑے گنہگار، حقوق العباد میں گرفتار اور قہر و عذاب نار کے سزا وار ہیں۔ بیوی کے حقوق کے متعلق قرآن پاک کا ارشاد: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)

جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادا واجب ہے، اس طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔

بیوی کی خدمت: شوہر کو چاہئے کہ بیوی کو فقط اپنی خدمت کے فضائل ہی نہ سناتا رہے بلکہ جہاں تک ممکن ہو خود بھی بیوی کی خدمت کرے کہ اس میں شوہر کے لیے اجر و ثواب ہےچنانچہ حضرت سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہوئے سنا: جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے اس کا اجر دیا جاتا ہے۔ (تجمع کتاب الزکاۃ، 250/30، حدیث: 40559)

بیوی کو نہ مارے: عورت کا اس کے شوہر پر ایک حق یہ بھی ہے کہ عورت کو بلا کسی قصور کے بھی ہر گز ہر گز نہ مارے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص عورت کو اس طرح نہ مارے جس طرح اپنے غلام کو مارتا ہے پھر دوسرے وقت اس سے صحبت بھی کرے ۔(مشکوۃ، جلد 2، ص 280)

بیوی کا نان و نفقہ: شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی کے کھانے، پینے، رہنے اور دوسری ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے مطابق انتظام کرے۔ شوہر کو چاہئے کہ اہل خانہ پر تنگی کرنے کے بجائے رضائے الہی کے دل کھول کر خرچ کرے ۔(بہار شریعت جلد ہفتم ،5/2)

نیکی کا حکم دینا : شوہر کو چاہئے کہ اپنے منصب کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام تر اپنے بیوی بچوں کو بھی گناہوں کی آلودگی سے دور رکھے۔ فرائض منصبی کو بخوبی انجام دے، خود بھی برائیوں سے بچے اور حتی المقدور اپنے بیوی بچوں کو بھی گناہوں کی آلودگی سے بچائے۔(مسند امام احمد،351/2، حدیث 5372)

بیوی کے ساتھ حسن سلوک: شوہر کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے ساتھ محبت پیار والا برتاؤ کرے، اس کی غلطیوں کو معاف کرے یہ جان لو کہ تم عورتوں کے حاکم ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارا حاکم، تم پر قابو رکھنے والا ہے۔ جب وہ تمہاری خطائیں بخشتا ہے تو تم بھی اپنی ماتحت (بیوی) کی خطاؤں کو معاف کرو۔(تفسیر نعیمی، 59/1،ملتقطا)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

انسان کے قریبی ترین تعلقات میں سے بیوی کا تعلق ہے حتی کہ ازدواجی تعلق انسانی تمدن کی بنیاد ہے اس رشتہ کی اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں شوہر کے بیوی پر اور بیوی کے شوہر پر کئی حقوق بیان فرمائے گئے ہیں جن کو پورا کرنا میاں بیوی میں سے ہر ایک کی شرعی ذمہ داری ہے ۔ بیوی کے شوہر پر احادیث کے روشنی درج ذیل چند حقوق ہیں۔

(1) حق مہر: نکاح کے فوراً بعد شوہر پر بیوی کا پہلا حق مہر ادا کرنا ہے۔

حق مہر کی تعریف : نکاح کی وجہ سے جو مال یا منفعت عورت کو دیا جاتا ہے۔ ا سے مہر کہتے ہیں ۔ اسلام نے مرد کے اوپر مہر کی ادائیگی کو فرض قرار دیا ہے۔ جو لوگ حق مہر کھا جاتے ہیں ان کے لیے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سخت وعید ہے آپ صلی اللہ نے فرمایا۔ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی عورت سے شادی کرے اور اپنی ضرورت پوری کر لینے کے بعد اسے طلاق دیدے اور اس کا مہر کھا جائے۔(مستدرک حاکم، ج 2، ص (182)

(2) نان و نفقہ : نان ونفقہ کا اطلاق 3 چیزوں پر ہوتا ہے۔ بیوی کا کھانا اور بیوی کا لباس اور بیوی کی رہائش یہ تینوں چیزیں شوہر پر پوری کرنا واجب ہے معاویہ بن حیدہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پو جھا ہمارے اوپر بیوی کا کیا حق ہے ؟ تو آپ نے نے فرمایا جب تو کھانا کھائے تو اسے کھلا جب تو کپڑا پہنے تو اسکو بھی پہنا اسکے چہرے پر مت مار اور برا مت کہہ سوا ئے گھر کے اسکو الگ مت کر یعنی اگر تنبیہ کیلئے بستر الگ کرنا ہو تو ایسا صرف گھر میں ہی کرنا۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر:2142)

(3)عزت و ناموس کی حفاظت: بیوی مرد کا قیمتی خزانہ ہے اسکی عزت و ناموس کی حفاظت اسکا اہم فریضہ ہے مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے نہایت غیرت مند ہو اسے لوگوں کی نگاہوں اور زبانوں سے محفوظ رکھے۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کچھ غیرت ایسی ہوتی ہے جسے اللہ عزوجل نا پسند فرماتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی کسی شک و شبہ کی بات کے بغیر اپنی بیوی پر غیرت کرے۔(مسند احمد،5/445)

(4) حسن معاشرت:اس کو آسان لفظوں میں بھلے انداز میں زندگی بسر کرنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے مثلاً شوہر اپنی بیوی کا مہر اور نان و نفقہ پوری طرح ادا کرے اسکے لیے پر سکون رہائش مہیا کرے بلا سبب اسکے سامنے منہ نہ بگاڑے ترش رویہ نہ اختیار کرے کسی دوسری عورت کی طرف اپنا میلان و چاہت ظاہر نہ کرے میٹھی باتیں کرے چاہت نہ بھی ہو تب بھی چاہت محبت اور پیار کا اظہار کرے ۔

ام کلثوم فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بات چیت میں جھوٹ کی اجازت نہیں سنی مگر تین موقعوں پر: 1۔جنگ کے وقت 2۔لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے، 3۔اور میاں بیوی کے آپس میں بات چیت کرنے کے وقت۔ (مسلم)

(5)تعلیم و تربیت:یہ بات کسی صاحب عقل سے مخفی نہیں ہے کہ جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے اصول دین کی تعلیم ضروری ہے۔ اللہ کی توحید، ارکان اسلام ایمان، حلال و حرام عبادات و معاملات اور مکارم اخلاق سکھا کر اہل و عیال کی تربیت کریں۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب رات کو وتر پڑھتے تو کہتے کہ عائشہ اٹھو اور وتر پڑھو لو۔( صحیح مسلم/744)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اسلام ایسا پیارا دین ہے جس نے زمانہ جاہلیت میں ذلت و رسوائی کی چکی میں پسی ہوئی عورتوں کو عزت اور حیا کی چادر عطا فرمائی اور ان کے حقوق کو تفصیلی طور پر بیان فرمایا شوہر کو چاہیے کہ اپنے زوجہ کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر کرے۔ اس کی برائیوں کو چھوڑ کر اس کی اچھائیوں پر نظر کرے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرے اور اس بات کا خیال کرے کہ یہ میری عزت کی محافظ ہے، میرے گھر کو سنبھالتی ہے، اس کے سبب میں حرام اور غیر عورتوں سے بچتا ہوں، میرے بچوں کی پرورش کرتی ہے، میرے مال و دولت کی حفاظت کرتی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی ازواج کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آئیے ہم بھی بیوی کے چند حقوق ملاحظہ کرتے ہیں۔

1۔ بیوی پر خرچ کرنے کی فضیلت: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ الْمُرْسَلین رَحْمَۃ لِلْعَلَمِين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک دینار وہ ہے جسے تم اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم غلام پر خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم مسکین پر صدقہ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو، ان میں سب سے زیادہ اجر اس دینار پر ملے گا جسے تم اپنے اہل و عیال (بیوی بچو)پر خرچ کرتے ہو۔( مسلم، كتاب الزكاة، باب فضل النفقۃ على العيال الخ، ص 494، حدیث: 995)

2۔بیوی کی عزت کرنا: خَيْرُكُمْ خَيْرُ كُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِاهلي تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں ۔)ابن ماجہ،ابواب النکاح،باب حسن معاشرۃالنساء، 2/478،الحدیث 1977(

3۔بیوی کو نیکی کا حکم دینا: شوہر کو چاہیے کہ وہ خودبھی نماز روزے کی پابندی کرے اور دیگر نیک کام کرے۔ اور اپنی بیوی کو بھی نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سنتوں پر عمل کرنے کی اور دیگر عبادات کی ترغیب دیتا رہے اور مسائل سیکھانے میں اس کی مدد کرے۔ (اسلامی شادی، صفحہ نمبر115)

4۔بیوی کو اچھا کھلانا پہنانا: حضرت حکیم بن معاویہ قشیری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یعنی ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جیسا تم کھاؤ اسے بھی کھلاؤ اور جیسا تم پہنو اسے بھی پہناؤ۔(مراۃ المناجیح جلد نمبر،5 باب عشرۃ النساء۔ و مالکل واحد من الحقوق۔الحدیث 3119)

5۔نظافت کا اہتمام کرنا: جس طرح شوہر یہ چاہتا ہےکہ اس کی بیوی اس کیلئے بن سنور کر رہے اسی طرح اسے بھی بیوی کی چاہت اور فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی دلجوئی کیلئے لباس وغیرہ کی صفائی اور ستھرائی کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔خواہ وہ زبان سے اس بات کا اظہار کرے یا نہ کرے۔( شوہر کو کیسا ہونا چاہئے صفحہ نمبر 5)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بیویوں کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضور کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اسلام سے پہلے بیوی کی عزت و ناموس کی ایسی دھجیاں اڑائی جاتی تھیں گویا اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام نے بیوی کے حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا، اس کی ناموس کی حفاظت فرمائی، اسلام نے بیویوں کے ایسے احکام بیان فرمائے ہیں کہ جس سے ایک بیوی بھی معاشرے میں باوقار و باعزت زندگی گزار سکتی ہے۔ نیز قرآن و حدیث میں شوہروں کو سختی کے ساتھ اس بات کی تاکید فرمائی گئی ہے کہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اُس کے ساتھ نرمی و خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔

(1) عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو:الله عز و جل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )علامہ علاء الدین علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اچھا برتاؤ یہ ہے کہ کھلانے پہنانے، حق زوجیت ادا کرنے اور بات چیت کرنے میں ان سے خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ اچھا برتاؤ کی ایک وضاحت یہ بھی کی گئی ہے جو اپنے لئے پسند کرو ان کے لئے بھی وہی پسند کرو۔(تفسیر خازن، پ4، النسآء، تحت الآیۃ:19)

(2)زوجین کے حقوق:

حضرت سید نا عمرو بن احوص جُشمِی رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے حجۃ الوداع کے موقع پر سنا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ عزوجل کی حمد وثناء کے بعد وعظ و نصیحت کی پھر ارشاد فرمایا: سنو! عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ، بیشک وہ تمہارے پاس قیدی ہیں، تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں سوائے جماع کے مگر یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کریں، اگر وہ ایسا کریں تو اُن کے بستر الگ کر دو اور ہلکی مار مارو، اگر تمہاری بات مان جائیں تو اُن کے خلاف راستہ تلاش نہ کرو۔ سنو! بیشک تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں، اور ان کے تم پر کچھ حقوق ہیں، اُن پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے ناپسندیدہ لوگوں کے لیے تمہارے بستر نہ بچھائیں اور انہیں تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں۔ اور سنو! تمہارے ذمہ ان کا حق یہ ہے کہ تم اُن کے لئے اچھا لباس اور اچھا کھانا مہیا کرو۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی الحق المرءۃ علی زوجھا، 2/387، حدیث:1166)

(3)عورتوں کو نہ مارو:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عورتوں کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی زوجہ کو اس طرح مارتا ہے جس طرح غلام کو مارا جاتا ہے، شاید پھر اُس دن اُس سے جماع بھی کرتا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب سورۃالشمس وضحاھا)

بیوی کو مارنے کا حکم:شوہر اس بات کو مد نظر رکھے کہ اگر بیوی نافرمانی کرتی ہے تو فوراً اُسے مارنے یا طلاق کا پروانہ دے کر رخصت کرنے کے بجائے وہ اس معاملے کو اللہ عزوجل کے حکم کے مطابق حل کرے۔ سب سے پہلے اُسے اچھے طریقے سے سمجھائے، اگر نہ سمجھے تو بستر الگ کر کے ناراضی کا اظہار کرے۔

(4) بیوی سے بغض نہ رکھے:حضور نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی مؤمن کسی مؤمنہ سے بغض نہ رکھے، اگر اسے اس کی کوئی ایک بات ناپسند ہو تو دوسری پسند ہو گی۔ یا یہ فرمایا: کوئی بات نا پسند ہو تو اس کے علاوہ کوئی بات پسند بھی ہو گی۔ (مسلم، کتاب الرضا، باب الوصیۃ بالنساء، ص 775،حدیث: 1469)

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: سُبْحَانَ اللہ کیسی نفیس تعلیم ہے، مقصد یہ ہے کہ بے عیب بیوی ملنا نا ممکن ہے، لہٰذا اگر بیوی میں دو ایک برائیاں بھی ہوں تو اسے برداشت کرو کہ کچھ خوبیاں بھی پاؤ گے۔ یہاں مرقات نے فرمایا کہ جو شخص بے عیب ساتھی کی تلاش میں رہے گا وہ دنیامیں اکیلا ہی رہ جائے گا، ہم خود ہزارہا برائیوں کا سرچشمہ ہیں، ہر دوست عزیز کی برائیوں سے درگزر کرو، اچھائیوں پر نظر رکھو، ہاں اصلاح کی کوشش کرو، بے عیب تو رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔(مراۃالمناجیح، 5/87)

اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اسلام نے عورت کو چادر اور چار دیواری کے اندر ایک خاص مقام عطا کیا ہے اور ہر لحاظ سے اس کے حقوق مقرر کیے ہیں تا کہ اس کی کسی قسم کی حق تلفی نہ ہو۔ عورت چونکہ پیدائشی لحاظ سے صنف نازک ہے اس لئے اس کی دلجوئی، حقوق کی ادائیگی اور عمدہ اخلاق سے پیش آنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا(19)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھے۔(پ4، النسآء: 19 )

اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے کیونکہ میاں بیوی کی خانگی زندگی میں جب دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے رہیں گے تو دونوں کو راحت مسرت اور سکون حاصل ہو گا۔

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(21)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبّت اور رحمت رکھی بےشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے۔(پ21، الروم: 21 )

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: (انہیں) بھلائی کے ساتھ روک لو یا نکوئی (اچھے سلوک)کے ساتھ چھوڑ دو اور انہیں ضرر دینے کے لیے روکنا نہ ہو کہ حد سے بڑھو اور جو ایسا کرے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔(پ2، البقرۃ:231)

مردوں کو چاہیے کہ اپنی عورتوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آئیں، حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اہل خانہ کے ساتھ ہمیشہ عمدہ سلوک کیا بلکہ آپ کا حسن خلق تو بے مثل ہے اور امت کے لیے مشعل راہ ہے۔ عموماً بیوی کی صلاحیت کسی نہ کسی لحاظ سے مرد سے کمزور ہوتی ہے اس کے باعث بیوی سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مردوں کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور ان کے حقوق کا بھی خیال کیا جائے اور ان کی جائز باتوں کو حسب معمول پورا کیا جائے ان کے ساتھ پیار محبت سےرہیں۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ پاک کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، اگر ہم صبح سے شام تک اللہ پاک کی نعمتوں کو شمار کریں تو نہیں کر سکیں گے۔ ماں باپ، بہن بھائی، نیک دوست اور نیک بیوی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور رب العزت نے ہم پر ان کے حقوق مقرر فرمائے۔ جس طرح ماں باپ کے حقوق، بہن بھائیوں کے حقوق، پڑوسیوں اور دوستوں کے حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے بھی حقوق ہیں جو شوہر پر لازم ہیں۔ ان میں سے بیوی کے چند حقوق درج ذیل ہیں:

(1)حق مہر:یہ خاص بیوی کا حق ہوتا ہے جو اللہ پاک نے شوہر پر مقرر کیا ہے جو کم از کم دس درھم ہے اور اس کی زیادتی کی کوئی حد نہیں ہے لیکن مہر میں مبالغہ کرنا ناپسند فعل ہے۔ ایک حدیث پاک میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بابرکت نکاح وہ ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے زیادہ آسان ہو۔(مسند امام احمد)

(2)خرچہ و رہائش دینا:اس میں شوہر پر بیوی کو کھانے پینے کی اشیاء، کپڑے، اس کی رہائش کے انتظامات کرنا لازم ہیں۔

(3)حسن سلوک:خاوند پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، اس کی عزت کرے، اس کے ساتھ محبت سے پیش آئے۔ مسلمان شخص کے کمال اخلاق کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ مہربان ہو کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا بہترین اخلاق والا سب سے کامل مومن ہے اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہو۔

(4)جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا:کھانا اچھا بنا ہو یا مناسب ہو تو اس کی تعریف کرنا دلجوئی کے طور پر اور ویسے بھی دلجوئی کا حکم رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دیا ہے اور دلجوئی سنت بھی ہے۔ اسی طرح بیوی کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ اس کا حق نہیں ہے۔

بیوی کے حقوق کے متعلق مزید 3احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

(1)تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔(ترمذی،5/475، حدیث: 3921) اس حدیث پاک سے ہمیں ایک مدنی پھول یہ بھی ملتا ہے کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خود میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت مبارکہ ہے۔

(2)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک آدمی جب اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے اجر دیا جاتا ہے۔(معجم کبیر، 18/258، حدیث: 646) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ فقط بیوی کا اپنے شوہر کی خدمت کرنا ثواب کا باعث نہیں بلکہ مرد بھی اپنی بیوی کو پانی پلا کر اس سے محبت کر کے ثواب حاصل کر سکتا ہے۔

(3)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ کی رضا کے لیے تم جتنا بھی خرچ کرتے ہو اس کا اجر دیا جائے گا یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔(بخاری، 1/438، حدیث: 1295)

پیارے اسلامی بھائیو! بیان کی گئیں احادیث مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اس کے حقوق ادا کرنا اور اس کے ساتھ پیار محبت سے زندگی گزارنا ثواب کا باعث ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہماری زندگی میں بہت سی آزمائشیں اور مصیبتیں آ جائیں گی اور آخرت میں بھی ہم جواب دہ ہوں گے۔ اللہ پاک ہمیں دین اسلام پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے لئے میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کے حقوق کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنے رفیق حیات کے حقوق کا خیال رکھ کر ایک پُرسکون زندگی گزار سکیں۔ عموماً ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کرنے اور ایک دوسرے کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے میاں بیوی میں باہم ناچاقیاں پید ا ہو جاتی ہیں جو میاں بیوی میں فاصلوں اور دوریوں کو بڑھانے کا سبب بنتی ہیں۔ دین اسلام میں میاں بیوی کے حقوق کو بہت اہمیت حاصل ہے، کثیر احادیث میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

جس طرح بیوی پر شوہر کے حقوق پورے کرنا لازم ہے اسی طرح شوہر پر بھی لازم ہے کہ بیوی کو اہمیت دے اور اُس کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ ترجمہ کنز العرفان:اور عورتوں کیلئے بھی مر دوں پر شریعت کے مطابق ایسے ہی حق ہے جیسا (ان کا) عورتوں پر ہے۔ (ب2٫ البقرة:228)

صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ الله علیہ اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادا واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔ لہٰذا شوہر کو چاہئے کہ وہ ہر گز ہر گز بیوی کے حقوق کو ہلکانہ جانے، اسے کمزور سمجھ کر اس کے ساتھ نا انصافی نہ کرے، اس پر ظلم و ستم نہ کرے اور ہر وقت اس بات کو پیش نظر رکھے کہ جس رب العالمین نے اسے بیوی پر حاکم بنایا ہے وہ احْكُمُ الْحَاكِمِين جل جلالہ سب حاکموں کا حاکم ہے وہ نا انصافی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

آئیے ! اللہ تعالیٰ کے رسول، رسولِ مقبول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عورت کے حقوق کی جو اہمیت بیان فرمائی ہے اُس کے بارے میں چند فرامین مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں:

(1) بھلائی سے پیش آنا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: خبر دار! بیویوں کا تم پر حق ہے کہ اوڑھنے، پہننے اور کھانے پینے کے معاملات میں اُن کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ماجاء في حق المرأة على زوجها، 2/ 387، حدیث: 1166)

(2)اچھے اخلاق والے:نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کامل ایمان والے مومنین وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں بہتر وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لئے اخلاقی طور پر اچھے ہوں۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ماجاء في حق المرأة على زوجها، 2/387، حدیث: 165)

(3)بہتر کون:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے اہل وعیال کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔(ابن ماجه، كتاب النكاح، باب حسن معاشرة النساء، 2/487، حدیث: 1977)

(4) اللہ سے ڈرو: نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:عورتوں (یعنی بیویوں) کے معاملے میں اللہ عزوجل سے ڈرو کہ وہ تمہارے زیر دست ہیں۔(مسند احمد)

فتاوی رضویہ کی جلد 24 میں شوہر پر بیوی کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں تفسیر صراط الجنان میں اُن کا خلاصہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ خرچہ دینا، رہائش مہیا کرنا، اچھے طریقے سے گزارہ کرنا، نیک باتوں، حیاء اور پر دے کی تعلیم دیتے رہنا، ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا، اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگر چہ یہ عورت کا حق نہیں۔(تفسیر صراط الجنان، پ2، البقرة، تحت الآیۃ: 228، 1/348)

پیارے اسلامی بھائیو! یاد رکھئے! بیان کئے گئے شرعی حقوق کے علاوہ میاں بیوی پر ایک دوسرے کے بہت سے اخلاقی حقوق بھی لاگو ہوتے ہیں جن کا خیال نہ رکھنے کی صورت میں اگرچہ شرعی گرفت نہ ہو مگر گھر کا ماحول ضرور ناخوشگوار ہوتا ہے۔ میاں بیوی کو چاہئے کہ ایک دوسرے کی عزت کریں، عزت نفس کا خیال رکھیں خاص طور پر ایک دوسرے کے عزیز و اقارب کے سامنے اپنے رفیق حیات اور اس کے گھر والوں کی عزت کی حفاظت کریں۔ اس معاملے میں کوتاہی کی معمولی سی چنگاری بھی بسا اوقات بہت بڑے الاؤ کا سبب بنتی ہے اس لئے اس میں کو تاہی نہ کریں، اگر کوئی شرعی اور معاشی رُکاوٹ نہ ہو تو ایک دوسرے کی خوشیوں اور خواہشوں کا بھی خیال رکھیں خاص طور پر شوہر کو چاہئے کہ بیوی بچوں پر بلاوجہ تنگی نہ کرے کہ مالِ حلال کما کر بال بچوں پر خرچ کرنا باعث اجر عظیم ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اسلام نے عورت کو چادر اور چار دیواری کے اندر احترام کا خاص مقام عطا کیا ہے اور ہر لحاظ سے اس کے حقوق مقرر کیے ہیں تا کہ اس کی کسی قسم کی حق تلفی نہ ہو۔ عورت چونکہ پیدائشی لحاظ سے صنف نازک ہے اس لئے اس کی دلجوئی، حقوق کی ادائیگی اور عمدہ اخلاق سے پیش آنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا(19)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھے۔(پ4، النسآء: 19 )

اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے کیونکہ میاں بیوی کی خانگی زندگی میں جب دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے رہیں گے تو دونوں کو راحت مسرت اور سکون حاصل ہو گا۔

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(21)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبّت اور رحمت رکھی بےشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے۔(پ21، الروم: 21 )

اللہ پاک کے اس فرمان سے ہمیں یہی بات معلوم ہوئی کہ میاں بیوی آپس میں صلح، امن، دلجوئی، دلی محبت اور یک جہتی کے ساتھ رہیں اور آپس کے تعلقات میں ایک دوسرے کے لیے میانہ رویہ اختیار رکھیں۔

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: (انہیں) بھلائی کے ساتھ روک لو یا نکوئی (اچھے سلوک)کے ساتھ چھوڑ دو اور انہیں ضرر دینے کے لیے روکنا نہ ہو کہ حد سے بڑھو اور جو ایسا کرے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔(پ2، البقرۃ:231)

مردوں کو چاہیے کہ اپنی عورتوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آئیں حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اہل خانہ کے ساتھ ہمیشہ عمدہ سلوک کیا بلکہ آپ کا حسن خلق تو بے مثل ہے اور امت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ عموماً بیوی کی صلاحیت کسی نہ کسی لحاظ سے مرد سے کمزور ہوتی ہے، اس کے باعث بیوی سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مردوں کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں، ان کے حقوق کا خیال رکھیں، ان کی جائز باتوں کو حسب معمول پورا کریں اور ان کے ساتھ پیار محبت سے رہیں۔

اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے، آمین۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ پاک فرماتاہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پرعورتوں کے حقوق پورے کرنا لازم ہے۔(صراط الجنان) چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔(مشکاةالمصابیح)لہٰذا شوہرپربھی عورت کے حقوق ادا کرنا لازم ہے۔

(1)مہر ادا کرنا: مہر عورت کے اولین حقوق میں سے ہے،اللہ پاک کا فرمان ہے، ترجمہ کنز الایمان:اورعورتوں کو ان کے مہر خوش سے دو۔(پ4، النسآء:4) مفتی قاسم عطاری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے فرمایا:مہر کی مستحق عورتیں ہیں،مہر بوجھ سمجھ کر نہیں دینا چاہیے بلکہ عورت کا شرعی حق سمجھ کر اللہ پاک کے حکم پر عمل کرنے کی نیت سے خوشی خوشی دینا چاہیے۔ (صراط الجنان، 2/146)

(2)اچھاکھانااورلباس مہیاکرنا:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حجت الوداع کے موقع پر فرمایا: سنو!تمہارے ذمے عورتوں کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لیے اچھا لباس اور اچھا کھانا مہیا کرو۔(فیضان ریاض الصالحین) مراٰةالمناجیح میں ہے کہ اپنی بیوی کو اپنی حیثیت کے مطابق کھلاؤ پہناؤ ۔ نیزپہناؤں میں لباس جوتا وغیرہ سب داخل ہیں۔(مراٰۃ المناجیح)

(3)برا نہ کہنا: ایک حدیث پاک میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیوی حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ (بیوی کو) برا نہ کہو۔ (مشکاة المصابیح) حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ بیوی کو نہ کوئی عیب والی بات کہو اور نہ ہی گالی دو۔(مرقاۃالمفاتیح،5/2126)

(4)حسن سلوک کرنا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:مسلمان مرد مومنہ عورت کو مبغوض(ناپسند)نہ رکھے،اگر اس کی ایک عادت بری معلوم ہوتی ہے تو دوسری پسند ہوگی۔(مسلم) یعنی تمام عادتیں خراب نہیں ہوں گی جبکہ اچھی بری ہر قسم کی باتیں ہوں گی تو مرد کو یہ نہ چاہیے کہ خراب ہی عادت کو دیکھتا رہے بلکہ بری عادت سے چشم پوشی کرے اور اچھی عادت کی طرف نظر کرے۔(بہار شریعت، 2/103) تاکہ زندگی کا یہ ساتھ قائم رہے اور کسی رنجش و ناگوار چیز کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اللہ پاک شوہر کو بیوی کے اور بیوی کو شوہر کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔